جمعرات، 9 اپریل، 2015

کیا تلنگانہ نیا گجرات بننے جارہا ہے؟

کیا تلنگانہ نیا گجرات بننے جارہا ہے؟
            تلنگانہ پولس کے سورماؤں نے پانچ زیر حراست مسلم قیدیوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار کر اپنی بہادری کی ایک اور داستان رقم کردی اور فرضی انکاؤنٹروں کے سیاہ باب میں ایک اور ورق کا اضافہ کردیا۔ تلنگانہ کے ضلع ورنگل میں پولس نے پانچ مسلم قیدیوں وقار الدین، سلیمان، ذاکر ، امجد اور حنیف کو اس وقت ہلاک کردیا جب وہ انہیں ورنگل سے حیدر آباد پیشی کے لیے لے جارہی تھی۔ حسب معمول اس نے اپنی اس کارروائی کو جائز ٹھہرانے کے لیے ایک کہانی بھی گھڑ لی۔ ایک ایسی کہانی جس پر کسی کو یقین نہیں آئے گا اور جس کی تصدیق یا تردید کرنے کے لیے قیدی بھی زندہ نہیں بچے ہیں۔ پولس کے مطابق ان پانچوں قیدیوں کو ورنگل سینٹرل جیل سے حیدر آباد کی عدالت میں لے جایا جارہا تھا۔ راستہ میں وقار الدین نے پولس اہلکاروں سے قضائے حاجت کے لیے گاڑی روکنے کے لیے کہا۔ اس کی ہتھکڑی کھول دی گئی ۔ واپسی پر جب اسے دوبارہ ہتھکڑی لگائی جارہی تھی تو اس نے پولس اہلکار کی AK56 رائفل چھین لی اور دیگر چار قیدی دوسرے دو پولس اہلکار پر ٹوٹ پڑے اور ان سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران دیگر پولس اہلکاروں نے ان لوگوں پر گولیاں چلاکر انہیں ہلاک کردیا۔ وقار الدین اور ان کے ساتھیوں پر پولس پر حملہ کرنے، ایک کانسٹیبل کو ہلاک کرنے کے علاوہ اور بھی کئی سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا تھا۔ پولس کا یہ بھی الزام ہے کہ وقار الدین ایک بنیاد پرست تنظیم غلبہ اسلامی کا بانی اور درس گاہ جہاد وشہادت کا ممبر تھا۔ ایک ایسی تنظیم جس کا نام نہ پہلے سنا گیا اور نہ شاید اب آئندہ سنا جائے۔
            ہندوستان میں انکاؤنٹروں کو گھناؤنا کھیل نیا نہیں ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایمرجنسی کے بعد انکاؤنٹر ملک کے سیاسی حلقے میں بحث کا ایک اہم موضوع تھا۔ جتنا پارٹی کے دور حکومت میں سبک دوش جج جسٹس وی ایم تار کنڈے کی قیادت میں ایک انکوائری کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ اس کمیٹی نے آندھراپردیش پولس اور نکسلیوں کے مابین ہونے والے انکاؤنٹر کو بھی سنجیدگی سے لیا تھا۔ مارکنڈے کمیٹی نے ان انکاؤنٹروں میں ریاست کے رول کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ آندھرا پردیش حکومت اور پولس انکاؤنٹر کے نام پر منظم سفاکانہ قتل کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں انکاؤنٹر کی واردات میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اسے ایک خاص پس منظر میں ایک خاص فرقہ کو سبق سکھانے کے لیے انجام دینے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ عشرت جہاں، سہراب الدین، کوثر بی وغیرہ کے انکاؤنٹر سے لے کر بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر تک کی فرضی داستانیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مسلم نوجوانوں کو ترقی کی راہ سے الگ رکھنے اور پوری قوم کی شبیہ مسخ کرنے کے لیے دہشت گردی کے نام پر گرفتاریوں اور انکاؤنٹروں کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ یہ ریاستی دہشت گردی کی بد ترین شکل ہے۔ تلنگانہ کا حالیہ واقعہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ یہ انکاؤنٹر بھی سابقہ انکاؤنٹروں کی طرح فرضی ہے اور حقوق انسانی کی تنظیموں اور دیگر انصاف پسند افراد نے بجا طور پر اس پر سوالات کھڑے کئے ہیں۔ جس انداز میں انکاؤنٹر انجام دیا گیا اس سے واضح ہے کہ ایک منظم منصوبہ کے تحت انہیں قتل کیا گیا ہے۔ تمام قیدیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور وہ زنجیر کے ذریعہ سیٹ سے بندھے تھے۔ میڈیا میں بھی جو تصویریں آئی ہیں ان میں دیکھاجاسکتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ پولس کی اس اسٹوری پر کوئی احمق بھی یقین نہیں کرے گا کہ بیک وقت تمام قیدیوں نے تین پولس اہلکاروں پر حملہ کردیا اور دیگر پولس والوں کو جان مارنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ یہ ایسا ہی جیسے وہ جان دینے کے لیے بے تاب ہوں اور اس کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو پولس کو زبردستی خود کو ہلاک کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ ہتھکڑی میں جکڑے ان قیدیوں نے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی تو کیا دیگر پولس اہلکاروں کے پاس انہیں قتل کرنے کے علاوہ ان پر قابو پانے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ پولس کا دعوی ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولیاں چلائیں۔ لیکن یہ کیسا انکاؤنٹر تھا جو چلتی گاڑی کے اندر ہوا اور جس میں کسی پولس اہلکار کو خراش تک نہ آئی۔ وقار الدین کے وکیل کے مطابق اس نے چھ ماہ قبل عدالت میں درخواست دے کر اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ پولس ورنگل جیل سے حیدر آباد لانے کے دوران فرضی مڈ بھیڑ میں اس کا قتل کرسکتی ہے۔ اس کے والد نے بھی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور حقوق انسانی کمیشن کو دی گئی اپنی درخواست میں کہا تھا کہ وقار کو پولس سے جان کا خطرہ ہے۔ قتل سے ایک دن قبل یعنی ۶ اپریل کو وقار نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اسے حیدر آباد کی کسی جیل میں منتقل کردیا جائے اور ۷ اپریل کو عدالت اس سلسلہ میں اپنا حکم سنانے والی تھی کہ ٹھیک اسی دن اسے اور اس کے دیگر ساتھیوں کو قتل کردیا گیا۔ ان کے خلاف جاری مقدمات آخری مرحلہ میں تھے اور ماہ دو ماہ میں فیصلہ متوقع تھا۔ پولس کا یہ پرانا رویہ ہے کہ جب وہ ملزمین کو عدالتوں سے سزایاب نہیں کراپاتی ہے تو انہیں قتل کردیتی ہے اور ان قیدیوں کے ساتھ بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ یہ باعزت بری ہونے والے ہیں تو ان کا کام ہی تمام کردیا گیا۔
            یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ جب ملزم کو پولس اہلکاروں سے جان کا خطرہ تھا اور اس نے ۶ ماہ قبل ہی اس اندیشہ کا اظہار بھی کیا تھا تو پھر عدالت نے اس سلسلہ میں کوئی تحفظاتی کارروائی کیوںنہیں کی؟ چونکہ ملزم عدالتی تحویل میں تھے اس لیے ان کو بحفاظت جیل سے عدالت تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی عدالت ہی کی تھی۔ لہٰذا عدالت کو ان پولس اہلکاروں کے خلاف فورا کارروائی کرنی چاہئے جو قیدیوں کے قتل کر مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ملک بھر کی جیلوںمیں بند مسلم قیدیوں کی حفاظت کا انتظام عدالتوں کو کرنا چاہئے۔
            ملک کی جو ریاستیںمسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کی آڑ میں موت کی آغوش میں دھکیلنے کے حوالہ سے بدنام ہیں ان میں آندھرا پردیش بھی شامل ہے جس سے علیحدہ ہوکر تلنگانہ ریاست کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ لیکن اس نئی ریاست میں بھی مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں بدلا۔ حالانکہ موجودہ وزیر اعلی نے تلنگانہ تحریک کے دوران مسلمانوں سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے اور انہیں تحفظ کا یقین دلایا تھا۔ لیکن اب انہوں نے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ حالیہ انکاؤنٹر کے علاوہ وہاں سب خیر یت ہے۔ چند دنوں قبل حیدر علی نامی ایک مزدور کو چوری کے الزام میں تلنگانہ پولس نے بے دردی سے مار مار کر قتل کردیا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ وہاں جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اور ان کو ہراساں کئے جانے کا کھیل جس طرح کھل کر کھیلا جارہا ہے اس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تلنگانہ میں ایک اور گجرات تشکیل پانے والا ہے۔ پہلے سے ہی پولس مسلم اکثریتی علاقوں میں تلاشی کے نام پر داخل ہورہی ہے اور نوجوانوں کو حراست میں لے رہی ہے۔ سول لبرٹیز مانیٹرنگ کمیٹی نامی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا الزام ہے کہ تلنگانہ ریاست پولس ریاست بن گئی ہے۔ حیدر آباد میں ۵۳۱ افراد غیر قانونی طور پر محض شبہ کی بنیاد پر حراست میں لئے گئے ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ آندھرا اور تلنگانہ کے دیگر اضلاع میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے پولس کو دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
            اس انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیتے ہوئے متعدد سیاسی رہنماؤں، ملی تنظیموں اور حقوق انسانی کارکنان نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور اعلی سطحی جانچ کے ساتھ ہی لواحقین کو معاوضہ دینے اور خاطی پولس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن کیا اس کا کوئی نتیجہ بھی سامنے آئے گا؟ ہر انکاؤنٹر کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے لیکن پولس کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پولس کا جبر دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ انہیں اپنے سیاسی آقاؤں کی طرف سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ گجرات میں ہونے والے فرضی انکاؤنٹروں کا اسکرپٹ لکھنے والے بد نام زمانہ پولس افسران کی ضمانت پر رہائی اور حکومت کے ذریعہ ان کی تکریم سے بھی پولس میں موجود فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ پولس کو قابو میں رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن حکومت نے اسے ظلم وجبر روا رکھنے کا لائسنس دے رکھا ہے۔ اس لیے اس ظلم وجبر کے خلاف عوامی بیداری اور مسلسل جد وجہد کا آغاز ضروری ہے۔