ہفتہ، 28 دسمبر، 2013

پٹنہ بم دھماکہ اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں

پٹنہ بم دھماکہ اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں
سوال صرف گرفتاریوں پر نہیں ‘دھماکوں پر بھی اٹھ رہے ہیں

                فسادات اور دہشت گردی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے مسلمانوں کی آزمائشوں کا سلسلہ ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ آزادی کے بعد سے ناروا سلوک کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف ہنوز جاری ہے بلکہ اس میںمزید شدت آگئی ہے۔ کہنے کو تو یہاں آئین کی حکمرانی ہے جو بلا تفریق مذہب وملت اور رنگ ونسل سب کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے اور کسی طرح کی تفریق کی اجازت نہیں دیتا لیکن عملاً مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور منظم انداز میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ اس ملک کے مسلمان کبھی سر اٹھا کر نہ جی سکیں اور دوسرے درجہ کے شہری بننے پر مجبور ہوجائیں۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے فرقہ پرست طاقتوں ِ ،خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کے مثلث نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔
                یہ بات واضح ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی شبیہ داغدار کرنے اور ان کے نوجوانوں کی گرفتاریوںکے لیے منظم منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور ان علاقوںکو بطور خاص نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں عام طور پر مسلمان خوش حالی کی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ گذشتہ دنوں پٹنہ کے گاندھی میدان میں بی جے پی کی ہنکار ریلی کے دوران ہونے والے بم دھماکوں نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کردی ہے اور جس انداز میں مقامی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے مسلم نوجوانوں کی دھر پکڑ شروع کردی ہے اس نے پھر مسلمانوں کی نیندیںحرام کردی ہیں۔ یہ دھماکہ اس لحاظ سے اپنی نوعیت کا پہلا دھماکہ ہے کہ اس میں واقعہ کے فورا بعد پولس نے سازش کے اہم ملزمین کو گرفتار کرلیاجنہوں نے اعتراف جرم بھی کرلیا اور انہیں یہ بتانے میں بھی دیر نہیں لگی کہ ان دھماکوں کے پیچھے انڈین مجاہدین کا ہاتھ ہے۔پولیس کے بیانات کے مطابق گرفتار شدگان کی اطلاع کی بنیاد پر دیگر کئی نوجوانوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے اور بقیہ ملزمین کی گرفتاری کے لیے چھاپہ ماری جاری ہے، اس کے ساتھ ہی مہا بودھی مندر بلاسٹ کا معاملہ بھی سلجھ گیا کہ اسی گروپ نے بودھ گیا بلاسٹ بھی کیا تھا، لاج میں چھاپہ ماری کے دوران بموں کے علاوہ کئی مذہبی مقامات کے نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد کئی مقامات پر حملے کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ واضح ہوکہ اس بار دھماکوں کی سازش کا مرکز دربھنگہ اور مدھوبنی کے بجائے رانچی قرار دیا گیا لیکن گرفتار شدگان میں دربھنگہ کے نوجوان بھی شامل ہیں۔
                ملک بھر میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد ہونے والی گرفتاریوں پر مسلمانوں اور انصاف پسند عوام کی جانب سے سوال اٹھائے گئے ہیں لیکن پٹنہ دھماکوں میں سوال صرف گرفتاریوں پر نہیں بلکہ دھماکوں پر بھی اٹھ رہے ہیں۔ پولیس اور میڈیا نے بھلے ہی حسب معمول اپنے طور پر عدالتی عمل شروع ہونے سے قبل ہی پکڑے گئے نوجوانوں کا جرم ثابت کردیا ہے لیکن اس بار ان کی تھیوری کی تصدیق بھولے بھالے لوگوں کے لیے بھی مشکل ہورہی ہے۔ کئی سوالات ایسے ہیں جن کا جواب پائے بغیر اسے نام نہاد انڈین مجاہدین (اگر اس کا واقعی وجود ہے) کی کارستانی قرار دینا آسان نہ ہوگا۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ سیکوریٹی کے اتنے سخت انتظام کے باوجود دہشت گردوں کو یہ موقع کیسے ملا کہ نہ صرف یہ کہ بم لے کر اندر داخل ہوئے بلکہ پے در پے چھ دھماکے کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ پھر یہ کہ مسلسل دھماکے ہوتے رہے نہ کسی قسم کی افرا تفری ہوئی اور نہ کوئی بھگڈر مچی اور نہ ہی ریلی میں کوئی رخنہ پڑا۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی نے ایک گھنٹہ تک دھواں دھار تقریر کی لیکن اس دوران ایک بار بھی ان دھماکوں کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی دھماکوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والوں کے لیے ہمدردی کے چند کلمات کہے جبکہ چار پانچ دنوں بعد ان کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے پھر بہار کا دورہ کیا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ یہ دھماکے خود فرقہ پرستوں نے کرائے ہیں تاکہ اس کی بنیاد پر فرقہ وارانہ خطوط پر سماج کو تقسیم کر کے اپنے لیے اقتدار کی راہ آسان بنائی جائے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ دھماکہ جو بھی کرنے اس کا الزام انڈین مجاہدین کے سر ہی جائے گا۔ اور شاید اسی لیے اس نام نہاد انڈین مجاہدین کا عفریت پیدا بھی کیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ریلی کے لیے حکومت کے حفاظتی انتظامات کے علاوہ خود بی جے پی نے بھی ایک پرائیویٹ سیکوریٹی ایجنسی کی خدمات حاصل کر رکھی تھی۔ اس معاملہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دوران تقریر نریندر مودی نے کہا کہ کچھ لوگوں نے ان کے نام کی سپاری لے رکھی ہے تو دوسری جانب بی جے پی نے ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے آئی بی کے الرٹ کے باوجود سیکوریٹی کے پختہ انتظامات نہیں کئے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آئی بی نے یہ الرٹ بھیجا تھا یا یہ بات اس لیے دہرائی جارہی ہے کہ تاکہ خفیہ ایجنسیاں انڈین مجاہدین والی اپنی لائن پر قائم رہیں اور ہندو دہشت گرد تنظیموں کی طرف ان کی توجہ نہ ہو۔ البتہ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ مئی میں گجرات آئی بی نے ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو بتایا تھا کہ ریلی میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے مودی کی ریلی میں کم طاقت کے دھماکے کرنے کا اندیشہ ہے۔ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ اس الرٹ کے باوجود ہماری خفیہ ایجنسیوں کی نگاہیں اس جانب کیوں نہیں اٹھ رہی ہیں اور دیگر سیاسی جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟
                اس بار دھماکوں کی سازش کا مرکز رانچی قرار دیا گیا ہے لیکن گرفتاریوں کا سلسلہ بہار کے دربھنگہ ، مظفر پور اور موتیہاری تک دراز ہے اور اس کا اثر بہار کی طرح پورے جھارکھنڈ کے مسلمانوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ دربھنگہ سے گرفتار مہر عالم کی صورتحال غیر یقینی ہے۔ اسے اس کے اہل خانہ کے ذریعہ گیا بلایا گیا لیکن پٹنہ میں اسے روک کر اس کے اہل خانہ کو واپس جانے کے لیے کہا گیا ۔ پھر خبر دی گئی کہ مہر عالم مظفر پور سے این آئی اے کو چکمہ دے کر فرار ہوگیا پھر آنا فانا چند گھنٹوں میں اسے کانپورمیں دھر دبوچا گیا۔ اس کے اہل خانہ کو ۳؍ نومبر کو اطلاع دی گئی کہ مہر عالم کو چھوڑ دیا گیا ہے لیکن یہ تحریر لکھے جانے تک وہ گھر نہیں پہنچا ہے۔ دریں اثنا جھارکھنڈ پولیس کے مطابق اس نے رانچی کے ایک لاج سے ۹؍ بم برآمد کئے ہیں اور یہ بم ویسے ہی ہیں جن کا استعمال پٹنہ میں کیا گیا۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے مطابق شمالی بہار کے سمستی پور ریل ڈویزن کے مختلف اسٹیشنوں پر بھی مبینہ خطروں کے پیش نظر سیکوریٹی سخت کردی گئی ہے۔ اس کی خبر میڈیا بطور خاص ہندی میڈیا میں جس طرح دی گئی ہے اس سے سنسی پھیل گئی ہے اور ہر داڑھی ٹوپی والا مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہے۔
                بہر حال اب نہ تو دہشت گردانہ کارروائی نئی بات ہے اور نہ اس کے ضمن میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں میں کچھ نیا ہے۔ نئی بات صرف یہ ہے کہ یہ بہار کی پر امن فضا کو بگاڑنے کی فرقہ پرستوں کی سازش ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے گا ۔ جس طرح ان دھماکوں کو مظفر نگر فساد کے رد عمل کے طور پر پیش کئے جانے کی کوشش ہورہی وہ فرقہ وارانہ یکجہتی کو ختم کرنے کی منظم سازش ہے۔ اس سے قبل مہابودھی مندر میں ہونے والے دھماکوں کے تار بھی میا نمار میں بودھوں کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل عام سے جوڑے گئے تھے۔ فرقہ پرست طاقتیں مذہبی منافرت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے پیش نظر بہار کی پر امن فضا میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ یہ سارا کھیل مرکز کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے کھیلا جارہا ہے۔ پٹنہ جیسے دھماکے کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں بطور خاص فرقہ پرستوں کے ذریعہ لاشوں کی سیاست کی روایت بہت قدیم ہے۔ جنتا دل متحدہ اور بی جے پی کی طلاق سے ریاست میں نئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور اس وقت فرقہ پرستوں کی ساری توجہ بہار پر ہے۔ لالو پرساد کے میدان سے غائب ہونے کے سبب ان کے حوصلے مزید بلند ہیں۔ نیش کمار نے ۱۷؍برسوں تک فرقہ پرستوں کے ساتھ وفاداری نبھائی تو یہ سوچا سمجھا فیصلہ تھا اور آج ترک تعلق بھی بغیر سوچے سمجھے نہیں کیا ہے۔ سیاست کے کھیل بڑے نرالے ہوتے ہیں۔ لیکن ریاست کے وزیر اعلی کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہار کے پر امن ماحول کو فرقہ پرستی کے عفریت سے بچائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بے قصوروں کی اندھا دھند گرفتاریوں پر لگام لگے۔

                موجودہ وقت مسلمانوں کے لیے بڑا ہی پر آشوب ہے۔ دہشت گردانہ واقعات ہوں یا فرقہ وارانہ فسادات ان کا فائدہ کوئی بھی اٹھاسکتا ہے لیکن ان کی مار مسلمانوں کو ہی جھیلنی پڑتی ہے۔ اس لیے انہیں نہ صرف ہوشیار رہنا ہوگا بلکہ آگے بڑھ کر ایسے اقدام کرنے ہوں گے جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول قائم ہو۔ ملک اور ریاست کی اکثریت سیکولر ہے۔ مسلم قائدین کو سیکولر افراد کے ساتھ مل کر فرقہ پرستی کے ناگ کو کچلنے کی سعی کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی سیاسی جماعتوں پر واضح کرنا ہوگا کہ کوئی بھی جماعت انہیں اپنی جاگیر نہ سمجھے۔ ہماری وفاداری اسی جماعت کے ساتھ ہوگی جو ہمیں تحفظ فراہم کرسکے اور ہمارے مفادات کی نگرانی کرسکے۔ غرض کہ موجودہ صورتحال سے نجات اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب مسلمان حالات کو سمجھیں ، فرقہ پرستوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور بصیرت اور حکمت عملی سے اپنے مسائل کے حل کے لیے کمر بستہ ہوجائیں ۔ یہ کوئی دوسرا نہیںکرے گا لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسا کریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ بربادی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔

جمعہ، 27 دسمبر، 2013

انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل

انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل
کانگریس نے مسلمانوں کو پھر فریب دیا
                مسلمانوں کے تئیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوچ اور اس کا رویہ جگ ظاہر ہے ۔ اس کا تو خمیر ہی مسلم دشمنی سے تیار ہوا ہے ۔ مسلمانوں کے قتل وخون سے اسے آکسیجن ملتا ہے اور نفرت کی سیاست کے ذریعہ یہ اپنے لئے حصول اقتدار کی راہیں ڈھونڈتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے خود بی جے پی بھی جھٹلانا نہیں چاہتی۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخاب میں مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار اسی لئے بنایا گیا کہ وہ تشدد پسند اور فرقہ پرست ذہنوں کی پسند ہیں ۔ اگر بی جے پی مذکورہ خصوصیات سے عاری ہوجائے تو اس کے لئے اپنے وجود و بقا کا سوال پیدا ہوجائے گا۔ جب کہ اس کے برعکس کانگریس خود کو سیکولرزم کا علمبردار گردانتی ہے اور نظریاتی طور پر اس کے سیلوکر ہونے سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے ایجنڈے کی بنیاد سیکولرزم پر ہے اور اسی حوالے سے اسے مسند اقتدار نصیب ہوتا ہے ۔ ملک کی ان دوبڑی سیاسی جماعتوں کے اسی نظریاتی فر ق کی وجہ سے ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہمیشہ غیر مشروط طور پر اپنے ووٹوں سے کانگریس کو اقتدار کے مرکز تک پہنچاتی رہی ہے ۔ لیکن اس کے عوض اس جماعت نے اس دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی داستان بے حد کرب انگیز ہے ۔ اپنے طویل دور اقتدار میں اس نے مسلمانوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے اور انہیں اس طرح بے دست و پا کردیا کہ آزادی کے ۶۶ سال بعد بھی انہیں ہمہ دم اپنے جان و مال کے تحفظ کی فکر ستاتی رہتی ہے  پھر بھی وہ اسی کی طرف ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اس صورت حال سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔
                مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا سب سے مؤثر اور آزمودہ ہتھیار فرقہ وارانہ فسادات ہیں ۔ ان کے ذریعہ جہاں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا ہے وہیں تمام سیاسی جماعتیں ان سے اپنے سیاسی فوائد حاصل کرتی ہیں۔ اگر فرقہ پرست طاقتیں ان کے ذریعہ ہندو وٹ متحد کرتی ہیں تو کانگریس سمیت خود کو سیکولر کہنے والی دیگر جماعتیں خود کو مسلمانوں کے مسیحا کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی فوائد کی خاطر فسادات کی منتظر رہتی ہیں۔ گویا فسادات کا نقصان تنہا مسلمانوں کو جھیلنا پڑتا ہے لیکن اس کا فائدہ سبھی اٹھاتے ہیں۔ اس لئے کوئی سیاسی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ فسادات کا سلسلہ ختم ہو ۔ مرکزی وزارت داخلہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے ۴۷۳۸ ؍واقعات پیش آئے جن میں ۵۰۲۲ ؍افراد ہلاک اور ۶۶۸۲۸؍افراد زخمی ہوئے ۔ سال رواں میں ملک بھر میں ۴۷۹؍ فسادات ہوئے جن میں ۱۰۷ ؍افراد ہلاک ہوئے ۔ اس سال یہ واقعات سب سے زیادہ اتر پردیش میں ہوئے ۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح فسادات اس ملک کا مقدر بن چکے ہیں لیکن ان کے سد باب کے لئے آج تک کوئی مثبت اقدام نہیں کیا گیا ۔ یہ بات بھی طے ہے کہ ان فسادات میں یکطرفہ طور پر مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہے، ان کی جانیں جاتی ہیں ، املاک تباہ ہوتی ہیں، ان کے گھر بار جلائے جاتے ہیں اور ان پر ہی فساد بھڑکانے کا الزام عائد کرکے انہیں ہی داخل زنداں بھی کیا جاتا ہے۔ فسادات کے داغ تمام سیاسی جماعتوں کے دامن پر لگے ہیں اگرچہ گجرات کا فساد بی جے پی کی حکومت میں ہوا لیکن اس کے علاوہ جتنے بھی فسادات ہوئے وہ سب کانگریس کی حکومت میں ہوئے جبکہ حالیہ مظفر نگر فسادات خود کو مسلمانوں کا مسیحا قرار دینے والے ملائم سنگھ کے انتہائی ناتجربہ کار لاڈلے کی ریاست میں ہوئے۔
                چونکہ تمام سیاسی جماعتیں فسادات کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور اسی لئے ان کے سدباب کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ مسلمان جب روتے ہیں ، گرگراتے ہیں ، امن و سلامتی اور تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں اور سیکولر جماعتوں سے دل برداشتگی کے اس مقام پر پہونچ جاتے ہیں جہاں ان جماعتوں کو ان کے ووٹوں سے محرومی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے تو یہ جماعتیں انہیں پھر فرقہ پرستوں کا خوف دلاکر یا ایسے خوشنما وعدوں کے ذریعہ زیر کرلیتی ہیں جو کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں سب سے دوغلا رویہ کانگریس کا رہا ہے ۔بھلے ہی وہ خود کو مسلمانوں کا ہمدرد بتاتی ہو لیکن اس نے ان کے ساتھ وہ سلوک کئے ہیں جو کوئی دشمن بھی کیا کرے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں کو اس مقام تک پہنچانے میں جہاں وہ سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور سیاسی طور پر دلتوں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں، تنہا کانگریس ذمہ دار ہے ۔ اسے صرف مسلمانوں کے ووٹوں سے مطلب ہے اور آج تک وہ محض جھوٹے وعدوں کے سہارے ان کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہے ۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کرسکتی لیکن شاید اس سے زیادہ اسے اس بات پر اعتماد ہے کہ مسلمان بھی اسے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ اس لئے وعدہ خلافیاں کرنے میں اسے کوئی تامل نہیں ہوتا ہے ۔ بابر ی مسجد سانحہ کے بعد جب مسلمانوں نے کانگریس سے نظریں پھیر لیں تو وہ حاشیہ پر چلی گئی لیکن پھر خوشنما وعدے کر کے اس نے اپنے روایتی ووٹ بینک یعنی مسلمانوں کو رام کر ہی لیا۔ جن وعدوں کے سہارے کانگریس دوبارہ برسر اقتدار آئی ان میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل بھی شامل تھا ۔ اس نے ۲۰۰۴ء کے پارلیامانی اتنخاب کے اپنے منشور میں اس بل کے لانے کا وعدہ کیا تھا اس کے ذریعہ ایک ایسے موثر فساد مخالف قانون لانے کی بات کہی گئی تھی جو نہ صرف فسادیوں کو کیفر کردار تک پہنچاتا بلکہ وہ سیاست داں اور بیورو کریٹس بھی اس کی زد سے نہیں بچ پاتے جن کے اشارے پر یا جن کے تعاون سے ایک خاص فرقہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر پارلیامنٹ کے ذریعہ اس بل کو منظور کرکے قانونی شکل دے دی جاتی تو یقینا یہ فسادات کی روک تھام کے لئے موثر ثابت ہوتا لیکن  ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔صورت حال یہ ہے کہ کانگریس کی سربراہی والی مرکزی حکومت اپنی دوسری معیاد ختم کرنے جارہی ہے لیکن اس بل کو پارلیامنٹ میں پیش کیا جانا نصیب نہ ہوا۔ مظفر نگر فسادات کے بعد ایک بار پھر یہ امید پیدا ہوئی کہ مجوزہ بل پارلیامنٹ کے آخری اجلاس میں پیش کردیا جائے گا ۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ اور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے خود مظفر نگر جاکر فساد زدگان سے جس طرح اظہار ہمدردی کیا اس سے بھی یہ توقع بڑھ گئی کہ شاید حکومت اب اسے پارلیامنٹ سے منظور کر اہی لے گی ۔ سماجی اور ملی تنظیموں نے بھی شدت کے ساتھ اسے منظور کرانے کا مطالبہ کیا ، کابینہ نے بھی اسے منظوری دے دی ، مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے ۔ رحمن خان تو مسلسل یقین دہانی کراتے رہے کہ سرمائی اجلاس میں یہ بل پیش کردیا جائے گا۔ ان سب کے باوجود کانگریس نے ایک بار پھر مسلمانوں کو فریب دیا اور اس طرح گویا انہیں پیغام بھی دے دیا کہ اگر انہیں یہ قانون چاہئے تو ایک بار پھر کانگریس کو مرکز میں اقتدار میں لانا ہوگا۔ اسی سرمائی اجلاس میں برسوں سے تعطل کا شکار لوک پال بل تو آناً فاناً منظور ہوگیا لیکن انسداد تشدد بل کو پیش کرنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور اجلاس وقت مقررہ سے دو دن قبل ہی ختم کردیا گیا اور اب م۔ افضل جو خیر سے مسلمان ہی ہیں اور کانگریس کے ترجمان ہیں اپنے مسلمان بھائیوں کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ حکومت اس بل کے تئیں اب بھی سنجیدہ ہے اور ضرورت پڑی تو اس کے لئے خصوصی اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔’’ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔ اگر حکومت اتنی ہی سنجیدہ تھی تو اس نے اجلاس کی مدت میں توسیع کے بجائے دو دن قبل ہی اسے کیوں ختم کردیا اور کم از کم اسے پیش کیوں نہیں کر دیا ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ بل پیش کردیا جاتا تو منظور بھی ہوجاتا ۔ اس پر اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے پہلے ہی اس میں ترمیم کرکے ہلکا کردیا گیا تھا ۔ اگر بی جے پی اور ایک دو جماعتیں اس کی مخالفت کرتیں تو بھی یہ بل پاس ہوسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس چاہتی ہی نہیں تھی کہ بل پاس ہو بلکہ اسے خطرہ تھا کہ بل پاس ہوجائے گا اس لئے اس نے اسے پیش ہی نہیں کیا۔ یوں بھی اگر اس بل کی مخالفت ہوتی تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہوتا۔ اس سے قبل بھی اپوزیشن حتی کہ اپنے اتحادیوں کی زبردست مخالفت کے باوجود اسی حکومت نے امریکہ سے جوہری معاہدہ اور ایف ڈی آئی سے متعلق قوانین منظور کرالئے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے بل پیش نہیں کیا جاسکا عذر لنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ کانگریس کی نیت ہی اس بل کو منظور کرانے کی نہیں تھی۔ اسے مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ سے زیادہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کی فکر ہے ۔ اسی لئے تو اس نے سپریم کوٹ کے حالیہ فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کردی ہے۔
                اس حقیقت کے باوجود کہ مسلمانوں کی حمایت کے بغیر کانگریس برسر اقتدار نہیں آسکتی آخر وہ ان کے ساتھ دھوکہ اور فریب کیوں کرتی ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ خود کو لوک پال بل منظور کرانے کے لئے مجبور پاتی ہے لیکن انسدا د فرقہ وارانہ تشددبل اسے اہم نہیں لگتا؟اس کی وجہ ظاہر ہے اور وہ یہ ہے مسلمانوں نے خود کو اس کے ہاتھوں گروی رکھ لیا ہے ۔ وہ یہ اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ مسلمان بھلے ہی اسکے خلاف اپنی زبانی ناراضگی ظاہر کرتے رہیں لیکن جب ووٹ دینے کا موقع آئے گا تو لامحالہ مودی کے مقابلے میں اسے ہی ترجیح دیں گے ۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ مسلم رہنمائوں کو خریدا بھی جاسکتا ہے، وہ مسلمانوں میں پائے جانے والے اختلافات سے بھی اچھی طرح واقف ہے ، اسے پتہ ہے کہ اگر ایک طبقہ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوا تو دوسرے طبقہ سے سودے بازی کی جاسکتی ہے ۔ وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہے ۔ اس نے چند چرب زبان مسلمانوں کو پارٹی میں ترجمان کا درجہ دے رکھا ہے  جو مسلم عوام میں جاکر اور انہیں فرقہ پرستوں کا خوف دلاکر یہ باور کرائیں گے کہ کانگریس ان کی مجبوری ہے ۔ کانگریس کے ایک اور مسلم ترجمان نے تو ایک مجلس میں ببانگ دہل کہا تھا کہ مسلمان کانگریس کو اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ یہ ان کی مجبوری ہے  اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مسلمان کانگریس سے نفرت کے باوجود عنان حکومت فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں نہیں سونپنا چاہتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کب تک برقرار رہے گی اور اس کا تدارک کیا ہے ؟آخر مسلمان کب تک خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑے رہیں گے ؟اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں ۔ انہیں متبادل تلاش کرنا ہوگا ، اگر دیگر کمزور طبقات اپنے اتحاد کے ذریعہ حکومتوں سے اپنے مطالبات تسلیم کرواسکتے ہیں تو مسلمان ایسا کیوں نہیں کر سکتے ۔ کانگریس کی غلامی سے نجات پانے کے لئے مسلمانوں کو کوئی نہ کوئی سبیل ڈھونڈنی ہی ہوگی اور اگر ملی قیادت انانیت کے خول سے باہر نکل کر اتفاق و اتحاد کا ثبوت دے اور ملت کے وسیع تر مفاد کو مقدم رکھے تو یہ ناممکن نہیں ہے۔ عام انتخاب کی آہٹ شروع ہوگئی ہے اس لئے جس قدر جلد ممکن ہو ملی قیادت پورے اخلاص کے ساتھ اپنے حقو ق کی لڑائی کے لئے تیار ہوجائے ۔ (مضمون نگار ’’الہدیٰ‘‘ دربھنگہ کے مدیر ہیں)   
٭٭٭

ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

عید مبارک

عید مبارک
                                                                       
            عید کا دن مسلمانوں کے لئے بے پایاں مسرت وشادمانی کا دن ہے۔ مسلسل ایک ماہ تک رمضان المبارک کے فرض روزوں کی تکمیل کے بعد مسلمان بے حد خوش ہوتے ہیں۔ یہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے ماہ مبارک کے روزوں کی تکمیل کی توفیق بخشی اور یہ اس کے فضل سے ہی ممکن ہوا کیونکہ مسلسل ایک ماہ تک بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنا اور بعض مباح اور جائز چیزوں کو ترک کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی، لیکن اللہ کے حکم پر مسلمانوں نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف بھوک وپیاس کی شدت برداشت کی بلکہ دیگر عبادات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اللہ کی مقدس کتاب قرآن مجید سے اپنے رشتہ کو استوار کیا اور اس سے اپنے رشتے کی تجدید کی تو بیشک ایسے لوگوں کے لئے یہ دن انتہائی وخوشی ومسرت کا دن ہے اور ایسے لوگوں کے لئے اس دن خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔
            یہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ اللہ نے جو فریضہ مقرر کیا تھا اس کی ادائیگی کی کوشش کامیاب ہوئی۔ اللہ کو راضی کرنے کا موقع ہاتھ آیا ۔ رمضان المبارک میں ہی اللہ رب العزت نے قرآن مجید نازل فرمایا ، خوشی اس بات کی ہے کہ اس مبارک مہینہ میں اس کتاب مقدس سے اپنا تعلق تازہ اور قوی بنانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ تلاوت کا اہتمام کیا گیا، تراویح ادا کی گئی، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، نیکیاں سمیٹنے اور برائیوں سے حتی الامکان بچنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ کی اطاعت اور اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کا موقع نصیب ہوا۔ عید کے دن اسی توفیق ارزانی پر اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے اور جنہیں یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور یہ سعادتیں میسر ہوتی ہیں وہ اپنی خوشی ومسرت کے اظہار کے طور پر اللہ کے سامنے اپنی پیشانیاں جھکادیتے ہیں اور اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھاکہ اہل مدینہ دو تہوار نوروز اور مہرجان بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے تمہیں ان دو تہواروں سے بہتر دو تہوار مرحمت فرمائے ہیں ۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔
            عید الفطر مسلمانوں کے لئے انتہائی اہم دن ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے عیدین کی مشروعیت کی حکمت وفوائد کے سلسلہ میں فرمایا ہے کہ” ہر ملت کے لئے ایک ایسا مظاہرہ اور اجتماع ضروری ہوتا ہے جس میں اس کے سب ماننے والے جمع ہوں تاکہ ان کی شان وشوکت اور کثرت تعداد ظاہر ہو“ گویا اس کی مشروعیت میں ایک نکتہ یہ بھی پوشیدہ ہے کہ اس مسلمانوں کی شان وشوکت ظاہر ہوتی ہے۔ کیونکہ مسلمان اپنی آبادیوں سے باہر نکل کر بڑی تعدادمیں جمع ہوتے اور دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں جس سے ان کی کثرت تعدا داور شان وشوکت کا مظاہر ہ ہوتا ہے اور دوسری قوموں پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
            عید الفطر کے دن کے تعلق سے ایک بے حد اہم عبادت صدقۃ الفطر کی ادائیگی بھی ہے۔رمضان کے اختتام پر ہر چھوٹے بڑے ، مرد عورت، آزاد، غلام کی طرف سے صدقة الفطر ادا کرنا واجب ہے۔ حدیثوں میں اس کی صراحت آئی ہے۔ یہ صدقة الفطر ان ہی افراد کی طرف سے ادا کرنا ہے جو رمضان کے اختتام اور ہلال عید کے وقت موجود ہوں با حیات ہوں۔ صدقة الفطر کے بھی بہت سے فوائد بیان کئے گئے ہیں ۔ ایک فائدہ تو یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو نقص یا کمی رہ جاتی ہے اس کی تلافی ممکن ہوجاتی ہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کے وہ افراد جو اپنی کم مائیگی مفلوک الحالی اور معاشی اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے عام لوگوںکی طرح عید الفطر کے موقع پر مظاہر ہ نہیں کرسکتے ، صدقة الفطر سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہوجاتی ہے اور وہ بھی اس دن کو خوشی ومسرت کے ساتھ گزارسکتے ہیں ،جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دن صرف امیر اور خوش حال لوگوں کے لئے نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے خوشی و مسرت کے اظہار کا دن ہے اور اس طرح امیر وغریب اور اعلی وادنی کی خلیج ختم ہوجاتی ہے اور انما المؤمنون اخوہ کی عملی تصویر نظر آتی ہے۔
            اسلام کی تمام عبادت میں اجتماعیت پربے حد زور دیا گیا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے یہ سبق بھلادیا ہے اس پر توجہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ آج ملت اسلامیہ ایسے حالات میں عید منانے جارہی ہے کہ وہ پوری دنیا میں عدم استحکام کا شکار ہے۔ باہمی اختلاف وانتشار نے ملت کو اس قدر کمزور بنادیا ہے کہ دوسری قومیں جا بجا اس کے افراد کو نشانہ بنارہی ہیں بلکہ اس کی مملکتوں پر بھی غلبہ وتسلط قائم کر رہی ہیں۔ اسلام کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں اور اس کو مٹانے کے لئے اس کے اہم مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو ایٹم بم سے اڑانے کا ناپاک خفیہ منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ مصر کی وہ حکومت جو مسلسل جد وجہد کے بعد ایک انقلاب بن کر سامنے آئی تھی محض اسرائیل و امریکہ کے سامنے جبہ سائی نہ کرنے کی وجہ سے متزلزل ہوگئی۔ خود ہمارے ملک میں مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بن کر جینے کے لئے مجبور کرنے کے سو جتن کئے جارہے ہیں۔ فسادات کے ذریعہ ان کے جان ومال کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ نام نہاد دہشت گردی کے نام پر ان کے بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے، ان کا کیریر برباد کیا جارہا ہے، ان کا قتل ہورہا ہے اور پوری قوم کی شبیہ مسخ کرنے اور اسے ذلیل ورسوا کرنے کی سازشیں زور وشور سے جاری ہیں۔اس وقت جن لوگوں کو دہشت گردی کے نام پر نشانہ بناکر گرفتار کیا گیا ہے ذرا غور کیجئے کہ آج جب ہم اور ہمارے بچے عید کی خوشیوں سر شار ہورہے ہیں، ان کے والدین پر کیا بیت رہی ہوگی ۔ اپنے بیٹے کے غم بہنے والے آنسوؤں کو پوچھنے والاکون ہوگا ان کے بچے اپنے والد کی حسرت میں دروازوں کو بے یار ومدگار تک رہے ہوں گے۔ ان کی بیوی اپنے کھوئے ہوئے شوہر کی کے غم میں نڈھال عید کے ساری خوشیوں سے بے پروا ہوگی۔ لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان تمام خطرات کے باوجود پوری ملت جمود وتعطل کی شکار ہے۔ مسلم حکمرانوں اور سیاست دانوں کی بے حسی کے علاوہ مسلم عوام بھی بیداری کا ثبوت نہیں دے رہے ہیں۔ عام مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ باہم دست وگریباں ہیں، اپنے آپ میں مگن اور اپنا زیادہ وقت لا یعنی باتوںمیں گزارتے ہیں۔ عید کے موقع پر ہمارے اندر ملت کے تئیں فکر مندی کے آثار نظر نہیں آتے ۔ ہماری عید کی تیاریاں اسراف کی حدوں میں داخل ہوجاتی ہیں، مادی عیش وعشرت اور جسمانی لذت وخوشی کے حصول میں ہم روحانی لذتوں سے محروم ہورہے ہیں، ہم اپنی تقریبات اور دعوتوں میںجو فضول خرچیاں کرتے ہیں اگر انہیں کسی قدر سادگی سے انجام دیں اور ان بچے ہوئے پیسوں کو مسکینوں ،یتیموں، بیواؤں، فسادات میں لٹے پٹے لوگوں اور نام نہاد دہشت گردی کے نام پر گرفتار شدگان کی رہائی کے لیے خرچ کریں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے صرف کریں تو یقینا ہماری عید کی لذتیں دوبالا ہوجائیں گی اور ایسا خوشگوار سماجی انقلاب رونما ہوگا جس کے اثرات بے حد نتیجہ خیز ہوں گے اور ملی وحدت کا شاندار مظاہرہ بھی ہوگا۔
            کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔ کھلے عام ملت اسلامیہ کے افراد کی تذلیل وتوہین کی جارہی ہے، کلام الٰہی کی بے حرمتی کے واقعات پیش آرہے ہیں ، رسول اکرم ﷺ کی شان مین گستاخی کی جارہی ہے لیکن ہم اب بھی خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ صورت حال کسی ایک جگہ کے مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ مسلمان جہاں جہاں آباد ہیں کم وبیش ان کی حالت یہی ہے۔ لہٰذا حالات کا تقاضہ ہے کہ مسلمان جہاں کہیں آباد ہوں، اسلام پرعمل پیرا ہوں، اللہ کی کتاب سے اپنا تعلق مستحکم کریں، اسلام کے تقاضوں پر دھیان دیںاور یہ بات یاد رکھیں کہ اتحادبین المسلمین وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے اور ہمیں عیدین میں یہی پیغام ملتا ہے۔
            آئیے اس عید کے موقع پر ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے خود کو عید کی سچّی خوشی کا حقدار بنایا ہے یا نہیں ؟ دیکھیں کہ عید ہمارے لئے مادی خوشی کا ایک موقع ہے یا روحانی مسرت وشادمانی کا؟ عید کی خوشی کا تعلق، اللہ کی رضا کے حصول اس کی اطاعت وفرمابرداری اور اس کے بندوں کے ساتھ محبت، مواسات اور غم گساری سے ہے۔ اگر ہم نے اپنی خواہشات کو رب العالمین کے حکم کے تابع رکھنے کا جذبہ پیدا کرلیا ہو، اس کی کتاب سے اپنا رشتہ مستحکم کرلیا ہو، دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر اپنے کمزور اور مفلوک الحال بھائیوں کی فاقہ مستی کی کڑواہٹ کو محسوس کرنا سیکھ لیا ہو، ہمارے دلوں کو دیگر مسلمانوں کی مصیبتیں تڑپانے اور بے قرار رکھنے لگی ہوں اور ہم نے اجتماعیت اور اتحاد بین المسلمین کا سبق سیکھ لیا ہو تو بلا شبہ ہم عید کی سچی مسرتوں سے سرشار ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالی عید کے اس دن کو پوری ملت اسلامیہ کے لئے میمون ومبارک بنائے۔ آمین                                                                                
٭٭٭


مودی کو بچائیے کہ یہ مرکر زیادہ خطرناک ہوگا

مودی کو بچائیے کہ یہ مرکر زیادہ خطرناک ہوگا

            اس وقت عالمی سطح پر ظلم و جبراور تشدد اپنے عروج پر ہے جس کے نتیجہ میں قتل وخون اور غارت گری کا رقص برہنہ جاری ہے۔ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے اور نہتے ، معصوم اور بے قصور افراد کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ خو دہمارے ملک عزیز ہندوستان میں فسادات اور دہشت گردی کے نام پر ایک خاص فرقہ کے لوگوں کی نسل کشی کی جاری ہے اور یہ کام حکومتوں کی سر پرستی میں انجام دیا جارہا ہے۔ یہ وہ بد نصیب فرقہ ہے جو اپنے تحفظ کے لئے حکومتوں سے فریاد کرتا رہتا ہے لیکن پھر بھی اسے تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ یہ سلسلہ آزادی کے بعد سے ہی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وہ خود اپنی حفاظت کرنا نہ سیکھ لے۔
            یہ تو رہی کمزوروں کی بات ۔ لیکن وہ شخص جو ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہو اور جس کے آگے پیچھے سیکوریٹی کے ماہرین کا دستہ ہر وقت موجود رہتا ہو اگر اسے اپنی جان کا اندیشہ ستانے لگے تو اسے کیا کہا جائے گا؟ بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدہ کے امیدوار نریندر مودی کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کا اظہار وہ اور ان کی پارٹی بہت دنوں سے کرتے آرہے ہیں۔ اس الزام میں کئی مسلمانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑ چکاہے۔ صادق جمال، عشرت جہاں اور دیگر کا انکاؤنٹر اسی بنیاد پر ہوا تھا کہ وہ مودی کے قتل کے ارادہ سے نکلے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہ داستان فرضی ثابت ہوئی۔ نریندر مودی نے پٹنہ ریلی میں کہا تھا کہ کچھ لوگوں نے ان کے نام کی سپاری لے رکھی ہے۔ بہرائچ کی ایک ریلی میں مودی نے کہا کہ آئندہ الیکشن کانگریس نہیں بلکہ انڈین مجاہدین اور سی بی آئی لڑیں گے۔ بی جے پی کا کہنا ہے پٹنہ ریلی میں بھی نریندر مودی ہی نشانہ پر تھے۔ یہ تو خیر مودی اور بی جے پی کا انکشاف ہے لیکن اس کی شہادت اب پولیس اور خفیہ ایجنسیاں بھی دینے لگی ہیں۔ چھتیس گڑھ پولیس نے ریاست کے مختلف مقامات سے سیمی سے تعلق رکھنے والے ۱۱ نوجوانوں کو گرفتارکیا ہے جن پر مہابودھی مندر اور پٹنہ دھماکہ کے علاوہ مودی کو نشانہ بنانے کا بھی الزام ہے۔ جبکہ خفیہ ایجنسی انٹلی جنس بیورو (آئی بی) نے پنجاب پولس کو الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق سکھ انتہا پسند تنظیمیں جن کا ٹھکانہ پاکستان میں ہے ، نریندر مودی کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ خفیہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی سرحد سے ایسے لوگوں کی در اندازی کی کوشش کی جارہی ہے جو پنجاب میں دہشت گردی میں شامل رہے ہیں۔ ان کا استعمال مودی کی انتخابی ریلیوں میں کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی مودی کو پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کے علاوہ انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم سے بھی خطرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب آئی بی نے یہ الرٹ جاری کیا ہے تو ہمارے پاس اس کی تصدیق کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔ ہم تو اس وقت بھی آئی بی کے اس الرٹ پر ایمان لے آئے تھے جس کے نتیجہ میں ہونے والا انکاؤنٹر فرضی ثابت ہوا تھا۔
            نام نہاد انڈین مجاہدین کی جانب سے مودی کی جان کو خطرہ ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اچانک سکھ بھی ان کے دشمن ہوگئے یہ بات اس لئے ناقابل فہم ہے کہ سکھوں کی سب سے بڑی جماعت شرومنی اکالی دل مودی کی ہم نوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی کی چیرہ دستی سے سکھ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ۵۶۹۱ءکی ہند پاک جنگ کے بعد پنجاب اور راجستھان سے ہجرت کرکے گجرات میں بس جانے والے سکھوں کو مودی نے علاقہ خالی کردینے کا حکم دے دیا جس کے خلاف یہ سکھ ہائی کورٹ گئے اور وہاں مقدمہ جیت لیا لیکن مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی جو ابھی وہاں زیر سماعت ہے ۔ اس کے علاوہ مودی سے سکھوں کی دشمنی کی اور کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ نریندر مودی کی جان کوکس سے خطرہ ہے ۔ البتہ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ نریندر مودی کا اپنا وجود ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ آر ایس ایس اس ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جس کے پروردہ نریندر مودی ہیں ۔ گجرات میں نریندر مودی نے مسلمانوں کا قتل عام کرکے آر ایس ایس کے خاکوںمیں ہی رنگ بھرا تھا۔ بی جے پی اسی آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے جس کی تشکیل سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرکے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ ان کے رہنماؤں کا قول وفعل اس کا واضح ثبوت ہیں۔ نریندر مودی میں آخر کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ بی جے پی نے انہیں وزارت عظمی کا امیدوار بنایا۔ وہ شخص جسے ملک تو کجا خود اپنی پارٹی کی تاریخ معلوم نہ ہو اسے اتنے اہم مرتبہ پر کیوں فائز کیا جارہا ہے؟ مودی کی سب سے بڑی خوبی اس کی دریدہ دہنی اور مسلم دشمنی ہے۔ یہ فرقہ پرست ذہنوں کی پسند ہے۔ اگر مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام نہ کیا ہوتا تو اس نام پر تو جہ بھی نہیں کی جاتی۔ فازشم کی علم بردار جماعت کے سب سے بڑے فاشسٹ کو امیدوار نہ بناتی تو کسے بناتی۔ اسے معلوم ہے کہ اس نام پر سیدھے سادے ہندو عوام کو پولرائز کر کے ان کا ووٹ بٹورا جاسکتا ہے۔

            بی جے پی حصول اقتدار کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے اور کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس سب سے آسان نسخہ فرقہ وارانہ منافرت ہے۔ وہ دہشت گردانہ واقعات انجام دے کر اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر خو دکو اکثریت کا مسیحا ثابت کرنا چاہتی ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ اقتدار کے حصول کی دھن میں ہے ۔ مظفر نگر فسادات میں اہم کردار ادا کرنے والے اور نفرت کی آگ پھیلانے والے سنگیت سوم اور سریش رانا کی عزت افزائی بی جے پی کی اسی ذہنیت کی عکاس ہے۔ آئندہ عام انتخاب اس کے لئے بے حد اہم ہیں کیونکہ اگر اس بار اسے اقتدار حاصل نہیں ہوا تو اس کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا۔ سیاسی اعتبار سے یہ اپنے بد ترین دور سے گذر رہی ہے۔ اس کے حلیفوں کی تعداد گھٹ کر دو پر آگئی ہے اور اس وقت وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
            بات خطرہ کی ہورہی تھی ۔ ہمیں لگتا ہے کہ مودی کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے لیکن یہ خطرہ کسی اور سے نہیں خود آر ایس ایس سے ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا اپنے مفاد کے حصول کے لئے یہ تنظیم کچھ بھی کرسکتی ہے۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ابھینو بھارت کے دہشت گردہی مودی کا کام تمام کردیں اور نتیجتاً پورے ملک میں مسلم کش فسادات شروع ہوجائیں اور بی جے پی کے لئے ہمدردی کی لہر پیدا ہوجائے اور اس کے لئے حصول اقتدار کی راہ آسان ہوجائے ۔اپنے مقصدکے حصول کے لیے یہ لوگ خود اپنے لوگوں کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔سنیل جوشی کا قتل اس کی مثال ہے ۔ویسے بھی جو لوگ گاندھی جی کو قتل کرسکتے ہیں ان کی نظر میں مودی کی کیا اوقات ہے ۔ خود مودی نے ہرین پانڈےا سمیت اپنے مخالفین کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ اس لئے ہماری مرکزی حکومت سے گذارش ہے کہ وہ بھلے ہی مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہ کرے لیکن بی جے پی کی جانب سے مودی کے لئے ملک کی سب سے اعلی سیکوریٹی ایس پی جی (جو موجودہ اور سابق وزرائے اعظم اور ان کے کنبہ کے لیے مخصوص ہے) کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو اسے ضرور فراہم کیا جائے ۔ کیونکہ زندہ مودی پھر بھی اتنا خطرناک نہیں ہوگا جتنا مردہ مودی۔مودی کے ذریعہ بی جے پی کو مسنداقتدار تک پہنچنا ہے اور بس۔چونکہ یہ برہمنی نظام کی حامی جماعت ہے اس لیے اگر یہ برسر اقتدار آبھی جاتی ہے تو وزیر اعظم کوئی برہمن ہی ہوگا ۔اس لئے ایسا لگتا ہے کہ مودی کی جان کو واقعی خطرہ ہے۔

یوم اقلیت اگر یوم احتساب ہوجاتا

یوم اقلیت اگر یوم احتساب ہوجاتا
                اقوام متحدہ نے اگر ۸۱ دسمبر کو یوم اقلیت قرار دیا ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی آبادی ، مذہب اور زبان یا نسلی اعتبار سے اقلیتیں موجود ہیں ان کے حقوق کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ لیکن اگر نیت ہی درست نہ ہو تو دن کیا سال منالینے کے باوجود اقلیتوں کے حالات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ ورنہ اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے امریکہ میں وہاں کی اقلیت کے ساتھ جو ناروا سلوک جاری ہے اس کی کیا توجیہ کی جاسکتی ہے۔
                ۸۱ دسمبر کو عالمی سطح پر یوم اقلیت منا یا گیا۔ اس تاریخ کو اقوام متحدہ نے یوم اقلیت قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس حوالہ سے دنیا بھر کی طرح ہندوستان میں بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، سمینار ، مذاکرے اور سمپوزیم ہوتے ہیں اور اقلیتوں کی حالت زار پر آنسو بہائے جاتے ہیں ، ان کے حقوق کی بحالی کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، ان کے تحفظ کے سلسلہ میں عملی دشواریوں کے سد باب کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں اور جشن کے ماحول میں جذباتی تقریریں کی جاتی ہیں جن سے ایسا محسوس ہوتا ہے حکومت اور حکومتی اداروں کو واقعی اقلیتوں کی فکر ہے اور وہ ان کے تحفظ، ترقی اور خوش حالی کے خواہاں ہیں۔ لیکن اس دن کا سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی تمام فکر مندیاں بھی ڈوب جاتی ہیں اور اقلیتیں سابقہ حالت پر برقرار رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اگر ۸۱ دسمبر کو یوم اقلیت قرار دیا ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی آبادی ، مذہب اور زبان یا نسلی اعتبار سے اقلیتیں موجود ہیں ان کے حقوق کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ لیکن اگر نیت ہی درست نہ ہو تو دن کیا سال منالینے کے باوجود اقلیتوں کے حالات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ ورنہ اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے امریکہ میں وہاں کی اقلیت کے ساتھ جو ناروا سلوک جاری ہے اس کی کیا توجیہ کیا جاسکتی ہے۔
                سچی بات یہ ہے کہ دنیا میں اقلیتیں ہر جگہ ظلم ونا انصافی اور اکثریت کے استحصال کا شکار ہیں۔ اقلیت واکثریت کا پیمانہ تعداد ہے اور جمہوریت میں چونکہ بندوں کو تولنے کے بجائے گننے کا رواج ہے اس لیے جس طبقہ کی آبادی زیادہ ہوتی ہے وہ دیگر طبقات کی حق تلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔ ہمارے ملک عزیز ہندوستان کے آئین نے ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کیے ہیں ، اس کی رو سے رنگ ونسل یا زبان ومذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق روا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کے حقوق نہ صرف تسلیم کیے گئے ہیں بلکہ ان کے تحفظ کی ضمانت بھی دی گئی ہے ۔ ان حقائق کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ حکومتوں کی جانب سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ مسلمان، سکھ، عیسائی ، بودھ اور پارسی یہاں کی مذہبی اقلیتیں ہیں جن میں مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ یوں تو تمام اقلیتیں ظلم وناانصافی کا شکار ہیں لیکن مسلمانوں کو اس کی مار زیادہ ہی جھیلنی پڑتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سکھ اور عیسائیوں کو اکثریت کی چیرہ دستیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ۸۴۹۱ کے سکھ فسادات اور اڑیسہ میں عیسائیوں کے ساتھ جو کچھ ہواا س کی وجہ ان کا اقلیت میں ہونا ہی ہے۔ لیکن اقلیت ہونے کی سزا مسلمانوں نے جس قدر جھیلی ہے اس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے کیونکہ آزادی کے بعد سے ہی وہ مسلسل ظلم وجبر کی چکی میں پس رہے ہیں اور انہیں جبر کی اس وادی سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے۔ اس ملک میں ان کی حیثیت فٹ بال کی ہے جسے ہر طرف سے ٹھوکر ہی ملتی ہے۔
                اس حقیقت کے باوجود کے مسلمانوں نے ملک کی آزادی کی خاطر عظیم قربانیاں پیش کیں اور ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اپنا بھر پورکردار نبھانے کی کوشش کی ،وہ حکومت کی نا انصافی اور فرقہ پرستوں کی جارحیت کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان مسلسل پس رہے ہیں۔ یہ اس ملک کی بد نصیبی ہے کہ یہاں کی سب سے بڑی اقلیت جو ملک کی تعمیر وترقی میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرسکتی تھی اور ملک کو خوش حال بنانے میں اس کا نمایاں حصہ ہوسکتا تھا آج خود اسے اپنے جینے کے لالے پڑے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اگر وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اس کی ٹانگیں کھینچ دی جاتی ہیں۔ مسلسل فسادات نے اس کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔ اس پر مستزاد دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں اور انکاؤنٹر کے نام پر ان کے قتل نے ان کے عزم وحو صلہ کو پست کردیا ہے۔ جہاں کئی محروم طبقات نے بلندی کی بہت سی منزلیں طے کر لیں وہاں مسلمان آج بھی گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور ہیں اور انہیں اپنے جان ومال کے تحفظ کی فکر کھائے جارہی ہے اور ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ان کا استحصال کیا ہے۔ ان کے ووٹوں کی طاقت سے مسند اقتدار تک پہنچنے والی سیاسی جماعتوں نے انہیں کھوکھلے وعدوں کے سوا کچھ نہ دیا۔ ان کی ترقی کی باتیں تو خوب ہوئیں لیکن عملی سطح پر اس کے نفاذ کی نوبت نہیں آئی۔ اگر ملک کی حکومتیں ایماندار اور مخلص ہوتیں اور آئینی تقاضوں کو پورا کرتیں تو آزادی کے ۵۶ سال بعد مسلمانوں کے حصہ میں سچر کمیٹی کی رپورٹ نہیں آتی۔

                حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ترقی وخوش حالی کے تعلق پالیسیاں تو خو ب ضع کی جاتی ہیں اور بڑے بلند وبانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملا ان کا نفاذ نہیں ہوتا ہے۔ سچر کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ اس کی واضح مثال ہے۔ سچر کمیٹی نے واضح کردیا کہ کس طرح سے اس ملک میں مسلمانوں کو سماجی ، تعلیمی اور اقتصادی طور پر حاشیہ پر لا کھڑا کردیا گیا ۔ ان کے ساتھ کیسا ہمہ گیر امتیازی سلوک کیا گیا اور آئینی ضمانتوں کے باوجود کیسے انہیں حق وانصاف اور مساوات سے محروم کیا گیا جس کے سبب وہ زندگی کے ہر میدان میں پیچھے ہوتے چلے گئے ۔ یہاں تک کہ ان کی حیثیت دلتوں سے بھی بد تر ہوگئی اور غربت ، جہالت ، گندگی بیماری ، بے روزگاری ، احساس کمتری اور مایوسی ان کی پہچان بن گئی۔ جہاں تک سچر کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ کا معاملہ ہے اگر مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے دعوی پر یقین کیا جائے تو حکومت نے ۶۷ میں ۲۷ سفارشات منظور کر لی ہیں۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو اس کے مثبت اثرات نظر کیوں نہیں آرہے ہیں۔ حکومت لاکھ دعوے کرے لیکن صورتحال اس کے برعکس نظر آرہی ہے۔ سچر کمیٹی کے ممبر سکریٹری ڈاکٹر ابو صالح شریف کے مطابق سچر کمیٹی کے آنے کے بعد مسلمان اور زیادہ پسماندہ ہوئے ہیں ۔ اس کی سب سے واضح مثال وہ اعداد وشمار ہیں جو خود حکومت نے لوک سبھا میں ایک ممبر پارلیمان کے سوال کے جواب میں ملازمتوں کے سلسلہ میں پیش کئے۔ اس کے مطابق سرکاری شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ تو دور ان کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں وزیر اعظم کے پندرہ نکاتی پروگرام پر نظر ثانی کی گئی اور گیارہویں پنچ سالہ منصوبہ میں اقلیتوں کی فلاح کے لیے کئی نئی اسکیمیں شروع کی گئیں جن میں اسکالر شپ اور ملٹی سیکٹرل ڈیولپمنٹ پروگرام شامل ہیں۔ کسی حد تک اسکا لر شپ کا فائدہ تو مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے لیکن ایم ایس ڈی پی کا فائدہ نظر نہیں آرہا ہے۔ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن دونوں نے اعلی اختیارات والے عہدوں اور مناصب میں مسلم فرقہ کی متناسب نمائندگی کی سفارش کی تھی۔ اس وقت مرکزی سطح پر ۱۵ وزراتیں ۷۵ محکمے ، ۸۲ اعلی اختیارات والے ادارے ، ۲۹ کمیشن اور ۳۵۰۱ سے زائد خود مختار ادارے ہیں ۔ لیکن اقلیتی کمیشن اور دیگر چند کمیشنوں اور بورڈوں کے علاوہ مسلمان کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔ مرکزی حکومت ہی طرح صوبائی حکومتیں بھی مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کرتی آئیں ہیں ۔ تمام حکومتوں نے ان کی فلاح وبہبود کی بجائے ان کی پسماندگی میں اضافہ ہی کیا اور تعلیمی ، معاشی ، سماجی اور سیاسی طور پر ان کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
                اس صورتحال میں یوم اقلیت کے انعقاد کی حیثیت ایک تماشہ سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن ہمیںمعلوم ہے کہ یہ تماشہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ اس لیے کیوں نہ ہم اس دن کو یوم احتساب بنالیں۔ ملک کا موجودہ منظر نامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ مسلمان خوداپنا احتساب کریں اورحکومتوں کے سامنے کاسہ گدائی لے کر پھرنے کی بجائے اس بات پر غور کریں کہ وہ موجودہ صورتحال کو کیسے اپنے لئے موافق بناسکتے ہیں۔ ان کو اس صورتحال تک پہنچانے میں اگر حکومتوں اور فرقہ پرست طاقتوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے تو خود مسلمان بھی اس کے لیے کم ذمہ دار نہیں ہیں ۔ حکومتی رویہ کا رونا رونے کی بجائے مسلمان اپنی داخلی کمزوریوں کو دور کریں اور مختلف حوالہ سے ان کے درمیان اختلافات کی جو وسیع خلیج حائل ہے اس کو پاٹیں اور متحد ہوکر آبرو مندانہ زندگی جینے کی سعی کریں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر مسلمان اپنی صفوں کو درست کرلیں تو حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ فسادات ، دہشت گردی اور سیاسی تعصبات کے شکار مسلمانوں کے لیے ضرور ی ہوگیا ہے کہ حکومتوں کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنے حالات کی اصلاح کے لیے خود اٹھ کھڑے ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے جو یوم اقلیت سے واقف ہیں لیکن جو لوگ بھی واقف ہیں وہ اگر اسے اپنے لئے یوم احتساب بنالیں تو انقلاب آسکتا ہے جس کی شدید ضرورت ہے۔

جمعرات، 12 دسمبر، 2013

عاپ کی کامیابی کانگریس اور بی جے پی سے بیزاری کا اعلان

عاپ کی کامیابی کانگریس اور بی جے پی سے بیزاری کا اعلان

دلی میں عاپ کی کامیابی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لوگ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی سے بیزار ہوچکے ہیں اور انہیں ایک نئے متبادل کی تلاش ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک نو زائیدہ پارٹی نے جہاں ایک طرف کانگریس کو تیسرے مقام پر پھینک دیا وہیں بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتادی۔

            مجھے نہیں پتہ کہ پانچ ریاستوں میں اختتام پذیر ہونے والے اسمبلی انتخاب آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کا سیمی فائنل تھے یا نہیں ۔ اگر سیمی فائنل تھے تو فائنل میں بھی وہی ٹیم جیتے گی جس نے سیمی فائنل میں کامیابی کا جھنڈا لہرا یا ہے یہ کوئی ضروری ہے ۔ سیمی فائنل کی اصطلاح میڈیا کے ذہن کی پیداوار ہے جسے یہ اندازہ تھا کہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو کانگریس پر فوقیت حاصل رہے گی اور اس کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب کے بعد مرکز میں بی جے پی کی ہی اقتدار حاصل ہوگا۔ انتخابات میں جیت اور ہار ہوتی رہتی ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس پارٹی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے اس کے لیے جیت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے ہیں ۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شکست خوردہ پارٹی اپنی شکست سے سبق لیتی ہے یا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انتخابات میں ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس کو زبردست ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ظاہرہے کہ اس کے کچھ اسباب ہیں اور ان اسباب پر غور کرنے کی ذمہ داری بھی کانگریس کی ہے۔ ہمارے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ انتخاب کے نتائج سے ہمیں کیا حاصل ہوا۔
            یہ صحیح ہے کہ ریاستی انتخاب میں مقامی مسائل زیادہ حاوی نہیں ہوتے ہیں اور زیادہ تر انہیں کی بنیاد پر ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکزی حکومت کی کار کردگی بھی ان انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے۔ موجودہ انتخابات پر بھی مرکزی حکومت کی کار کردگی کا نمایاں اثر دیکھنے کو ملا۔ راجستھان میں اشوک گہلوت کے خلاف عوام میں اس قدر سخت ناراضگی تھی بہت سے لوگوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بی جے پی کوووٹ کیا۔ مدھیہ پردیش میں شیو راج سنگھ چوہان نے بھی اپنی مقبولیت کے علاوہ کانگریس کے خلاف پائے جانے والے غصہ کا فائدہ اٹھایا جبکہ چھتیس گڑھ میں اگرچہ رمن سنگھ جیت گئے لیکن یہ جیت انہیں آسانی سے حاصل نہیں ہوئی۔ اس طرح ان ریاستوں کے نتائج کو چونکانے والا نہیں کہا جاسکتا ہے۔ البتہ دلی کا نتیجہ ضرور چونکانے والا تھا۔ شیلا دکشت کے ناقدین بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے دلی کے لیے کام نہیں کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے دلی کی تصویر بد لی ۔ اس کے باوجود دلی میں کانگریس کو شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا تو اس سے ہی پتہ چلتا ہے کہ شیلا کو منموہن سنگھ کے گناہوں کی سزا بھی جھیلنی پڑی۔ انتخابی نتائج کے بعد کانگریس صدر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی دونوں نے ان نتائج سے سبق لیتے ہوئے بڑی تبدیلیون کا اعلان کیا ہے۔ بے شک وہ ایسا کریں گے کیونکہ پارٹی کی ساکھ داؤ  پر لگی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ شایدانہیں اب بھی یہ پتہ نہیں ہے کہ کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ گذشتہ انتخابات میں عوام نے کانگریس کو فرقہ پرستی کے خلاف ووٹ دیا تھا‘ لیکن اس نے فرقہ پرستی کی روک تھام کے لیے عملا کوئی اقدام نہیں کیا جبکہ دوسری جانب مہنگائی اور کرپشن کو بھی پھلنے پھولنے کا بھر پور موقع ملا۔ اس لئے جو نتائج آئے ہیں اس سے بہتر نتیجہ کی امید بھی نہیں تھی۔
            بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے یہ انتخابی نتائج اس لحاظ سے حوصلہ افزا ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی حکومتیں برقرار رکھنے میں کامیاب رہی بلکہ اس نے راجستھان میں کانگریس سے حکومت چھین بھی لی۔  بی جے پی اسے مودی لہر سے تعبیر کر رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لہر مودی کے حق میں نہیں تھی بلکہ کانگریس کے خلاف تھی۔ اگر مودی کی لہر ہوتی تو دلی میں بی جے پی کو حکومت بنانے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ مودی نے دلی میں انتخابی تشہیر کے آخری دنوں میں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔ دلی کے جن چھ حلقوں میں مودی نے ریلیاں کیں ان میں سے چار میں بی جے پی کوشکست ہوئی ۔ اسی طرح چھتیس گڑھ کے جن بارہ حلقوں میں مودی کی ریلیاں ہوئیں ان میں سے پانچ میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ بی جے پی خود کو کانگریس کے متبادل کے طور پیش کر تی ہے لیکن ان نتائج نے ثابت کردیا کہ یہ فطری متبادل نہیں ہے بلکہ مجبوری کی متبادل ہے۔ اگر یہ فطری متبادل ہوتی تو دلی میں اس کے لیے دو تہائی کی اکثریت حاصل کرنا ناممکن نہ ہوتا جبکہ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس مخالف لہر نے اس کے لیے فضاہموار کرد ی تھی۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسے عام اکثریت کے بھی لالے پڑگئے اور یہ طے شدہ امر ہے کہ کہ جہاں کوئی دوسرا متبادل ہوگا وہاں بی جے پی کا یہی حشر ہوگا۔
            اب تک لوگ کانگریس اور بی جے پی کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر آزماتے رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے علاوہ چارہ بھی نہیں تھا۔ لیکن دلی میں عام آدمی پارٹی کی صورت میں سامنے آنے والے ایک نئے متبادل نے ووٹروں کی راہ آسان کردی۔ انتخابی سیاست میں اس پارٹی کی آمد نے سیاست کا رخ ہی بدل دیا۔ کل تک جسے کوئی بھی بہت سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں تھا آج وہ ایک بڑی حقیقت بن کر سامنے آئی ہے۔ دلی میں عاپ کی کامیابی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لوگ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی سے بیزار ہوچکے ہیں اور انہیں ایک نئے متبادل کی تلاش ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک نو زائیدہ پارٹی نے جہاں ایک طرف کانگریس کو تیسرے مقام پر پھینک دیا وہیں بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتادی۔ اس کی جیت نے یہ بھی ثابت کردیا کہ محض دولت اور طاقت کی بنیاد پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا ہے۔ ایک ایسی پارٹی جس کے پاس مضبوط امیدوار نہیں تھے اور ان امیدواروں کے پاس نہ الیکشن جیتنے کے لیے پیسے تھے اور نہ ہی اس کا کوئی تجربہ تھا، پھر یہ کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی طرح اس کے پاس تنظیمی صلاحیت اور پیشہ ور کارکنوں کی فوج بھی نہ تھی۔ ان سب موانع کے باوجود مختصر وقت میں اس نے کامیابی کا جو سفر طے کیا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عوام کانگریس کی دھوکہ باز اور بد عنوانی کی سیاست اور بی جے پی کی نفرت کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں اور جہاں بھی کوئی متبادل نظر آئے گا اس کا انتخاب کریں گے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر ہندوستان کی سیاست میں ایماندار افراد آگے آئیں اور اصول کی لڑائی لڑیں تو عام لوگ ان کے ساتھ ہوں گے۔ اروند کیجریوال اور ان کی ٹیم نے لوگوں میں یہ اعتمادد پیدا کیا کہ وہ ان کی آرزؤں اور تمناؤں کی تکمیل کرلیں گے اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان کا ساتھ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی نئی پارٹی عوامی تمناؤں کی تکمیل کے معیار پر کھڑی اترنے کی کوشش کرتی ہے لوگ اسے منتخب کر لیتے ہیں۔ماضی میں بھی آسام گن پریشد اور تیلگو دیشم پارٹیاں قیام کے فورا بعد ہی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ البتہ عوام کے آرزؤں کی تکمیل ایک سخت چیلنج ہوتا ہے جس کا سامنا ابھی عام آدمی پارٹی کو نہیں کرنا پڑا ہے۔ یقین مانئے کہ اگر دیگر ریاستوں میں بھی عاپ جیسی کوئی پارٹی ہوتی تو وہاں بھی بی جے پی کے حصہ میں محرومی ہی آتی۔ لوگ ہر جگہ تبدیلی چاہتے ہیں، بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں، چین اور سکون سے جینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا جو پارٹی ان باتوں کو یقینی بنائے گی اسے عوام کا اعتماد حاصل ہوگا۔ کرپشن ، بد عنوانی ، مہنگائی اور نفرت سے تنگ آچکے لوگوں کو عاپ کے اندر ایمانداری کی کرن آئی ہے ۔ اگر چہ اس کے پاس کوئی واضح ایجنڈا نہیں ہے اور سیاسی تجربہ کا بھی فقدان ہے لیکن یہی کیا کم ہے کہ وہ بد عنوانی کے معاملہ میں بے حد سخت ہے اور ایماندارانہ سیاست کی راہ پر ملک کو لے جانا چاہتی ہے۔ یہ عاپ ہی کا کرشمہ ہے کہ اس نے راتوں رات سب کو ایماندار بنادیا اور دلی میں کوئی بھی حکومت بنانے کے لیے پہل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جو لوگ حصول اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے تھے اور جن کے بڑے بڑے رہنماؤں پر بد عنوانی کے داغ لگے ہیں وہ بھی ممبران کی خرید وفروخت کو اب اپنے لیے حرام قرار دینے لگے ہیں۔ گو یا عاپ نے نہ صرف ’’آپ‘‘ کا املا بدل دیا ہے بلکہ سیاست کے معنی بھی بدل دیئے ہیں اور یہ تبدیلی کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔حالانکہ اس تبدیلی میں ٹھہراؤ کی مدت کیا ہوگی اس کے بارے میں کہنا قبل از وقت ہوگا۔
            عاپ سے صرف کانگریس کو خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کے لیے خطرہ ہے اور آنے والے دنوںمیں دونوں پارٹیوں کے لیے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانا ناگزیر ہوجائے گا۔ دلی میں ۲۸؍ سیٹوں پر کامیابی نے نہ صرف ’’عاپ‘‘ کے حوصلے بلند کئے ہیں بلکہ ’’آپ‘‘ کو بھی بھی یہ موقع فراہم کیا ہے کہ نئے متبادل کی تلاش کریں ۔ باور کیا جارہا ہے کہ دلی کی کامیابی کے بعد عاپ دیگر بڑے شہروں کا بھی رخ کرے گی اور یقینا اسے کرنا بھی چاہیے۔ عام انتخابات بے حد قریب میں اور عاپ نے دلی میںجو تجربہ کیا ہے اسے کل ہند پیمانے پر بھی آزما سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اسے بہت زیادہ نشستیں نہیں ملیں گی اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے اس لئے کانگریس کو مودی سے زیادہ عاپ سے خطرہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر ملک کو کوئی ایماندار متبادل ملتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے اور اس طرح عاپ کی کامیابی آپ کی کامیابی بھی ہوسکتی ہے۔
            ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل عام ہندوستانیوں سے بایں معنی ہیں کہ ان کی ترجیحات میں دیگر امور کے علاوہ اپنا تحفظ سر فہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بی جے پی کے مقابلہ میں کانگریس کو اپنا ووٹ دیتے آئے ہیں۔ لیکن اس بار مسلمانوں نے بھی کانگریس کو ٹھکرایا اور بی جے پی کو ووٹ دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ راجستھان میں کانگریس کے۱۷؍ مسلم امیدوار انتخابی میدان میں تھے اور سبھوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا جبکہ بی جے پی نے چار امیدوار کھڑے کئے اور دو کامیاب ہوئے۔ دلی میں بھی مسلمانوں نے ان حلقوں میں عاپ کو ہی ووٹ دیا جہاں انہیں یقین تھا کہ اس کا امیدوار بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے۔ اگر مسلمانوں نے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو ووٹ دیا تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ کانگریس نہ صرف مسلمانوں کو تحفظ دینے کے اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکی بلکہ دہشت گردی کے نام پر اندھا دھند مسلمانوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔گویا مسلمانوں نے یہ سوچا کہ اگر سر پھوڑنا ہی ٹھہرا تو تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟ کانگریس اس دھوکہ میں رہی کہ مسلمانوں کے پاس اسے ووٹ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کانگریس کے ایک جنرل سکریٹری نے، جو اس کے ترجمان بھی ہیں اور جن کے حلقہ انتخاب میں راقم کی بستی واقع ہے بھرے مجمع میںکہا تھا کہ یہ آپ ہمیں اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ آپ کی مجبوری ہے۔ اب بھی کانگریس کوئی سبق لینے کے لیے تیار ہے یا نہیں یہ کہنا دشوار ہے ۔ بہر حال ان انتخابی نتائج نے یہ تو ثابت کرہی دیا ہے کہ ملک ایک نئے متبادل کی تلاش میں ہے اور یہ مل بھی سکتا ہے ۔

بدھ، 4 دسمبر، 2013

مظفر نگر اورشا ملی - موت کا رقص بانداز دیگر جاری ہے

مظفر نگر اورشا ملی - موت کا رقص بانداز دیگر جاری ہے

            ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور ان فسادات میں یکطرفہ طور پر مسلمانوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کی پامالی ایک ایسی صداقت ہے جو کہیں بھی اور کبھی بھی ظاہر ہوسکتی ہے۔ آزادی کا سورج ہی فسادات کے مطلع سے طلوع ہوا اور اس کے بعد سے آج تک منظم انداز میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہورہے ہیں اور مسلمانوں کے سروں کی فصلیں کاٹی جارہی ہیں۔ ملک اور ریاست کی حکومتیں یا تو کھل کر فسادیوں کی سرپرستی کرتی ہیں یا مجرمانہ غفلت سے کام لیتے ہوئے پولس اور انتظامیہ میں موجود فرقہ پرست عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اگر فرقہ پرست مودی کی سرپرستی میں ہونے والے گجرات فساد کے زخم ابھی نہیں بھرے ہیں اور ان سے ٹیسیں اٹھ رہی ہیں تو سیکولر ملائم کے زیر سایہ مظفر نگر اور شاملی میں ہونے والے فسادات کے زخم بھی ہرے ہیں اور ناسور بنتے جارہے ہیں ۔
            یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ گذشتہ تمام فسادات کی طرح مظفر نگر اور شاملی کا فساد بھی منظم اور منصوبہ بند تھا۔ یوں بھی یہ سمجھ لینا کہ فسادات اچانک پھوٹ پڑتے ہیں اور ان میں محض جاہل ، اوباش ، اجڑ اور جرائم پیشہ افراد کا رول ہوتا ہے ، بڑی بھول ہوگی۔ آج تک جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ان کا تجزیہ بتاتا ہے کہ بہت پہلے سے ان کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور بڑے منظم انداز میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ مظفر نگر اور شاملی میں بھی یہی ہوا۔ فسادیوں نے پروگرام کے مطابق اپنا کام کرلیا ۔ مسلمان قتل ہوئے ، ان کی خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں ، ان کی املاک تباہ کی گئیں، ان کے گھر ڈھائے گئے اور وہ کسمپرسی کے عالم میں پناہ گزیں کیمپوں میں ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ان کیمپوںمیں بھی ان کی خواتین کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ بظاہر اب وہاں امن وامان ہے ، فساد کی آگ بجھ گئی ہے لیکن یہ پھر کسی وقت بھڑک سکتی ہے۔ فساد اس لیے رکا ہوا ہے کہ متاثرین اپنے گھروں میں نہیں ہیں۔ اگر وہ اپنے مکانوں اور جائداد کو دوبارہ حاصل کرنے جائیں تو فساد کے شعلے پھر بھڑک اٹھیں گے ۔ فساد متاثرین اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانا نہیں چاہتے ہیں اور شاید فسادیوں کی طرح حکومت کی بھی یہی منشا ہے کہ وہ وہاں واپس نہیں جائیں ۔ اس لیے انہیں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی ’سیکولر‘ حکومت اور اس کی انتظامیہ نے ان کے احسان کے بدلے ایک حلف نامہ پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کی رو سے کیمپوں میں رہنے والے خاندان پانچ پانچ لاکھ روپے لے کر اپنے گاؤوں اور گھروں کو لوٹنے کے حق سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہوجائیں گے۔ کسی سیکولر حکومت کے ذریعہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی اس سے گھناؤنی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
            لیکن ان مظلوموں کی داستان کرب وبلا یہیں ختم نہیں ہوتی ان پر ایک نئی افتاد آپڑی ہے۔ اگر وہ اپنے گاؤوں اور بستیوں میں فسادیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تو کیمپوں میں بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ان کیمپوں میں موت کا رقص برہنہ جاری ہے۔ جنہوں نے اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا اور اپنی خواتین کی عصمتیں تار تار ہوتے دیکھیں اب وہ اپنی آنکھوں سے اپنے ننھے منے معصوم بچوں کی موت دیکھ رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر پاروں کو دفن کر رہے ہیں۔ معاصر انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمس‘ (۳؍ دسمبر) کی رپورٹ کے مطابق شاملی سے ۱۸؍ کلو میٹر دور ملک پور کیمپ میں جہاں پناہ گزینوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ایک ماہ کے اندر ۲۸؍ اموات ہوچکی ہیں جن میں ۲۵؍ بچے شامل ہیں ، جن کی عمر ایک ماہ سے کم ہے۔ غلاظت اور کچڑوں کے درمیان پلاسٹک کے خیمے میں رہنے اور سرد رات میں بغیر کمبل کے پورے خاندان کے ساتھ سوکھی گھاس پر رات بسر کرنے والی مرشدہ خاتون کے ۲۰؍ دن کے بچے نے سردی کی تاب نہ لاکر اس کی بانہوں میں دم توڑ دیا۔ تب جاکر اسے ایک کمبل نصیب ہوا۔دیگر کیمپوں کی حالت بھی کم بد تر نہیں ہے۔ کھربن ، بدھیری خرد اور ہرنابی میں ۸؍ اموات ہوئیں جن میں ایک ماہ سے کم کے ۴؍ بچے شامل ہیں ۔ ایک مقامی سماجی کارکن کے مطابق ایک ماہ قبل ایک میڈیکل افسر نے اس کیمپ کا معائنہ کیا تھا ۔ اسی طرح مظفر نگر کے کیمپوںمیں بھی کم از کم ۱۶؍ اموات اطلاع ہے۔ افسوسناک بلکہ تشویشناک امر یہ ہے کہ حکام اس سے ناواقف ہیں۔ شاملی کے اے ڈی ایم پرتاپ سنگھ کو ان کیمپوں میں ہونے والی اموات کی اطلاع نہیں ہے۔ مظفر نگر کے اے ڈی ایم اندر منی ترپاٹھی ۱۱؍ اموات کی تصدیق کرتے ہیں جبکہ مظفر نگر کے چیف میڈیکل افسر ایس کے تیاگی کے مطابق ایک یا دو اموات ہوئی ہیں۔ اس پر مستزاد ان کا یہ دعوی کہ وہ کیمپوں میں طبی سہولیات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ صورت حال کا اس سے سنگین پہلو کیا ہوسکتا ہے کہ انتظامیہ اتنے بڑے معاملے سے بے خبر ہے یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر فسادیوں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی طریقہ کا اختیار کیا تو حکومت اور انتظامیہ خاموشی کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہے۔
            بات پھر وہیں پہنچتی ہے کہ یہ سب کچھ گجرات اور مدھیہ پردیش میں ہورہا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ فسطائی عناصر کو مسلمانوں سے ازلی دشمنی ہے۔ لیکن جب یہ سب خو د کو مسلمانوں کا مسیحا باور کرانے والے اور سیکولرزم کا علم بردار کہنے والے رہنما کی ریاست میں ہو تو اسے کیا کہا جائے۔اگر گجرات میں نامولود بچوں کو نیزوں پر اچھا لا گیا تو یوپی میں نومولود بچوں سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خود اتر پردیش حکومت نے ہی فساد کرایا ہے لیکن اگر یہ نہ بھی کہا جائے تو فساد شروع ہونے سے اب تک حکومت نے جس مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے، اس کی ذمہ داری سے وہ بچ نہیں سکتی۔ ملائم سنگھ نے سیاسی وانتظامی طور پر اپنے انتہائی نا تجربہ کار بیٹے کو اقتدار کی باگ ڈور تھما دی اور اس کی نا اہلی کی سزا مسلمان بھگت رہے ہیں۔ ملائم سنگھ فرقہ واریت کے ناگ کچلنے کے لاکھ دعوے کریں ، حقیقت یہ ہے کہ ان کی ریاست میں فرقہ واریت کو پنپنے کا بھر پور موقع مل رہا ہے جو خود ان کی سیاسی صحت کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ اگر وہ فرقہ پرستی کو نہ پنپنے دینے کے اپنے دعوے میں سچے ہوتے تو ان کی ریاست میں بر سر عام لاشوں کی سیاست کرنے والوں کی عزت افزائی نہیں ہوتی اور اگر ان کی انتظامیہ کی نیت صاف ہوتی تو فسادیوں پر سے این ایس اے نہیں ہٹایا جاتا اور وہ آہنی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے ملائم سنگھ پر اعتبار کر کے شدید دھوکہ کھایا ہے۔
            اس قت ہمارا ملک بے حد کٹھن دور سے گزر رہا ہے ۔ فرقہ پرستانہ رجحانات تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ وطن پرستی کے نام پر جارحانہ فرقہ پرستی اور اقلیت دشمنی کا بازار گرم ہے۔ جبکہ سیکولرزم کی قسمیں کھانے والی سیاسی جماعتوں کے اندر فرقہ پرست عناصر کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی جرأت وجسارت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ جماعتیں محض اپنے مفاد کے حصول کے لیے سیکولرزم کا راگ الاپتی ہیں اور مسلمانوں سے خوش نما وعدے کرتی ہیں۔کیا ملائم سنگھ کو پتہ نہیں ہے کہ شیخ الہند کے نام پر میڈیکل کالج کا نام رکھنا مسلمانوں کے لیے اہم نہیں ہے بلکہ ان کے لیے تحفظ ، تعلیم اور صحت کی اہمیت ہے۔ مسلمانوپہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں فسادات سے فائدہ کوئی بھی اٹھا سکتا ہے لیکن نقصان صرف مسلمانوں کا مقدر ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو ہی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ مسلمان اپنے آپسی اختلافات کو ختم کر کے اورملک کے سیکولر عناصر کو ساتھ لے کر ، جو بہر حال اقلیت میں نہیں ہیں فرقہ پرستی کے خطرہ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہی ایک تدبیر ہے جسے اختیار کرکے وہ خود بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور ملک کو بھی بچاسکتے ہیں۔ مسلم تنظیمیں اس پہلو پر جتنا جلد غو کریں اتنا بہتر ہوگا۔ ورنہ یوں ہی ان کے خون سے ہولی کھیلی جاتے رہے گی۔ کیونکہ ع
 بہت سے دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہوجائیں

بدھ، 27 نومبر، 2013

اسلام میں پسماندہ اور محروم طبقات کے حقوق


اسلام میں پسماندہ اور محروم طبقات کے حقوق

                اس سے قبل کہ پسماندہ اور محروموں کے حقوق کی بات کی جائے یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام میں پسماندگی اور محرومی کا تصور کیا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں نوع کے اعتبارسے تمام انسان یکساں ہیں۔ نسل یا ذات پات کی بنیاد پر یہاں کسی امتیاز کی نہ صرف گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام اس قسم کے سارے امتیازات کا انکار کرتا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم  ﷺ نے اپنی زندگی کے سب بڑے اجتماع یعنی حجۃ الوداع کے موقع پر یہ اعلان کیا کہ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقوی (نہ کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر فوقیت اور برتری ہے سوائے تقوی کے) اس وقت امتیاز کے یہی پیمانے تھے۔ عرب اپنے مقابلے میں عجم کو ہیچ اور ناقص سمجھتے تھے آزاد شخص غلاموں کو کمتر اور گھٹیا سمجھتا تھا، گورے اپنی خوبصورتی پر ناز کرتے اور کالوں کو جیسے دوسرے درجے کاانسان سمجھتے تھے۔ لیکن جب اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا نبی  ﷺ نے بڑے اجتماع کے اندر اس کا انکار کرتے ہوئے تمام انسانوں کو بلا امتیاز مساوی قرار دیاتب اس کی نظرمیں نہ کوئی اعلی رہا نہ ادنی خواہ وہ جس قبیلے اور جس نسل سے تعلق رکھے اور جو پیشہ اختیار کرے نوعی اعتبار سے یکساں عزت وتوقیر کا حامل ہے اور ہر حال میں اس کا احترام آدمیت بہرطور برقرارہے ۔قرآن نے برتری وکم تری کی اس تفریق وامتیازکو سختی سے روکتے ہوئے یہ حکم دیا :یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَ لَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ  بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورہ حجرات ۸) (مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں )تمام منافع جو انسان کی زیست کی بقا اور فطری ارتقا کے لیے لازمی ہیں اسلام کی رو سے وہ ہر انسان کے لیے عام ہیں۔منافع خواہ قدرتی ہوں یا اکتسابی ان کے حصول کے لیے اسلام ہر شخص کو یکساں شروط وتحدیدات کے ساتھ اور اپنی اپنی ذاتی صلاحیت اور محنت کے مطابق مواقع فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے :  لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (سورہ نجم۳۹) یعنی بلاامتیاز ہر انسان کو وہی حاصل ہوگا جس کے حصول کی اس نے کوشش کی۔ مزید اس نے صنفی امتیاز کوبھی مٹاتے ہوئے کہا:لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَ سْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہ۔ (سورہ نساء ۳۲) (مردوں کو ان کے کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کے کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور خدا سے اس کا فضل (وکرم) مانگتے رہو۔ )
                تاہم اسلام معاشرتی زندگی میں انسانوں کی معاشی شکست وریخت اور اقتصادی مد وجزر کے فطری عمل سے انکار نہیں کرتا ہے۔چنانچہ ایسے مواقع یاحالات کو وہ تسلیم کرتا ہے جن میں بعض انسان یا انسانوں کی کوئی جماعت‘گروہ اورقبیلہ منافع کے حصول سے محروم رہ جائے اور اس باعث وہ زندگی کی دوڑ میں دیگر یا عام جماعتوں‘گروہوںاورقبیلوں سے پیچھے رہ جائے اور سماج میں اس کا رتبہ‘حالت اور معاشی وسماجی صورت حال عام لوگوں کے برابر نہ رہ پائے ۔ چونکہ سماج میں عزت ووقار کا انحصار تاریخ کے ہر دور میں معاشی استحکام پر کسی قدر ضرور رہا ہے اس لیے وہ عزت ومرتبہ جو عام آدمیوں کو حاصل ہے ، پچھڑی ہوئی جماعت کو حاصل نہ ہوپائے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کی نظر میں پسماندہ ، کمزور اور مظلوم اشخاص کے حالات واضح ہیں۔چنانچہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ان کی محفوظ جگہوں کا اعلان وضاحت کے ساتھ کیا گیاہے اور ان کا معلوم حق متعین کیا ہے۔  وَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ (سورہ ذاریات ۱۹) (اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا )اسی طرح ایک جگہ فرمایا گیا ہے : وَ الَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ(سورہ معارج ۲۴، ۲۵) ( اور ان کے مال میں حصہ مقرر ہے مانگنے والے کا اور نہ مانگنے والے کا۔ یہ معلوم حق کس سے لیا جائے اور کس کو دیا جائے گا اس کی وضاحت خود نبی کریم ﷺ نے کی۔ جب آپ اپنے ایک عامل کو زکوۃ کی وصولی کے لیے بھیج رہے تھے تو آپ ؐنے فرمایا :  تؤخذ من أغنیاء ھم وترد علی فقراء ھم  (اس شہر کے امیروں سے لئے جائیں اور اس شہر کے غریبوں میں تقسیم کئے جائیں۔)
                علماء ومفسرین قرآن نے سائل اور محروم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سائل عربی زبان میں مانگنے والے کو کہتے ہیں۔ لیکن اس میں وہ تمام اشخاص شامل ہیں جو تنگدست ، مفلوک الحال اور دوسرے کی امداد کے محتاج ہیںاور محروم سے ایسے لوگ مراد ہیں جو ضروریات زندگی کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اور جن کی بنیادی ضرورتیں ان کی محنت اور کمائی سے پوری نہیں ہوپاتی ہیں۔ اس کے باوجود ایسے لوگ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ قرآن نے بھی اس کی تشریح اس طرح کی ہے۔ لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ  یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ  تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمٰھُمْ  لَا یَسْـَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (سورہ  بقرہ ۲۷۲) (تو ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے (اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں) یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو (کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب) لوگوں سے (منہ پھوڑ کر اور) لپٹ کر نہیں مانگ سکتے)
                 اس حق معلوم کا بھی ایک پورا نظام موجود ہے جسے زکوۃ وصدقات کا نظام کہا جاتا ہے۔ پھر اس نظام کی پوری تفصیل اور اس کے مصارف کو بھی واضح کردیا گیاہے۔  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُھُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ  فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰہِ  وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (سورہ توبہ ۵۹) (صدقات (یعنی زکوۃ وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکُنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے )
                اس آیت کریم میں کل آٹھ مصارف گنائے گئے ہیں۔ یہ بنیادی مصارف ہیں ۔ان حالات کے علاوہ بھی کئی اسباب ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے انسان عام لوگوں کی طرح زندگی گزار نہ سکے۔ ایسی صورت میں اسلا م انہیں ایسے مواقع فراہم کرتا ہے جن میں ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ خوش حال اور صحت مند زندگی گزارسکیں۔ قرآن واحادیث میں ایسے کئی زمرے بتائے گئے ہیں جو انسانی ہمدردی اور امداد کے محتاج ہیں۔ اس طرح کی پسماندگی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔
                 اسلام ذات پات کے نظام کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور نہ ذات پات کی بنیاد پر کسی محفوظ جگہ کا تعین کرتا ہے اور نہ اس کی بنیاد پر کسی برتری وکم تری کی تمیز کی اجازت دیتا ہے۔ یہ خالص ہندوانہ نظام ہے جو ذات کی بنیاد پر پیشوں کا پیدائشی اختیار لازم کرکے بندوں کو بندوں کا غلام بناکر معاشی استحصال اور سماجی برتری وکم تری کی گنجائش نکالتا ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ قران مجید میں مختلف مقامات پر اس کا انکار موجود ہے۔ مثلا اللہ تعالی نے فرمایا: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ  اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے )اور نہ ہی اسلام میں پیشہ کی بنیاد پر کسی کو حقیر سمجھا گیاہے۔ بلکہ اس نے ’’انسان کی قدردانی ، اکرام وتوقیر نیکی اور تقوی کی بنیاد پر قائم کی ‘‘ اور ’’انسانوں کو دوسرے نظاموں اور نظریہ کی طرح چھوٹے بڑے، ادنی اعلی، ذات، وطنی ، غیر وطنی، لسانی غیر لسانی، امیر وغریب، عورت ومرد، رنگ ونسل اور خاندانی طبقوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ انسانوں کی تقسیم ایمان اور کفر ، حق وباطل، خیر وشر کی بنیاد پر کی۔ ‘‘(اسلام میں غربت اور اس کا علاج ص۳۹)
                عہد اسلام سے قبل غریبی کی انتہائی خراب شکل غلامی تھی۔ اسلام نے غلاموں کوبھی عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کی آزادی کے راستے ہموار کئے۔زکوۃ کے آٹھ مصارف میں ایک مد غلاموں کی آزادی کو بھی رکھا، ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا کہ اگر کوئی غلام مکاتبت کے ذریعہ غلامی سے رہائی چاہے تو اس سے انکار نہ کیا جائے۔ انہیں اپنے آقا کا عبد کہنے کے بجائے مولی کہنے کا حکم دیا۔ ان کو عام رعایا کی حیثیت دی گئی ۔ ان میں بعض کو سید تک کا خطاب عطا کیا گیا۔ بعض اسلامی جنگوں میں سپہ سالار بنائے جبکہ اسی جنگ میں دوسرے آزاد لوگوں کی حیثیت عام فوجی کی تھی باجودیکہ بعض لوگ اسلام اورتقوی وپرہیزگاری کے اعتبار سے بھی جلیل القدر تھے۔ عہد عمر ؓ میں’’ ایک عام اصول بنادیا گیا کہ عرب غلام نہیں بنائے جاسکتے جو پہلے سے غلام چلے آتے تھے ان سب کی رہائی کا حکم دے دیا۔ جہاں حالات کی مجبوری سے غلامی کا رواج باقی رہا وہاں بھی غلاموں کے حقوق کی نگہداشت اور حسن سلوک کا ایسا انتظام کیا کہ غلام اور آزاد میں برائے نام فرق رہ گیا۔ ‘‘ (عشرہ مبشرہ: حضرت عمر فاروقؓ؍ بشیر ساجد)             
                حضرت عمر فاروق ؓ اپنے عہد خلافت میں جب کسی مرفہ الحال شخص کو دیکھتے تو دریافت کرتے کیا یہ شخص کسی پیشہ وابستہ ہے۔ اگر جواب نفی میں ملتا تو فرماتے کہ یہ شخص میری نظروں سے گرگیا اور پھر فرماتے کہ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بہتر ہے کہ ذلیل پیشہ ہی اختیار کیاجائے۔ (عشرہ مبشرہ : حضرت عمر فاروقؓ؍ بشیر ساجد)
                اس معروضہ کے بعد کسی حد تک اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے اسلام میں طبقہ کا تصور صورت حال کی نوعیت پر ہے۔ ایک نوع کے تمام افراد کو ایک طبقہ کہا جاسکتا ہے ۔اب خواہ اس نوعیت کے افراد ملک کے جس خطہ سے تعلق رکھتے ہوں ، جس شعبہ اور قبیلہ سے ان کا تعلق ہو اور جو پیشہ اختیار کئے ہوئے ہوں، تمام اسی طبقہ کے شمار کئے جائیں گے۔ مثلا معذوروں کا طبقہ ، غلاموں کا طبقہ ، غریبوں کا طبقہ، تعلیمی پسماندگا ن کا طبقہ وغیرہ۔
                اسلام نے ان طبقات کی بہتری کے لیے قرآن واحادیث میں واضح تعلیمات دی ہیں۔اس کام کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ ہر شخص کو جو معاشی طور پر مستحکم ہو مکلف کیا ہے کہ وہ اپنی دولت سے ایک معلوم حصہ جو نصاب کے مطابق ہو نکال کر ان طبقات کی مدد کرے۔ ’’اسلام نے غریبوں ، مسکینوں ، محتاجوں اور فقراء کی معاشی مشکلات اور تنگدستی ، ان کی گرتی ہوئی معیار زندگی پر خصوصی توجہ دی ہے ۔ انہیں ہر حال میں معاشی طور پر اوسط زندگی گزارنے اور معاشی پریشانیوں کو دور کرتے رہنے کی عظیم ذمہ داری تمام مسلمانان عالم پر عائد کی ہے۔ ‘‘
                ساتھ ہی بعض جرائم کی سزا وکفارہ پسماندہ طبقات کی امداد اور تعاون کو متعین کیا ہے۔ مثلا قسم توڑنے کا کفارہ یہ لازم کیاہے کہ قسم توڑنے والا دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کپڑے پہنائے یا غلام آزا د کرے۔  لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم اور تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام
                اسی طرح اگر کوئی رمضان میں جان بوجھ کر روزہ توڑدے تو اس کے کفارہ کے طور پر ایک چیز ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا نا رکھا گیا۔ یا ایسا شخص جو کسی بیماری یا درازی عمر وغیرہ کی وجہ سے رمضان کا روزہ رکھنے سے عاجز ہے تو ایسی صورت میں ہر روزہ کے بدلہ کسی مسکین کو کھانا کھلانا کفارہ رکھا گیا۔ اگر حج کے درمیان کسی چھوٹے جانور کو مارد یا ہے تو اس کی سزا یہ متعین کی گئی کہ اس جانور کی قیمت کے برابر غلہ خرید کر مسکینوں میں تقسیم کیا جائے۔
                                اسلام نے زکوۃ کا جو نظام پیش کیا ہے اور اس کے جو آٹھ مصارف گنائے ہیں آپ غور کریں تو ان میں والمولفۃ قلوبھم کے علاوہ جتنے مصارف ہیں وہ سارے غربت سے متعلق ہیں۔ ان مصارف کے علاوہ جو غربت کے جو اسباب ہوسکتے ہیںوہ بھی کسی نہ کسی طور پر معاشی پسماندگی کے سبب ہی پیدا ہوتے ہیں۔
                                چونکہ اسلام کی نظر میں پسماندگی کا تصور ذات پات کی بنیاد پر نہیں بلکہ افراد کے حالات پر ہے۔ اس لیے اس نے اس کے انسداد کے لیے زکوۃ کو اسلام کی دوسری بنیادشمار کرتے ہوئے غربت اور پسماندگی کے سارے راستوں کو بند کیا۔ چنانچہ عبادت کی وہ شکل بھی جسے رہبانیت کہاجاتا ہے جس میں انسان دنیاوی علائق سے بے نیاز ہوکر عبادت میں مصروف ہوتا ہے اسلام میں ممنوع ہے۔کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے وارثین میں سے کسی کو اپنی وراثت سے عاق کردے حتی کہ اپنے وارثین کے حق میں وصیت کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ اپنی دولت یا جائیداد کے ایک تہائی سے زیادہ حصہ کو وقف یا وصیت کرنے کو بھی ممنوع قراردیا ہے۔ ان کی وجہ یہی ہے کہ کوئی شخص اپنے وارث کو مفلس، تنگدست اور محروم نہ چھوڑے۔نیز دست سوال دراز کرنے کی عادت کو بھی ناپسند کیا گیا اور اس پر وعید سنائی گئی ہے۔
                 اسلام نے انسانوں کو یہ تعلیم دی کہ زمین وآسمان اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ انسان کے منافع کے حصول کے لیے رکھے گئے ہیں۔ وسخر لکم مافی السموات ومافی الارض جمیعا منہ چنانچہ اس نے اسباب غربت کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے انسداد کا راستہ واضح طورپر بتادیا ہے اور ہر شخص کو ان وسائل کے اختیار کی تعلیم دی ہے جن کے ذریعہ معاشی استحکام حاصل ہو۔ ہر شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دولت اور جائیداد جمع کرے۔ تجارت اور ملازمت کے لیے اس کے سامنے سارے جائز اور حلال راستے کھلے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اپنی پسند اور صلاحیت کے مطابق پیشہ اختیا رکرسکتا ہے۔ پھر دولت کی ایک مقدار متعین کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس مقدار کو پہنچ جائے تو ایک ضابطہ کے مطابق پسماندہ اور محروم طبقات کے لیے اپنی دولت سے کم از کم معلوم حصہ نکال دے۔ اس کے علاوہ صدقات کی ترغیب اور اہمیت پر بارہا روشنی ڈالی گئی ہے اور زکوۃ وصدقات کا حصول مالداروں کے لیے ناجائز قرار دیا ہے تاکہ محروم اور پسماندہ طبقات کے حقوق میں دراندازی نہ ہوسکے۔
                اب اگر کوئی شخص غریب ہے ۔ اس کے لیے معاش کے مواقع کی کمی ہے اور اس کی بنیادی ضرورتیں اپنے ہاتھوں کی کمائی سے پوری نہیں ہورہی ہیں تو اس مخصوص حصہ سے اس کی ادائیگی کی جائے گی۔ یہ اس کا حق ہوگا ۔ اس کے لینے پر دینے والے کو کسی قسم کی برتری یا اظہار احسان کا حق بھی اسلام نے نہیں دیا ہے۔
                جب اسلام آیا تو اس نے ابتدا ہی سے ایمان کے ساتھ تعلیم اور معاشی اعتدال کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ اس کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم دینے کو جنگی قیدیوں کا معاوضہ قرار دیا گیا اور ابتدائے اسلام سے ہی غریب پروری کی تعلیم دی گئی۔ پھر اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آگیا اور حکومت کے خزانے میں دولت آنے لگی تو اسلام کے بتائے ہوئے طریقے پر تمام پسماندہ طبقات کی بلا امتیاز مدد کی گئی۔ پسماندہ اور محروم اشخاص میں کوئی ایسا نہیں رہا جو محض غربت کی وجہ زندگی سے محروم ہوجائے۔
                ‘‘چنانچہ آپ ﷺ نے ہزاروں ایکڑ افتادہ زمینوں کی آبادی پر خاص توجہ دی اور ان قبائل کو جو بالکل ہی خانہ بدوش تھے، یہ افتادہ زمینیں جاگیر کے طور پر عطا کرکے ان میں انہیں آباد کیا۔ اس طرح مدینہ کے اطراف میں بھی بہت سے قبائل جو مارے مارے پھرتے تھے ، اپنی اپنی جگہ آباد ہوکر کھیتی باڑی اور باغبانی میں لگ گئے۔ آپ نے افتادہ زمینوں کے متعلق قانون نافذ فرمایا کہ جو شخص کسی افتادہ زمین کو آباد کرے گا وہ اس کی ملک ہوگی‘‘ (عہد رسالت وخلافت راشدہ ص۲۰۹)
                اسلامی حکومت کے ابتدا ئی دوادوار میں خارجی حملوں اور پڑوسی ممالک کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پریشان رہی ۔ مگر جب تیسرا دورآیا یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا ۔ پڑوسی ممالک کی ریشہ دوانیاں کم ہوئیں۔ بہت سے ممالک بھی فتح ہوگئے اور صوبوں کا قیام عمل میںآیا تو معاشی اعتدال کے ضمن بڑا ہی انقلابی قدم اٹھایا گیا۔ ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔مردم شماری کے بعد تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز وظیفے مقرر کئے گئے حتی کہ نومولود بچوں کے لیے بھی وظیفہ مقرر تھا۔ مراتب کا تعین دین ، دینی سرگرمیوں اور ضروریات کی بنیاد پر کیا گیا۔ اس زمانے میں وظیفہ کی مقدار زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار درھم اور کم سے کم سو درہم تک تھی۔ جن لوگوں کا جو وظیفہ تھا وہی ان کے غلاموں کا وظیفہ بھی مقرر کیا گیا۔ لاوارث اور نومولود بچوں کا وظیفہ سو درھم تھاجو بلوغت کے بعد مراتب کے اعتبار سے بڑھ جاتا تھا۔ آپ کا خیال تھا کہ اگر مال کی کثرت ہوئی تو ہر شخص کو چار ہزار درہم وظیفہ دیا جائے گا۔ ایک موقع پر فرمایا ’’خدا کی قسم ! اگر اس کے بعد بھی کچھ بچا تو جبل صنعا (یمن) کا چرواہا اپنے گھر بیٹھے اس مال میں سے اپنا حصہ پائے گا۔ ‘‘ ایک اور موقع پر فرمایا: ’’خدا کی قسم ! اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو عراق کی بیواؤں کو اس حالت میں چھوڑ جاؤں گا کہ میرے بعد ہر گز کسی کی دست نگر نہ ہوں‘‘  (عشرہ مبشرہ : حضرت عمر فاروق )
                عہد عمر ؓ میں پسماندطبقوں کی معاشی برتری کے لئے جو اقدام کئے گئے اس کا ایک واقعہ بڑا ہی اہم ہے۔ آپ کی خلافت کے پانچویں برس یعنی ۱۸ھ؁ میں زبردست قحط پڑا۔ عرب بدوی قبائل نے فاقہ کشی سے مجبور ہوکر مدینہ کا رخ کیا۔ ایسے وقت میں خلیفہ وقت حضرت عمر ؓنے خلق خدا کو قحط سے بچانے کے لئے دن رات ایک کردیئے۔ قحط کے دوران زکوۃ کی وصولی موقوف کردی اور چوری کا ارتکاب کرنے والوں کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دینا بھی روک دی تھی ۔ آپ کا استدلال یہ تھا زمانہ قحط میں جو چوری کرے گا وہ بھوکوں مرنے سے بچنے کے لیے کرے گا اور جان بچانے کے لیے تو مردار کھانے کی بھی اجازت ہے۔
                آپ ؓ کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے اور وہاں کی آبادیوں نے اپنے مذہب پر رہ کر اطاعت قبول کرلی تو آپ نے ان کے بنیادی حقوق ، جان ومال ااور عزت آبرو کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی انہیں بھی مملکت اسلامیہ کا باعزت شہری بنادیا۔ آپ نے غیر مسلم رعایا کے بوڑھوں ، کمزوروں ، اپاہجوں اور ناداروں کی بیت المال سے مدد کی۔
                معاشی توازن کے سلسلہ میں آپ کا خیال تھا کہ تمام لوگ یکساں زندگی گزاریں۔ آپ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو آخری آدمی کو پہلے آدمی سے اور سب سے پست آدمی کو سب سے بلند آدمی سے ملا دوں گا۔ ‘‘ لیکن افسوس کہ آپ کی عمر نے وفا نہ کی ۔
                اب اگر آپ آج کی صورت حال پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ غربت کی بنیادی وجہ معاش کے مواقع کی کمی ہے۔ بیشتر لوگ بے روزگاری کے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ اسلام نے بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے محنت اور تجارت کی راہ دکھائی ہے۔ اور یہی وہ تجارت ہے جس کا راستہ دیکھنے کے بعد عرب جیسی قوم نے ترقی کی راہیں طے کیں۔ ہجرت کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین کی انصار سے مواخاۃ کرائی تو مہاجرین نے اپنی دولت کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ اپنے مہاجر بھائی کودینا چاہا ۔ اس وقت بہت سے مہاجر صحابہ کرام نے اپنے اس بھائی کا شکریہ ادا کیا اور ان سے بازار کا راستہ پوچھا اور تجارت کے لیے نکل پڑے۔ پھر انہوں وہ ترقی کی کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کے وارثین نے کلہاڑیوں سے کاٹ کر سونے تقسیم کئے۔ حالاں کہ ان کے وارثین کی تعداد بھی کوئی کم نہ تھی۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک شخص آیا اور دست سوال دراز کیا۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس نے کہا ایک چادر اور ایک پیالہ ۔ آپ نے اس کو منگوایا اور اسے بیچ کر ایک کلہاڑی خریدی اور کہا کہ جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور فروخت کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا کچھ دنوں بعد وہ شخص پھر آیا اب اس کی صورت حال بدلی ہوئی تھی۔
                حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو محنت اور وقت کی قدر وقیمت کی تعلیم دی ہے۔ اس کے باوجود آپ کی قوم بے روزگاری اور غربت کے مسائل سے دوچار ہے تو اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی آرام پسندی اور کاہلی ہے۔ ’’دنیا میں آج جتنے معاشی طور پر ترقی یافتہ اور امریکی ، یوروپی ممالک ہیں وہ چند صدیوں قبل غریب اور غیر ترقی یافتہ تھے ۔ جس قوم نے جب بھی تعلیم کے ساتھ غربت کے خلاف محنت کی وہ معاشی طورپر Economic Power بن کر دنیا پر چھائے رہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس قوم نے بھی جہاں غفلت کی اور سستی کاہلی عیش وآرام میں مبتلا ہوگئی اسی وقت سے ان کی معاشی انحطاط ، سیاسی زوال، عسکری وفوجی قوت کی پسپائی شروع ہوگئی۔ معاشی قوت کی تشکیل اسکا قیام اور اسکی توسیع وحفاظت کیلئے ہمیشہ سیاست دانوں، ماہرین معاشیات کے ساتھ پوری قوم کو بنیاد سے لیکر اعلیٰ سطحوں تک سخت محنت جدوجہد کرتے رہنا پڑتا ہے۔ جس دن اور لمحہ سے جس کسی قوم نے اس کا م کو ثانوی حیثیت دی اسی دن سے اس قوم کا معاشی زوال شروع ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (اسلام میں غربت اور اس کا علاج)
                آج مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ ان کے نوجوان سرکار ی ملازمتوں کے لیے اپنی عمر عزیز کے اکثر اوقات ضائع کردیتے ہیں۔ پھر سرکاری ملازمت کے لیے جس جانفشانی کی ضرورت ہے اس سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ اس طرح جب نامرادیاں ہاتھ آتی ہیں تو قسمت اور حکومت کو کوستے ہیں۔ حالاں کہ اگر وہ اپنی توانائی کو کام میں لا کر اپنی طبیعت کی مناسبت سے کوئی تجارت کرلیتے تو انہیں معاشی استحکام بھی حاصل ہوتا اور بے روزگاری کی لعنت سے بھی بچ جاتے ۔ سرکاری ملازمتیں کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ لیکن آج جب ان کے لیے مسابقتیں بہت بڑھ گئیں ہیں ، ہر شخص اس کا اہل نہیں ہوسکتا ، اس کے لیے معاشی حالت کا بھی اہم رول ہوتا ہے ۔ اس لیے ایسے شخص کو جو سرکاری ملازمتوں کا حصول چاہتا ہے اپنی علمی لیاقت اور گھر کی معاشی صورت کا اندازہ کرکے اس میں قدم رکھنا چاہیے اور پھر اس کے لئے انتھک کوششیں کرنی چاہئیں۔ وگرنہ اپنی عمر عزیز ضائع کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ خود اللہ رب العزت قیامت کے دن پوچھے گا کہ تم نے اپنی عمر عزیز کہاں کھپائی۔
                اس سلسلہ میں باتیں بہت طویل ہوجائیں گی۔ مختصر یہ کہ غربت کے خاتمہ کے لیے آج زکوۃ کے اجتماعی نظام کی اشد ضرورت ہے۔ اور اسلامی عبادات کا نظام اجتماعیت کے بغیر نامکمل ہے۔ اجتماعی نظام کے بعد بے روزگاروں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ انجمن باہمی کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے اور رفتہ رفتہ بے روزگاروں کا انتخاب کرکے انہیں روزگار سے وابستہ کرنے کی صورت پر غور کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان اگر صرف زکوۃ کا اجتماعی نظم قائم کرلیں توپھر کسی سچر کمیٹی کی ذلت آمیز رپورٹ کی اشاعت کی نوبت نہیں آئے گی۔
                مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ پسماند گی کا جو تصور آج پایا جاتا ہے ہے اور اس کے لئے جو معیار متعین کیا گیا ہے اسلام اسے قبول نہیں کرتا ۔ آج ہمارے ملک میں پسماندگی کے تعین کے لئے جو پیمانہ طے کیا گیا ہے اس میں ذات پات کے نظام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسی بنیاد پر مراعات بھی دی جاتی ہیں تاہم معاشی وتعلیمی طورپر ترقی پانے کے باجود مراعات یافتہ طبقات سماجی طور پر عزت وشرف کا وہ مقام حاصل نہیں کرپاتے جو نام نہاد اعلی ذاتوں کی جاگیر سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی نظام میں حالات کے نتیجہ میں اگر کوئی فرد یا طبقہ معاشی یا تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کا شکارہوجائے تو اسلام اسے ترقی کے تمام وسائل مہیا کرتا ہے تاکہ پسماندگی کا عیب اس سے ختم ہوجائے۔ آزادی کے ساتھ ترقی کرنے اور آگے بڑھتے رہنے کے سارے مواقع اسے حاصل ہوجائیں۔ اسے ہر طرح سے اپنی زندگی محفوظ محسوس ہو ۔ وہ بھی عام لوگوں کی طرح خود داری کی زندگی جئے اور حکومت یا دوسری کی ہمدردی کا محتاج اور دست نگر نہ رہے۔اسلام میں پسماندگی ومحرومی اور مفلسی کا زندگی گزارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور اس نے پسماندہ طبقات کو جو حقوق دیئے ہیں گرچہ ان کا حاصل کرنے والا ذلیل نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کے حصول پر انحصار کرنا بھی کوئی محمود عمل نہیں ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ ہر شخص دوسروں کی امداد سے بے نیاز رہے اور مفلسی کا جڑ سے خاتمہ ہوجائے۔ رسول اکرم ﷺ نے المؤمن القوی خیر من المؤمن الضعیف (قوی ’’یعنی دوسروں سے بے نیاز‘‘کمزور مومن سے بہتر ہے) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے : الید العلیٰی خیر من ید السفلٰی یعنی دینے ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔