پیر، 21 اپریل، 2014

سیکولر امیدواروں کی الجھن میں گرفتارمسلم رائے دہندگان


سیکولر امیدواروں کی الجھن میں گرفتارمسلم رائے دہندگان
یاد رکھئے ! اگر ہم ذات پات ، مسلک، رشتہ داری اور سطحی گروہ بندیوں کو بالائے طاق رکھ کر متحد نہ ہوسکے تو انسانیت کے قاتل کو مسند اقتدار تک پہنچانے کے مجرم بھی ہم ہی ہوں گے۔

                ملک کی سولہویں پارلیمنٹ منتخب کرنے کے لیے انتخابی عمل جاری ہے۵۴۳ نشستوں میں سے ۲۳۲ پر انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ انتخابات میں ہر پارٹی یا اتحاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے حکومت تشکیل کرسکے۔ حالیہ انتخاب ان معنوں میں گذشتہ انتخاب سے مختلف ہے کہ اس میں فرقہ پرست طاقتیں جارحانہ فرقہ پرستی میں یقین رکھنے والے انسانیت کے قاتل نریندر مودی کی قیادت میں دلی کے تخت پر قابض ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو یہ ملک کے حق میں بے حد خطرناک ہوگا۔ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے یہ طاقتیں میڈیا کے دوش پر سوار ہوکر ہر طرح کی جائز وناجائزحرکت کر رہی ہیں اور پوری طرح متحد ہیں جبکہ خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں باہم دست وگریباں ہیں۔ ان حالات میں یہ انتخاب رائے دہندگان کی بصیرت کا امتحان ہے۔ انہیں ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملک سیکولرزم کے اپنے دیرینہ خطوط پر گامزن رہے گا اور آئین وقانون کی حکمرانی برقرار رہے گی یا جارحانہ فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوگا اور سیکولرزم کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا جائے گا۔
                مسلمانوں کی اہمیت کا احساس اور کبھی ہو یا نہ ہو لیکن انتخاب کے وقت ہر پارٹی کی نظر مسلمانوں پر ہوتی ہے۔ بھلے ہی مودی ٹوپی پہننے سے انکار کریں لیکن راج ناتھ سنگھ کو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہے کہ ملک میں تقریبا پونے دو سو نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لئے انہیں اپنے ووٹوں کی قیمت کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن سیاسی جماعتیں اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر مسلمان اپنی اس طاقت کا صحیح ادراک کرلیں تو وہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سیکولرزم اس ملک کی ضرورت ہے اور خوش گوار امر یہ ہے کہ ملک کی اکثریت سیکولرزم میں یقین رکھتی ہے لیکن یہ مسلمانوں کی مجبوری بھی ہے اس لئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری ان پر دوسروں سے زیادہ ہے کیونکہ فرقہ پرستوں کی زد پر وہی رہتے ہیں ۔ کوئی سیاسی پارٹی فتح حاصل کرتی ہے یا شکست سے دو چار ہوتی ہے اس سے دوسروں کو بہت فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے انتخاب کے جو مراحل بچ گئے ہیں ان میں مسلمانوں کو بہت زیادہ سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے ووٹ تقسیم نہ ہونے پائیں۔
                اس قت ہمارے پیش نظر بہار کا انتخابی منظر نامہ ہے۔ بہار میں پارلیمنٹ کی ۴۰ نشستیں ہیں جن میں سے ۱۳ پر انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ جن نشستوں پر انتخاب باقی ہے وہ بے حد اہم ہیں۔ اس لئے کہ ان میں بیشتر حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ سیمانچل ، کوسی ، متھلانچل سمیت ان حلقوںمیں ان کا فیصد ۲۰ سے ۶۹ تک ہے۔ اس کے باوجود گذشتہ انتخاب میں کشن گنج کے علاوہ ساری نشستیں فرقہ پرستوں یا ان کے حامیوں کے قبضہ میں چلی گئیں اور یہ مسلم ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے ہوا۔ اگر مسلمانوں نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوتے بلکہ ایوان میں مسلم نمائندگی میں بھی اضافہ ہوتا جس کی کمی کا رونا ہم روتے رہتے ہیں۔ اگر اس بار مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچالیا تو دونوںباتیں ہوسکتی ہیں۔ مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی نہ تو کوئی لیڈرشپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کو لیڈر تسلیم کرنے کو تیار ہیں ۔ مسلم تنظیموں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود ہی آپس میں متحد نہیں ہیں تو بھلا قوم کو کیسے متحد رکھ سکتی ہیں۔ مسلم تنظیموں اور دانشوروں کی جانب سے جیسی رہنمائی کی توقع تھی وہ نہ ہوسکی سوائے اس مبہم اپیل کے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکیں اور سیکولر امیدواروں کو ووٹ دیں ۔ ساتھ ہی ان کی جانب سے مسلم نمائندگی میں اضافہ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ کاغذی اپیل کی بجائے حلقوں کی سطح پر سیکولر امیدواروں کی نشاندہی کی جاتی۔ جب یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو ووٹ نہ دیا جائے تو یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ کسے ووٹ دیا جائے۔
                تمام مسلم رائے دہندگان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ فرقہ پرست کون ہے۔ اسے پہچاننے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہے۔ ان کی الجھن کا سبب سیکولر امیدوار ہیں۔ ہر پارٹی سیکولر ہونے کی دعویدار ہے اور سب کے امیدوار میدان میں ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ مسلم امیدواروں کا انتخاب کریں یا اس سیکولر امیدوار کا جس کی پوزیشن مضبوط ہو۔ لیکن یہ نصیحت اس لیے ناکافی ہے کہ نہ تو سبھی مسلم امیدوار منتخب ہونے کا حق رکھتے ہیں اور نہ ہی عام آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ کس امیدوار کی پوزیشن مستحکم ہے۔ جہاں مسلمان ۵۲ فیصد سے یا اس سے زیادہ ہیں وہاں وہ جس طرف چلے جائیں اس کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ جہاں تک مسلم نمائندگی میں اضافہ کا سوال ہے میرے خیال میں یہ غیر ضروری اور لا یعنی بات ہے۔ کوئی بھی مسلم امیدوار اپنی پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے اور اسی کا وفادار اپنی قوم کا نہیں۔ اس کے اندر مسلم مسائل پر اپنی پارٹی کے اندر اور باہر کھل کر اظہار خیال کرنے کی جرأت نہیں ہوتی، ہم نے دیکھا ہے کہ بے قصور مسلم نوجوان دہشت گردی کے نام پر اندھا دھند گرفتار ہوتے رہے اور ان کے لبوں میں جنبش نہیں ہوئی۔ کسی نے لب کشائی کی بھی تو یہ کہنے کے لیے کہ انڈین مجاہدین گجرات فساد کا رد عمل ہے یا بابری مسجد کے بعد دہشت گردی پیدا ہوئی۔ گویا یہ اپنے قوم کے نو نہالوں کو تحفظ کیا فراہم کرتے ان کے گناہگار ہونے کی تصدیق کردی۔ ویسے استثنائی صورت ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام سیکولر جماعتیں مسلم آبادی والے حلقوں سے مسلمانوں کو ہی کھڑا کردیتی ہیں اور اور گویا اس طرح خود ہی فرقہ پرستوں کے لیے بازی مارنے کی راہ آسان بنادیتی ہیں۔ اگر مسلم امیدوار واقعی مخلص ہوتے تو آپس میں نہ ٹکراتے۔ لیکن سیاست کے تو کھیل ہی نرالے ہوتے ہیں اور کسی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دے۔ اختر الایمان نے ضرور ایک راہ دکھائی ہے جس کا مثبت اثر کش گنج کے انتخاب پر ہوگا لیکن بہر حال سیاست کی اخلاقیات ان کے اس اقدام کو درست نہیں قرار دیتی ہے۔ کیا ہمیں شاہنواز حسین اور محبوب علی قیصر کو بھی مسلمان ہونے کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہیے ۔ حالانکہ ان کا تعلق فرقہ پرست بی جے پی یا اس کی حلیف جماعت سے ہے۔ یوں بھی اب مسلمان اتنے بے شرم ہوچکے ہیں کہ انہیں بی جے پی میں شامل ہونے میں بھی عار محسوس نہیں ہوتی۔ صابر علی تو خیر سے نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے لیکن ایم جے اکبر ، جمشید اشرف اور اخلاق احمد کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ ایسے میں تو ہمیں رام بلاسوں سے شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہمیں موجودہ وقت میں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں مسلم ممبران کی بھیڑ اکٹھا کرنی ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا امیدوار مرکز میں فرقہ پرستوں کو روکنے میں معاون ہوسکتا ہے۔
                ریاست میں بی جے پی- ایل جے پی-راشٹریہ لوک سمتا پارٹی ، راجد -کانگریس اور جنتا دل یو اور سی پی آئی کا اتحاد ہے۔ چونکہ ایل جے پی کا اتحاد بی جے پی کے ساتھ ہے اس لیے اس کے امیدوار کو ووٹ دینا بی جے پی کو ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ کانگریس کی بنیاد بھلے ہی سیکولرزم پر ہو لیکن اس کے اقتدار میں مسلمانوں کو چین کے دن کم ہی نصیب ہوئے ہیں تاہم اگر بی جے پی اور کانگریس میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا مجبوری ہو تو Lesser Evil کے طور پر کانگریس ہی اس کی حقدار ہوگی۔ فرقہ پرستوں سے لوہا لینے میں لالو پرساد کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بوجوہ وہ فرقہ پرستوں کی حمایت کبھی نہیں کرسکتے۔ جنتادل متحدہ سترہ سالوں تک بی جے پی کی حلیف رہی ہے اور بظاہر مودی کے وزیر اعظم کے امیدوار بنائے جانے پر یہ اتحاد ختم ہوا ہے ۔ گویا اگر بی جے پی نریندر مودی سے دستبردار ہوجائے گی تو جدیو کے لیے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ حالیہ منظر نامہ یہ ہے کہ جد یو کا مقابلہ بی جے پی اور راشٹریہ جنتادل دونون سے ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا پہلا دشمن راجد ہے۔ مسلم آبادی والے حلقوں میں اس نے راشٹریہ جنتا دل کے مقابلہ میں جو امیدوار دیئے ہیں اس کا مقصد جیتنا نہیں بلکہ راشٹریہ جنتادل کے امیدواروں کو ہرانا ہے۔ اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں آپس میں ٹکرائیں اور دونوں ہی شکست سے دوچار ہوجائیں ۔ اگر یہ مقصد نہ ہوتا تو بیگو سرائے سے جد یو اور مدھوبنی سے سی پی آئی کا امیدوار ہوتا۔کیونکہ بیگو سرائے جد یو کی جیتی ہوئی نشست ہے جس سے مناظر حسین منتخب ہوئے تھے جبکہ مدھوبنی میں جدیو نے پچھلی بارامیدوار نہیں دیا تھا۔ یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے جسے مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے ۔ مسلم لیڈروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بآسانی سیاسی پارٹیوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ان سطور کے راقم کو کم از کم مدھوبنی سے جد یو کے امیدوار پر اس لیے افسوس ہے کہ وہ مسلم مسائل پر کھل کر بولتے تھے اور مسلمانوں کی حق تلفی کے لیے ریاست کے وزیر اعلی کو پانی پی پی کر کوستے تھے لیکن بالآخر خو د انہیں کا شکار ہوگئے اور اب حالت یہ ہے کہ جن خرابیوں کے واسطہ سے وزیر اعلی کو کوستے تھے پارٹی سے ٹکٹ ملتے ہی وہ ساری خرابیاں وزیر اعلی کی خوبیوں میں بدل گئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب مرکز میں کسی ایک پارٹی کے اقتدار کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔ انتخاب کے بعدجو بڑا محاذ ہوگا اسی کی حکومت ہوگی۔ علاقائی پارٹیاں اس میں اہم کردار ادا کریں گی۔ سیاست میں مستقل دوستی یا دشمنی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر کانگریس کی قیادت والے اتحاد کو حمایت دینے کا سوال پیدا ہوا تو جد یو اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ایسانہیں کرسکے گا کیونکہ کانگریس کے ساتھ راشٹریہ جنتا دل ہوگا۔ لیکن اگر بی جے پی والے محاذ کو حکومت سازی کے لیے حمایت دینے کی ضرورت پڑتی ہے تو نریندر مودی اور دیگر متازعہ ایشوز کے چھوڑنے کی شرط پر جد یو کے لیے اس کی حمایت میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی بھلے ہی اس کا اعتراف نہ کرے لیکن وہ یہ سمجھ چکی ہے کہ اس کے لیے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانا آسان نہیں ہے اور راج ناتھ سنگھ کا مسلم پریم اسی کا اشاریہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اس امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جو مرکز میں فرقہ پرستوں کو روکنے میں موثر کردار ادا کرسکے۔
                مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کا یک سبب ذات ، برادری اور مسلکی تقسیم بھی ہے۔ پھر یہ کہ مقامی سطح کی سیاست کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے۔ ایک ہی بستی میں ایک محلہ کے لوگ کسی امیدوار کی حمایت کرتے ہیں تو دوسرے محلہ والے محض اس لیے اس کی مخالفت کریں گے کہ ان کا مخالف گروہ اس کا حامی ہے۔ پارلیمانی انتخاب میں بھی ان کی ذہنیت پنچایتی انتخاب سے بلند نہیں ہوپاتی جو بد قسمتی کی بات ہے ۔ اس لیے ہر طرح کے آپسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ملک وقوم کے مفاد میں ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشکل گھڑی میں زندہ قومیں متحد ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ مشکل گھڑی ہے جو ہم سے اتحاد کی متقاضی ہے۔ اگر ہمیں اپنی سیاسی بے وزنی ختم کرنی ہے تو اس کے لیے اتحاد شرط اولین ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا صد فی صد ووٹ استعمال
ہو۔ عام طو پر مسلم خواتین حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرتی ہیں یہ رویہ درست نہیں ہے۔ جہاں بندوں کو تولنے کی بجائے گننے کا دستور ہو وہاں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یاد رکھئے کہ اگر ہم ذات پات ، مسلک، رشتہ داری اور سطحی گروہ بندیوں کو بالائے طاق رکھ کر متحد نہ ہوسکے تو انسانیت کے قاتل کو مسند اقتدار تک پہنچانے کے مجرم بھی ہم ہی ہوں گے اور اس دن ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم ہوگا۔

جمعرات، 17 اپریل، 2014

پارلیمانی انتخاب کے بہار پر دور رس اثرات ونتائج

پارلیمانی انتخاب کے بہار پر دور رس اثرات ونتائج

            جمہوریت میں انتخاب ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے عوام اپنی پسند وناپسند کا اظہار کر کے حکومت کی تشکیل کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے نظام جمہوریت میں معاملہ کا انحصار تعداد پر ہوتا ہے۔ لیکن پارٹیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوجاتے ہیں اور بیشتر ایسے امیدوار میدان مار لیتے ہیں اکثریت کی رائے جن کے خلاف ہوتی ہے۔اس لیے ہماری حکومت میں ایسے لوگوں کی قابل لحاظ تعداد ہوتی ہے جو سماجی اور قانونی حیثیت سے غیر مقبول ہیں۔ پھر ایسے افراد کی قیادت بدعنوانی پر منتج ہوتی ہے اور عوام کو ان کا حق نہیں مل پاتا جس کی ایک جمہوری ملک میں توقع کی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو روکنے کے لیے لازمی ہے کہ رائے کو انتشار سے روکا جائے اور جب عوام کی رائے متحد ہوگی تو ایسے افراد کو رد کیا جاسکے گا جو سماجی اور قانونی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اسی طرح جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کا ایک ایک فرد جو حق رائے دہی رکھتا ہے اپنے اس حق کے استعمال کے لیے آمادہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا شعور اتنا بالیدہ ہو کہ اس کا نمائندہ کس حد تک ملک ، قوم اور جمہوریت کے لیے مناسب ہے اور پھر اس لحاظ سے ہر رائے دہندہ اپنی رائے بدلنے اور ملکی مفاد کے پیش نظر رائے کے استعمال کرنے کی جرأت رکھتا ہو۔ آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں حق رائے ہی کے استعمال کا لوگوں میںجذبہ بڑھتا گیا ہے اور لوگ اپنی پسند وناپسند کے مطابق رفتہ رفتہ رائے دہی کرنے کی جرأت بھی کر پارہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہندوستانی جمہوریت کا المیہ ہے کہ ہمارا رائے دہندہ آج بھی ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور مختلف طرح کی وقتی ترجیحات سے متاثر ہوجاتا ہے۔
             عام انتخاب ۴۱۰۲ دیگر انتخابات سے اس طرح مختلف ہے کہ پہلی مرتبہ اس انتخاب میں پارٹیاں عوام کے مسائل کی بجائے صرف اور صرف سیکولرزم اور فرقہ پرستی کو پورے انتخابی تشہیر کی بنیاد بنا رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہی ہے کہ بی جے پی نے اس انتخاب کے ذریعہ بڑی حد تک ملک کے سیکولر کردار کو ہی چیلنج کردیا ہے نتیجتاً دیگر پارٹیوں کو اس کے رد عمل کے طور پر سیکولرزم کا علم بلند کر نا پڑ رہا ہے۔ ان کی علم برداری کس حد تک خلوص پر مبنی ہے اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے تاہم بی جے پی کا جو ایجنڈا ہے اگر وہ ملک میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ملک کے مفاد کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹیاں ہی نہیں ہر عقل مند آدمی اس بار کے الیکشن میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے اور ووٹنگ کرنے اور کرانے کے لیے بہت پر عزم دکھائی دیتا ہے تاکہ ایسی فرقہ پرست جماعت کو حاشیہ پر ہی رکھا جائے ۔ دوسری جانب فرقہ پرستوں کے لیے بھی یہ آر پار کی لڑائی ہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ گذشتہ دو مدتوں میں بی جے پی کا اقتدار سے بے دخل رہ جانا ہے ۔ اس لیے بی جے پی حامیوں میں بھی ایک ایک ووٹ کاسٹ کرنے کا حوصلہ نظر آرہا ہے۔ شاید اس کے پیچھے قاتل انسانیت نریندر مودی کو وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھاکر پورے ملک کو گجرات بنانے کا کھیل کھیلے جانے کا خواب بھی پوشیدہ ہے۔ ایسے میں امن پسند عوام کی ذمہ داری بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ وہ ملک میں امن وامان باقی رکھنے کے لیے نہ صرف اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں بلکہ ملک میں سیکولر فرنٹ کو آگے لانے اور فرقہ پرست ذہنیت کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے ووٹنگ کریں۔ کیونکہ اگر بی جے پی موجودہ منشور کے تحت برسر اقتدار آتی ہے تو اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ملک میں سیکولرزم کی بنیاد کمزور ہوگی اور پھر اس کا اثر جمہوری تقاضوں پر بھی پڑے گا۔ ہندوستان میں کثرت میں وحدت کی جو خصوصیت پائی جاتی ہے وہ بھی کمزور پڑجائے گی۔ ملک تقسیم ہو نہ ہولیکن شدید خلفشار کا شکار ضرور ہوگا۔
            ظاہر ہے کہ ملک کا بڑا طبقہ سیکولر ذہن ہے اور امن وامان کا خواہاں ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کثیر پارٹی نظام ہمارے ملک میں ووٹروں کو متحد ہونے سے روکتا ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں عوام کم از کم ۳ یا ۴ خانوں میں بنٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بہار ایسی ریاست ہے جس سے چالیس ممبران منتخب ہوکر پارلیامنٹ پہنچتے ہیں ۔ اگر منتخب نمائندوں کی بڑی تعداد کسی ایک پارٹی یا محاذ کی ہو تو مرکزکی سرکار طے کرنے میں اس کا اہم رول ہوگا۔ لیکن یہ انتخابی نتائی کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ بہار کے منتخب نمائندگان کوئی اہم کردار ادا کرسکیں گے یا نہیں۔ کیونکہ اس انتخاب میں پورے بہار میں سہ رخی مقابلہ ہے ۔ ایک طرف این ڈی اے ہے جس میں بی جے پی ، لوجپا اور راشٹریہ لوک سمتا پارٹی شامل ہیں تو دوسری جانب راجد، کانگریس اور این سی پی کا اتحاد ہے جبکہ جد یو کا اتحاد سی پی آئی سے ہے۔ اس وقت یہاں جد یو کی حکومت ہے جو ۷۱ سالوں تک بی جے پی کی حلیف رہی ہے اور ابھی چند ماہ قبل تک یہاں کی حکومت میں وہ شامل تھی۔ ظاہر ہے کہ گذشتہ انتخاب بھی دونوں پارٹیوں نے مل کر لڑا تھا اور بڑی کامیابی درج کی تھی جبکہ کانگریس ، راجد، لوجپا کو الگ الگ انتخاب لڑنے کی وجہ سے سخت ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔ اس وقت صورتحال مختلف ہے، جد یو تنہا پڑی ہے، جبکہ بی جے پی لوجپا سے اتحاد اور ہر ہر مودی کے سہارے میدان میں ہے۔ نتیش کمار بہار میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں جبکہ راجد، کانگریس فرقہ پرستی کے خاتمہ اور سیکولرزم کے استحکام کا نعرہ دے رہی ہیں۔ مذکورہ تینوں محاذوں میں سے اگر کوئی ایک محاذ بیشتر سیٹیں حاصل کرلیتا ہے تو مرکز میں اس کا دبدبہ رہے گا۔ مرکز میں جو بھی سرکار ہو وہ بہار کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی لیکن اگر تینوں کے درمیان سیٹیں تقسیم ہوگئیں تو یہ میں مرکز میں اہم کردار ادا نہیں کرسکیں گی اور اس کا خمیازہ ریاست کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جد یو اور بی جے پی الائنس ختم ہونے کی وجہ سے دونوں کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے تو دوسری جانب لالو یادو کی سزایابی نے ان کی ذات والوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو ان کے حق میں تقریبا پولرائز کردیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جان بوجھ کر بڑی طاقتوں نے پھنسایا ہے جبکہ فرقہ پرستی کے خلاف ان کے بے لچک رویہ کی وجہ سے مسلمان بھی ایک بار ان کی جانب مائل نظر آرہے ہیں۔ ایسی حالت میں بہار میں اگر راجد کانگریس اتحاد زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو مرکز میں خواہ حکومت کسی کی ہو فرقہ پرستوں کو کھیل کھیلنے کی راہ آسان نہیں ہوگی اور مجموعی طور پر سیاست کے رخ میں تبدیلی آئے گی۔ بہار کی برسر اقتدار جماعت جد یو کی حالت یہ ہے کہ اس کو اپنی ۸ سالہ مدت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے عوام کی کچھ نہ کچھ ہمدردی ضرور حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود دیکھا گیا ہے کہ اسے انتخاب میں اچھے امیدوار بھی نہیں مل سکے ہیں۔بیشتر جگہوں پر جدیو کے امیدوار جیتنے کی بجائے راجد امیدواروں کو شکست دینے کے لیے کھڑے کیے گئے ہیں۔ بہت کم حلقوں میں اس کے امیدوار مضبوط حالت میں دکھائی دیتے ہیں اور اگر کہیں ایسا ہے تو یہ امیدوار کی اپنی شخصیت کی وجہ سے ہے۔ عام طور پر جد یو کو جہاں کہیں حمایت حاصل ہورہی ہے اس میں مسلم ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہندو بڑی ذاتوں کی حمایت بی جے پی کو زیادہ حاصل ہے تو چھوٹی ذاتوں میں زبردست انتشار ہے۔ کچھ جد یو کے ساتھ ہیں تو کچھ یوپی اے اتحاد اور کچھ بی جے پی کے کھاتہ میں بھی ہیں۔ الغرض زیادہ تر پارلیمانی حلقوںمیں سیکولر امیدوار کو کسی نہ کسی سیکولر امیدوار کی وجہ سے ہی شکست کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہو اتو بی جے پی کو اس کا فائدہ حاصل ہوگا ۔ حالانکہ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ریاست میں یوپی اے اتحاد ہی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی جبکہ بی جے پی دوسرے نمبر پر اور جد یو تیسرے نمبر پر ہوگی۔
            اگر بہار میں یوپی اے اتحا دکامیاب ہوتا ہے اور مرکز میں یوپی اتحاد کی حکومت بنتی ہے تو ایسی صورت میں موجودہ ریاستی سرکار کے لیے مشکلیں کھڑی ہوجائیں گی۔ کیونکہ بی جے پی سے اتحاد ٹوٹنے کے بعد موجودہ ریاستی سرکار بیساکھی کے سہارے چل رہی ہے اور انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ کہاجارہا ہے کہ موجودہ ریاستی سرکار کی ترقی میں خود یوپی اے دوم کا تعاون رہا ہے اور باوجودیکہ مرکز نے بہار کوخصوصی ریاست کا درجہ دینے کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا لیکن بہار کی ترقی کے لیے اپنی مالیات کا منہ کھولے رکھا ۔اگر مرکز میں یو پی اے بر سر اقتدار آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ سلوک برقرار نہ رہے۔ پھر اس کا اثر آئندہ ریاستی انتخاب پر بھی ہوگا ۔لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر آئندہ انتخاب میںبہارمیں جد یو کی حکومت نہیں بنتی ہے تو یہ شاید بہار کی بدقسمتی ہوگی۔ کیونکہ جد یو نے ۸ سالوں میں بہار میں ترقی کے راستے ہموار کئے ہیں ۔ حالانکہ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دوران اگر جدیو کے علاوہ بھی کوئی دوسری حکومت ہوتی تو بھی بہار میں ترقیاتی کام ضرور دیکھے جاتے ۔
            دوسری جانب اگر جد یو ریاست میں بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے اور اگر یوپی اے کی حکومت بنتی ہے تو جد یو شایدخصوصی ریاست کے درجہ کی شرط پر کانگریس کو حمایت پیش کرسکتی ہے۔ لیکن اس کا امکان راجد کے رہتے ہوئے ناممکن ہے۔ پھر یہ کہ ریاست میں اس وقت جو سیاسی فضاہے اس سے یہ نہیں لگتا کہ اس مرتبہ راجد کانگریس کی حالت وہ رہے گی جو گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں اس کی رہی ہے۔دوسری جانب لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ اگر مرکز میںاین ڈی اے یا یو پی اے میں سے کسی ایک کو حمایت دینے کی ضرورت ہوگی تو جد یو کی ترجیح این ڈی اے ہوگا اور وہ مودی کو ہٹاکر اور این ڈی اے کے متنازعہ شقوں سے اختلاف کر کے خصوصی ریاست کے درجہ کی شرط پر این ڈی اے کی ہی حمایت کرے گی۔ اگر ان شرطوں کو مان کر باہر سے بھی اس کی حمایت کے لیے جد یو تیار ہوتی تب بھی اسے ریاست میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ریاست میں بی جے پی کی ناز برداری اس کی بڑی مجبوری رہے گی۔ ایسی حالت میں اس کے لیے بی جے پی کی شاطرانہ چالوں کا جواب دینا مشکل ہوگا۔ قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ جد یو نے این ڈی اے اتحاد کے ساتھ حکومت بنانے کے باوجود ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی تھی لیکن بی جے پی سے الگ ہوکر اسے اس معاملہ میں بھی سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور شایداس میں وہ ناکام بھی ہوجائے۔
            بہار میں ۹۔۸ سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن سمجھے جاتے ہیں وہیں مجموعی طور پر جو حالات ہیں اس میں بیشتر سیٹوں پر مسلمان متحد ہوکر جس کے حق میں ووٹنگ کریں گے اس کا پلڑا بھاری ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا کوئی واضح رخ نہیں بن پایا ۔جن حلقوںمیں انتخاب ہوئے ہیں وہاں بھی ان کا ووٹ بری طرح منتشر رہا ہے اور آئندہ انتخاب میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اس بار بھی ہمیشہ کی طرح مسلم تنظیموں اور دانشوروں کا انہیں یہ مشورہ رہا ہے کہ فرقہ پرستوں سے بچتے ہوئے جماعتی سیاست سے اوپر اٹھ وہ اپنے حلقہ کے مضبوط امیدوار کی حمایت میں آگے آئیں جو صدا بہ صحرا ہوتا ہوا دکھائی دیا۔