جمعرات، 23 مارچ، 2017

مودی، یوگی اور مسلمان

مودی، یوگی اور مسلمان
                ۲۰۱۴ کے عام انتخابات میں بی جے پی کی زبردست جیت کی بعد ملک میں جو سیاسی منظرنامہ بنا اس نے بجا طور پر مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ مرکز کی کامیابی کے بعد ریاستوں میں بھی جس طرح پارٹی نے پے در پے کامیابیاں حاصل کیں اس سے ایسا لگنے لگا کہ اب بی جے پی ناقابل تسخیر بن گئی ہے۔ لیکن دلی اور بہار کے انتخابات میں اس کی ذلت آمیز شکست نے اس کے بڑھتے قدم کو روک دیا تو مسلمانوں اور دیگر امن پسند شہریوں نے اطمینان کی سانس لی۔ تاہم ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش پر سب کی نگاہیں جمی رہیں جہاں حال ہی میں اختتام پذیر انتخاب میں بی جے پی نے ریکارڈ کامیابی درج کی ہے۔ بی جے پی کی اس فتح نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر امن پسند اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب میں یقین رکھنے والوں میں ایک بار پھر تشویش کی لہر دوڑادی ہے۔ کیونکہ اس کی اس جیت سے نہ صرف ریاستوں میں اس کے قدم مضبوط ہوئے ہیں بلکہ اب مرکز میں بھی وہ پوری طرح مستحکم ہوگئی ہے جہاں راجیہ سبھا میں کم تعداد کی وجہ سے اسے دشواریوں کا سامنا تھا۔ مسلمانوں کی تشویش میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب اس نے اتر پردیش میں اپنے شعلہ بیان بلکہ دریدہ دہن لیڈریوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلی بنا دیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ صرف فائر برانڈ لیڈر ہی نہیں ہیںبلکہ جارحیت پسندی اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا ہی ان کی سب سے بڑی قوت ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے خلاف فساد کرانے، نفرت پھیلانے سمیت ایک درجن مقدمات چل رہے ہیں۔ اس نے اپنی نفرت انگیز تقریروں سے ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا۔ ببانگ دہل مسلمانوں کو گالیاں دیں، لو جہاد جیسے شوشے چھوڑ کر ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا۔ دریدہ دہنی کی انتہا یہ ہے کہ اس نے مسلم عورتوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی عصمت دری کرنے کے لیے کہا۔ ہندویووا واہنی کے نام سے اس نے اپنی فوج تیار کر رکھی ہے جس کا استعمال مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ۳۲۵ ممبران اسمبلی کو نظر انداز کر کے اگر بی جے پی نے اس شخص کو وزیر اعلی بنایا ہے جو اسمبلی کا ممبر بھی نہیں ہے تو یہ بلاوجہ نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ آئندہ ریاست اور ملک بھر کا منظر نامہ کیسا ہوگا۔ ایسے حالات میں جو تشویش اور اندیشے ہیں وہ بے جا نہیں ہیں۔
                اس وقت ملک میں جو جماعت برسر اقتدار ہے وہ علانیہ طور پر مسلم مخالف ہے۔ اس کی مادر تنظیم آر ایس ایس کا قیام ۱۹۲۵ عمل میں آیا جس کا مقصد ہی ملک کو ہندو راشٹر میں بدلنا تھا۔ اس نے اس کی منظم منصوبہ بندی کی اور اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے پیہم جد وجہد کرتی رہی۔ ظاہر ہے کہ طویل جد وجہد اور انتظارکے بعد جو کامیابی ملی ہے اسے وہ یونہی ضائع نہیں ہونے دے گی۔ جو لوگ آر ایس ایس کی فکر اور اس کے طریق کار سے واقف ہیں ان کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آئندہ ملک کی صورتحال کیا ہوگی۔ مرکز کے اقتدار پر قابض ہوتے ہی بی جے پی نے تمام جمہوری، انتظامی، آئینی اور پالیسی ساز اداروں پر مکمل کنٹرول کر کے تمام رکاوٹوں اور مزاحمتوں کا سد باب پہلے ہی کرلیا ہے اور حالات کو موافق بنانے کے لیے ہر حربہ آزما رہی ہے۔ اس نے دلتوں میں برپا ہونے والی تحریکوں کو بھی اپنی چالوں سے ناکام بنادیا ہے۔ یہ کوشش بھی کی گئی کہ پسماندہ طبقات سے وابستہ پارٹیاں یا تو این ڈی اے میں ضم ہوجائیں یا ان سے وابستہ ممبران بی جے پی میں داخل ہوجائیں جہاں ان کے عیش وآرام کے لیے تمام سہولتیں فراہم ہیں اور ان پارٹیوں میں صرف لیڈر رہ جائیں یا ان کی لیڈر شپ کو بھی خرید لیا جائے۔ بہر حال اس وقت ملک کی فضا بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے پوری طرح سازگار ہے اور اب اسے اپنے ایجنڈوں پر عمل کرنے میں کسی طرح کی دشواری نہیں ہے۔
                یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی حلف برداری کے بعد کہا ہے کہ وہ مودی کے’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ منصوبے کو آگے بڑھائیں گے۔ ان کے والد نے بھی انہیں مسلمانوں کے خلاف بھید بھاؤ بند کرنے کی تلقین کی ہے۔ کاش یہ تربیت انہوں نے بچپن میں ہی کردی ہوتی تو آج اس تلقین کی نوبت نہ آتی۔ بہر حال یوگی کیا کریں گے اس کا اندازہ بہت جلد ہوجائے گا۔ ویسے حلف برداری کے بعد ہی چند ذبیحہ خانوں کو بند کر کے انہوں نے واضح اشارہ کردیا ہے کہ ان کا طرز عمل کیا ہوگا۔ ان کے ماننے والوں نے بھی اسی نام پر غنڈہ گردی کا آغاز کردیا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ فرقہ وارانہ نوعیت کے جتنے حساس مسئلے ہیں وہ سب ایک بر پھر ابھر کر سامنے آئیں گے۔ کیونکہ انہی کی بنیاد پر ۲۰۱۹ کا انتخاب بھی لڑنا ہے۔ وندے ماترم اور سوریہ نمسکار جیسے مسائل زور وشور سے اٹھائے جائیں گے۔ تین طلاق کے معاملہ کو ہوا دی جائے گی۔ رام مندر کے قیام کی تگ ودو اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش تیز ہوگی۔ مسلمانوں کو خوف وہراس کی نفسیات میں مبتلا کر کے ان سے ان کا بچا کھچا اعتماد بھی چھیننے کی کوشش کی جائے گی۔ حکومت ایک طرف نئی نسل کو وکاس اور ترقی کے سحر میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرے گی تو دوسری طرف اسے فرقہ وارانہ بنیاد پرپولرائز بھی کرے گی اور یہ سلسلہ۲۰۱۹ تک بلا انقطاع جاری رہے گا۔
                اس صورتحال میں مسلمانوں کا کیا طریق کار ہونا چاہئے یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس وقت عام مسلمانوں میں مایوسی کی جو کیفیت پائی جارہی ہے وہ بے بنیاد نہیں ہے تاہم مایوسی کے حصار سے باہر نکلنا ہوگا اور صورتحال کا تجزیہ کر کے اس کی روشنی میں مشترکہ طور پر ایک جامع لائحہ عمل بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ بی جے پی کی فتح اور سیکولروں کی شکست کے اسباب پر بہت باتیں کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے عدم اتحاد اور ناقص حکمت عملی نے بھی اس میںاہم کردار ادا کیا ہے لیکن ساری ذمہ داری مسلمانوں کے سر ڈال دینا جیسا کہ بعض سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ نام نہاد سیکولروں کے ہاتھوں سے حکومت جانے کا غم مسلمانوں کو اس لیے بھی نہیں کرنا چاہئے کہ جانے والی حکومت بھی ان کی اپنی کب تھی۔ لہٰذا جن کی حکومت گئی ہے وہ اسے واپس لانے کی فکر کرلیں گے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کا سرے سے ہے ہی نہیں۔ انہیں اپنی خامیوں اور کمزروں کا پتہ لگانے دیجئے ہم محض اپنی کمزوریاں دیکھیں۔
                ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیسے اپنی دینی وملی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ ملک میں زندہ رہیں اور ہمارے غور وفکر کا محور یہی ہونا چاہئے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو خوف اور مایوسی کے حصار سے نکلنا ہوگا۔ مایوسی کفر ہے اور خوف مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔ ملت کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ حوادث سے بھری ہے لیکن نہ اسلام ختم ہوا ہے نہ ملت اسلامیہ ختم ہوئی۔ اگرہم اس حقیقت کو اپنے دل ودماغ میں جگہ نہیں دے سکے ہیں تو اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں سب سے اہم اور ضروری کام یہی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے۔ اتحاد فرض ہے اور اس سے سب واقف ہیں لیکن سب اپنی شرطوں پر اتحاد چاہتے ہیں۔ لاتعداد خداؤں کو پوجنے والے اور ذات پات پر مبنی ورن آ شرم کے باہم متصادم ومتحارب گروپ ایک ہوگئے لیکن ایک کلمہ، ایک نبی اور ایک قبیلہ کے ماننے والے ایک نہ ہوسکے تو اس میں کس کا قصور ہے۔ ہم اندیشوں اور خطرات کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن ان کے سد باب کے لیے زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتے۔ مرکز میں مودی حکومت کے قیام کے بعد پیش نظر خطرات کے تدارک کے لیے جس اجتماعی غور وفکر ، وسیع الجہات اور مبسوط لائحہ عمل کی ضرورت تھی ہماری طرف سے ان پر کوششیں نہ ہوسکیں بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے الیکشن کو ہی سیاست سمجھ رکھا ہے اور ہماری ساری سیاست اسی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ فی الحال مسلمان اس سیاست کو بھول جائیں تو بہتر ہوگا۔ اگر سیاست میں دلچسپی لینی ہے تو سیاسی سطح پر اپنا ایک مشترکہ اور متحدہ لائحہ عمل بنائیں اور صرف اپنے مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے قومی مسائل وموضوعات پر بھی توجہ دیں۔ احتجاج، نعرہ بازی اور مظاہروں سے احتراز کریں۔ مسلمانوں اور مظلوموں کے لیے آخری چارۂ کار ہمیشہ عدلیہ ہی رہی ہے گوکہ اس پر بھی جانبداری کے الزام لگتے رہے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر عدلیہ ہی امید کی کرن ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا مسائل کو سڑکوں پر لانے کی بجائے عدلیہ سے مناسب ڈھنگ اور تیاری کے ساتھ رجوع کرنا بہتر ہوگا۔ موجودہ صورتحال کے پیدا ہونے میں ملت کا مجموعی رویہ اسلام کے بنیادی تقاضوں سے عملاً اس کی بیزاری ، آپسی اختلافات اور سب کچھ چھوڑ کر سیکولر پارٹیوں پر بے جا انحصار نیز ملکی سیاست اور ایشوز سے اس کی لاتعلقی کو بڑا دخل ہے۔ لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ اور صورتحال کا بنیادی سبب ہے وہ ہے دینی شعور کا فقدان اور اپنے مقصد وجود سے دوری۔ پیش نظر خطرات ومسائل نے مسلمانوں کو اس لیے گھیرا ہے کہ وہ مسلمان ہیں لیکن وہ اپنے مسائل کا حل اسلام سے الگ ہوکر تلاش کر رہے ہیں۔ مادی تدابیر ضرور کی جائیں لیکن دائرہ کار دین سے بالکل باہر نکل کرنہیں۔
                لہٰذا ماتم وگریہ وزاری سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس وقت اپنے مقصد وجود کو زیادہ بہتر طور پر انجام دینا، تمام مسلمانوں میں دینی شعور اور دین کے تئیں بیداری پیدا کرنا، مسلکی، گروہی اور نظریاتی اختلافات کو ختم کرنا اور خطرات کے بھنور میں اپنے خالق کی طرف رجوع کرنا اور خود کو سب کے لیے مفید بنانا یہی ہمارے کرنے کے کام ہیں۔ مایوسی اور خوف ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ اگر ہم نے اپنے مقصد وجود کا ادراک کرلیا تو کل ہمارا ہے۔

***

ہفتہ، 18 مارچ، 2017

طارق فتح کا فتنہ: کیا ہمارے پاس اس کا جواب ہے؟

طارق فتح کا فتنہ: کیا ہمارے پاس اس کا جواب ہے؟
                آج دنیا بھر میں شہرت، عزت اور دولت حاصل کرنے کا سب آسان طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف زہر اگلا جائے اور اس کی پر امن اور مبنی بر فطرت تعلیمات کو انسانیت دشمن اور رجعت پسند قرار دیا جائے اور اس مذہب اور اس کے حاملین کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا جائے۔ ایسا کرنے والے افراد راتوں رات اسلام دشمن طاقتوں کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اگر ایسے افراد کا نام بھی مسلمانوں والا ہو تو پھر کیا کہنے۔ ان کی وہ پذیرائی ہوتی ہے جو اچھے اچھے مفکرین اور دانشوران کے حصہ میں بھی نہیں آتی۔ ان کی ہفوات کو دنیا کا سب سے بڑا ادب اور ان کے خیالات کو دانشوری کا معیار قرار دیا جاتا ہے۔ سلمان رشدی اورتسلیمہ نسرین اس کی مثالیں ہیں ۔ آج کل اس میں ایک نئے نام طارق فتح کا اضافہ ہوگیا ہے۔
                طارق فتح پاکستانی نژاد کناڈائی شہری ہے۔ ملک مخالف رویہ کی وجہ سے پاکستان سے نکالے جانے کے بعد اس نے کناڈا کی شہریت حاصل کرلی ہے۔ اس سے قبل وہ دس برس تک سعودی عرب میں بھی رہ چکا ہے۔ اپنے فاسد خیالات اور رویوں کی وجہ سے اس کی شخصیت ہر جگہ متنازعہ رہی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ وہ اب ہندوستانی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے اور حکومت کی نظروں میں سرخ رو ہونے کے لیے آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو فروغ دینے میں لگا ہوا ہے۔ چونکہ وہ خود کو مسلمان بتاتے ہوئے اسلام اور اسلامی تعلیمات پر حملے کرتا ہے اور اس لیے وہ اسلام دشمنوں کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا ہے اور ایک بڑے سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے مشہور چینل زی ٹی وی نے اسے اپنا مہمان بنایا ہوا ہے۔ یہ چینل ہفتہ میں دو دن اس کا پروگرام دکھاتا ہے جس کا نام ہے فتح کا فتوی۔ اس کے نام سے ہی پروگرام پیش کرنے والوں کی بد باطنی اور خباثت ظاہر ہوتی ہے۔ طارق فتح کے بے تکے اور بیہودہ خیالات کو فتوی کا عنوان دیا گیا ہے گویا وہ اسلام کا ایکسپرٹ ہو اور اس سلسلے میںاس کی کہی ہوئی بات حرف آخر ہو۔ اس پروگرام میں وہ ان مسائل کو زیر بحث لاتا ہے جس کا علمی جواب تو بہت پہلے ہی ہمارے اکابرین کی جانب سے دیا جاچکا ہے۔ لیکن اب وہ کتابوں میں محفوظ ہے اور جس سے عام مسلمان بھی واقف نہیں ہیں۔ ٹیلی ویژن کا فائدہ اٹھاکر یہ شخص انتہائی بھونڈے اندا زمیں رسول، صحابہ کرامؓ، ائمہ دینؒ ، علماءاور اسلامی تعلیمات سب کا مذاق اڑاتا ہے جس کی توقع کسی جاہل اور بے عمل مسلمان سے بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ آیات واحادیث کی من مانی تاویلات پیش کرتا ہے۔ مستشرقین اور سنگھی نظریات کے حامل مصنفین کے خیالات اور اعتراضات کو بنیاد بناکر اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیاں پھیلاتا ہے ۔ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور خود کو سب سے بڑا ہندوستانی قرار دیتا ہے۔
                 کسی نے مجھے واٹس ایپ پر اس پروگرام کی ایک مختصر ویڈیو کلپ بھیجی تھی جس میں ایک مولانا کو طارق فتح کو گالیاں دیتے اور لعنت ملامت کرتے دکھایا گیا تھا۔ میرے لیے یہی کلپ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پروگرام کے ایک قسط کو دیکھنے کا سبب ہوئی۔ پروگرام میں طارق فتح دو تین ایسے افراد (مرد وخواتین) کو مدعو کرتا ہے جنہیں یہ ضد ہے کہ وہ نہ صرف اپنی مرضی کے مطابق اسلامی تعلیمات کی تشریح کریں گے بلکہ اسے ہی درست باور بھی کرائیں گے۔ ان نام نہاد روشن خیال افراد کے علاوہ ایک عالم دین کو بھی مدعو کیا جاتا ہے اور اس کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے جو بظاہر عالم تو ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس علم ہوتا ہے اور نہ مباحثہ کی صلاحیت۔ کوشش کی جاتی ہے کہ مولانا کوجذبات میں لاکر بھڑکا دیا جائے ۔ پھر مولانا طارق فتح کے منصوبہ کے عین مطابق اس کی ذاتیات پر حملے شروع کردیتے ہیں۔ اس کی بیٹی کو فاحشہ اور زانیہ قرار دیتے ہیں۔ پھر مباحثہ میں شریک تمام افراد مولانا پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام کے نمائندے ایسی ہی اجڈ اور جذباتی ہوتے ہیں۔ ان کے پاس دلیل کی طاقت ہوتی ہے اورنہ ہی برداشت کی قوت۔ مولانا کے جذباتی کردار سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایسے ہی ہیں اور ان کی وجہ سے شدت پسندی، عدم برداشت اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ تقریبا ہر ایپی سوڈ میں یہ منظر ہوتا ہے۔ ہر عالم کے ایک ہی رویہ کو دیکھ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کہیں سب کچھ منصوبہ بند تو نہیں ہے۔ اس پروگرام میں اچھے اور با صلاحیت علما کو مدعو نہیں کیا جاتا ہے اور اگر کسی کی جانب سے کوئی مدلل بات پیش کی جاتی ہے تو بعد میں اس کو کانٹ چھانٹ کر سیاق وسباق سے الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے یا حذف ہی کردیا جاتا ہے۔ حتی کہ بعض لبرل افراد کی بھی وہ باتیں حذف کردی جاتی ہیں جو اس کے منصوبے کے خلاف ہوتی ہیں۔ آزادی اظہار کے ایک بڑے حامی مسلمان نے بھی اس بات کا اظہارکیا ہے جو اس پروگرام کا حصہ بنے تھے۔ یوں بھی اب تک اس پروگرام میں کسی ایسے عالم دین کی شرکت ہوئی ہی نہیں ہوئی ہے جو طارق فتح کی ہوشیاری کا جواب بہتر طریقہ سے دے سکیں اور اس کی غلط باتوں اور دلیلوں کو بے نقاب کرسکیں۔ وہ بڑی چالاکی سے بات کا رخ موڑ دیتا ہے اور شریک عالم دین اس لائق بھی نہیں ہوتا کہ اس کی اس عیاری کو سمجھ پائے۔ حالانکہ ایسے علماءکو جو اس کے اہل نہ ہوں اس پروگرام میں شریک نہیں ہونا چاہئے لیکن کیا کیجئے کہ شہرت کی ہوس انہیں وہاں پہنچادیتی ہے جو خود ان کی ذلت اور اسلام کی بدنامی پر منتج ہوتی ہے۔خبر ہے کہ ایک بڑے عالم دین نے طارق فتح کو بحث کا چیلنج دیا تو اس نے ان سے بحث کرنے سے انکار کردیا۔
                آخر اس کا حل کیا ہے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اس پروگرام کا نوٹس ہی نہیں لینا چاہئے کیونکہ جب سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین اپنے فاسد خیالات سے اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو طارق فتح کیا بگاڑے گا۔ بعض حضرات نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر اس کے خلاف تحریک بھی چلائی ہے۔ بعض مقامات پر اس کے خلاف مقدمے بھی درج ہوئے ہیں ۔سننے میں آیا ہے کہ اب یہ شو ختم ہوگیا ہے اور اس ہفتہ پیش ہونے والا پروگرام آخری تھا۔ اگر واقعی یہ سچ ہے تب بھی یہ سمجھ لینا بڑی نادانی ہوگی کہ مسلمانوں کے دباو

¿ کی وجہ سے اسے ختم کیا گیا ہے اور یہ کہ اس طرح کا پروگرام آئندہ ٹیلی ویژن چینلوں پر نہیں دکھایا جائے گا۔ لہٰذا اس کا نوٹس لیا جانا بہر حال ضروری ہے۔ احتجاج اور مقدمات اپنی جگہ۔ لیکن ایسے لوگوں کی باتوں اور دلیلوں کا علمی جواب دیا جانا بہر حال ضروری ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس طرح کی بحثوں میں ان لوگوںکو حصہ لینا چاہئے جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے بھی واقف ہوں اور جن کی عصری مسائل اور نظریات پر بھی گہری نظر ہو اور زیر بحث مسائل سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہوں۔

                لیکن اس کا سب سے اچھا بلکہ ضروری جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کا اپنا ٹیلی ویژن چینل ہو جو کسی بھی سطح پر دوسرے قومی چینلوں سے کمزور نہ ہو۔ لیکن بد قسمتی سے اس کے آثار اب بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں میڈیا کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ پھر بھی پتہ نہیں کیوں اس نے ہماری ترجیحات میں کبھی جگہ نہیں پائی ۔ ماضی میں کچھ کوششیں ہوئیں بھی تو بار آور نہ ہوسکیں۔ ٹیلی ویژن چینل کی تو بات ہی چھوڑیئے، کتنے اخبارات نکلنے اور بند ہوئے۔ مسلم انڈیا ہو یا نیشن اینڈ دی ورلڈ یا حالیہ دنوں میں ملی گزٹ سب کا ایک ہی حشرا ہوا۔ حالانکہ یہ سب مل کر بھی معیار کے اعتبار سے قومی اخبارات ورسائل کے مقابلہ میں بہت بونے تھے۔ لیکن غنیمت تھے۔ مگر پھر بھی ہم انہیں باتی نہ رکھ سکے۔ آج دنیا بھر میں میڈیا کی توجہ کا مرکز اسلام اور مسلمان ہیں۔ ان کی فکر یہ ہے کہ صحیح اسلام کو دنیا سے نیست ونابود کردیا جائے۔ اس لئے بین الاقوامی سطح پر اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی سعی کی جارہی ہے۔ میڈیا کا استعمال حقائق کو آشکار کرنے کے بجائے حقائق کو چھپانے یا توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور جھوٹ پھیلانے کے لیے کیاجارہا ہے۔ اسلام کو تشدد کا علمبردار اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کا کوئی موقع میڈیا اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے 96 فیصد میڈیا پر صرف 6 کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور یہ سبھی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہیں بلکہ انسانی ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ مسلم دنیا کے پاس یہودیوں سے دس گنا زیادہ دولت ہے لیکن یہ فضولیات پر خرچ ہورہی ہے۔ سب سے اونچا کلاک ٹاور، سب سے بڑا ہوٹل، سب سے اونچی عمارت، سب سے بڑا شاپنگ مال مسلم دنیا کے لیے طرہ امتیاز ہیں۔ ہندوستانی میڈیا بھی یہودی طرز پر کام کر رہا ہے۔ اس لیے یہودی سازش اور برہمن سازش کی رٹ لگانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ جس طریقہ سے میڈیا کے استعمال کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کی جارہی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ابلاغی عسرت سے پیچھا چھڑائیں اور مضبوط میڈیا ہاؤس قائم کریں۔ اس کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ سڑکوں پر نعرے لگانے اور احتجاج کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور ہر دن کوئی طارق فتح کسی چینل پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا نظر آئے گا۔ کیا ہم اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟

٭٭٭

منگل، 3 مئی، 2016

طرزی اور منظوم مقالہ نگاری

طرزی اور منظوم مقالہ نگاری
                عبد المنان طرزی کی شخصیت اور ان کا فن اپنے اندر مختلف جہات رکھتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن جہاں وہ غزل کے بہت اچھے شاعر ہیں تو نظم پر بھی ویسے ہی قادر ہیں۔ انہوں نے شاعری میں موضوعات کی سطح پر مختلف طرح کے تجربات کیے ہیں۔ اپنے انہی گوناگوں تجربات کے ساتھ انہوں نے اردو اور فارسی شاعری میں منفرد مقام بنایا ہے۔ یوں تو انہوں نے شاعری کی شروعات1955میں کی تھی اور1972میں اپنے پہلے شعری مجموعہ لکیر کی اشاعت کے ساتھ اردو شاعری میں اپنی شناخت قائم کی تھی۔ اس پہلے مجموعہ کی اشاعت پر بھی اہل نظر کو انہوں نے اپنی طرف مبذول کر لیا تھا اور اپنے اندر موجود شاعری کے امکانات سے اجتبی حسین رضوی کو یہ کہنے پر مجبور کیا تھا کہ:
طرزی میرے عقیدے میں فی الحقیقت ایک بڑے شاعر کے ممکنات رکھتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ خدا انہیں ان ممکنات کو بروئے کا رلانے کی توفیق اور موقع عطا فرمائے۔ آمین
یہ مجموعہ غزل پر مبنی تھا ۔ دوسرا غزل کا مجموعہ آیات جنوں کے نام سے انہوں نے 2006ءمیں شائع کرایا۔ طرزی جس کلاسیکی انداز کی شاعری کرتے ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غزل کے اچھے شاعر ہیں اور واقعتا ایسا ہے بھی جیسا کہ مشہور تنقید نگار پروفیسر لطف الرحمن نے انہیں غزل کا شاعر قرار دیتے ہوئے کہا ہے ”میں ایک مخلص دوست کی حیثیت سے طرزی صاحب کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ صرف غزل کی صنف کو اپنے جذبہ و احساس کے اظہار کا ذریعہ بنائیں اس لئے کہ ان کی افتاد طبع ، ان کا میلان، ان کا ماحول اور خود ان کی ذاتی زندگی جو پیہم حادثات سے عبارت ہے، مجموعی طور پر صنف غزل سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔
                لیکن غزل کے علاوہ عبد المنان طرزی نے اپنے جن تجربات سے ملک و بیرون ملک کے ماہرین کو اپنی شاعری اور فنکاری کی طرف متوجہ کیا ہے وہ ان کی نظم نگاری ہے۔ نظم نگاری میں انہوں نے جو کام کیا ہے وہ خود نظم کو نئی جہت اور خلاقیت کے نئے امکان بخشتا ہے۔ انہوں علمی مسائل اور علمی و ادبی شخصیات کو اپنے نظم کا موضوع بنایا ہے۔ اس تجربہ کے تحت جہاں انہوں نے منظوم تذکرے اور منظوم خاکے لکھے ہیں، منظوم تنقید اور منظوم تبصرے لکھے ہیں وہیں منظوم مقالے بھی لکھے ہیں۔
                 مقالہ نگاری ایک سنجیدہ تنقیدی و تخلیقی عمل ہے جس کی بنیاد وضاحت و قطعیت پر ہے۔ مقالہ نگار کو نہ صرف موضوع کی تمام جہتوں کو زیر نظر رکھنا پڑتا ہے بلکہ ایک با شعور قاری کی حیثیت سے موضوع کے تمام ابعاد کے سامنے لانا پڑتا ہے تاکہ عام قاری موضوع کے مالہ وما علیہ سے واقف ہوسکے۔ مقالہ میں پیش کئے گٹے دعووں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل بھی پیش کئے جاتے ہیں اور اس کی روشنی میں کسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقالوں کے لیے نثر زیادہ موزوں سمجھی جاتی رہی ہے۔ لیکن طرزی نے شاعری کے وسیلہ سے مقالہ نگاری کا نیا تجربہ کیا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ شاعری پر بے پناہ قدرت نے طرزی کو مقالہ نگاری جیسے علمی پیرایہ بیان کو نظم کرنے میں کامیاب بنا دیا ہے۔
جناب طرزی نے 8مقالے تحریر کیے ہیں ۱۔ ولی دکنی ۲۔ پریم چند ۳۔ سجاد ظہیر ۴۔ میر انیس ۵۔جلال الدین رومی ۶۔ بہادر شاہ ظفر ۷۔ڈاکٹر سید تقی عابدی۔ ۸۔ امام غزالیؒ جن کو مجیر احمد آزاد نے اپنی کتاب منظوم مقالے میں شامل کیا ہے۔یہ وہ مقالے ہیں جن کو طرزی نے ملک کے مختلف علمی سمیناروں میں پیش بھی کیا ہے۔ حالانکہ اس کتاب میں کل 45 نظمیں ہیں لیکن جناب طرزی نے اپنے ایک بیان میں 8 مقالوں کا ہی ذکر کیا ہے۔ مزید یہ کہ اس کتاب میں شامل بعض نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مقالہ کے بجائے تذکرہ ہیں اور اسی طرح سے مختلف شخصیتوں پر نظم کی گئی ہیں جو ان کی تذکرہ سمجھی جانے والی کتابوں میں شامل ہیں۔ تاہم ان میں بھی مولانا ابو الکلام آزاد، سر سید احمد خاں، فیض احمد فیض، ہندوستانی فلمیں اور اردو ادبی تناظر، مناظر عاشق ہرگانوی، امان خان دل اور وقار صدیقی وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن کا مقالے کے تناظر میں مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
                ۱۔            امام غزالی ۷۷۱ اشعار مشتمل طویل مقالہ ہے۔یہ منظوم مقالہ بحر متقارب مثمن سالم میں ہے۔ مقالہ کی ابتدا شخصیت کے تعارف سے ہوتی ہے۔
مقالے کا عنواں ہے اک ذات عالی
محمد تھا گر ان کا اسم گرامی
لقب ان کا حجۃ پر اسلام جانیں
ضلع طوس ہے جو خراسان کا ہی
وہ تھی چار سو اور پچاس ہجری


جسے جانتے سب امام غزالی
تو والد کا بھی تھا یہی نام نامی
وہیں اسم عرفی غزالی کو مانیں
وہاں شہر تھا طابران ایک نامی
کہ جس سال ان کی ولادت ہوئی تھی

اس کے بعد دھیرے دھیرے نظم عروج کی طرف بڑھتی ہے اور قاری کو اپنی گرفت میں لینا شروع کرتی ہے۔ امام غزالی کے اس واقعہ کے بیان سے جس نے امام غزالی کی علمی زندگی میں انقلاب لادیا اور پھر علم کی پیاس نے انہیں علم کے مختلف مشارب پر سیرابی کے لیے مجبور کیا، نظم کو عروج کی طرف لے جاتے ہیں اور پھر ربط وتسلسل کے ساتھ بیانیہ کے سہارے ہر اہم واقعہ کونظم کرتے چلے جاتے ہیں۔نظم میں ان کی علمی خدمات کا بھر پور احاطہ کیا گیا ہے اور شاید ہی کوئی واقعہ ہو جس کو چھوڑا گیا ہو۔ نظم اتنی مربوط ہے کہ اگر درمیان سے ایک شعر بھی نکال دیا جائے تو اس کی کمی محسوس ہوگی۔ نظم کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ طرزی نے امام غزالی کی شخصیت کا بڑا گہرا مشاہدہ کیا ہے :
مقام معید غزالی نے پایا
جب استاد کی ہوگئی ان کے رحلت
وہاں سے وہ گنج گراں لے کے نکلے
جبیں والوں میں آستاں لے کے نکلے
علوم بلیغ وگراں لے کے نکلے
وہ داروئے زخم نہاں لے کے نکلے
تمنا وعزم جواں لے کے نکلے
فقہ، فلسفہ، برزباں لے کے نکلے


کریں درس استاد کا جو اعادہ
گوارا نہیں تھی وہاں کی اقامت
زمیں ہی نہیں آسماں لے کے نکلے
فضیلت کی جوئے رواں لے کے نکلے
مدلل خطابت، بیاں لے کے نکلے
دوائے غم صد زیاں لے کے نکلے
وہ منزل کا اپنے نشاں لے کے نکلے
تصوف کی برق تپاں کے کے نکلے

مذکورہ اشعار میں غزالی کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہین ان ہی باتوں کو اگر نثر میں لکھا جائے تو جولانی طبع کا جو موقع نظم میں حاصل ہوا ہے وہ نثر میں ممکن نہیں تھا۔
۲۔            مولانا جلال الدین رومی طرزی کا دوسرا مقالہ ہے جو بحر رمل مسدس محذوف میں لکھا گیا ہے۔ مقالے کے ابتدائی 9 اشعار میں تصوف کے تصور کو واضح کیا گیا ہے اور پھر دسویں شعر سے نظم کے ابتدائی حصہ کومربوط کیا گیا ہے۔ نظم کا یہاں سے عروج شروع ہوتا ہے اور جیسے جیسے نظم آگے بڑھتی ہے رومی کے بارے میں قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔نظم کا اختتام کچھ اس طرح ہوتا ہے:
الغرض یہ مثنویٔ مولوی

گوہر عرفاں سے ہے گویا بھری
اس میں ہے جہد وعمل کا فلسفہ

اور وظیفہ نفس کی اصلاح کا
ذات کے عرفاں کی ہے تدریس بھی

قابل تقلید ہے ذات نبی
حکم رب ہے اور تعلیم رسول

زندگی کرنے کے کچھ زریں اصول
سارے گوہر بیش قیمت بے بہا

آئینہ، شاعر کے سوز وساز کا
                ۳۔            اردو شاعری کے باوا آدم ولی دکنی ان کا تیسرا مقالہ ہے۔ بحر متقارب مثمن محذوف میںلکھا ہوا یہ مقا162 اشعار پر مشتمل ہے۔ ان کے علاوہ ابتدا میں ۲ اشعار فارسی کے مقتبس کئے گئے ہیں جو خود طرزی کے ہی اشعار ہیں۔ ابتدا میں ولی کے نام اور وطن اور سال وفات کے اختلاف کو ظاہر کیا گیا ہے:
ولی اللہ ہو کہ محمد ولی

وہ معشوق تھا میر کا دکنی
ولادت، وطن، نام کا مسئلہ

ولی کا ہے کچھ اختلافوں بھرا
یہی حال ہے سال رحلت کا بھی

الگ ہر محقق نے ہے رائے دی
اس کے بعد اردو شاعری میں ولی کی جدت کو واضح کیا گیا ہے ۔ یہ مقالہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں طرزی نے استدلال بیان کے لیے نظم کے درمیان ولی کے ۲۲ اشعار بھی مقتبس کئے ہیں
۴۔           چوتھا مقالہ بہادر شاہ ظفر (پہلی جنگ آزادی کے تناظر) میں ہے۔بحر متقارب مثمن محذوف میں کہی گئی یہ نظم ۹۵ اشعار پر مشتمل ہے اور بہادر شاہ ظفر کے ۰۲ اشعار بطور دلیل درج کئے گئے ہیں۔ نظم کی شروعات آزادی وغلامی کے فلسفہ اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات سے شروع ہوتی ہے۔ پہلی جنگ آزادی سے لے کر بہادر شاہ کی رنگون میں قید اور ان کی موت تک کے حالات کو نظم کیا گیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے چند اشعار کو درج کرنے کے بعد طرزی نے ان کی زندانی شاعری کے رنگ کو اس طرح سے دیکھا ہے:
غزل کا یہ پہلو جو ہے حزنیہ
عطیہ ہے یہ اس کے حالات کا
ہوا ہو جو مسند سے زنداں نشیں
غزل بھی کہے گا وہ اندوہ گیں
ہے اظہار غم اس کا یوں معتبر
بنالیتا ہے آنسوؤں سے گہر
۵۔           پانچواں مقالہ میر انیس ہے ۔ یہ نظم بحر متقارب مثمن سالم میں62 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں میر انیس کے کلام پر مختلف جہات سے تبصرے کئے گئے ہیں۔ اور اس کے لیے دلیلیں بھی پیش کی ہیں۔ بعض اشعار میں میر انیس کے اشعار کے خیال کو طرزی نے اپنے ڈھنگ سے نظم کیا ہے:
مضامین نو جمع کرلیتا ہے جب

خبر خوشہ چینوں کو وہ دیتا ہے تب
زمین سخن آسماں سے جو لایا

جو اجڑی ہوئی تھیں انہیں بھی بسایا
گل مضموں کو بند کیسے کرے بھی

چھپانے سے خوشبو نہ جس کی چھپے بھی
وہ حسن کلام اور لطف بیاں ہے

ہے دائم بہار اس کی جو گلستاں ہے
جو مضموں کئے نظم ہیں وہ کتابی

کوئی بند تاثیر ہے نہ خالی
فن کے تئیں انیس کے نظریہ کو اس طرح نظم کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
جو فن کے لئے اک نظریہ تھا اس کا

مسدس کے اک بند میں خود ہے لایا
کجی عیب ہے، حسنِ ابرو ہے لیکن

بدی تیرگی، تابِ گیسو ہے لیکن
اگر سرمہ ہے چشم خوش رو کو زیبا

تو خال سیہ روئے خوباں پہ اچھا
یہ نکتہ وہ سمجھے فصاحت جو جانے

کہ موقع محل کے ہیں کب کیا تقاضے
بڑی جامع اک رائے حالی نے دی ہے

فراوانی، حیرت فزوں جلووں کی ہے
سخن پر اسے قدرتِ فاخرہ ہے

زباں پر اسے دسترس کاملہ ہے
۶۔           چھٹا مقالہ پریم چند ہے۔ یہ نظم بحر رمل مثمن محذوف میں 113 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں بھی طرزی نے پریم چند کی ناول نگاری اور افسانہ نگاری پر تبصرے کئے ہیں اور ان کے فکر وفن کو واضح کیا ہے۔:
ہے قلم میں اس کے حرکت نبض ہستی کی طرح

راستی فن میں ہے اس کے حق پرستی کی طرح
بارہ ناول اور کہانی تین سو کے ہے قریب

اس نے لکھے ہیں ڈرامے بچوں کا بھی تھا ادیب
                                طرزی نے مقالے میں ناول اور افسانوں کے موضوعات اور ان کے فنی اجزا کو سامنے رکھ کر بھی ان کے افسانوں اورناولوںکا جائزہ لیا ہے:
جبر واستبداد، استحصال کی نوحہ گری

ساہو کاروں اور زمیں داروں کی کوئی ساحری
دست محنت کش کا اس نے اس طرح بوسہ لیا

دھنیا“ کوئی بن گئی تو کوئی ”گوبر“ بن گیا
........
فن افسانہ کا اس کے وصف ہے یہ اک بڑا

تار و پود حسّی نے ہے پیرہن فن کا بُنا
طرزی نے پریم چند کے کرداروں کو مثالی قرار دیا ہے۔ دیکھئے یہ اشعار
کچھ اصول آدرش پر رکھتا ہے وہ ایسا یقیں

ہوتی ہے کرداروں سے اس کے خطا سرزد نہیں
اس طرح ہے غیر استدلالی جذبہ خیر کا

متصف اخلاق سے کردار ہے دائم رہا
دھنیا، سکھدا، ہوری، قادر خاں، کہ ہو رام کلی

پورنا، امرت، دھنک داری کہ ہو وہ لکشمی
اور پھر بلراج، گوبر کہ سلیم و صوفیا

ہاں سکینہ، سورداس و مایا شنکر جو ہوا
نظم کے دوران جہاں ناول اور افسانوں کے حسن پر بحث کی ہے وہیں اس کے قبح کو بھی ظاہر کیا ہے:
ناولوں کو فکری کردار اس نے اپنے ہے دیا

شخصیت کا بھی نمو فطری مگر قائم رہا
خیر اور اصلاح کے جذبوں سے وہ خالی نہ تھا

گاہے کچھ کمزور تو کچھ ڈھیلے جملے لکھ گیا
۷۔           ساتواں مقالہ سجاد ظہیر ہے۔ یہ نظم بحررمل مثمن محذوف میں 87 اشعار پر مشتمل ہے جس میں سجاد ظہیر کی علمی کاوشوں اور ترقی پسندی کے حوالہ سے ان کی افسانہ نگاری پر تبصرے کیے گئے ہیں۔ ان تبصروں سے خود طرزی کے ادبی نظریہ کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ سجاد ظہیر نظم کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے:
ہے تغیر ہی حقیقت میں اساس کائنات

روز روشن ہی کا اک پیغام ہے تاریک رات
خود خزاں ہے آمد فصل بہاری کا پیام

ہے کسی تعمیر نو کا پیش خیمہ انہدام
سجاد ظہیر میں لند ن کی ایک رات کا جس طرح سے جائزہ لیا ہے اس سے طرزی کی ناول کے فن پر گہری نظر کا اندازہ ہوتا ہے:
ایک رات ہے لاحقہ، ’لندن کی‘ جس پر سابقہ

نام ہے یہ آپ نے مشہور ناول جو لکھا
اک شعوری رو کے فنکارانہ استعمال سے

تانے بانے اپنے اس ناول کے ہیں وہ بن گئے
ماجرائی ربط کا، یا مرکزی کردار کا

نقش اس ناول میں کچھ ہے بھی اگر تو یوں ہی سا
پر نعیم الدین کی ہے جس طرح موجودگی

مرکزی کردار کی ہوجاتی ہے خانہ پری
پال ہیرن، عارف واحسان یا اعظم ہوئے

نام، جم، شیلا، کریمہ سب ہیں اچھا کر گئے
ہاں مگر احسان، شیلا کا الگ انداز ہے

پیدا دو کرداروں سے فنکاری کا اعجاز ہے
ایک لعنت ہے غلامی، ہوتا ناول سے عیاں

زندگی آزادی میں ہے ایک بحر بیکراں
ایسے ہیں اسلوب یا کردار موضوع ومواد

بن گیا تاریخ میں ناول یہ ان کا اجتہاد
۸۔            آٹھواں مقالہ ڈاکٹر سید تقی عابدی ہے۔ یہ بحر رمل مثمن محذوف میں 178 اشعار پر مشتمل طویل نظم ہے۔ نظم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان دونوں حصوں میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی تصنیفات وتالیفات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔یہ نظم جہاں ڈاکٹر تقی عابدی کی جملہ علمی وادبی خدمات کا احاطہ کرتی ہے وہیں سلاست وروانی میں بھی اپنی مثال ہے:
ان کی تنقیدی بصیرت کا کوئی ہمسر نہیں

ان کے جیسا جادۂ تحقیق کا رہ بر نہیں
لطف ہے اجمال کا تو کیفیت تفصیل کی

زور کچھ دعووں کا ہے طاقت ہے کچھ تدلیل کی
آپ کے اسلوب میں سرعت ہے وہ ترسیل کی

پالکی مشکل سے بڑھتی ہے کبھی تخئیل کی
بات کرنے کا یہ رکھتے ہیں الگ اپنا ہنر

کوئی یوں ہی تو نہیں بن جاتا بھی ہے دیدہ ور
سامنے لاتے ہیں حقائق آپ اس انداز سے

جیسے پیشِ روئے جاناں رکھ دے کوئی آئینے
یہ تدبر، یہ تفکر، یہ تعشق، آپ کا

یہ تعقل، یہ تفعل، یہ تعلق، آپ کا
یہ بصیرت، علم سے ایسی محبت آپ کی

تاج یکتائی ہے سر پر آپ ہی کے رکھ گئی
ذات اقلیم ادب میں ہے غنیمت آپ کی

راز دارِ عظمت اقبال وغالب آپ ہی
رکھتے تاریخ ادب پر آپ وہ گہری نظر

دسترس ماضی پہ بھی اور حال سے ہیں باخبر
                عبد المنان طرزی نے ایسی شخصیاتی اور تنقیدی نظم گوئی کے لیے مثنوی کا فارم اختیار کیا ہے۔ مثنوی کا فارم ایسا وسیلہ ہے جس میں واقعات کے بیان میں شاعرکو بڑی آزادی حاصل ہوتی ہے اور دو دو مصرعوں میں آسانی اور روانی کے ساتھ وہ اپنی بات کہتا چلا جاتا ہے۔ طرزی نے بھی مثنوی کے فارم سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اور مشکل ترین خیالات کو بھی بڑی آسانی سے بیان کرتے چلے گئے ہیں۔
                نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبد المنان طرزی زبان و بیان پر بے پناہ قدرت رکھتے ہیں۔اردو اور فارسی زبان و ادب کے قدیم و جدید سرمایہ پربھی ان کی گہری نظر ہے جس سے ان کے کلام میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ ان کی نظموں میں معنی آفرینی کی ایسی فضا ملتی ہے کہ طویل سے طویل نظم بھی قاری رکے بغیر پڑھتا چلا جاتا ہے۔مشکل سے مشکل الفاظ کو بھی نظم میں ایسے کھپا دیتے ہیں کہ وہ قاری کو بوجھل یا ثقیل نہیں معلوم ہوتے ہیں۔طرزی کی مقالہ نگاری میں علمی وفور کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی، فصاحت و بلاغت، جودت طبع، زور بیان اور احساس کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طرزی نے شعر میں مقالہ نگاری کا جو تجربہ کیا ہے وہ اردو شاعری کو نئی جہت عطا کرسکتا ہے۔
٭٭٭