بدھ، 27 نومبر، 2013

اسلام میں پسماندہ اور محروم طبقات کے حقوق


اسلام میں پسماندہ اور محروم طبقات کے حقوق

                اس سے قبل کہ پسماندہ اور محروموں کے حقوق کی بات کی جائے یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام میں پسماندگی اور محرومی کا تصور کیا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں نوع کے اعتبارسے تمام انسان یکساں ہیں۔ نسل یا ذات پات کی بنیاد پر یہاں کسی امتیاز کی نہ صرف گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام اس قسم کے سارے امتیازات کا انکار کرتا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم  ﷺ نے اپنی زندگی کے سب بڑے اجتماع یعنی حجۃ الوداع کے موقع پر یہ اعلان کیا کہ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقوی (نہ کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر فوقیت اور برتری ہے سوائے تقوی کے) اس وقت امتیاز کے یہی پیمانے تھے۔ عرب اپنے مقابلے میں عجم کو ہیچ اور ناقص سمجھتے تھے آزاد شخص غلاموں کو کمتر اور گھٹیا سمجھتا تھا، گورے اپنی خوبصورتی پر ناز کرتے اور کالوں کو جیسے دوسرے درجے کاانسان سمجھتے تھے۔ لیکن جب اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا نبی  ﷺ نے بڑے اجتماع کے اندر اس کا انکار کرتے ہوئے تمام انسانوں کو بلا امتیاز مساوی قرار دیاتب اس کی نظرمیں نہ کوئی اعلی رہا نہ ادنی خواہ وہ جس قبیلے اور جس نسل سے تعلق رکھے اور جو پیشہ اختیار کرے نوعی اعتبار سے یکساں عزت وتوقیر کا حامل ہے اور ہر حال میں اس کا احترام آدمیت بہرطور برقرارہے ۔قرآن نے برتری وکم تری کی اس تفریق وامتیازکو سختی سے روکتے ہوئے یہ حکم دیا :یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَ لَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ  بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورہ حجرات ۸) (مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں )تمام منافع جو انسان کی زیست کی بقا اور فطری ارتقا کے لیے لازمی ہیں اسلام کی رو سے وہ ہر انسان کے لیے عام ہیں۔منافع خواہ قدرتی ہوں یا اکتسابی ان کے حصول کے لیے اسلام ہر شخص کو یکساں شروط وتحدیدات کے ساتھ اور اپنی اپنی ذاتی صلاحیت اور محنت کے مطابق مواقع فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے :  لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (سورہ نجم۳۹) یعنی بلاامتیاز ہر انسان کو وہی حاصل ہوگا جس کے حصول کی اس نے کوشش کی۔ مزید اس نے صنفی امتیاز کوبھی مٹاتے ہوئے کہا:لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَ سْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہ۔ (سورہ نساء ۳۲) (مردوں کو ان کے کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کے کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور خدا سے اس کا فضل (وکرم) مانگتے رہو۔ )
                تاہم اسلام معاشرتی زندگی میں انسانوں کی معاشی شکست وریخت اور اقتصادی مد وجزر کے فطری عمل سے انکار نہیں کرتا ہے۔چنانچہ ایسے مواقع یاحالات کو وہ تسلیم کرتا ہے جن میں بعض انسان یا انسانوں کی کوئی جماعت‘گروہ اورقبیلہ منافع کے حصول سے محروم رہ جائے اور اس باعث وہ زندگی کی دوڑ میں دیگر یا عام جماعتوں‘گروہوںاورقبیلوں سے پیچھے رہ جائے اور سماج میں اس کا رتبہ‘حالت اور معاشی وسماجی صورت حال عام لوگوں کے برابر نہ رہ پائے ۔ چونکہ سماج میں عزت ووقار کا انحصار تاریخ کے ہر دور میں معاشی استحکام پر کسی قدر ضرور رہا ہے اس لیے وہ عزت ومرتبہ جو عام آدمیوں کو حاصل ہے ، پچھڑی ہوئی جماعت کو حاصل نہ ہوپائے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کی نظر میں پسماندہ ، کمزور اور مظلوم اشخاص کے حالات واضح ہیں۔چنانچہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ان کی محفوظ جگہوں کا اعلان وضاحت کے ساتھ کیا گیاہے اور ان کا معلوم حق متعین کیا ہے۔  وَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ (سورہ ذاریات ۱۹) (اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا )اسی طرح ایک جگہ فرمایا گیا ہے : وَ الَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ(سورہ معارج ۲۴، ۲۵) ( اور ان کے مال میں حصہ مقرر ہے مانگنے والے کا اور نہ مانگنے والے کا۔ یہ معلوم حق کس سے لیا جائے اور کس کو دیا جائے گا اس کی وضاحت خود نبی کریم ﷺ نے کی۔ جب آپ اپنے ایک عامل کو زکوۃ کی وصولی کے لیے بھیج رہے تھے تو آپ ؐنے فرمایا :  تؤخذ من أغنیاء ھم وترد علی فقراء ھم  (اس شہر کے امیروں سے لئے جائیں اور اس شہر کے غریبوں میں تقسیم کئے جائیں۔)
                علماء ومفسرین قرآن نے سائل اور محروم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سائل عربی زبان میں مانگنے والے کو کہتے ہیں۔ لیکن اس میں وہ تمام اشخاص شامل ہیں جو تنگدست ، مفلوک الحال اور دوسرے کی امداد کے محتاج ہیںاور محروم سے ایسے لوگ مراد ہیں جو ضروریات زندگی کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اور جن کی بنیادی ضرورتیں ان کی محنت اور کمائی سے پوری نہیں ہوپاتی ہیں۔ اس کے باوجود ایسے لوگ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ قرآن نے بھی اس کی تشریح اس طرح کی ہے۔ لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ  یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ  تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمٰھُمْ  لَا یَسْـَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (سورہ  بقرہ ۲۷۲) (تو ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے (اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں) یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو (کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب) لوگوں سے (منہ پھوڑ کر اور) لپٹ کر نہیں مانگ سکتے)
                 اس حق معلوم کا بھی ایک پورا نظام موجود ہے جسے زکوۃ وصدقات کا نظام کہا جاتا ہے۔ پھر اس نظام کی پوری تفصیل اور اس کے مصارف کو بھی واضح کردیا گیاہے۔  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُھُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ  فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰہِ  وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (سورہ توبہ ۵۹) (صدقات (یعنی زکوۃ وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکُنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے )
                اس آیت کریم میں کل آٹھ مصارف گنائے گئے ہیں۔ یہ بنیادی مصارف ہیں ۔ان حالات کے علاوہ بھی کئی اسباب ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے انسان عام لوگوں کی طرح زندگی گزار نہ سکے۔ ایسی صورت میں اسلا م انہیں ایسے مواقع فراہم کرتا ہے جن میں ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ خوش حال اور صحت مند زندگی گزارسکیں۔ قرآن واحادیث میں ایسے کئی زمرے بتائے گئے ہیں جو انسانی ہمدردی اور امداد کے محتاج ہیں۔ اس طرح کی پسماندگی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔
                 اسلام ذات پات کے نظام کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور نہ ذات پات کی بنیاد پر کسی محفوظ جگہ کا تعین کرتا ہے اور نہ اس کی بنیاد پر کسی برتری وکم تری کی تمیز کی اجازت دیتا ہے۔ یہ خالص ہندوانہ نظام ہے جو ذات کی بنیاد پر پیشوں کا پیدائشی اختیار لازم کرکے بندوں کو بندوں کا غلام بناکر معاشی استحصال اور سماجی برتری وکم تری کی گنجائش نکالتا ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ قران مجید میں مختلف مقامات پر اس کا انکار موجود ہے۔ مثلا اللہ تعالی نے فرمایا: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ  اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے )اور نہ ہی اسلام میں پیشہ کی بنیاد پر کسی کو حقیر سمجھا گیاہے۔ بلکہ اس نے ’’انسان کی قدردانی ، اکرام وتوقیر نیکی اور تقوی کی بنیاد پر قائم کی ‘‘ اور ’’انسانوں کو دوسرے نظاموں اور نظریہ کی طرح چھوٹے بڑے، ادنی اعلی، ذات، وطنی ، غیر وطنی، لسانی غیر لسانی، امیر وغریب، عورت ومرد، رنگ ونسل اور خاندانی طبقوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ انسانوں کی تقسیم ایمان اور کفر ، حق وباطل، خیر وشر کی بنیاد پر کی۔ ‘‘(اسلام میں غربت اور اس کا علاج ص۳۹)
                عہد اسلام سے قبل غریبی کی انتہائی خراب شکل غلامی تھی۔ اسلام نے غلاموں کوبھی عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کی آزادی کے راستے ہموار کئے۔زکوۃ کے آٹھ مصارف میں ایک مد غلاموں کی آزادی کو بھی رکھا، ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا کہ اگر کوئی غلام مکاتبت کے ذریعہ غلامی سے رہائی چاہے تو اس سے انکار نہ کیا جائے۔ انہیں اپنے آقا کا عبد کہنے کے بجائے مولی کہنے کا حکم دیا۔ ان کو عام رعایا کی حیثیت دی گئی ۔ ان میں بعض کو سید تک کا خطاب عطا کیا گیا۔ بعض اسلامی جنگوں میں سپہ سالار بنائے جبکہ اسی جنگ میں دوسرے آزاد لوگوں کی حیثیت عام فوجی کی تھی باجودیکہ بعض لوگ اسلام اورتقوی وپرہیزگاری کے اعتبار سے بھی جلیل القدر تھے۔ عہد عمر ؓ میں’’ ایک عام اصول بنادیا گیا کہ عرب غلام نہیں بنائے جاسکتے جو پہلے سے غلام چلے آتے تھے ان سب کی رہائی کا حکم دے دیا۔ جہاں حالات کی مجبوری سے غلامی کا رواج باقی رہا وہاں بھی غلاموں کے حقوق کی نگہداشت اور حسن سلوک کا ایسا انتظام کیا کہ غلام اور آزاد میں برائے نام فرق رہ گیا۔ ‘‘ (عشرہ مبشرہ: حضرت عمر فاروقؓ؍ بشیر ساجد)             
                حضرت عمر فاروق ؓ اپنے عہد خلافت میں جب کسی مرفہ الحال شخص کو دیکھتے تو دریافت کرتے کیا یہ شخص کسی پیشہ وابستہ ہے۔ اگر جواب نفی میں ملتا تو فرماتے کہ یہ شخص میری نظروں سے گرگیا اور پھر فرماتے کہ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بہتر ہے کہ ذلیل پیشہ ہی اختیار کیاجائے۔ (عشرہ مبشرہ : حضرت عمر فاروقؓ؍ بشیر ساجد)
                اس معروضہ کے بعد کسی حد تک اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے اسلام میں طبقہ کا تصور صورت حال کی نوعیت پر ہے۔ ایک نوع کے تمام افراد کو ایک طبقہ کہا جاسکتا ہے ۔اب خواہ اس نوعیت کے افراد ملک کے جس خطہ سے تعلق رکھتے ہوں ، جس شعبہ اور قبیلہ سے ان کا تعلق ہو اور جو پیشہ اختیار کئے ہوئے ہوں، تمام اسی طبقہ کے شمار کئے جائیں گے۔ مثلا معذوروں کا طبقہ ، غلاموں کا طبقہ ، غریبوں کا طبقہ، تعلیمی پسماندگا ن کا طبقہ وغیرہ۔
                اسلام نے ان طبقات کی بہتری کے لیے قرآن واحادیث میں واضح تعلیمات دی ہیں۔اس کام کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ ہر شخص کو جو معاشی طور پر مستحکم ہو مکلف کیا ہے کہ وہ اپنی دولت سے ایک معلوم حصہ جو نصاب کے مطابق ہو نکال کر ان طبقات کی مدد کرے۔ ’’اسلام نے غریبوں ، مسکینوں ، محتاجوں اور فقراء کی معاشی مشکلات اور تنگدستی ، ان کی گرتی ہوئی معیار زندگی پر خصوصی توجہ دی ہے ۔ انہیں ہر حال میں معاشی طور پر اوسط زندگی گزارنے اور معاشی پریشانیوں کو دور کرتے رہنے کی عظیم ذمہ داری تمام مسلمانان عالم پر عائد کی ہے۔ ‘‘
                ساتھ ہی بعض جرائم کی سزا وکفارہ پسماندہ طبقات کی امداد اور تعاون کو متعین کیا ہے۔ مثلا قسم توڑنے کا کفارہ یہ لازم کیاہے کہ قسم توڑنے والا دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کپڑے پہنائے یا غلام آزا د کرے۔  لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم اور تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام
                اسی طرح اگر کوئی رمضان میں جان بوجھ کر روزہ توڑدے تو اس کے کفارہ کے طور پر ایک چیز ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا نا رکھا گیا۔ یا ایسا شخص جو کسی بیماری یا درازی عمر وغیرہ کی وجہ سے رمضان کا روزہ رکھنے سے عاجز ہے تو ایسی صورت میں ہر روزہ کے بدلہ کسی مسکین کو کھانا کھلانا کفارہ رکھا گیا۔ اگر حج کے درمیان کسی چھوٹے جانور کو مارد یا ہے تو اس کی سزا یہ متعین کی گئی کہ اس جانور کی قیمت کے برابر غلہ خرید کر مسکینوں میں تقسیم کیا جائے۔
                                اسلام نے زکوۃ کا جو نظام پیش کیا ہے اور اس کے جو آٹھ مصارف گنائے ہیں آپ غور کریں تو ان میں والمولفۃ قلوبھم کے علاوہ جتنے مصارف ہیں وہ سارے غربت سے متعلق ہیں۔ ان مصارف کے علاوہ جو غربت کے جو اسباب ہوسکتے ہیںوہ بھی کسی نہ کسی طور پر معاشی پسماندگی کے سبب ہی پیدا ہوتے ہیں۔
                                چونکہ اسلام کی نظر میں پسماندگی کا تصور ذات پات کی بنیاد پر نہیں بلکہ افراد کے حالات پر ہے۔ اس لیے اس نے اس کے انسداد کے لیے زکوۃ کو اسلام کی دوسری بنیادشمار کرتے ہوئے غربت اور پسماندگی کے سارے راستوں کو بند کیا۔ چنانچہ عبادت کی وہ شکل بھی جسے رہبانیت کہاجاتا ہے جس میں انسان دنیاوی علائق سے بے نیاز ہوکر عبادت میں مصروف ہوتا ہے اسلام میں ممنوع ہے۔کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے وارثین میں سے کسی کو اپنی وراثت سے عاق کردے حتی کہ اپنے وارثین کے حق میں وصیت کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ اپنی دولت یا جائیداد کے ایک تہائی سے زیادہ حصہ کو وقف یا وصیت کرنے کو بھی ممنوع قراردیا ہے۔ ان کی وجہ یہی ہے کہ کوئی شخص اپنے وارث کو مفلس، تنگدست اور محروم نہ چھوڑے۔نیز دست سوال دراز کرنے کی عادت کو بھی ناپسند کیا گیا اور اس پر وعید سنائی گئی ہے۔
                 اسلام نے انسانوں کو یہ تعلیم دی کہ زمین وآسمان اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ انسان کے منافع کے حصول کے لیے رکھے گئے ہیں۔ وسخر لکم مافی السموات ومافی الارض جمیعا منہ چنانچہ اس نے اسباب غربت کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے انسداد کا راستہ واضح طورپر بتادیا ہے اور ہر شخص کو ان وسائل کے اختیار کی تعلیم دی ہے جن کے ذریعہ معاشی استحکام حاصل ہو۔ ہر شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دولت اور جائیداد جمع کرے۔ تجارت اور ملازمت کے لیے اس کے سامنے سارے جائز اور حلال راستے کھلے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اپنی پسند اور صلاحیت کے مطابق پیشہ اختیا رکرسکتا ہے۔ پھر دولت کی ایک مقدار متعین کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس مقدار کو پہنچ جائے تو ایک ضابطہ کے مطابق پسماندہ اور محروم طبقات کے لیے اپنی دولت سے کم از کم معلوم حصہ نکال دے۔ اس کے علاوہ صدقات کی ترغیب اور اہمیت پر بارہا روشنی ڈالی گئی ہے اور زکوۃ وصدقات کا حصول مالداروں کے لیے ناجائز قرار دیا ہے تاکہ محروم اور پسماندہ طبقات کے حقوق میں دراندازی نہ ہوسکے۔
                اب اگر کوئی شخص غریب ہے ۔ اس کے لیے معاش کے مواقع کی کمی ہے اور اس کی بنیادی ضرورتیں اپنے ہاتھوں کی کمائی سے پوری نہیں ہورہی ہیں تو اس مخصوص حصہ سے اس کی ادائیگی کی جائے گی۔ یہ اس کا حق ہوگا ۔ اس کے لینے پر دینے والے کو کسی قسم کی برتری یا اظہار احسان کا حق بھی اسلام نے نہیں دیا ہے۔
                جب اسلام آیا تو اس نے ابتدا ہی سے ایمان کے ساتھ تعلیم اور معاشی اعتدال کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ اس کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم دینے کو جنگی قیدیوں کا معاوضہ قرار دیا گیا اور ابتدائے اسلام سے ہی غریب پروری کی تعلیم دی گئی۔ پھر اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آگیا اور حکومت کے خزانے میں دولت آنے لگی تو اسلام کے بتائے ہوئے طریقے پر تمام پسماندہ طبقات کی بلا امتیاز مدد کی گئی۔ پسماندہ اور محروم اشخاص میں کوئی ایسا نہیں رہا جو محض غربت کی وجہ زندگی سے محروم ہوجائے۔
                ‘‘چنانچہ آپ ﷺ نے ہزاروں ایکڑ افتادہ زمینوں کی آبادی پر خاص توجہ دی اور ان قبائل کو جو بالکل ہی خانہ بدوش تھے، یہ افتادہ زمینیں جاگیر کے طور پر عطا کرکے ان میں انہیں آباد کیا۔ اس طرح مدینہ کے اطراف میں بھی بہت سے قبائل جو مارے مارے پھرتے تھے ، اپنی اپنی جگہ آباد ہوکر کھیتی باڑی اور باغبانی میں لگ گئے۔ آپ نے افتادہ زمینوں کے متعلق قانون نافذ فرمایا کہ جو شخص کسی افتادہ زمین کو آباد کرے گا وہ اس کی ملک ہوگی‘‘ (عہد رسالت وخلافت راشدہ ص۲۰۹)
                اسلامی حکومت کے ابتدا ئی دوادوار میں خارجی حملوں اور پڑوسی ممالک کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پریشان رہی ۔ مگر جب تیسرا دورآیا یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا ۔ پڑوسی ممالک کی ریشہ دوانیاں کم ہوئیں۔ بہت سے ممالک بھی فتح ہوگئے اور صوبوں کا قیام عمل میںآیا تو معاشی اعتدال کے ضمن بڑا ہی انقلابی قدم اٹھایا گیا۔ ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔مردم شماری کے بعد تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز وظیفے مقرر کئے گئے حتی کہ نومولود بچوں کے لیے بھی وظیفہ مقرر تھا۔ مراتب کا تعین دین ، دینی سرگرمیوں اور ضروریات کی بنیاد پر کیا گیا۔ اس زمانے میں وظیفہ کی مقدار زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار درھم اور کم سے کم سو درہم تک تھی۔ جن لوگوں کا جو وظیفہ تھا وہی ان کے غلاموں کا وظیفہ بھی مقرر کیا گیا۔ لاوارث اور نومولود بچوں کا وظیفہ سو درھم تھاجو بلوغت کے بعد مراتب کے اعتبار سے بڑھ جاتا تھا۔ آپ کا خیال تھا کہ اگر مال کی کثرت ہوئی تو ہر شخص کو چار ہزار درہم وظیفہ دیا جائے گا۔ ایک موقع پر فرمایا ’’خدا کی قسم ! اگر اس کے بعد بھی کچھ بچا تو جبل صنعا (یمن) کا چرواہا اپنے گھر بیٹھے اس مال میں سے اپنا حصہ پائے گا۔ ‘‘ ایک اور موقع پر فرمایا: ’’خدا کی قسم ! اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو عراق کی بیواؤں کو اس حالت میں چھوڑ جاؤں گا کہ میرے بعد ہر گز کسی کی دست نگر نہ ہوں‘‘  (عشرہ مبشرہ : حضرت عمر فاروق )
                عہد عمر ؓ میں پسماندطبقوں کی معاشی برتری کے لئے جو اقدام کئے گئے اس کا ایک واقعہ بڑا ہی اہم ہے۔ آپ کی خلافت کے پانچویں برس یعنی ۱۸ھ؁ میں زبردست قحط پڑا۔ عرب بدوی قبائل نے فاقہ کشی سے مجبور ہوکر مدینہ کا رخ کیا۔ ایسے وقت میں خلیفہ وقت حضرت عمر ؓنے خلق خدا کو قحط سے بچانے کے لئے دن رات ایک کردیئے۔ قحط کے دوران زکوۃ کی وصولی موقوف کردی اور چوری کا ارتکاب کرنے والوں کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دینا بھی روک دی تھی ۔ آپ کا استدلال یہ تھا زمانہ قحط میں جو چوری کرے گا وہ بھوکوں مرنے سے بچنے کے لیے کرے گا اور جان بچانے کے لیے تو مردار کھانے کی بھی اجازت ہے۔
                آپ ؓ کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے اور وہاں کی آبادیوں نے اپنے مذہب پر رہ کر اطاعت قبول کرلی تو آپ نے ان کے بنیادی حقوق ، جان ومال ااور عزت آبرو کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی انہیں بھی مملکت اسلامیہ کا باعزت شہری بنادیا۔ آپ نے غیر مسلم رعایا کے بوڑھوں ، کمزوروں ، اپاہجوں اور ناداروں کی بیت المال سے مدد کی۔
                معاشی توازن کے سلسلہ میں آپ کا خیال تھا کہ تمام لوگ یکساں زندگی گزاریں۔ آپ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو آخری آدمی کو پہلے آدمی سے اور سب سے پست آدمی کو سب سے بلند آدمی سے ملا دوں گا۔ ‘‘ لیکن افسوس کہ آپ کی عمر نے وفا نہ کی ۔
                اب اگر آپ آج کی صورت حال پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ غربت کی بنیادی وجہ معاش کے مواقع کی کمی ہے۔ بیشتر لوگ بے روزگاری کے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ اسلام نے بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے محنت اور تجارت کی راہ دکھائی ہے۔ اور یہی وہ تجارت ہے جس کا راستہ دیکھنے کے بعد عرب جیسی قوم نے ترقی کی راہیں طے کیں۔ ہجرت کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین کی انصار سے مواخاۃ کرائی تو مہاجرین نے اپنی دولت کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ اپنے مہاجر بھائی کودینا چاہا ۔ اس وقت بہت سے مہاجر صحابہ کرام نے اپنے اس بھائی کا شکریہ ادا کیا اور ان سے بازار کا راستہ پوچھا اور تجارت کے لیے نکل پڑے۔ پھر انہوں وہ ترقی کی کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کے وارثین نے کلہاڑیوں سے کاٹ کر سونے تقسیم کئے۔ حالاں کہ ان کے وارثین کی تعداد بھی کوئی کم نہ تھی۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک شخص آیا اور دست سوال دراز کیا۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس نے کہا ایک چادر اور ایک پیالہ ۔ آپ نے اس کو منگوایا اور اسے بیچ کر ایک کلہاڑی خریدی اور کہا کہ جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور فروخت کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا کچھ دنوں بعد وہ شخص پھر آیا اب اس کی صورت حال بدلی ہوئی تھی۔
                حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو محنت اور وقت کی قدر وقیمت کی تعلیم دی ہے۔ اس کے باوجود آپ کی قوم بے روزگاری اور غربت کے مسائل سے دوچار ہے تو اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی آرام پسندی اور کاہلی ہے۔ ’’دنیا میں آج جتنے معاشی طور پر ترقی یافتہ اور امریکی ، یوروپی ممالک ہیں وہ چند صدیوں قبل غریب اور غیر ترقی یافتہ تھے ۔ جس قوم نے جب بھی تعلیم کے ساتھ غربت کے خلاف محنت کی وہ معاشی طورپر Economic Power بن کر دنیا پر چھائے رہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس قوم نے بھی جہاں غفلت کی اور سستی کاہلی عیش وآرام میں مبتلا ہوگئی اسی وقت سے ان کی معاشی انحطاط ، سیاسی زوال، عسکری وفوجی قوت کی پسپائی شروع ہوگئی۔ معاشی قوت کی تشکیل اسکا قیام اور اسکی توسیع وحفاظت کیلئے ہمیشہ سیاست دانوں، ماہرین معاشیات کے ساتھ پوری قوم کو بنیاد سے لیکر اعلیٰ سطحوں تک سخت محنت جدوجہد کرتے رہنا پڑتا ہے۔ جس دن اور لمحہ سے جس کسی قوم نے اس کا م کو ثانوی حیثیت دی اسی دن سے اس قوم کا معاشی زوال شروع ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (اسلام میں غربت اور اس کا علاج)
                آج مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ ان کے نوجوان سرکار ی ملازمتوں کے لیے اپنی عمر عزیز کے اکثر اوقات ضائع کردیتے ہیں۔ پھر سرکاری ملازمت کے لیے جس جانفشانی کی ضرورت ہے اس سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ اس طرح جب نامرادیاں ہاتھ آتی ہیں تو قسمت اور حکومت کو کوستے ہیں۔ حالاں کہ اگر وہ اپنی توانائی کو کام میں لا کر اپنی طبیعت کی مناسبت سے کوئی تجارت کرلیتے تو انہیں معاشی استحکام بھی حاصل ہوتا اور بے روزگاری کی لعنت سے بھی بچ جاتے ۔ سرکاری ملازمتیں کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ لیکن آج جب ان کے لیے مسابقتیں بہت بڑھ گئیں ہیں ، ہر شخص اس کا اہل نہیں ہوسکتا ، اس کے لیے معاشی حالت کا بھی اہم رول ہوتا ہے ۔ اس لیے ایسے شخص کو جو سرکاری ملازمتوں کا حصول چاہتا ہے اپنی علمی لیاقت اور گھر کی معاشی صورت کا اندازہ کرکے اس میں قدم رکھنا چاہیے اور پھر اس کے لئے انتھک کوششیں کرنی چاہئیں۔ وگرنہ اپنی عمر عزیز ضائع کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ خود اللہ رب العزت قیامت کے دن پوچھے گا کہ تم نے اپنی عمر عزیز کہاں کھپائی۔
                اس سلسلہ میں باتیں بہت طویل ہوجائیں گی۔ مختصر یہ کہ غربت کے خاتمہ کے لیے آج زکوۃ کے اجتماعی نظام کی اشد ضرورت ہے۔ اور اسلامی عبادات کا نظام اجتماعیت کے بغیر نامکمل ہے۔ اجتماعی نظام کے بعد بے روزگاروں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ انجمن باہمی کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے اور رفتہ رفتہ بے روزگاروں کا انتخاب کرکے انہیں روزگار سے وابستہ کرنے کی صورت پر غور کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان اگر صرف زکوۃ کا اجتماعی نظم قائم کرلیں توپھر کسی سچر کمیٹی کی ذلت آمیز رپورٹ کی اشاعت کی نوبت نہیں آئے گی۔
                مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ پسماند گی کا جو تصور آج پایا جاتا ہے ہے اور اس کے لئے جو معیار متعین کیا گیا ہے اسلام اسے قبول نہیں کرتا ۔ آج ہمارے ملک میں پسماندگی کے تعین کے لئے جو پیمانہ طے کیا گیا ہے اس میں ذات پات کے نظام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسی بنیاد پر مراعات بھی دی جاتی ہیں تاہم معاشی وتعلیمی طورپر ترقی پانے کے باجود مراعات یافتہ طبقات سماجی طور پر عزت وشرف کا وہ مقام حاصل نہیں کرپاتے جو نام نہاد اعلی ذاتوں کی جاگیر سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی نظام میں حالات کے نتیجہ میں اگر کوئی فرد یا طبقہ معاشی یا تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کا شکارہوجائے تو اسلام اسے ترقی کے تمام وسائل مہیا کرتا ہے تاکہ پسماندگی کا عیب اس سے ختم ہوجائے۔ آزادی کے ساتھ ترقی کرنے اور آگے بڑھتے رہنے کے سارے مواقع اسے حاصل ہوجائیں۔ اسے ہر طرح سے اپنی زندگی محفوظ محسوس ہو ۔ وہ بھی عام لوگوں کی طرح خود داری کی زندگی جئے اور حکومت یا دوسری کی ہمدردی کا محتاج اور دست نگر نہ رہے۔اسلام میں پسماندگی ومحرومی اور مفلسی کا زندگی گزارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور اس نے پسماندہ طبقات کو جو حقوق دیئے ہیں گرچہ ان کا حاصل کرنے والا ذلیل نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کے حصول پر انحصار کرنا بھی کوئی محمود عمل نہیں ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ ہر شخص دوسروں کی امداد سے بے نیاز رہے اور مفلسی کا جڑ سے خاتمہ ہوجائے۔ رسول اکرم ﷺ نے المؤمن القوی خیر من المؤمن الضعیف (قوی ’’یعنی دوسروں سے بے نیاز‘‘کمزور مومن سے بہتر ہے) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے : الید العلیٰی خیر من ید السفلٰی یعنی دینے ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ 

اے ایم یو سنٹر اور حکومتوں کا معاندانہ رویہ

اے ایم یو سنٹر اور حکومتوں کا معاندانہ رویہ
                                                                                                                                                               
                یوں تو مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے ہمیشہ ہی مسلمانوں سے خوش نما وعدے کئے اور ان وعدوں کی تکمیل کبھی عمل میں نہیں آئی لیکن مرکزکی موجودہ حکومت نے مسلمانوں کی فلاح اور ان کی ہمہ جہت پسماندگی دور کرنے کے لیے جتنے وعدے کئے اور جس قدر دعوے کررہی ہے اگر ان کے دس فیصد پر بھی ایمانداری سے عمل ہوجاتا تو آج مسلمانوں کی حالت مختلف ہوتی ۔ آج سے چھ سال قبل یوپی اے (اول) نے مسلمانوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سچر کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے پوری دیانت داری کے ساتھ مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا اور حکومت کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کی مجموعی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے اور انہیں پسماندگی سے نکالنے کے لیے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد حکومت نے بعض ایسی سرگرمیاں دکھائیں جن سے اندازہ ہو اکہ وہ واقعی مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے تئیں سنجیدہ ہے ۔ لیکن دھیرے دھیرے اپنی پرانی ڈگر پر واپس آگئی۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت نے کچھ کیا ہی نہیں ، کچھ کام ضرور ہوئے ۔ تعلیمی وظائف کا اعلان کیا گیا ور کچھ وظیفے دئے بھی گئے۔ بعض دیگر اقدامات بھی کئے گئے۔ مختلف اسکیموں پر عمل در آمد کے لئے فنڈ بھی جاری کئے گئے۔ لیکن حقیقی صورت حال یہ ہے کہ جو فنڈفراہم کئے گئے ان کا ایک تہائی حصہ ہی خرچ کیا جاسکا۔ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لئے جو اعلانات ہوئے ان میں سے بیشتر پر عمل در آمد ہو اہی نہیں اور جہاں عمل درآمد کی نوبت آئی بھی وہان بے دلی اور دیانت داری کی کمی صاف جھلکتی ہے۔
                 سچر کمیٹی کی سفارش پر مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے کے اقدام کے طور پر پانچ ریاستوں کیرالا، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال اور بہار میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر کے قیام کو منظوری دی گئی تھی، کیرالہ کے ملاپورم اور مغربی بنگال کے مرشد آباد میں تو سنٹروں کا قیام عمل میں آگیا لیکن مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں اس سلسلہ میں کوئی سرگرمی ہنوز نظر نہیں آرہی ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اسے ابھی گئو کشی پر پابندی نافذکرنے کے سے فرصت نہیں ملی ہے۔ لیکن مہاراشٹر کی’’ سیکولر‘‘ حکومت جو یو پی اے کا حصہ ہے اس کی جانب سے اس سلسلہ میں سرگرمی نہ دکھانا ناقابل فہم ہے۔ جہاں تک بہار میں سنٹر کے قیام کا معاملہ ہے تویہ بھی آغاز سے ہی سیا ست کے چکرویو میں پھنسا ہوا ہے۔ عرصہ تک زمین کی فراہمی کے سلسلہ میں اے ایم یو اور ریاستی سرکار کے درمیان چوہا بلی کا کھیل ہوتا رہا۔ یونیورسٹی انتظامیہ ایک جگہ پر مکمل اراضی کے مطالبہ پر اصرار کرتی رہی جبکہ ریاستی حکومت الگ الگ ٹکڑوں میں زمین فراہم کرنے پر بضد رہی۔ اور شاید یہ سلسلہ یونہی سیاست کی نذر ہوجاتا اگر وہاں کے عوام نے اس کے حصول کے لیے زبردست اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا۔ ایم پی مولانا اسرار الحق قاسمی اور ایم ایل اے اختر الایمان کی قیادت میں یونیورسٹی کی شرطوں پر زمین کی فراہمی کے لیے زبردست مظاہرہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاستی حکومت نے ایک ساتھ ۲۲۴ ایکڑ زمین فراہم کردی۔ جب تک ریاستی حکومت نے زمین فراہم نہیں کی تھی مرکزی وزرا اور کانگریس لیڈران ریاستی حکومت پر سنٹر کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے رہے ۔ لیکن اب جب کہ ریاستی حکومت نے بادل ناخواستہ ہی سہی اراضی فراہم کردی ہے تو مرکزی حکومت نے ٹال مٹول کا رویہ اپنا نا شروع کردیا ۔ حالاں کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ زمین فراہمی کے ساتھ ہی وہ سنٹر کے قیام کے لیے فنڈ فراہم کردے گی۔ لیکن فراہمی زمین کے کئی ماہ بعد بھی اس سلسلہ میں اب تک نہ صرف یہ کہ کوئی اقدام نہیں کیا ہے بلکہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل قانونی پیچیدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے تقریبا اس باب کو بند ہی کردینا چاہتے ہیں جس سے کشن گنج جیسے پسماندہ علاقہ میں سنٹر کے قیام کے سلسلہ میں ان کا معاندانہ رویہ صاف جھلکتا ہے۔ عدالتی کارروائی کا قضیہ یہ ہے کہ اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر زیڈ کے فیضان نے سنٹر کے قیام کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں جو عرضی داخل کی تھی اسے کورٹ نے خارج کردیا۔ لہذا فیضان سپریم کورٹ گئے اور سپریم کورٹ نے انہیں الہ آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ عرضی داخل کرنے کی ہدایت دی ۔ لیکن انہوں نے ابھی تک عرضی داخل نہیں کی ہے۔ اس سلسلہ میں کشن گنج میں اے ایم یو سنٹر کے قیام کے لیے جاری تحریک کے روح رواں اور کانگریس ایم پی مولانا اسرارالحق قاسمی کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی سنٹر کے قیام میں مانع نہیں ہے اور اور اگر کوئی عدالتی فیصلہ ہوتا ہے تو ملک کے تینوں سنٹر کے خلاف ہوگا۔ لیکن ان کی یہ دلیل بھی قانون داں وزیر کپل سپل کو اقدام کے لیے راضی نہ کرسکی۔
                سنٹر کے قیام اور فنڈ فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ اسے اے ایم یو کی وزیٹر اور صدر جمہوریہ کی منظوری حاصل ہو جبکہ وزارت فروغ انسانی وسائل نے اب تک یہ فائل منظوری کے لیے ان کے پاس بھیجی ہی نہیں ہے۔ کیا یہ اس بات کا اشاریہ نہیں ہے کہ حکومت مسلمانوں کی  تعلیمی پسماندگی دور کرنے کا محض دعوی کرتی ہے جبکہ اس کی نیت درست نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومتیں ہر معاملہ کو اپنے سیاسی نفع نقصان کے حساب سے دیکھتی ہیں۔ فی الحال بہار میں کانگریس پارٹی کا وجود نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ اس معاملہ کو آئندہ پارلیمانی انتخاب تک معرض التوا میں رکھا جائے اور عین انتخاب کے وقت سنٹر کے قیام کی راہ ہموار کر کے مسلمانوں میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے اورخود کو ان کا ہمدرد باور کرانے کی کوشش کی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی نئی بات نہیں ہوگی ۔ کیونکہ یہاں کے لوگوں نے سیاسی جماعتوں کو محض وعدوں اور اعلانات کی بنیا د پر ایک سے زیادہ انتخابات میں فتح حاصل کرتے دیکھا ہے۔ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل کے منفی رویہ کے بعد تحریک کا روں نے یو پی اے چیئر پرسن محترمہ سونیا گاندھی سے ملاقات کرکے سنٹر کے قیام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور خبروں کے مطابق محترمہ نے اس کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اس وعدہ کی تکمیل کب ہوتی ہے اور کشن گنج میں سنٹر کے قیام کا خواب کب پورا ہوتا ہے؟ اب تک یہاں کے مسلمانوں نے انصاف پسند غیر مسلموں کو ساتھ لے کر جس انداز میں سنٹر کے قیام کے لیے تحریک چلائی ہے اگر اسی اتحاد ویگانگت کا ثبوت آئندہ بھی دیتے رہے تو یقین ہے کہ ریاستی حکومت کی طرح مرکزی حکومت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑجائیں گے۔ بشرطیکہ سیاسی طالع آزما اس تحریک کو اچک نہ لیں اور دوسرا رخ دینے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔
                یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر معاملہ کو فرقہ وارانہ عینک سے دیکھا جاتا ہے ۔ اگر کسی معاملہ کا تعلق مسلمانوں کی بہبود سے ہو تو فرقہ پرست جماعتیں تو اس کے خلاف سرگرم ہوتی ہی ہیں نام نہاد سیکولر جماعتوں کا رویہ بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ اس سلسلہ میں کانگریس نے ہمیشہ ہی دورخی پالیسی اپنائی ہے اور اس کے قول وعمل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہیں ہورہا ہے تو دوسری جانب انہی کی حکومت کے وزیر رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں۔ نیشنل ایڈوائزری کونسل کے ممبر ہرش مندر کے مطابق حکومت نے سچر کمیٹی کے قیام کے وقت جو جوش وخروش دکھایا تھا اس کی سفارشات کے نفاذ میں وہ جوش نہیں دکھارہی ہے بلکہ اب افسران بھی غالبا سمجھ گئے ہیں کہ حکومت کی اس میں دلچسپی نہیں ہے۔
                ایسا لگتا ہے کہ کانگریس ریاستوں میں ہونے والی اپنی شکست سے کوئی سبق نہیں لینا چاہتی ۔ حالانکہ اب اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو مزید بیوقوف بناکر ان کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی ۔ اس کے لیے اسے ان وعدوں کو نبھانا ہی ہوگا جن کی بنیاد پر اسے دوبارہ اقتدار حاصل ہوا تھا۔ اب محض خوش نما وعدوں کے سہارے اقتدار کا حصول نا ممکن ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ کانگریس اپنے رویہ میں تبدیلی لائے اور مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے سچر کمیٹی کی سفارشات پر ایمانداری سے عمل کرے۔ یہ بات طے ہے کہ اگر کشن گنج میں اے ایم یو سنٹر کے قیام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور نہیں کیا گیا تو پہلے ہی سے بہار میں آکسیجن کے سہارے چل رہی کانگریس سانس لینا ہی بھول جائے گی۔
٭٭٭



بچوں کے قاتل


بچوں کے قاتل
کبھی کبھار اخبارات میں ایسی خبریں آتی ہیں کہ کسی باپ نے شراب کے نشہ میں اپنے بیٹے کو قتل کردیا یا مفلسی سے تنگ آکر زہر دے کر مار دیا ۔ اس طرح کی خبریں سامنے آنے کے بعد ہر طرف سے قاتل باپ کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ لیکن قتل اولاد کی ایک صورت اور بھی ہے اور یہ وہ صورت ہے جس میں قاتل کو نفرت کی بجائے بنظر تحسین دیکھا جاتا ہے اور خود قاتل بھی فخر کا احساس کرتا ہے ۔ اکبر الہ آبادی مرحوم نے جب کہا تھا کہ :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
تو ان کے پیش نظر قتل کی یہی صورت تھی ۔ یہ جسمانی قتل نہیں ہے بلکہ روحانی قتل ہے ، یہ ایمان و عقیدہ کا قتل ہے ۔ اکبر کے زمانہ میں قتل کی اس شکل نے رواج تو پالیا تھا لیکن اس کا دائرہ اس قدر وسیع نہیں ہوا تھا جتنا آج ہے ۔
                مسلمانان ہند نے کچھ اپنی غفلت و سستی اور کچھ حالات کے جبر کے نتیجہ میں تعلیم پر وہ توجہ نہیں دی جس کی وہ مستحق تھی ۔ لہٰذا وہ کوئی ایسا ڈھانچہ تیار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے جس میں ان کی نسلیں دین سے وابستگی کے ساتھ عصری علوم میں مہارت حاصل کرسکیں ۔ دینی اور عصری علوم کی تفریق نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ۔ ایک طبقہ دینی تعلیم کے حصول کو بے معنی اور مخصوص لوگوں کا وظیفہ سمجھتا رہا تو دوسرے طبقہ نے عصری علوم کو شجر ممنوعہ بنا دیا ۔ اس متضاد فکری رویہ نے مسلمانان ہند کو شدید نقصان پہنچایا ۔ وہ طبقہ جس نے دینی علوم کو عزیز جانا اور خود کو اسی دائرہ میں محدود رکھا ،عصری علوم حاصل کرنے والوں اور عصری تعلیمی اداروں سے اس کا رشتہ استوار نہ رہ پایاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ادارے اور ان سے وابستہ افراد مذہب کی گرفت سے آزاد ہوگئے اور اگر دل سے مسلمان رہے بھی تو ان کا دماغ غیر اسلامی فکر کا حامل بن گیا ۔ اس طبقہ کی بڑی تعداد ان عصری اداروں سے الحاد و دہریت اور آزاد خیالی کے جراثیم لے کر نکلی اور سیکولر و مغربی نظریات ت کو ہی اعلی و ارفع اور قابل وقعت سمجھنے لگی ۔ اس کے جو مہلک اثرات مسلم معاشرہ پر پڑے اس سے ہم سب واقف ہیں ۔
                ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اس کے تدارک کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے ۱۸۵۷ء اور پھر آزادی کے بعد کے مخصوص حالات میں صورت حال کی سط  سنگینی کو محسوس کیا اور متعدد اقدامات کئے۔ لیکن یہ اقدامات اپنا تسلسل برقرار نہ رکھ سکے اور جس مربوط اور منظم انداز میں اس کے لئے جد و جہد جاری رہنی چاہے تھی وہ نہ رہ سکی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پورے ملک میں ، خواہ شہر ہوں یا دیہات ، ابتدائی تعلیم کے لئے چھوٹے چھوٹے مدارس اور مکاتب کا جال بچھا ہوا تھا اور وہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی طلبہ عصری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے تھے۔ ان مکاتب کا کمال یہ تھا کہ یہ بہت کم عرصہ میں طلبہ کو اسلام کی بنیادی فکر سے روشناس کراکے ان کے دلوں میں اسلامی عقائد و اخلاق کی جڑیں اتنی مستحکم کر دیتے تھے کہ آگے چل کر کسی بھی ماحول میں رہتے ہوئے ان سے دین بیزاری کا خطرہ بڑی حد تک ختم ہو جاتا تھا۔
                لیکن آج صورت حال بالکل بدل چکی ہے ۔ اب ہر طرف انگلش میڈیم اسکولوں کا جال پھیلا ہوا ہے اور بچوں کو ابتدا سے ہی ان اسکولوں میں بھیجا جانے لگا ہے جہاں کے ماحول میں اللہ اور رسول کا نام بھی نہیں سنا جاتا ۔ مگر پھر بھی لوگ بڑی بڑی رقمیں دے کر اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرانا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر ادارے عیسائی مشنریز کے زیر انتظام چلتے ہیں جہاں بچے مسیح کی تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں ، جہاں مخلوط تعلیم کا رواج ہوتا ہے اور لڑکیوں کے لئے ایسے یونیفارم کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں ٹانگیں کھلی ہوتی ہیں اور اسے ہی تہذیب و شائستگی کی علامت قرار دیا جاتا ہے ، جہاں فحاشی و عریانی کا نام تہذیب ہے اور جہاں پردہ اور نقاب کی تضحیک کی جاتی ہے اور ان کا استعما ل کرنے والوں کو رجعت پسند قرار دیا جاتا ہے ، جہاں اسلامی تہذیب و تاریخ کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور جہاں مسلم بچوں کو اپنے مذہب کے تئیں احساس کمتری کا شکار بنایا جاتا ہے۔
                اب اگرکسی بچہ کو عمر کے تیسرے چوتھے سال میں ہی ایسے اسکولوں میں داخل کرا دیا جائے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں ہے کہ اس پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اس طرح کے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جسے دسویں اور بارہویں کلاس پاس کرلینے کے باوجود قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا ،اسے دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں اور اسلامی اخلاق و آداب سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ ان تعلیمی اداروں سے جو بچے تعلیم پاکر باہر نکلتے ہیں ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کی ہوتی ہے جو نسلی مسلمان تو ہوتے ہیں لیکن شعوری مسلمان نہیں ہوتے۔ یہ صورت حال اس نسل کی ہے جس کے والدین اللہ کے فضل سے مذہبی ماحول سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ مذہبی ماحول کے پرو ردہ والدین کے بچوں کی یہ صورت حال ہے تو اس کے بعد آنے والی نسل کا کیا حال ہوگا ۔وہ ان اداروں سے فارغ ہو کر منفعت بخش ملازمتیں تو حاصل کرسکتے ہیں کہ یہی اس کا منتہائے مقصود ہے لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے وہ اپنے اور اپنے معاشرے کے لئے نہ صرف غیر مفید ثابت ہوں گے بلکہ سنگین خطرات کا باعث بھی بنیں گے ۔یہ اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ اگر فوراً اس کے سد باب کی کوشش نہ گئی تو آنے والی نسل کا رشتہ مذہب سے بالکل منقطع ہوجائے گا اور وہ رسمی مسلمان بھی باقی نہیں رہے گی۔ پھر نہ جانے کتنے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جنم لیں گے اور مذہب کا مذاق اڑائیں گے ۔
                ان سطور کا راقم نہ صرف یہ کہ عصری تعلیم کا مخالف نہیں ہے بلکہ اس کے ناقص خیال میں مسلمانوں پر اس کا حصول واجب ہے ۔ موجودہ دور میں اس سے بے نیازی خود کشی کے مترادف ہوگی ۔ ان سطور کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کے لئے عصری علوم کے ساتھ ایسی تعلیم کا بھی لازماً بندوبست کریں جو انہیں مسلمان باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے ۔ اس کے بعد انہیں جو بھی تعلیم دی جائے ان شاء اللہ اس کے اثرات مفید ہی ہوں گے ۔ شاعر مشرق کہہ گئے ہیں:
دل میں ہو لا الہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ نہ
                اپنے بچوں کو مسلمان باقی رکھنے اور انہیں احساس کمتری اور مرعوبیت کے حصار سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان خود بڑی تعداد میں معیاری اسکول قائم کریں ۔ پہلے سے موجود اداروں کی اصلاح کریں کیونکہ عام طور پر مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی ادارے اپنی بد نظمی ، ناقص تعلیم و تدریس اور انتظامیہ کے درمیان باہمی چپقلش کے لئے ممتاز ہیں۔یہ صورت حال بھی کم تشویش ناک نہیں ہے اور عام مسلمانوں کی ان اداروں سے دوری کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے ۔ لہٰذا اس پر توجہ بے حد ضروری ہے ۔ ان میں سے بہت سے ادارے ایسے ہیں کہ ان میں اور عیسائی اداروں میں بس اتنا فرق ہے کہ ان کے چلانے والے مسلمان ہیں ،ورنہ وہاں بھی کلچرل پروگراموں کے نام پر وہ طوفان بدتمیزیاں ہوتی ہیں کہ کسی غیرت مند مسلمان کے لئے اس کا تصور بھی دہلا دینے والا ہوتا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ اب ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ۔ یہ اس لئے کہ اسے مسلمانوں کی زبان بنا دیا گیا ہے اور اس لئے بھی کہ اس زبان میں ہمارا دینی و تہذیبی سرمایہ موجود ہے۔لہٰذا اپنے بچوں کے لئے اردو کی تعلیم کا انتظام ہمارے لئے ناگزیر ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نئی نسل اسلام کے اس عظیم الشان ورثہ سے محروم رہ جائے گی ۔ سطور بالا میں جن مکاتب کا ذکر کیا گیا ہے انہیں دوبارہ بحال کرنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ طلبہ کم از کم ناظرہ قرآن پڑھنے کے قابل پوجائیں ، کچھ دعائیں یاد کرلیں اور اسلامی سیرت و اخلاق سے آغاز میں ہی روشناس ہوجائیں ۔ اس طرح کے مکاتب مساجد میں بھی چلائے جاسکتے ہیں یا یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ مساجد میں ہی چلائے جائیں۔ اسی طرح تعطیلات میں طلبہ کے لئے دینی تعلیم کے کلاسیز کا انتظام کیا جانا چاہئے ۔ بہت سی جگہوں پر اس طرح کے انتظامات کئے گئے ہیں، انہیں اور بہتر شکل دی جاسکتی ہے ۔ان کے علاوہ اور بھی مفید طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔حالانکہ ان اقدامات سے بھی وہ مقصد مکمل طور پر حاصل نہ ہوگا صورت حال جس کی متقاضی ہے۔ تاہم اس سے ہم اپنی جدوجہد کا آغاز کر سکیں گے ۔
                اگر ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو ارتداد سے محفوظ رکھنا ہے تو ترجیحی بنیاد پر اس جانب توجہ کرنی ہوگی۔ کیونکہ اس وقت حالات جس قدر سنگین ہیں اور جس طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے وہ پہلے نہیں تھا ۔ یہ وقت عملی اقدام کا متقاضی ہے ۔ دور بیٹھ کر کڑھنے ، کوسنے اور تنقید کرتے رہنے سے نہ پہلے کوئی چیز بدلی ہے اور نہ ہی آج اس کی توقع کی جانی چاہئے ۔

کیا عدالت عظمی کا فیصلہ حکومت کے مردہ ضمیر کو بیدار کرپائے گا؟

کیا عدالت عظمی کا فیصلہ حکومت کے مردہ ضمیر کو بیدار کرپائے گا؟
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ آزادی کے بعد سے ہی جارہی ہے۔ کہنے کو تو یہاں آئین کی حکمرانی ہے جو بلا تفریق مذہب وملت تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے اور مذہب ، نسل، علاقہ، ذات یا زبان کی بنیا پر کسی بھی تفریق کی اجازت نہیں دیتا لیکن عملا مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ ہی امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور منظم انداز میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ وہ ملک میں دوسرے درجہ کے شہری بن کر جینے کو مجبور ہوجائیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے حکومت اور فرقہ پرست طاقتوں نے مختلف اوقات میں مختلف حربے استعمال کیے۔
                گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ مذکورہ بالا مقدمات کے حصول کے لئے دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوںکو بطور خاص ہونہار ، ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کسی ثبوت کے بغیر محض شبہہ کی بنیاد پر بلکہ بیشتر اس کے بغیر بھی ان پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا غلط الزام لگا کر داخل زنداں کردیا جاتا ہے اور جب وہ ایک عرصہ تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد عدالتوں سے با عزت بری کئے جاتے ہیں تو نہ صرف ان کی زندگی کا قیمتی عرصہ برباد ہوچکا ہوتا ہے بلکہ ان کا خاندان تباہ ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس مذموم سازش میں سب سے اہم رول گجرات حکومت کا رہا ہے۔ ۱۹۹۴ اور اس کے بعد کے برسوں میں گجرات سمیت اتر پردیش ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر اور دیگر کئی ریاستوں میں بدنام زمانہ ٹاڈا کے تحت ہزاروں نوجوانوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پھر ۲۰۰۲ میں گجرات میں ہونے والی مسلم کشی کے بعد اس سلسلہ میں مزید تیزی آگئی اور دہشت گردی کے نام پر گرفتاریوں کے علاوہ انکاؤنٹروں کا سلسلہ بھی چل پڑا۔ اب انکاؤنٹروں کی حقیقت سامنے آچکی ہے۔ ساتھ ہی بہت سے معاملات میں ماخوذ نوجوانوں کی باعزت رہائی بھی ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود گرفتاریوں کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آرہا ہے۔ بلکہ اس کا سلسلہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ گرفتار شدگان پر مختلف ریاستوں میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات انجام دینے کا الزام لگایا جاتا ہے تاکہ ایک جگہ سے رہائی مل بھی جائے تو پھر انہیں دوسری ریاستوں کے چکر کاٹنے پڑیں اور اس طرح مختلف عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے ان کی زندگی ہی تباہ ہوجائے ۔ ایک ایک شخص پر تیس ، چالیس اور پچاس مقدامت تک کئے جاتے ہیں ۔
                ابتداسے ہی مسلمانوں اور ملک کے حالات پر نظر رکھنے والے انصاف پسند غیر مسلموں کا اس بات پر اصراف رہا ہے کہ ٹاڈا اور پوٹا کا مسلمانوں کے خلاف غلط اور اندھا دھند استعمال کیا گیا۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ دہشت گردی کے نام پر ہونے والی گرفتاریاں اور انکاؤنٹر بھی فرضی ہیں اور ان کامقصد مسلمانوں کو بدنام اور برباد کرنا ہے۔ عدالتوں سے ماخوذ مسلم نوجوانوں کی باعزت رہائی ان کے اس خیال کو تقویت فراہم کرتی ہے۔ حال ہی میں عدالت عظمیٰ کے ذریعہ ۱۱ ؍ مسلم نوجوانوں کے بری کئے جانے اور گرفتاریوں کے تعلق سے فاضل ججوں کا تبصرہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ۱۹۹۴ میں ہندوؤں کی ایک مذہبی تقریب میں تشدد کے لیے منصوبہ بندی کے الزام میں ان نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور ان پر ٹاڈا کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ اس مبینہ منصوبہ بندی کے لیے احمد آباد کی ٹاڈا عدالت نے انہیں پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ لیکن گجرات حکومت کو اس سزا سے تشفی نہیں ہوئی اور اس نے انہیں مزید سزا دلانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی جبکہ بعض ملزمان نے بھی اس سزا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجس کے نتیجے سپریم کورٹ نے ان ملزمان پر ٹاڈا کے تحت مقدمہ کو غلط قرار دیا اور پولیس کے ذریعہ لگائے گئے الزامات سے انہیں بری کرتے ہوئے حکومت گجرات کی اپیل کو بھی خارج کردیا۔ ملزمان کو بری کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ کسی خاص مذہب یا برادری کے لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے قانون کا بے جا استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔ عدالت نے کہا کہ سینٹر پولیس افسران اور حکام جنہیں قانون نافذ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے وہ قانون کو خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس کا گلظ استعمال نہ ہونے دیں۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرور تہے کہ کوئی معصوم شخص خود کو اس لیے مصیبت میں مبتلا محسوس نہ کرے کہ ’’ مائی نیم از خان بٹ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ‘‘
                سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے جہاں ایک طرف مذکورہ مقدمہ کے ماخوذین کو راحت نصیب ہوتی ہے ہے وہیں ان لوگوں کی آس بھی بڑھی ہے جو عرصہ سے قید وبند کی مشقتیں برداشت کررہے ہیں۔ ۱۸ سال بعد بے قصوروں کی رہائی نے عدالت میں بھروسہ اور مستحکم کردیا ہے اور مذکورہ فیصلہ کی حیثیت دیگر ملزمان کے لیے امید کی کرن کی ہے اور ہمیں بھی یقین ہے کہ اگر ہمت اور حوصلہ کے ساتھ عدالتی لڑائی لڑی جائے تو تمام بے قصور رہا ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ فیصلہ کا ہر طرف سے استقبال کیا جارہا ہے اور اس کی ستائش ہورہی ہے۔ عدالت عظمی نے مسلمانوں اور دیگر انصاف پسند شہریوں کے اس خیال پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ مسلمانوں کو ایسا کرنے کے لیے ان پر غلط مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کسی عدالت نے بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہاکرتے ہوئے پولیس کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ اس سلسلہ میں نئی دہلی کی دوارکا عدلات کے ایڈیشنل سیشن جج کا ریمارکس بھی قابل ذکر ہے جو انہوں نے پانچ سال تک قید وبند میں مبتلا سات نوجوانوں کو بری کرتے ہوئے اپنے مقدمہ میں درج کیا۔ ان نوجوانوں پر پولیس کا الزام تھا کہ وہ دہشت گردانہ کارروائی انجام دینے کے لیے گاڑی میں اتشیں اسلحہ اور گولہ بارود لے کر جارہے تھے ، جب پولیس نے خفیہ اطلاع کی بنیاد پر انہین گرفتار کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے پولیس پر گولیاں چلائیں ۔ فاضل جج نے اس پوری کہانی کو فرضی قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھاکہ’’ انکاؤنٹر کی پوری کہانی بڑی ہوشیاری کے ساتھ اسپیشل اسٹاف دہلی پولیس کے دفتر میں اس کے خاص مصنف سب انسپکٹر روندر تیاگی اور اس کے دیگر معاونین کے ذریعہ لکھی گئی۔‘‘
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بے قصور نوجوانوں کی رہائی عدالتوں میں پولیس کے ذریعہ پختہ شواہد پیش نہیں کرپانے کی وجہ سے عمل میں آتی ہے۔ لیکن ان فیصلوں کی تفصیلات پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ معاملہ صرف ثبوت کی عدم فراہمی کا نہیں ہے بلکہ پولیس کے ذریعہ بے بنیاد اور فرضی ثبوت بھی پیش کئے جاتے ہٰں اور ان کے ذریعہ عدلات کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ۱۴ برسوں تک ناکردہ گناہ کی سزا جھیلنے والے دہلی کے عامر کے خلاف پولیس نے جو ثبوت فراہم کرنئے ان میں ڈاکٹر، ڈائریاں جن میں دھماکہ خیز اشیا کی تفصیلات درج تھیں، پیدائش سرٹیفیکیٹ ، اسکول کیرکٹر سرٹیفیکیٹ ، شناختی کارڈ ، مارکس شیٹ شامل تھیں۔ جج نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص جو دہشت گردانہ حملہ کرنے جارہا ہے وہ شناختی کارڈ ، مارکس شیٹ اور پیدائش سرٹیفیکیٹ لے کر چلے گا؟ یہ تو ایک مثال ہے ورنہ ایسے متعدد واقعات موجود ہیں۔
بہر حال یہ بات اب شبہ سے بالاتر ہے کہ دہشت گردانہ واقعات میں پکڑے گئے مسلم نوجوان بے قصور ہیں۔ سیکڑوں مسلم نوجوانوں کی رہائی اور عدالتوں کے تبصروں نے اسے مزید واضح کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں پر اس فیصلہ کا کوئی اثر پڑے گا؟ کیا اب بے قصوروں کی گرفتاری تھم جائے گیاور کیا پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اندر جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے گا؟ ہماری آرزو ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گوداموں میں اناج غریبوں میں تقسیم کرنے کے لیے کہا تھا اور جب مرکزی وزیر زراعت شرد پوار سے اس سلسلہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ عدالت کا حکم نہیں مشورہ ہے۔ پھر جب عدالت نے کہا کہ یہ مشورہ نہیں حکم ہے تو شرد پوار نے بڑی صفائی سے کہہ دیا کہ حکومت اس حکم کی تعمیل کی اہلیت نہیں رکھتی ۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ تبصرہ سے حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کا مجرم ضمیر بیدار ہوجائے گا بڑی بھول ہوگی۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو عامر کو مزید چھ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں گزارنے پڑتے کیونکہ اسے دہلی ہائی کورٹ نے ۲۰۰۶ میں ہی بری کردیا تھا لیکن پولیس نے اس کے خلاف مزید چھ مقدمات درج کردئے اور اس طرح اس کی رہائی ۲۰۱۴ میں عمل میں آئی۔ دوارکا عدالت نے بھی اپنے فیصلہ میں رویندر تیاگی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف وزارت داخلہ کو تادیبی کارروائی کا حکم دیا تھا لیکن ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہو۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پولیس کی طرح غلطی کا اعتراف تک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ان افسران کے خلاف جنہیں عدالتوں نے زیر حراست اموات تک کے لیے ذمہ دار ٹھہرا یا ہے کارروائی کرنے بھی انکار کرتی ہے۔ دہلی کے پولیس کمشنر نیرج کمار ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آخر لوگوں کو اسپیشل سیل کی کامیابیاں کیوں نہیں نظر آتی ہیں جن میں پارلیامنٹ پر حملہ ، لال قلعہ میں ہونے والی گولہ باری اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
                اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے مظلومین کے لئے امید کا چراغ روشن ہوا ہے لیکن اگر ہم غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ حکومت یا س کی خفیہ ایجنسیاں اس سے سبق لیں گی تو اسے ہماری سادہ لوحی ہی کہا جائے گا ۔ لہٰذا ہمیں اپنی لڑائی جاری رکھنی ہوگی۔ جو لوگ ٹاڈا پوٹا کے تحت اب بھی قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں یا جنہیں بعد میں دہشت گردی کے نام پر گرفتار کیا گیا ہے اور ہنوز کیا جارہا ہے ان کے مقدمات مضبوطی سے لڑنے ہوں گے۔ رہائی پانے والوں کو معاوضہ دلانے اور خاطی پولیس افسران کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے بھی عدالت میں اپنی فریاد پر زوز انداز میں رکھنی ہوگی۔ بلا شبہ بعض تنظیمیں بے قصوروں کو بچانے کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہی ہیں لیکن اس کے درائرہ کو وسیع کرنا ہوگا۔ یہ بہت اہم کام ہے لیکن عام احساس یہ ہے کہ ہم اس معاملہ میں بہت پیچھے ہیں ۔ شاید ہم اچھے وکلا کی خدمات بھی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو  پاتا تو شاید بابری مسجد کا وہ فیصلہ نہیں آتا جو آیا۔ اس لئے اس محاذ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی مسلم وزرا اور ممبران پارلیامنٹ کو جو حکومت میں مسلمانوں کے نمائندہ کہلاتے ہیں (گرچہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں حکومت کے نمائندہ ہیں ) اس بات پر مجبور کرنا چاہیے کہ وہ حکومت پر مسلم مخالف اقدامات روکنے کے لیے دباؤ بنائیں ۔ اگر وہ اس کے لئے راضی نہیں ہوتے تو ہمیں ان پر واضح کردینا چاہیے کہ آئندہ انتخاب میں وہ ہم سے کسی خیر کی توقع نہ رکھیں۔


Dahshat Gardi aur Musalman

دہشت گردی اور مسلمان
                ملک کی آزادی کی خاطر مسلمانوں نے جو قربانیاں پیش کی ہیں تاریخ انہیں بھلانہیں سکتی ۔ لیکن حصول آزادی کے ساتھ ہی ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا اس انہیں نے آزادی کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کے آزادی حاصل کی تھی لیکن وہ نہ صرف اس کی نعمتوں سے محروم رہے بلکہ ان کے سامنے اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا۔ انہیں اس طرح مسائل میں الجھا یا گیا کہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہی نہیں ہوسکے او رآزادی کے ۶۵ سال بعد بھی نہ صرف یہ کہ ان کے مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔ آغاز سے ہی انہیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں سر فہرست ان کے وجود وبقا اور تشخص کا مسئلہ تھا۔ آزادی کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یکطرفہ طور پر اس کا سارا نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑا، وہی قتل ہوئے ، املاک بھی انہیں کی تباہ ہوئی اور جیل کی سلاخوں کے اندر بھی انہیں ہی ڈالاگیا۔ فرقہ پرست طاقتوں نے فسادات کے ذریعہ نہ صرف ان کی اقتصادی ومعاشی کمر توڑ دی اور انہیں سماجی، سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں آگے بڑھنے سے روکا بلکہ ملک کے تئیں ان کی وفاداری  کو بھی مشکوک قرارد دے دیا گیا اور اس طرح وہ اپنے ہی ملک میں بے دست وپا بنا دئے گئے۔ 
                ہندوستان کا آئین اپنے تمام شہریوں کو مساوات کا حق عطا کرتا ہے اور یکساں حقوق فراہم کرتا ہے۔ ۔ کسی کے ساتھ مذہب ، نسل، زبان اور ذات برادری کے کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق روا نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا رویہ اختیار کیا گیا اور ہر سطح پر اس بات کی منظم کوشش کی گئی کہ وہ خود اپنے ہی ملک میں دوسرے درجہ کے شہری بن کر جینے پر مجبور ہوجائیں ۔ جب جب مسلمانوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی انہیں اس طرح مسائل میں الجھایا گیا کہ ان کے قدم وہیں رک گئے اور آج صورت حال یہ ہے کہ خود حکومت کے قائم کردہ کمیشن کے مطابق ان کی مجموعی صورت حال دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ 
                جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا کہ فرقہ پرستوں نے ملک کے تئیں مسلمانوں کی وفاداری کو آغاز سے ہی مشکوک قراردینے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہر چند کہ مسلمان ہمیشہ ہی وفاداری کے اضافی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں اس کے باوجود اب بھی انہیں ملک مخالف ثابت کرنے کی کوششیں نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میںتیزی آگئی ہے۔ 
                اس وقت مسلمانوں کو دہشت گردی کے نام پر گھیرنے کی سازش زوروں پر ہے۔ جس طرح عالمی سطح پر امریکہ نے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اسلامی دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرکے مسلمانوں کا خون حلال کرلیا ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں بھی اس مقصد سے وہی کھیل شروع کردیا گیااور اس کی آڑ میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر نام نہاد امریکی دہشت گردی کے خاتمہ کی امریکی پالیسی کا مقصد در اصل دنیا بھر میں ہونے والی مسلم بیداری کو کچلنا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اشتراکی نظام کی ناکامی اور اس کے زوال کے بعد امریکہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ اسلام ہے ۔ دنیا پر استعماری نظام قائم کرنے کی راہ میں امریکہ کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ اسلام ہی ہے اس لئے اسے دبانے کی کوششوں کے سلسلہ کی کڑی کے طور پر اسلامی دہشت گردی کا مفروضہ تیار کیا گیا ہے۔ اسے ثابت کرنے کے لئے اسلام دشمن طاقتیں خود ہی دہشت گردانہ کا رروائیاں انجام دیتی ہیں او راس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیتی ہیں۔ 
                جہاں تک ہندستان کا سوال ہے یہاں کی معاشرت میں ایک طویل مدت سے برہمنوں کی بالادستی رہی ہے ۔ انہوں نے خود اپنے ہی ہم مذہبوں کو ہزارہا سال تک اپنا غلام بناکر رکھا ۔ لیکن جب ان کے ہم مذہبوں میں یہ احساس بیدار ہونے لگا کہ مٹھی بھر برہمنوں نے دھوکہ دے کر انہین اپنا غلام بنا رکھا ہے اور ان کے خلاف عام ہندوؤں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی تو انہیں اپنی اس حیثیت پر خطرات کے بادل منڈلائے محسوس ہوئے۔ چنانچہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کا رخ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے مسلمانوں کی طرف پھیردیا۔ اور عام ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایسی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ان کی توجہ برہمن مظالم سے ہٹ کر مسلمانوں پر مرکوز ہوگئی۔ چنانچہ جس مقصد کی خاطر امریکہ نے اسلامی دہشت گردی کا مفروضہ تیار کیا وہ یہاں کے برہمن وادی مظالم کی بقا کے لئے بھی مناسب تھا۔ اسی لئے عالمی پیمانہ پر امریکہ کے ذریعہ چھیڑی گئی دہشت گردی مخالف مہم مں ہمارا ملک بھی شامل ہوگیا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام اصلاحی تحریکات کے باوجود ملک کے سیاسی نظام میں برہمنوں کے عمل دخل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس لئے یہ بات طے ہے کہ ملک بھر میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے پس پردہ ایک منظم اور منصوبہ بند سازش کام کررہی ہے۔ 
                اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دہشت گردانہ واقعات کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ ایک بار پھر تیز ہوگیا ہے۔ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ چنئی ممبئی، دربھنگہ، حیدرآباد، بنگلور اور دہلی سے ہوتے ہوئے سعودی عرب تک جا پہنچا ہے۔ ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد بلا سوچے سمجھے اوربغیر کسی ثبوت کے کسی نام نہاد مسلم تنظیم کے سر اس کی ذمہ داری تھوپ دی جاتی ہے اور پھر مسلم نوجوانوں کی دھر پکڑ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اس کے لئے پہلے کسی خاص علاقہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ملک کی ساری خفیہ ایجنسیاں اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور جسے چاہتی ہیں اس نام پر پکڑ کر لے جاتی ہیں اور پولیس ریمانڈ میں اذیت رسانی کے ذریعہ اس سے اعتراف گناہ کراتی ہیں۔ اس کے باوجود اگر ناکامی ہاتھ آتی ہے تو ماخوذ نوجوان کو زیر حراست قتل کرکے ہمیشہ کے لئے اس باب کو بند کردیا جاتا ہے جیسا کہ حالیہ دنوں میں قتیل صدیقی اور اس سے قبل فیض عثمانی کے زیر حراست بہیمانہ قتل سے واضح ہے۔ 
                بہارکے درجن بھر سے زائد مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے اپنا رخ ایک بار پھر جنوبی ہند کی طرف کرلیا ہے۔ (حالانکہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اب اس علاقہ کو چھوڑ دیا گیا ہے) عموما اب تک ہونے والی گرفتاریاں کسی بم دھماکہ یا دہشت گردانہ واقعہ پیش آنے کے بعد انجام دی جاتی رہی ہیں لیکن گزشتہ دنوں کرناٹک ، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر سے جن نوجوانوں کو گرفتارکیا گیا ہے اور جن کی مجموعی تعداد ۱۸ ہے ان پر الزام ہے کہ وہ بڑے سیاست دانوں ، صحافیوں اور مذہبی تنظیموں کے سربراہوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنارہے تھے۔ گرفتاریوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ عموما اعلی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہی گرفتار کئے جاتے ہیں۔ حالیہ گرفتار شدگان میں صحافی، ڈاکٹر اور سائنس داں بھی شامل ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سازش کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ یہ ملک کے خلاف مسلم نوجوانوں کی سازش نہیں ہے بلکہ مسلم نوجوانوں کے خلاف ملک کی پولیس کی سازش ہے جو اب کھل کر سامنے آرہی ہے۔ 
                در اصل یہ سارا کھیل مسلمانوں کا کردار مشکوک کرنے ، اکثریتی طبقہ کو ان کے خلاف بھڑکانے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بن کر جینے پر مجبور کرنے کے لئے کھیلا جارہا ہے ۔ دہشت گردی کے نام پر جس طرح ایک جانب خوف کا ماحول قائم کرنے اور دوسری جانب ملک کے ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہ بے حد تشویش ناک ہے ۔ خفیہ ایجنسیاں میڈیا کے تعاون سے ملکی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہیں کہ ملک ہر وقت دہشت گردانہ حملوں کی زد میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر چھ ماہ میں کہیں ایک دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو سال بھر اس کے نام پر ایک خاص فرقہ کے نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت اور اس کے خفیہ محکموں کو واقعی دہشت گردانہ واقعات کے انسداد سے دلچسپی ہوتی تو ان کی تفتیش کا رخ کسی ایک فرقہ کی طرف نہ ہوتا۔ آنجہانی ہیمنت کرکرے نے جب حقیقی دہشت گردوں تک پہنچنے کی سمت میں اقدام کیا تو انہیں اپنی جان گنوانی پڑی اور پھر اس سلسلہ میں تفتیش کی رفتار نہ صرف دھیمی ہوگئی بلکہ پھر ساری توجہ نام نہاد مسلم دہشت گردی کے خاتمہ پر مرکوز ہوگئی۔ ملک میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات میں کون سی طاقتیں ملوث ہیں اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے باوجود انہیں ہی سب سے بڑ امحب وطن سمجھا جاتا ہے۔ مختلف بم دھماکوں میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ملوث ہونے کے پختہ ثبوت اور شواہد کے باوجود خفیہ ایجنسیوں کی تمام تر دلچسپی مسلم نوجوانوں کی دھر پکڑ اور انہیں قتل کرنے میں ہے۔ در اصل مذکورہ دہشت گردوں کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع شروع سے ہی دیا جاتا رہا ہے۔ ورنہ اگر آغاز میں ہی اس پر روک لگانے کی کوشش کی جاتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ 
                سوال یہ ہے کہ آخر پختہ ثبوت وشواہد کے باوجود حکومت حقیقی دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کیوں نہیں کرتی؟ جواب یہ ہے کہ جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا کہ یہ سارا کھیل مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری شہری بن کر جینے پر مجبور کرنے کے لئے کھیلا جارہا ہے ۔ یہ تماشا انہیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے اور آئینی حقوق کے حصول سے محروم کرنے اور سیاسی ، سماجی واقتصادی طور پر پسماندہ بناکر رکھنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ 
                لہٰذا اس سازش کو سمجھنا اور اس کے تدارک کی کوشش کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس سازش کو نہیں سمجھا اور اس کے تدارک کی کوشش نہیں کی تو مستقبل بہت بھیانک ہوگا۔ یہ لڑائی ہم سب کو مل کر لڑنی ہے اور ہر سطح پر لڑنی ہے۔ جو لوگ گرفتار کیے گئے ہیں وہ اس وقت تک مجرم نہیں ہیں جب تک ان کا جرم ثابت نہیں ہوجاتا اور وہ اس وقت تک ہماری ہمدردیوں اور تعاون کے مستحق ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ عدالتوں سے باعزت بری ہوں گے کیونکہ اب تک سیکڑوں نوجوان عدالتوں سے باعزت بری ہوچکے ہیں۔ اس شمارہ میں ہم بعض ان مقدمات کا ذکر کررہے ہیں جن میں پولیس نے بڑے دعوے کے ساتھ مسلم نوجوانوں پر ملک سے غداری کا الزام لگایا لیکن عدالت میں وہ اس الزام کو ثابت نہ کرسکی۔ آئندہ قسطوں میں دہشت گردی سے متعلق دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی۔ آئیے بعض ان واقعات پر نظر ڈالتے ہیں جن میں عدالت نے پولیس کے ذریعہ قائم مقدمات کو خارج کردیا۔ 
                دہشت گردی ایک ایسا ہتھیار ہے جسے حکومیتں اور خفیہ ایجنسیاں حسب ضرورت اپنے مفاد میں استعمال کرتی رہتی ہیں۔ کئی بار مرکز اور ریاستوں میں اہم مسائل سے عوام کا رخ پھیرنے کے لئے دہشت گردی کا کھیل کھیلا گیا۔ حکومتوں کو جب ھی اپنا وجود خطرہ میں نظر آیا اور اس پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے عین اسی زمانے میں یا تو کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوا یا اس نام پر انکاؤنٹر اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ یہ سلسلہ گجرات سے شروع ہوا تھا اور ابھی کرناٹک میں ہونے والی گرفتاریاں بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ ان پر اہم سیاسی شخصیات اور تنصیبات پر حملہ کی سازش کا الزام لگا یا گیا ہے ۔ کرناٹک پولیس کا یہ وہی طرز عمل ہے جو ماضی میں گجرات پولیس کا رہاہے ۔ 
                گجرات فسادات کے بعد مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور انہیں فسادیوں کے خلاف کھڑے ہونے سے روکنے کے لئے پولیس نے مسلم نوجوانوں پر بے بنیاد الزامات لگا کر بے تحاشہ گرفتاریاں کیں اور ان کے خلاف پوٹا سمیت تعزیرات ہند کی متعدد سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے۔ ان پر گجرات فساد میں مارے گئے مسلمانوں کا انتقام لینے کی خاطر مودی سمیت اہم رہنماؤں کے قتل کی سازش کا الزام لگایا گیا۔ ان پر پاکستان میں تربیت حاصل کرنے کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں کا ممبر بھی بتایا گیا۔ گجرات اے ٹی ایس نے اپنے دعوی کو مستحکم بنانے کے لئے انکاؤنٹروں کا سلسلہ بھی شروع کردیا تاکہ لوگوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ یہ واقعی دہشت گرد تھے۔ اب مذکورہ انکاؤنٹر وں کی حقیقت سامنے آچکی ہے اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے نتیجہ میں ۲۰۰۲ سے اب تک ہونے والے تمام انکاؤنٹروں کی تحقیق کی جارہی ہے۔ 
                ۳۰ ستمبر ۲۰۰۲ میں درج ایف آئی آر کے مطابق اس وقت کے پولیس سربراہ کے آر کوشک کو خفیہ اطلاع ملی کہ سمیر خان پٹھان جو مبینہ طور پر لشکر طیبہ کا دہشت گرد ہے اور ایک کانسٹبل کے قتل کے معاملہ کا ملزم ہے ممبئی سے گجرات آرہا ہے اور اس کا رادہ نریندر مودی اور دیگر بی بے پی لیڈران جیسے ایل کے اڈوانی اور پروین توگڑیا وغیرہ کو قتل کرنے کا ہے۔ کوشک نے یہ اطلاع جوائنٹ پولیس کمشنر پی پی پانڈے کو پہنچائی جنہوں نے ونجارا کو یہ جانچ کرنے کی ہدایت دی کہ سمیر خان کا تعلق اکھشر دھام پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ سے ہے یا نہیں؟ 
                خان کو ۲۷ ستمبر کو گرفتار کیا گیا جسے عدالت نے ۱۴ دن کے پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا۔ اس کے بعد اسے عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔ اسے پھر ٹرانسفر وارنٹ پر کا نسٹبل وشنو قتل معاملہ میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ۳۱ اکتوبر کو رات کے ایک بجے اسے اس مقام پر لے جایا گیا جہاں وشنو کا قتل ہوا تھا۔ پولس کے بیان لے مطابق سمیر نے پولیس سب انسپکٹر واگھیلا کا ریوالور چھین لیا اور فرار ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ 
                عدالت میں پولیس نے دیگر ۱۲ ملزموں کوپیش کیا جن پر سمیر کو نواب خان کے نام سے نقلی پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے میں مدد کرنے کا الزام تھا۔ پولیس کے مطابق سمیر ۱۳ جنوری ۱۹۹۸ کو پاکستان گیا تھا جبکہ پاسپورٹ افسر نے عدالت کو بتایا کہ نواب خان کے نام پاسپورٹ ۲۷ مارچ ۹۸ کو جاری ہوا۔ گویا سمیر کے پاکستان کے سفر کے تقریبا ڈھائی ماہ بعد ۔زیریں عدالت نے چارج فریم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مقدمہ خارج کردیا۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے گجرات ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ۔ ہائی کورٹ نے بھی کہا کہ پولیس کے ذریعہ بتائی گئی تاریخ پر سمیر کے پاکستان جانے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ سمیر کے پاس سے کسی قسم کا ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔ 
                بم نصب کرنے کی سازش: گودھرا سانحہ کے بعد پولیس نے چھ عمارتوں میں بم نصب کرنے کی سازش کرنے کے الزام میں چھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق گودھرا سانحہ کے بعد گجرات میں فساد پھوٹ پڑنے کے نتیجہ میں مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہوا۔ اس کا انتقام لینے کے لئے پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں لشکر طبیہ اور جیش محمد وغیرہ نے مسلم نوجوانوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں بی جے پی ، وی ایچ پی کے اعلی رہنماؤں کو نشنانہ بنانے اور ا ہم تجارتی تنصیبات سمیت عبادت گاہوں میں بم دھماکوں کے لئے تیار کیا۔ اس کے نتیجہ میں اکشر دھام پر حملہ اور سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈے کا قتل ہوا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ایک ملزم نے ۲۷ مئی ۰۵ کو اپنے یوم پیدائش پر مسجد میں داخل ہوکر فسادات میں مسلمانوں کو ہونے والے جانی ومالی نقصانات کو سوچ کر چلاناشروع کردیا۔ وہاں اس کی ملاقات زاہد عرف ابو طلحہ نامی شخص سے ہوئی جس کا تعلق ریاض سے ہے اور وہ جیش محمد اور آئی ایس آئی کا ممبر ہے۔ ریاض نے اسے انتقام لینے پر آمادہ کیا اور پیسہ اور ہتھیار فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ 
                اس مقدمہ میں جج نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آئی او نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ زاہد عرف ابو طلحہ کے بارے میں کوئی تفتیش نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔ جج نے مزید کہا کہ ملزمین کے قبضہ سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا اور سازش کی تھیوری محض بکواس ہے۔ عدالت نے تمام ملزمین کو بری کردیا۔ زاہد عرف ابوطلحہ کا نام بعض دیگر مقدمات میں بھی سامنے آیا ہے لیکن اس کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک فرضی کردار ہے جس کا نام محض مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ 
                ایک دیگر مقدمہ میں پولیس نے چار نوجوان کو سازش رچنے اور بم دھماکہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ یہ چار وں ملزمین وہی ہیں جو مذکورہ بالا مقدمہ کے ملزمین تھے۔ فرق یہ ہے کہ اس مقدمہ کے دو ملزمین کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ سابقہ مقدمہ کی طرح اس میں بھی اے ٹی ایس نے الزام لگایا کہ یہ لوگ گجرات فساد کا انتقام لینے کی غرض سے مختلف عمارات میں بم دھماکوں کی سازش کررہے تھے اور انہوں نے نہرو نگرکراس روڈ پر دھماکہ بھی کیا۔ مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 
                اس مقدمہ میں سیشن کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ملزمین کے قبضہ سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ مقدمہ کے اہم گواہ جو اس کے آئی او ہیں اور جنہوں نے اے ٹی ایس کے انسپکٹر اور ڈی ایس پی کی حیثیت میں خدمات انجام دی ہیں ، متضاد بیانات دئے ہیں۔ سیشن کورٹ نے تمام ملزمین کو بری کردیا۔ 
                مزید ایک مقدمہ میں چھ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس مقدمہ کے ایف آئی آر میں بھی گجرات فساد کے انتقام والی کہانی دہرائی گئی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزمین پاکستانی دہشت گرد حوجی اور لشکر طیبہ کے رابطہ میںرہے اور انہوں نے آئی ایس آئی کے لئے کام کیا ہے۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ایک پاکستانی اعظم چینا عرف بابا سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کی نیز اسلحوں کے علاوہ حوالہ کے ذریعہ ایک لاکھ روپے بھی حاصل کئے تاکہ کچھ اور نوجوانوں کو جہادی تربیت کے لئے پاکستان بھیجا جائے۔ لوگ تہران کے راستہ پاکستان گئے ۔ ان پر آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے دفاتر کو نشانہ بنانے نیز گجرات کنڈلہ پائپ لانے ، سومناتھ مندر اور سابر متی اکسپریس ریلوے اوور برج کو دھماکوں سے اڑانے کی سازش کا الزام لگایا گیا۔ 
                سیشن عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ مذکورہ مقامات پر دھماکہ کرنے کی سازش کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پایا گیا جبکہ بعض ملزمین پہلے ہی دلی میں گرفتار ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف نئی دہلی میں مقدمہ چل رہا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں انتقام کی تھیوری کو بالکل فرضی اور تصوراتی قراردیا ۔ تمام ملزمین رہا کردئے گئے۔