اتوار، 27 مارچ، 2016

مت ‘‘بول کہ لب آزاد ہیں تیرے“!

مت ‘‘بول کہ لب آزاد ہیں تیرے“!
بھارتیہ جنتا پارٹی کے کمزور ترین” مرد آہن“ نے کچھ عرصہ قبل جب یہ کہا تھاکہ ملک میں ایمرجنسی جیسے حالات ہیں تو یہ محض ان کے احساس محرومی کا نتیجہ نہ تھا جو پارٹی میں حاشیہ پر لا دیئے جانے اور وزارت عظمیٰ نہ ملنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے بلکہ در اصل یہ آر ایس ایس کے اس ایجنڈے کا اظہار بھی تھا جس کے نفاذ کا خواب وہ خود برسوں سے دیکھتے آرہے تھے لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور اسے نافذ کرنے کا موقع نریندر مودی کے ہاتھ آگیا۔ 2014 میں مودی کے زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک کے سلسلہ واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بی جے پی کی حکومت کے سلسلے میں پہلے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا وہ صحیح ثابت ہورہے ہیں۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے محض اقتدار پر قبضہ جمانے کے لئے تھے ورنہ اصل مقصد ملک میں ایک خاص قسم کے نظریات کو تھوپنا تھا اور اب ساری توجہ اسی پر مرکوز ہے اور اس کے لئے ہر قسم کا ہتھکنڈہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ’راشٹر واد‘ کی نئی تفہیم وتعبیر پیش کی جارہی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو غدار وطن ثابت کیا جانے لگا ہے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ جو بھی آر ایس ایس کے نظریات سے اتفاق نہیں رکھتا یا اس کی مخالفت کرتا ہے وہ غدار وطن ہے۔ دیش بھکتی کا سارا ٹھیکہ حکومت کے پاس ہے اور وہ اپنی سہولت کے مطابق اس کی تقسیم کررہی ہے۔ گھر واپسی ، لو جہاد اور بیف کے نام پر قتل ہو، ایف ٹی آئی آئی، یونیورسٹی آف حیدر آباد اور جے این یو کا معاملہ ہو یا دریدہ دہن سادھوؤں، سادھویوں اور وزرا وممبران پارلیامنٹ کے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیانات، یہ سب اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور اختلاف ومزاحمت کی ہر راہ کو بند کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔
ایک طرف حکومت یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ملک میں عدم تحمل بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف خود وہ اور اس کے کارندے تحمل ورواداری کی دھجیاں اڑانے میں خوئی دقیقہ فر وگذاشت نہیں کر رہے ہیں۔ ایک طرف بے قصور اور نہتے طلبہ پر ملک سے غداری کا الزام لگاکر ان کی زبان بند کرنے اور اعلی تعلیمی اداروںپر اپنے نظریات تھوپنے کی کو شش ہورہی ہے تو دوسری طرف بر سر عام اشتعال انگیز تقریریں کرنے والے وزرا اور ممبران پارلیامنٹ کی پشت پناہی کی جارہی ہے اور اس طرح یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ حکومت مخالف نظریہ رکھنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ہر وہ زبان بند کردی جائے گی جو حکومت کے خلاف کھلے گی اور ہر اس مہم کو سختی سے کچل دیا جائے گا جو حکومت کی نقلی دیش بھکتی کے خلاف چلائی جائے گی۔ چنانچہ حکومت کے پے در پے اقدامات سے یہ واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ جو اس کے ساتھ نہیں ہے یا اس کے نظریات کی حمایت نہیں کرتا وہ ملک مخالف ہے۔ حکومت اپنے اقدامات سے ان تمام افراد یا گروپوں میں خوف پیدا کر رہی ہے جو حکومت سے الگ اپنا کوئی نظریہ رکھتے ہیں اور اس کے اظہار کی جرأت بھی کرتے ہیں۔ وہ حکومتی مشنری کا استعمال کرکے ان تمام قوتوں کو کچل دینا چاہتی ہے جو اس کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں اردو زبان بھی رکاوٹ معلوم ہورہی ہے ۔ اردو زبان کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ اسے غیر ملکی قرار دینے والے لوگ بھی اپنی تقریروں کو مؤثر بنانے اور اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ وزیر اعظم جب پارلیامنٹ میں ندا فاضلی کے اشعار پڑھتے ہیں تو یہ در اصل اردو زبان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ہزار مخالفتوں کے باوجود آج بھی اگر اردو زندہ ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ اپنے اندر ایسی طاقت رکھتی ہے کہ اس کے دشمن بھی اس میں اپنی تسکین کا سامان پاتے ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب کی آبیاری اور قومی یکجہتی کے فروغ میں اس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ اس کا سیکولر مزاج ہی اس کی توانائی ہے۔ لیکن آج یہی اردو ایک بار پھر حکومت کی زد پر ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل ) وزارت ترقی انسانی وسائل کے تحت ایک باوقار ادارہ ہے جو اردو کے فروغ کے لئے قائم کیا گیا۔ کوئی شک نہیں کہ اس ادارے نے اہم خدما ت انجام دی ہیں۔ لیکن اب حکومت نے زبان بندی کی مہم میں اسے بھی شریک کرلیا ہے۔ قومی کونسل نے کتابوں کی تھوک خریداری کے حوالے سے ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ اب انہیں تصنیفات کو سرکاری امداد ملے گی جو یہ حلف نامہ دیں کہ کتاب میں ملک یا سرکار کے خلاف کوئی مواد نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسی شرط ہے جس کا براہ راست اثر اظہار رائے کی آزادی پر پڑتا ہے اور یہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ زبان وبیان پر پابندی کے مترادف ہے۔ کہہ لیجئے یہی کام انگریزوں نے بھی کیا تھا۔ آزادی کی جنگ میں حکومت کے خلاف لکھنے والوں سے ضمانتیں طلب کر کے پریس اور اخبارات کو بند ہونے پر مجبور کیا تھا۔ جہاں تک ملک مخالف ہونے کا سوال ہے اردو زبان کا یہ مزاج ہی نہیں ہے یہ ملک کو توڑنے والی نہیں جوڑنے والی زبان ہے لیکن کسی زندہ زبان کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ حکومت کے ہر صحیح یا غلط اقدام کی حمایت کرے اور اس کے لکھنے والے، ظلم وجبر اور نا انصافی و حق تلفی کے خلاف نہ لکھیں۔ اس زبان نے ہمیشہ حق وانصاف کی لڑائی لڑی ہے اور اردو تو کیا کسی بھی زبان سے اس کا یہ جوہر نکال دیا جائے تو ڈھانچے کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ دینے والی زبان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ اس میں محض قصیدہ خوانی ہوگی۔ یہ نہ صرف اردو زبان کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش ہے بلکہ اردو ادیبوں اور قلم کاروں کی ہتک عزتی بھی ہے۔ یہ زبان اور اس کے قلم کار دونوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ یہ اردو کے سیکولر کردار پر حملہ ہے۔
قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ،جو اردو کی روٹی کھاکر ہی توانا ہوئے ہیں ، نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قلم کار حکومتی امداد چاہتے ہیں تو یقینی طور پر ان کی تحریر حکومت کے خلاف نہیں ہونی چاہئے۔حالانکہایسے فرمان کی توقع توکسی ڈکٹیٹر شپ میں کی جاسکتی ہے لیکن ایک جمہوری حکومت میں، جہاں صاحبان اقتدار عوام کے صرف نمائندے ہوتے ہیں آقا یا ظل الٰہی نہیں، ناقابل برداشت اور غیر متوقع ہے۔ حکومت اہل قلم کا اس لئے تعاون نہیں کرتی ہے کہ وہ اس کی بہی خواہی کریں بلکہ ملک کی بہی خواہی کریں اور صاحبان اقتدار کو صحیح راستے کی رہنمائی کریں۔ انہیں عوام کے حقوق یاد دلائیں اور حقوق کی پامالی پر ان کا راستہ روکیں۔ ڈائرکٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کونسل ایک حکومتی ادارہ ہے اور وہ حکومت کے ملازم ہیں اس لئے حکومت کے مفاد کا تحفظ ان کی ذمہ داری ہے۔ اب اسے ڈائرکٹر کی سادہ لوحی کہئے یا بے ضمیری کہ انہیں یہ احساس تو رہا کہ وہ حکومت کے نمک خوار ہیں لیکن یہ بھول گئے کہ اسی اردو کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے ہیں جو ان ہی کے ہاتھوں فنا ہورہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی حیثیت حکومت میں اردو کے نمائندے کی ہے اور اگر یہ ہدایت حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ہے تو انہیں حکومت کو اس کے عواقب وانجام سے باخبر کرنا چاہئے تھا۔ افسوس کہ اردو ان کے اندر اتنی غیر ت بھی پیدا نہیں کرسکی کہ اگر وہ اس زبان کا دفاع نہ کرسکے تو کم ازکم استعفیٰ ہی دے دیتے۔ خشونت سنگھ نے کہا تھا کہ اب تک کسی نے قلم کے لئے ”کنڈوم“ ایجاد نہیں کیا ہے۔ اگر ڈائرکٹر اس کی ایجاد کا سہرا اپنے سر نہ لیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
لیکن یہ بات صرف ڈائرکٹر تک ہی محدود نہیں ہے۔ پوری اردو آبادی میں اس فیصلے کے خلاف وہ غم وغصہ نہیں پایا جارہا ہے جس کی توقع تھی۔ مہاراشٹر کےچند ادیبوں، شاعروں اور صحافیوںنے، جن میں ہندی اور مراٹھی ادیب بھی شامل ہیں، وزیر اعظم، وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اور کونسل کے ڈائرکٹر کو خط لکھ کر اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی اردو کے چند ادیبوں نے اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ یہ لوگ لائق مبارکباد ہیں۔ لیکن جس پیمانے پر اس کی مخالفت ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہورہی ہے۔ کسی اردو داں کے معمولی قسم کے عہدے پر بحالی کے موقع پر مبارک سلامت کے ڈونگرے برسانے والے اور اخبارات میں تہنیتی پیغامات کی جھری لگانے والوں کی آوازیں کیوں بند ہیں؟ انہیں غصہ کیوں نہیں آتا ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ حکومتی مراعات ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جن کے قلم میں دھار نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں سے یو ں یہ بھی امید نہیں رکھنی چاہئے کہ ان کے قلم سے حکومت مخالف کوئی تحریر نہیں نکلے گی۔ ایسے لوگ تو قصیدہ خوانی کرکے ہی مراعات حاصل کرتے رہے ہیں۔ ورنہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر حلقے سے اس کے خلاف آواز بلند ہوتی۔ کیا ہمارے ادیبوں، شاعروں اور قلم کاروں میں اتنی جرأت ہے کہ وہ اعلان کردیں کہ انہیں ایسی مراعات نہیں چاہئے جن میں اس قسم کی شرط ہو۔ کیا ہمارے یہ باغیرت قلم کار دوسری زبانوں کے قلم کاروں کی طرح زبان پہ مہر لگانے کی اس رسم کے خلاف ایوارڈ واپسی کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ جب تک یہ غیر جمہوری فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا، کیا ہمارے شعرا ءوادبا کونسل کے پروگراموں کا بائیکاٹ نہیں کرسکتے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس فیصلے کے خلاف Occupy UGC کی طرح Occupy NCPULکی طرح کی تحریک چلائی جاتی اور عدالت میں مقدمہ دائر کیا جاتا۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہمارے ادبا ، شعرا اور قلم کار باستثنائے چند نہ صرف اس فیصلے کے خلا ف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت نہیں پارہے ہیں بلکہ بے غیرتی کے ساتھ مراعات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ کل ہی ایک معروف ادیب نے (اردو میں کوئی معروف سے کم ہوتا ہی نہیں ہے) میری توجہ دلانے کے باوجود ”کیا کیجئے گا‘ مجبوری ہے“ کہہ کر میرے سامنے میں اقرار نامے پر دستخط کیا ہے۔ اگر یہ منافقانہ روش ختم نہیں ہوئی تو اردو کو ختم کرنے کے لئے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یاد رکھئے! اگر اردو مرگئی تو اردو والے بھی زندہ نہیں رہیں گے!!!
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے