بدھ، 22 جنوری، 2014

اب انڈین مجاہدین کے نشانہ پر اروند کیجریوال

اب انڈین مجاہدین کے نشانہ پر اروند کیجریوال
قتل جہاں کے واسطے تازہ پھر اک بہانہ کر

                آزادی وطن کی خاطر مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کا صلہ انہیں اس صورت میں دیا گیا کہ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی خود ان کی قربانی جائز قرار دے دی گئی ۔ ملک میں رونما ہونے والے ہزاروں فسادات میں جس طرح ان کی نسل کشی کی گئی اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا گیا آزادی کے متوالوں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ملک کی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں ، بیورو کریسی ، ذرائع ابلاغ سب نے منظم طور پر اس پالیسی پر عمل کیا کہ مسلمان اس ملک میں سر اٹھاکر جینے کے لائق نہ بن پائیں اور ان کے خلاف نفرت کی ایسی فضا ہموار کی جائے کہ وہ اچھوت بن کر رہ جائیں۔ اس پالیسی پر عمل کرنے کے لئے ہر وہ حربہ اختیار کیا گیا جس سے ایک جانب مسلمان اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے تئیں اندیشوں میں مبتلا رہیں تو دوسری جانب انہیں ملک دشمن بلکہ انسانیت دشمن کے آئینہ میں دیکھا جانے لگے ۔ لہٰذا ابتدا سے ہی ہر قسم کی ملک مخالف سرگرمی کے لئے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا اور ان کی وفاداریاں پاکستان سے منسوب کی جانے لگیں ۔ حالانکہ اس الزام سے بچنے کے لئے وہ ملک کے تئیں اپنی وفاداری کے اضافی ثبوت بھی پیش کرتے رہے لیکن صورت حال میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان کی شبیہ بگاڑنے کی کوششیں تیز تر ہوگئیں ۔ ملک میں رونما ہونے والے ہر دہشت گردانہ واقعہ کے پیچھے مسلمان نظر آنے لگا اور اس کا تعلق پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑنے کا سلسلہ چل پڑا۔ ایک عرصہ تک دہشت گردانہ واقعات انجام دینے کے لئے” لشکر توئبہ“اور ہوجی جیسی تنظیموں کو ذمہ دار قرار دینے کے بعد اب ہماری حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے انڈین مجاہدین کے نام سے اس کا ہندوستانی ایڈیشن تیار کر لیا ہے ۔ چنانچہ اب ایسے تمام واقعات کی انجام دہی کے لئے اسی کومورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔اس فرضی تنظیم سے وابستگی کے نام پر اب نہ جانے کتنے بے قصور نوجوانوں کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑ چکا ہے اور ہزاروں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر انصاف پسند افراد اور تنظیموں کے مسلسل مطالبے کے باوجود حکومت اور اس کی ایجنسیاں اس نام نہاد تنظیم کی اصلیت ثابت نہ کر سکیں لیکن اس کے نام پر مسلمانوں پر عتاب کا سلسلہ پورے شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ بیشتر دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے نام نہاد قوم پرستوں کا ہاتھ ہونے کے پختہ ثبوت کے باوجود پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں نے انہیں مکمل چھوٹ دے رکھی ہے اور ان کی تمام تر توجہات کا مرکز مسلم نوجوان ہیں ۔ چونکہ حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کو مکمل آزادی دے رکھی ہے اس لے وہ بے خوف ہوکر مسلمانوں کو اپنی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ ایک جانب ملک کے وزیر داخلہ مسلمانوں کو گرفتار کرنے میں محتاط رویہ اپنانے کی نصیحت فرمارہے ہیں تو دوسری جانب خفیہ ایجنسیاں نئے نئے شگوفے چھوڑ کر مسلمانوں کی گرفتاریوں کی راہ آسان بنا رہی ہیں ۔
                آج کل خفیہ ایجنسی انٹلی جنس بیورو انڈین مجاہدین کے حوالے سے نئے نئے انکشاف کرنے کا ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔یہ وہی آئی بی ہے جس کی اطلاع کے نتیجہ میں گجرات ، بٹلہ ہاؤس اور ملک کے مختلف حصوں میں فرضی انکاؤنٹروں کی کارروائیاں عمل میں آچکی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ چار ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخاب سے قبل آئی بی کے ذریعہ مسلسل یہ الرٹ جاری کیا جاتا رہا کہ مودی کی جان کو انڈین مجاہدین سے خطرہ ہے ۔ آئی بی کا کمال یہ ہے کہ وہ معمولی دھماکوں کے ذریعہ اپنی بات کی تصدیق بھی کرالیتی ہے جس کا واضح ثبوت پٹنہ ریلی میں ہونے والا دھماکہ ہے جس سے مودی نے خطاب کیا تھا۔ اس دھماکہ کی بنیاد پر بہار سے لے کر جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ تک مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن لکھی سرائے سے گرفتار ہندؤں کو جن کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے پیسے پہنچانے کے پختہ ثبوت ملے ،دہشت گردی کا ملزم نہیں بنایا گیا ۔ راہل گاندھی نے اسی آئی بی کے حوالہ سے یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں مظفر نگر کے فساد زدہ نوجوانوں سے رابطہ میں ہیں اور ہریانہ سے دو ائمہ مساجد کو گرفتار کرکے اس کی توثیق بھی کر دی گئی ۔ اب آئی بی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے ۔ اس کے مطابق انڈین مجاہدین دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو اغوا کر سکتا ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم اپنے سرغنہ یٰسین بھٹکل کو چھڑانے کے لئے اغوا کی سازش کر رہا ہے ۔ گویا آئی بی نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ انڈین مجاہدین کے عفریت کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے۔ کیجریوال نے آئی بی کے اس الرٹ کے بعد سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس یا تو بےوقوف ہے یا پھر سیاست کر رہی ہے ۔انہوں نے ٹویٹ کیا کہ پولیس نے انہیں اس کی اطلاع دیتے ہوئے تاکید کی کہ وہ میڈیا کو اس کے بارے میں نہ بتائیں جب کہ خود ہی سب کچھ بتا دیا ۔ کوئی بھی حملہ کرے گا تو بھٹکل کا ہی نام آئے گا ۔ کیجریوال نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں کسی سے ڈر نہیں ہے ۔ کیجریوال کا رد عمل کچھ بھی ہو اور انہیں اپنی جان کا خوف ہو یا نہ ہو آئی بی اور پولیس کی سابقہ کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں ضرور یہ خوف ہے کہ اب کیجریوال پر حملہ یقینی ہے اور اس کی پاداش میں پھر نہ جانے کتنے مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔
                ایک طرف حکومت مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ بہت سے معاملات میں مسلم نوجوانوں کو غلط ڈھنگ سے پھنسایا گیا ہے تو دوسری طرف اس نے خفیہ اور تفتیشی ایجنسیوں کو شب خون مارنے کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے ۔ یہ ایجنسیاں ایسے ایسے مضحکہ خیز دعوے اور حرکتیں کرتی ہیں کہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا انسان بھی اسے باسانی سمجھ سکتا ہے لیکن اس سے نہ حکومت کی صحت پر اثر پڑتا ہے نہ ہی میڈیا کی جانب سے کوئی سوال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جب مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بات ہو تو یہی میڈیا ایسی ایسی گل افشانیاں کرتاہے کہ خدا کی پناہ اورمسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے ساتھ ہی اپنے ٹرائل کے ذریعہ فوراً ملزم کو مجرم ثابت کر دیتا ہے۔ چند ہفتہ قبل تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے یسین بھٹکل کے حوالہ سے یہ مضحکہ خیز انکشاف کیا کہ وہ گجرات کے سورت شہر پر نیوکلیر بموں سے حملہ کر نے والا تھا لیکن اس سے قبل ہی اس کی گرفتاری عمل میں آگئی ۔اس انکشاف کے بعد نہ حکومت نے اس کا کوئی نوٹس لیا اور نہ میڈیا نے ہی کوئی سوال پوچھا ۔ایسا لگا جیسے نیوکلیر بم کی بجائے غلیل کی بات کی گئی ہو ۔ اس انکشاف کا دوسرا مضحکہ خیز لیکن بے حد خطرناک پہلو یہ ہے کہ بھٹکل کے اس منصوبہ پر جب پاکستان میں موجود اس کے سرغنہ نے کہا کہ ایسے حملہ میں تو مسلمان بھی مارے جائیں گے تو ا س نے کہا کہ وہ مساجد میں اشتہار چسپاں کرکے ان سے کہے گا کہ وہ سب کے سب شہر چھوڑ کر چلے جائیں ۔ گویا بین السطور یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ تمام مسلمان بھٹکلی منصوبہ کی نہ صرف تائید کرنے والے ہیں بلکہ وہ اس کے معین و مددگار بھی ہیں اور مساجد و مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں ۔ اسی تناظرمیں کیجریوال کے اغوا یا ان پر حملہ کی بات کو بھی دیکھنا چاہئے حالانکہ کیجریوال کو واقعی خطرہ ہندو دہشت گردوں سے ہے جو ان کے کارکنان اور دفاتر پر مسلسل حملے کر رہے ہیں ۔
                مسلمان ایک عرصہ سے دہشت گردانہ حملوں کی مار جھیل رہے ہیں ۔ انہیں کی عبادت گاہوں پر حملہ ہوتا ہے ، وہی مارے جاتے ہیں اور انہیں ہی مورد الزام بھی ٹھہرایا جاتا ہے ۔ وہ انصاف کی دہائی دیتے ہیں لیکن انہیں جھوٹے دلاسوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ درحقیقت ہمارا پورا ملکی نظام فسطائیت کے نرغہ میں ہے ۔ فرقہ پرستی کے عفریت نے مقننہ سے لے کر انتظامیہ تک سب کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ایک شخص جو کل تک دھماکوں میں آر ایس ایس کارکنان کے ملوث پائے جانے کے پختہ ثبوت ہونے کا اعلان کرتا رہا آج خود آر ایس ایس کی گود میں جاکر بیٹھ گیا ہے اور اس کے پالیسی سازوں میں شامل ہوگیا ہے ۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز وہ لوگ جو سبک دوشی کے بعد فرقہ پرستوں کی پناہ گاہ میں داخل ہوجاتے ہیں برسر کار رہتے ہوئے انہوں نے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے ۔ یہ صورت حال نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کی سلامتی کے لئے بے حدتشویش ناک ہے اور اگر فسطائیت کے اس جن کو بوتل میں بند نہیں کیا گیا تو پورا ملک تباہ ہوجائے گا۔ کیا ملک کو فرقہ پرستی سے نجات دلانے کے جھوٹے دعوے داروں اور سیکولرزم کے نام نہاد علمبرداروں کے پاس اس کا کوئی علاج ہے ؟

جمعہ، 17 جنوری، 2014

شنڈے کے مکتوب کی حیثیت آخری وصیت کے سوا کچھ بھی نہیں

شنڈے کے مکتوب کی حیثیت آخری وصیت کے سوا کچھ بھی نہیں
                                                                                                                                                                                               
                جب سے پارلیامانی انتخاب کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے مسلمانوں سے سیاسی پارٹیوں کی زبانی ہمدردیاں بڑھ گئی ہیں اور انہیں ان کی خوش حالی اور ترقی کی فکر ستانے لگی ہے۔ ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ اسے مسلمانوں کا ووٹ حاصل ہو، اس لیے سبھی پارٹیاں اپنے اپنے انداز میں انہیں لبھانے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہیں اور ہر پارٹی انہیں یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ صرف وہی ان کی حقیقی بہی خواہ ہے اور وہی ان کے تمام مسائل کو حل کرسکتی ہے ۔ ملک میں مسلمانوں کے بے شمار ہی مسائل میں سر فہرست ان کے تحفظ کا مسئلہ ہے، انہیں دن رات اسی کی فکر ستاتی رہتی ہے جس کی وجہ سے انہیں دیگر مسائل پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ملتی۔ اس لیے سیاسی پارٹیاں مختلف حربوں کا استعمال کرکے پہلے ان میں عدم تحفظ کے احساس بڑھاوادیتی ہیں اور پھر ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہر پارٹی دعوی کرتی ہے کہ وہی انہیں تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو جماعت انہیں سب سے زیادہ عدم تحفظ کا شکار بناتی ہے وہی سب سے زیادہ ان کے تحفظ کا دعوی بھی کرتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کانگریس پارٹی ہے جس نے فسادات کے ذریعہ ہمیشہ مسلمانوں کی کمر توڑ ی اور انہیں کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں بننے دیا پھر یہی طریقہ دوسری پارٹیوں نے بھی اپنایا۔ فسادات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے نام پر بھی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا رواج چل پڑا اور آج تو اسے سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ جہاں کہیں کو ئی بم دھماکہ ہوا بغیر کسی ثبوت کے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر اس کو سچ کرنے کے لیے ثبوت تراشے جاتے ہیں جن میں بیشتر عدلیہ میں جاکر فرضی ثابت ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے دن دہشت گردی کے نام پر گرفتار مسلم نوجوان اپنی عمر کا بیش قیمت حصہ ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ کر عدلیہ سے بے گناہ ثابت ہوکر رہا ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی ہزاروں بے قصور نوجوان دہشت گردی کے الزام میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حل نہیں ہے۔ ملی تنظیموں اور ملک کے دیگر سیکولر اور انصاف پسند طبقہ کی جانب سے نہ جانے کتنی بار حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر قد غن لگائی جائے اور اصل مجرموں تک پہنچا جائے لیکن انہیں جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہ ملا اور اب بھی بے قصوروں کی دھر پکڑ کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں مزید شدت آگئی ہے۔ یوپی اے کی دس سالہ حکومت میں جس طرح دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کی گئی ہیں اس سے مسلمان یو پی اے اور اس کی سربراہ کانگریس سے بیزار ہوگئے ہیں جس کی ایک جھلک حالیہ اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو ملی ہے۔ چنانچہ کانگریس کو ایک بار پھر مسلمانوں کی فکر ستانے لگی ہے اور اس نے ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا شروع کردیا ہے۔
                چنانچہ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلی کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اقلیتی فرقہ کے نوجوانوں کو گرفتار کرنے میں احتیاط سے کام لیں۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس طرح کے خوش کن اعلانات وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ سال مئی میں ملی تنظیموں اور سیکولر افراد کے دباؤ کے نتیجہ میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے لیے نیشنل سیکوریٹی ایکٹ کے تحت ۳۹؍ خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ اس کے بعد ستمبر میں وزیر داخلہ نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلی کو ایک مکتوب بھیجا جس میں کہا گیا کہ تمام ریاستیں ہائی کورٹ کے مشورے سے ایسے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دیں اور یہ یقینی بنائیں کہ کسی بے قصور شخص کو ہراساں نہ کیا جائے اور اگر کسی معاملہ میں اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاری غلط ثابت ہوتو قصور وار پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جائے، گرفتار کئے گئے بے گناہ لوگوں کو فورا رہا کیا جائے اور انہیں معقول معاوضہ دینے کے ساتھ ان کی باز آباد کاری بھی کی جائے۔ مذکورہ خط میں وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہا تھا کہ ایسے بہت سے معاملات سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس نے مسلم فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو غلط طریقہ سے گرفتار کیا ہے جس کی وجہ سے اقلیتی نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اب تک کتنی خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان سے بے قصور نوجوانوں کو کیا فائدہ حاصل ہوا اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ وزیر اعلی کے مکتوب سے ریاستی حکومتوں کی صحت پر کیا اثر پڑا۔ ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ حسب سابق گرفتاریوں کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں مزید تیزی آگئی ہے اور اصل مجرموں کو چھوڑنے اور بے قصوروں کی دھر پکڑ کے لیے پولس افسران کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی ہورہی ہے ۔ ایسے میں وزیر داخلہ کا حالیہ بیان فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
                حقیقت تو یہ ہے کہ اس سلسلہ میں مرکزی حکومت کی نیت ہی صاف نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ مسلمان اس ملک میں آبرو مندانہ زندگی جینے کا حوصلہ پیدا کریں ورنہ آج مسلمانوں کی حالت اسی کی تشکیل کردہ کمیٹی کی رپورٹ سے مطابق دلتوں سے بدتر نہ ہوتی۔ اب یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کون انجام دے رہا ہے اور یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ پولیس افسران نہ صرف بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں کو گرفتار کرتے ہیں بلکہ بہت سے معاملات میں فرضی واقعات میں ان کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ ایسے کئی معاملات سامنے آئے ہیں جن میں عدالتوں نے نہ صرف گرفتار شدگان کو رہا کیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ جس واقعہ کی بنیاد پر بے قصوروں کو گرفتار کیا گیا وہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں اور اس بنیاد پر پولس والوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا حکم بھی جاری کیا۔ دہلی کی ایک عدالت نے ایسے ہی ایک فرضی مقدمہ میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہا کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ ’’انکاؤنٹر کی کہانی بڑی چالاکی کے ساتھ دلی پولیس کے دلی اسپیشل اسٹاف کے دفتر میں اس کے خاص مصنف سب انسپکٹر رویندر تیاگی اور اس کے معاونین کے ذریعہ لکھی گئی ہے۔ ‘‘اسی طرح بھگوا دہشت گردی کے کھل کر سامنے آجانے کے باوجود اس کے خلاف کارروائی میں تیزی نہ لانا بھی مرکزی حکومت کی نیت کے فتور کا ثبوت ہے۔ وزیر داخلہ سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ریاستوں کو ان کے ذریعہ بھیجے گئے مکتوب کی قانونی حیثیت کیا ہے کیونکہ لا اینڈ آرڈ ر ریاستی معاملہ ہے اور مخصوص حالات کو چھوڑ کر مرکز اس میں مداخلت کا مجاز نہیں ہے۔ شاید اس کے ذریعہ وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت نے تو بے قصوروں کی گرفتاریوں پر روک لگانے کی کوشش کی لیکن ریاستی حکومتوں نے تعان نہیں کیا ۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے وہاں اس پر کس قدر عمل ہوا۔ مہاراشٹر اور دلی میں لگا تار کانگریس اقتدار میں رہی اور ان دو ریاستوں کی پولس نے جس طرح دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کی اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مہاراشٹر اے ٹی ایس اور دلی پولس اسپیشل سیل نے دیگر ریاستوں میں جاکر جو ہنگامہ خیزی کی ہے کیا اس کے لیے کانگریس ذمہ دار نہیں ہے ۔ کیا وزریر داخلہ کو اس بات کا جواب نہیں دینا چاہیے کہ مہاراشٹر میں مسلمان مجموعی آبادی کا ۱۵؍ فیصد ہیں تو جیلوں میں ۳۷؍ فیصد کیوں ہے۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران مہاراشٹر اور دلی میں کانگریس کی حکومت رہی ہے اور سب سے زیادہ گرفتاریاں بھی انہیں دونوں ریاستوں میں ہوئی ہیں تو اس کیا جواب ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس مدت میں خود مسٹر شنڈے بھی مہاراشٹر کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔ کیا وزیر داخلہ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ عشرت جہاں اور صادق جمال مہتر انکاؤنٹر میں سازش رچنے والے آئی بی افسران راجیندر کمار، سدھیر کمار، یش وردھن آزاد او رگرو راج وغیرہ کو کیوں بچایا گیا ۔ کیا ہمیں اس سوال کا جواب نہیں ملنا چاہیے کہ مالے گاں بم دھماکہ میں ہندو ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل ہونے کے باوجود اس الزام میں پہلے سے گرفتار بے قصور مسلم نوجوان ابھی تک عدالتوں کے چکر کیوں کاٹ رہے ہیں۔ کیا ہمین یہ جاننے کا حق نہیں ہے کہ پٹنہ دھماکہ کے بعد مسلم نوجوانوںکو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو کروڑوں روپے کے ٹرانزکشن کے سرغنہ گوپا کمار گویل اور اس کے ساتھی وکاس کمار ، پون کمار اور گنیش ساہو اور بنگلور سے گرفتار عائشہ اور زبیر کو جو اصل میں دنیش اور سنیتا ہیں ؛دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پیسہ پہنچانے کے پختہ ثبوت کے باوجود دہشت گردی کا ملزم کیوں نہیں بنایا گیا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پائے بغیر مسلمان کانگریس سے مطمئن نہیں ہوسکتے۔
                کانگریس کی بد نیتی کا بد ترین ثبوت راہل گاندھی کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا تھاکہ پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں فساد زدہ نوجوانوں کے رابطہ میں ہیں جس پر کافی واویلا مچا تھا اور خفیہ ایجنسیوں نے ہریانہ سے دو ائمہ کو گرفتار کر ک راہل کے اس بیان کی تصدیق کردی۔ اس کی بد نیتی کا ثبوت یہ بھی ہے کہ کانگریس کے جنرل سکریٹری شکیل احمد نے انڈین مجاہدین کو گجرات فساد کے رد عمل میں پیدا ہونے والی تنظیم قرار دے کر اس نام نہاد فرضی تنظیم کے اصلی ہونے کی تصدیق کردی۔ حالانکہ آج تک کوئی ایجنسی اس کی حقیقت ثابت نہ کرسکی۔ مرکزی وزیر داخلہ کے حالیہ مکتوب کا سب سے مضحکہ خیز بلکہ بد نیتی پر محمول وہ حصہ ہے جس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اقلیتوں سے ان کی مراد کسی خاص کمیونٹی سے نہیں ہے۔ یہ وضاحت ان کے فرقہ پرست عناصر سے خوفزدہ ہونے کی دلیل ہے کہ ان پر مسلم نوازی کا الزام نہ لگے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بے قصور گرفتار شدگان میں ۹۰؍ فیصد کا تعلق مسلمانوں سے ہے تو ان کا نام لینے میں شرم کیوں محسوس ہوئی۔ کیا وہ باغبان بھی خوش رہے ، راضی رہے صیاد بھی‘ کے نظریہ پر عمل پیرا نہیں ہیںَ یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جنہوں نے بھگوا دہشت گردی کے پختہ ثبوت ہونے کی بات کہنے کے بعد فرقہ پرست عناصر کے دباؤ میںآکر معافی مانگ لی تھی۔ کانگریس اگر مخلص ہوتی تو اپنے دس سالہ دور اقتدار میں اس صورتحال پر قابو پاسکتی تھی لیکن اس نے اس کی بجائے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف نت نئے سیاہ قوانین بناکر بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری کے لیے پولیس کو چھوٹ دی او اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت مسلمانوں کے لئے جن نیک خواہشات کا اظہار کر رہی ہے اور جو وعدے کر رہی ہے ان پر عمل در آمد کب ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان وعدوں کی تکمیل کے لیے اسے ایک بار پھر اقتدار سونپنا ہو گا ۔ لیکن پھر بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر اقتدار مل بھی جائے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ وعدوں کی تکمیل بھی ہوگی۔ لہٰذا وزیر داخلہ کے مذکورہ مکتوب کی حیثیت جانے والے کی آخری وصیت سے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اس لیے کانگریس مسلمانوں کو سبز باغ نہ دکھائے اور اگر واقعی وہ مخلص ہے تو الیکشن میں جانے سے قبل کم از کم انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل منظور کر کے اس کا ثبوت پیش کرے۔


منگل، 14 جنوری، 2014

آتش بازی کا عالمی ریکارڈ

آتش بازی کا عالمی ریکارڈ
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے



۲۰۱۴ءکا سال مسلم ممالک کے لئے اس لحاظ سے بے حد ناسازگار رہا کہ اس میں ان ممالک بطور خاص مشرق وسطیٰ میں حالات بیحد ہنگامہ خیز رہے ۔ فلسطین ، مصر ، شام، پاکستان، بنگلہ دیش،میانمار ہر جگہ انہیں اپنی نادانیوں کی سزا اور غیروں کی سازشوں کی مار جھیلنی پڑی اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ ۴۱۰۲ءبھی ان کے لئے کسی خوش خبری کی نوید لے کر نہیں آیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بعض استثنا کے ساتھ ان ممالک کے سربراہوں کو شاید اس بات کا احساس نہیں ہے ، دولت کی ریل پیل نے انہیں اندھا کر دیا ہے اور وہ نوشتہدیوار پڑھنے سے قاصر ہیں۔ قارئین تک یہ اطلاع پہنچ چکی ہے کہ مسلم ملک دبئی نے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے اوریہ ریکارڈ ہے آتش بازی کا ۔ نئے سال کے آغاز کے لمحے کے ساتھ ہی دبئی نے ۵ لاکھ سے زائد پٹاخوں کی مدد سے زبردست اور حیران کن آتش بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈس میں یہ اعتراف کیا گیاہے کہ آتش بازی کی تاریخ میں ایسا مظاہرہ دنیا میں کہیں نہیں ہوا۔ اس کی منصوبہ بندی گذشتہ دس ماہ سے کی جارہی تھی ۔ آتش بازی کا سب سے زیادہ متاثر کن مظاہر ہ ساحل پر ایک مصنوعی طلوع آفتاب کا منظر پیدا کرتے ہوئے کیا گیا ۔ فضاں میں جاکر روشنی کے ساتھ پھٹ پڑنے والے پٹاخوں کی بلندی ایک کیلو میٹر سے زائد تھی ۔ اس سے قبل یہ عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا شرف بھی امریکہ یا یورپ کو حاصل نہیں ہوا بلکہ ایک اور مسلم ملک کویت نے ۲۱۰۲ءمیں اپنی سالگرہ تقریب میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ واضح رہے کہ اس کا ڈیزائن امریکی کمپنی فائر ورکس بائی گروسی نے تیار کیا تھا ع حیراں ہوں دل کو رو ں کہ پیٹوں جگر کو میں
                اس وقت عالم اسلام جس صورت حال سے دوچار ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کو جن شدائد و مصائب کا سامنا ہے ایسے میں کیا کسی مسلم ملک کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ دولت کو جھوٹی شان کا مظاہرہ کرنے میں لٹائے ۔ یہ ذہنی افلاس کی انتہا ہے کہ جب دنیا ستاروں پر کمندیں ڈال چکی ہے اور تسخیر کائنات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے مسلم ممالک آتش بازی کے ریکارڈ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور پھل جھڑیاں چھوڑ رہے ہیں۔ جن کے اسلاف نے دنیا کو تہذیب و تمدن سکھایا ، علوم و فنون سے مالا مال کیا ، جینے کا ہنر سکھایا ، جہاں بانی کاسلیقہ بتایا ، اپنے علمی تفوق سے دنیا پر اپنی عظمت کا سکہ بٹھایا ، آج ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ انہیں اپنے مقام و مرتبہ کا بھی احساس نہیں رہا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دولت کی ریل پیل اور وسائل کی کثرت کے باوجود عالمی منظر نامہ پر ان کے وجود کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے اور وہ بہت سی بنیادی ضروری اشیاءکے ساتھ ساتھ سامان عشرت تک کے لئے مغرب کے محتاج بن گئے ہیں۔ ان کا سرمایہ عیش و نشاط اور نمود و نمائش میں صرف ہورہا ہے ۔ جن کے آباءو اجداد نے ایجادات و اختراعات میں ریکارڈ قائم کیا وہ تفریح و عیش پرستی کا ریکارڈ قائم کر رہے ہیں جنہیں اقوام عالم کی امامت کرنی تھی وہ آخری صف کے مقتدی بنے بیٹھے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ان کے اندر سے احساس زیاں بھی مفقود ہوگیا ہے ۔ ان کے اندر یہ احساس بالکل باقی نہیں رہا کہ ان کی حیثیت کیا تھی اور وہ آج کس مقام پر پہنچ گئے ہیں ۔ انہیں اس بات کا شعور نہیں کہ عظمت رفتہ کیسے حاصل کی جائے اور اپنی دولت و صلاحیت سے کیسے دنیا کو فیض پہنچایا جائے ۔ عالم اسلام کے پاس مادی وسائل کی کمی نہیں ہے ، دنیا کا ایک چوتھائی بری حصہ اس کے قبضہ میں ہے ، زرعی اور معدنیاتی لحاظ سے بھی مالا مال ہے ۔ دولت ، صلاحیت ، اہلیت ، افرادی قوت سب کچھ موجود ہے لیکن مقام عبرت ہے کہ ان سب کے باوجود وہ دنیا میں سر اٹھاکر جینے کے لائق نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اللہ نے اسے جس دولت و حکومت سے نواز ا ہے اسے امانت سمجھتے ہوئے اس کا استعمال علوم و فنون کی ترقی کے ساتھ ساتھ مظلوموں کی حمایت ، انسانیت کی فلاح اور خدمت خلق کے میدانوں میں کیا جاتا جس سے نہ صرف اقوام عالم میں اس کی ساکھ بہتر ہوتی بلکہ یہ تبلیغ دین کا بھی بہترین وسیلہ ہوتا لیکن ہویہ رہا ہے کہ اس کا استعمال اپنے ہی بھائیوں کی گردنیں اڑانے یا جھوٹی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں نے اپنے شاندار ماضی سے کوئی سبق نہیں لیا ورنہ اس وقت اقوام عالم کی قیادت و سیادت ان کے ہاتھوں میں ہوتی ۔ علوم و فنون سے پہلو تہی کرکے دنیا میں کوئی قوم سر اٹھاکر نہیں جی سکتی ۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی سے منہ موڑ کر آبرومندانہ زندگی جینے کا تصور بھی ممکن نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو اس وقت تک عزت و وقار حاصل رہا جب تک انہوں نے علوم و فنون سے اپنا رشتہ استوار رکھا اور دنیا کو اپنی خدمات سے فیض پہنچاتے رہے لیکن جب اس سے آنکھیں چرالیں تو وسائل کی کثرت کے باوجود محکوم بن گئے اور جن قوموں نے اسے اپنایا انہیں خود بخود دنیا کی قیادت حاصل ہوگئی۔کچھ عرصہ قبل یورپ کے ایک معروف مورخ چارلس گیلسپی نے ان سائنسدانوں کی فہرست مرتب کی تھی جنہوں نے ساتویں صدی سے پندرہویں صدی تک سائنس کو فروغ دیا اور اس طرح موجودہ سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی ۔ اس فہرست میں ۲۳۱ سائنسدانوں کے نام شامل ہیں جن میں ۵۰۱ کا تعلق مسلم دنیا سے ہے۔ گویا عہد وسطی میں دنیا کے نوے فیصد سائنسداں عالم اسلام سے تعلق رکھتے تھے ۔ لیکن جب مسلمانوں نے اس سے بے اعتنائی برتی تو وہ کہاں پہنچ گئے اس کا اندازہ اس سروے سے بخوبی ہوجاتا ہے ۔ ۱۸۹۱ءکے ایک سروے کے مطابق چھوٹے سے ملک ناروے کے سائنسدانوں ، انجینئروں اور ڈاکٹروں کی کل تعداد پوری اسلامی دنیا کے سائنسدانوں ، انجینئروں اور ڈاکٹروں سے کچھ زیادہ ہی تھی ۔ یہ تعداد جاپان کے کل سائنسدانوں کے نصف سے بھی کم تھی ۔
                جو قوم عیش و عشرت اور جھوٹی شان و شوکت کے مظاہر ہ پر اربوں کھربوں خرچ کر ڈالے اسے زوال سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمان پوری دنیا میں سنگین مسائل سے دوچار ہیں ۔ اپنی شامت اعمال کے نتیجہ میں جہالت ، مفلسی ، پسماندگی ، انتشار اور محکومی ان کا مقدر بن گئی ہے ۔ نااتفاقی کا یہ عالم ہے کہ آپس میں خونریز جنگیں لڑی جاتی ہیں اور ان کے لئے بھی یورپ اور امریکہ سے ہتھیار خریدا جاتا ہے۔ جب ہم مسلمانوں کے زوال کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہماری سوچ اغیار کی سازش اور اسلام دشمنوں کی فتنہ پروری کے گرد ہی گھومتی ہے اور ہمیں اپنی کمیوں کا احساس و ادراک نہیں ہوتا ہے ۔ اس سے بڑا اور المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ جس قوم کو اللہ نے تمام قسم کے وسائل سے نواز ا ہو وہ اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بھی دوسروں کی دست نگر بنی رہے۔ کہنے کو تو چار درجن سے زائد چھوٹی بڑی مسلم حکومتیں ہیں لیکن وہ اپنے تحفظ کے لئے مکمل طور پر مغرب پر منحصر ہیں ۔ انہیں نہ اپنی کوتاہیوں کا احساس ہے اور نہ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا ادراک ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنی دولت کی قدر و قیمت کو سمجھتے جس سے نہ صرف ان کا اپنا وجود محفوظ رہتا بلکہ دوسرے بھی ان کے دامن عافیت میں پناہ لیتے ۔ آج مسلم ممالک کو ان کی غفلت اور کوتاہیوں نے اس مقام پر لاکھڑا کر دیا ہے جہاں سب کچھ ہونے کے باوجود وہ خود کفیل نہیں بن سکے اور ایک طرح سے امریکہ کے محتاج اور تابعدار بن کر رہنے پر مجبور ہیں اور وہ انہیں یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ انہیں اپنے تحفظ کے لئے اس کی ضرورت ہے ۔ امریکہ نے پوری طرح ان پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے اور وہ مطمئن ہیں کہ ان کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت دنیا کے سپر پاو ر نے لے رکھی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر امریکہ کو اپنے مفاد کی تکمیل میں رکاوٹ محسوس ہوئی تو اسی کے ذریعہ جمہوریت کے نام پر ان حکمرانوں کے تاج اچھالے جائیں گے جس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مسلم ممالک نوشتہدیوار پڑھ لیں اور اللہ نے انہیں جو دولت عطا کی ہے اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے خود کو اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو سر اٹھاکر جینے کا موقع فراہم کریں ۔ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ جس قدر ممکن ہو امریکہ اور یورپ پر انحصار ختم کرکے خود کفیل بننے کی کوشش کریں۔ اگر دوسری جنگ عظیم کے موقع پر پورے طور پر تباہ ہوچکے جاپان اور جرمنی ترقی کر سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں کر سکتے ۔ اپنی دولت کو اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے خرچ کریں ۔ مسلمان سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں مغربی اقوام سے نہ صرف بہت پیچھے ہیں بلکہ ان کی نقالی کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں ۔ کیا بہتر ہوتا کہ وہ دولت جو عشرت سامانیوں اور جھوٹی نمائشوں پر خرچ کی جارہی ہے ان کے ذریعہ سائنس اور ٹکنالوجی کے اعلیٰ ترین مراکز کا قیام عمل میں لایا جاتا ۔ اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت مسلمانوں کے ماتھے کا بد نما داغ ہے جب کہ آج کے دور میں اس کے بغیر ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا ۔ اگر دولت کا صحیح استعمال کیا جائے تو مسلمانوں کے ماتھے سے یہ داغ بآسانی دھل سکتا ہے ۔ یوں بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئے جارہے حملوں اور پروپیگنڈوں کا جواب دینے کے لئے یہ بیحد ضروری ہے ۔ مسلمانوں کے پاس مادی وسائل کے علاوہ سب سے مضبوط چیز ان کا نظریہ ہے ۔ اگر انہیں اس کی قدر و قیمت کا احساس ہوجائے اور وہ تقاضائے وقت کے مطابق سائنس او ر ٹکنالوجی کو تعمیر انسانیت کے لئے استعمال کریں تو مغربی طاقتوں کو اپنے آگے گھٹنوں کے بل جھکا سکتے ہیں ۔
                آج جب دنیا ہر روز ترقی کے نئے باب لکھ رہی ہے ، مسلمان اس سے بے پروا اپنی دولت اور اپنا سرمایہ فضولیات میں صرف کر رہے ہیں ۔ وہ یا تو آپسی جنگ و جدال میں مصروف ہیں یا عیش و نشاط میں مشغول ہیں اور یہ فرد سے لے کر جماعت اور حکومتوں تک کا یکساں رویہ ہے ۔ خود ہمارے ملک میں مسلمان جھوٹی شان و شوکت کے مظاہروں میں جتنی دولت خرچ کرتے ہیں شاید اس کا نصف بھی تعمیری کاموں میں صرف نہیں ہوتا ۔ ابھی چند ماہ قبل بہار کے ایک مسلم ممبر اسمبلی نے اپنی شادی میں چند کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا ۔ ہماری قوم کا مزاج یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے حیثیت کے باوجود خرچ کرنا گوار ا نہیں کرتے وہ ان کی شادیوں میں نمائش کے لئے سود لینے او رزمینیں بیچنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ باہمی اختلاف ہمارا طرئہ امتیا زہے اور بے عملی ہمارا جوہر ۔ ان حالات میں عزت و وقار کی زندگی کے خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔ مسلمانوں کے لئے عظمت رفتہ کی واپسی کی واحد صورت یہی ہے کہ وہ علوم و فنون سے اپنا رشتہ مضبوط کریں ، اپنے اندر اتحاد پیدا کریں ، اپنی دولت ، سرمایہ اور توانائیوں کو فضولیات میں خرچ کرنے کی بجائے تعمیری کاموں میں لگائیں او ر تمام اختلافات کو مٹاکر ایک امت کا تصور پیدا کریں ۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر اللہ کی دی ہوئی دولت کی ناقدری کی جاتی ہے تو وہ وبال جان بن جاتی ہے ۔ 

بدھ، 1 جنوری، 2014

ہر چہ در کان نمک رفت نمک شد

ہر چہ در کان نمک رفت نمک شد
افواہوں کے پھیلنے کی رفتار صحیح خبروں سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور ترسیل وابلاغ کے جدید ذرائع نے اسے اور آسان بنادیا ہے چنانچہ تجارت سے لے کر سیاست اور صحافت تک ہر میدان میں افواہ پھیلانے اور بد امنی پیدا کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جارہا ہے۔
 افواہ پھیلانے کا کام محض شر پسند عناصر ہی نہیں کرتے بلکہ اس سلسلہ میں ہمارا با وقار قومی میڈیا سب سے آگے ہے ۔ میڈیا میں فسادات سے لے کر دہشت گردانہ واقعات تک کی رپورٹنگ جس انداز میں کی جاتی ہے اور جس طرح حقائق کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔ ایک خاص فرقے کے خلاف اخبارات میں ایسے ایسے من گھڑت افسانے شائع کئے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ ۔ جہاں جمہوریت کے چوتھے ستون کا یہ عالم ہو وہاں بے ایمان تاجروں اور منافع خوروں کے ذریعہ قلت نمک کی افواہ نہ بعید از قیاس ہے نہ حیرت انگیز۔
                                                                                                                         
                چند دنوں قبل بہار میں بڑے ہی منظم انداز میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ریاست میں نمک کی قلت پیدا ہوگئی ہے ۔ اس لئے نمک مہنگا ہورہا ہے۔ دیکھتے ہیں دیکھتے دوکانوں پر بھیڑ لگنے لگی اور جسے جتنی مقدار میں نمک ملا خریدنے لگا اور پھر جلد ہی بازار سے نمک غائب بھی ہوگیا اور تاجروں نے نمک کی ذخیرہ اندوزی کرلی۔ نمک کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا اور ۸۰؍ سے ۱۰۰؍ روپے کیلو تک نمک کی فروخت ہوئی ۔ اس افواہ کا اثر شمالی مشرقی ریاستوں تک ہوا۔ شکر ہے کہ حکومت فوراً حرکت میں آگئی جس کی وجہ سے جلد ہی افراتفری کا ماحول ختم ہوگیا۔ اس سلسلہ میں ریاست بھرمیں۲۱؍ افراد گرفتار کئے گئے اور ۱۵ ؍مقدمات درج کئے گئے۔
                قلت نمک کی افواہ منافع خور تاجروں کی منظم سازش ہوسکتی ہے کیونکہ اتنے بڑے پیمانہ پر ایسی افواہ بغیر منصوبہ بندی کے نہیں پھیلائی جاسکتی ۔ ایسے ماحول میں جہاں زندگی کا مقصد محض دولت حاصل کرنا رہ گیا ہو، کچھ بھی ممکن ہے۔ یوں بھی ہمارے یہاں تجارت میں ایمانداری کے علاوہ سب کچھ جائز ہے۔ اس وقت مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کا سبب پیداوار میں کمی نہیں بلکہ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی یہی ذہنیت ہے۔ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کی وجہ سے ہی شاید لوگوں نے بآسانی اس افواہ پر یقین بھی کرلیا۔اس افواہ پر یقین کرنے میں پیاز کی مہنگائی بھی ایک اہم وجہ رہی۔ حالانکہ پیازبھی جس طرح سے ملک بھر میں مہنگی ہوئی اور اب بھی اس کی قیمت معمول پر نہیں آسکی ہے، اس میں بھی ذخیرہ اندوزی اور افواہ کے اثر سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کا جواز یہ بھی ہے کہ پچھلی مرتبہ اقتدار سے بی جے پی کی بے دخلی کا سبب پیاز کی قیمت میں اضافہ رہا تو عین ممکن ہے کہ منصوبہ بند طریقے سے پیاز کی ذخیرہ اندوزی کر کے یہ افواہ گشت کرائی گئی ہو اور پھر نمک پر بھی اس کا تجربہ کیا گیا ہو۔ بہر حال قلت نمک کی افواہ کا سبب کچھ بھی ہو ، اس پورے واقعہ سے ایک بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک میں افواہ پھیلا کر بد امنی اور انتشار پیدا کرنا کتنا آسان کام ہے۔ افواہوں کے پھیلنے کی رفتار صحیح خبروں سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور ترسیل وابلاغ کے جدید ذرائع نے اسے اور آسان بنادیا ہے چنانچہ تجارت سے لے کر سیاست اور صحافت تک ہر میدان میں افواہ پھیلانے اور بد امنی پیدا کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جارہا ہے۔ قارئین اچھی طرح واقف ہیں کہ مظفر نگر میں رونما ہونے والے فسادات بھی افواہ ہی کے نتیجہ میں پھیلے ۔ بی جے پی لیڈران کی اشتعال انگیز تقریروں کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعہ نقلی ویڈیو کی تشہیر نے جلتی پر گھی کا کام کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دو ماہ قبل ہونے والے فسادات کی چنگاری اب بھی سرد نہیں ہوئی ہے اور افواہ کی تھوڑی سی ہوا بھی اس چنگاری کو شعلہ میں بدل دیتی ہے۔ اس افواہ کے نتیجہ میں سیکڑوں جانیں گئیں ، لاکھوں بے گھر ہوگئے ، ان کے مکانات کو جلادیا گیا اور اراضی پر قبضہ کر لیا گیا ۔ اب بھی ہزاروں افراد پناہ گزیں کیمپوں میں کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہی اور خوف کے مارے اپنے گھروں کو واپس جانے کو تیار نہیں ہیں۔ افواہ پھیلانے کا کام محض شر پسند عناصر ہی نہیں کرتے بلکہ اس سلسلہ میں ہمارا با وقار قومی میڈیا سب سے آگے ہے ۔ میڈیا میں فسادات سے لے کر دہشت گردانہ واقعات تک کی رپورٹنگ جس انداز میں کی جاتی ہے اور جس طرح حقائق کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔ ایک خاص فرقے کے خلاف اخبارات میں ایسے ایسے من گھڑت افسانے شائع کئے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ ۔ جہاں جمہوریت کے چوتھے ستون کا یہ عالم ہو وہاں بے ایمان تاجروں اور منافع خوروں کے ذریعہ قلت نمک کی افواہ نہ بعید از قیاس ہے نہ حیرت انگیز۔
                ملک کے مسلمان سماجی ، معاشی اور سیاسی طور پر کتنے ہی پسماندہ کیوں نہ ہوں لیکن انہیں بزعم خود اپنے کردار کی بلندی کا دعوی ہے اس لئے کہ ان کی وابستگی ایسے مذہب سے ہے جس میں کردار کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن افواہ کے اس بہاؤ میں وہ بھی بہہ گئے۔ نہ صرف بہہ گئے بلکہ بہتی گنگا میں ہاتھ بھی دھویا۔ یعنی افواہوں پر یقین کرنے میں نہ مسلمان پیچھے رہے نہ غیر مسلم ۔ اسی طرح نمک کو مہنگے داموں میں فروخت کرنے میں بھی مکمل قومی یکجہتی کا ثبوت دیا گیا ۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اولا مسلمان اس افواہ پر یقین ہی نہیں کرتے کیونکہ ان کے مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ خبروں کو پھیلانے سے پہلے اس کی تصدیق کر لی جائے۔ اس کی تعلیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے بیان کردے ۔ جبکہ منافع خوری اور ذخیرہ اندازی اس مذہب میں حرام قرار دیئے گئے ہیں اور ایسا کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں ہیں۔ ان سب کے باوجود مسلماوں نے بھی وہی کیا جو سبھوں نے کیا۔ حتی کہ اس معاملہ میں عالم وجاہل کی تمیز بھی نہ رہی۔
                مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کوتسلیم کرنے والوں کے درمیان فرق صرف مراسم عبودیت میں رہ گیا ہے جبکہ اخلاق ومعاملات میں سب یکساں ہیں ۔ حالانکہ ہر معاملہ میں مسلمانوں کی امتیازی شان ہونی چاہیے۔ زیادہ عرصہ نہیں گذرا جب عام طور سے لوگ کہتے تھے کہ مسلمان جھوٹ نہیں بولتا لیکن اب مسلمانوں کی کسی بات پر یقین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پہلے غیر مسلم اپنی امانتیں مسلمانوں کے پاس رکھتے تھے لیکن اب یہ اعتماد بھی باقی نہ رہا۔ اخلاق و معاملات کی وہ کون سی خرابی ہے جو مسلمانوں میں موجود نہیں ہے۔ ہم مسلمانوں
کی پسماندگی کے اسباب کا تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں تو ہمیں بے شمار اسباب نظر آتے ہیں لیکن جس اہم سبب کی طرف ہماری نظر نہیں جاتی وہ در اصل یہی کردار کی خرابی ہے۔ کردار کی عظمت ہی انہیں دونوں جہاں میں سر خروئی سے سر فراز کرسکتی ہے۔ یہ سرا ہاتھوں سے نکل گیا تو ساری خرایباں آگئیں ا ور آج صورتحال یہ ہے کہ وہ ہر میدان میں پسماندگی کے شکار ہیں اور انہیں سچر کمیٹی کا آئینہ دکھایا جارہا ہے۔ اس وقت ملک میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ مہم جاری ہے اور انہیں غیر مہذب ، غیر روادار یہاں تک کہ دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کی جو آگ بھڑکائی جارہی ہے، مسلمان اپنے کردار کی بلندی سے ہی ان پر قابو پاسکتے ہیں۔ یہی وہ شاہ کلید ہے جس سے ان کی تعمیروترقی کے تمام بند دروازے وا ہوسکتے ہیں۔ اس سے صرف نظر کر کے جو کوشش ہوگی وہ بار آور نہیں ہوگی کیونکہ ع خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔
٭٭٭