ہفتہ، 22 فروری، 2014

مسلم ڈاکٹروں کی تنظیم

مسلم ڈاکٹروں کی تنظیم
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

                چند دنوں قبل اخبارات میں ملی سرگرمیوں کے حوالہ سے ایک خوش آئند خبر پڑھنے کو ملی ۔ ۱۰ فروری کے اخبارات نے پٹنہ میں ایسوسی ایشن آف مسلم ڈاکٹرس کی پانچویں ریاستی اور پہلی قومی کانفرنس کے انعقاد کی رپورٹ شائع کی جس سے پتہ چلا کہ مسلم ڈاکٹروں کی یہ تنظیم ۲۰۰۹ء میں قائم ہوئی۔ ابتدا میں اس کے ۳۰ ممبران تھے اور اب ان کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ ہوچکی ہے نیز پٹنہ، مظفرپور ، دربھنگہ اور پورنیہ میں اس کی شاخیں بھی قائم ہوچکی ہیں۔ اس تنظیم کے اغراض و مقاصد میں مذہبی و سماجی تناظر میں سائنسی حقائق کا اطلاق ، طبی خدمات میں میڈیکل او ر اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی ، ہمدردی و مساوات اور اسلامی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنا، مسلمانوں کی صحت کے مسائل اور میڈیکل سائنس پر اسلام کے اثرات کا مطالعہ شامل ہیں۔ کانفرنس میں ہونے والی تقریروں میں مسلمانوں کے اندر اتفاق و اتحاد کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور عمومی اتحاد کے ساتھ ہی دانشوروں کی صفوں میں اتحاد کو بھی ملت اسلامیہ کے مفاد میں ضروری قرار دیا گیا ۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے کہا کہ مسلم ڈاکٹروں کا اتحاد وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے جسے شدت سے محسوس کرتے ہوئے اس تنظیم کی تشکیل کی گئی ۔ بتایا گیا کہ چونکہ مسلم ڈاکٹروں میں ہم مذہب ہونے کے علاوہ زبان ، تہذیب،وراثت اور بڑی حد تک پسند اور ناپسند میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے اس لئے ان کا اتحاد اہم ہے اور اس تنظیم کے ذریعہ صحت کے مسائل پر غور و فکر اور اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ انسانیت کے مفاد میں کام کرنے کے لئے ڈاکٹروں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا گیا ہے ۔ کانفرنس میں جھارکھنڈ ، بنگال اور دیگر ریاستوں کے ڈاکٹروں نے شرکت کرکے اتحاد کا مظاہر کیا اور ملت کو بھی اپنے فروعی اختلافات کو ختم کرکے اتحاد کے ساتھ زندگی گذارنے اور درپیش چیلنجوں کے مقابلہ کرنے کا پیغام دیا۔ ایسے وقت میں جب کہ انسانی خدمات سے متعلق تمام پیشوں میں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول مقصد زندگی بن گیا ہے اور انسانی مفاد میں کام کرنے کا جذبہ دم توڑ رہا ہے مسلم ڈاکٹروں کی اس تنظیم کو ’بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔
                صحت اور مرض کا تعلق براہ راست جسم انسانی سے ہے اس لئے حیات انسانی میں اسے ہمیشہ بنیادی اور ترجیحی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ اچھی صحت کے بغیر انسان نہ تو دنیاوی لذتوں سے آشنا ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوسکتا ہے جو اس پر اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتی ہیں ۔ اس طرح بیماریوں سے پاک اور صحت مند رہنا ہر انسان کی ضرورت ہے۔ چنانچہ خدمات انسانی کے شعبوں میں طب کو زبردست اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق خدمت خلق سے ہے ۔ اس اعتبار سے تمام ڈاکٹروں بلکہ علاج و معالجہ سے وابستہ تمام افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیشہ کے تئیں مخلص اور ایماندار ہوں اور صحت مند سماج کی تشکیل کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیں ۔ لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے ۔ مسلم ڈاکٹر جس شریعت کے پیروکار ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے وجود کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے مفید ثابت کریں ۔ خدمت خلق کا جذبہ ہمیشہ ان کے پیش نظر رہنا چاہئے اوراسے صرف ذریعۂ معاش یا مریضوں کے استحصال کا ذریعہ ہرگز نہیں بننے دینا چاہئے ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ طب و صحت کا میدان جتنا اہم ہے اسی قدر اس میں لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی گرم ہے ۔ ڈاکٹر جنہیں کبھی مسیحا کہا جاتا تھا قاتل بنے بیٹھے ہیں ، حکومتی بے اعتنائیوں کے علاوہ ڈاکٹروں ، اسپتالوں اور صحت عملے کے غیر انسانی رویہ نے علاج و معالجہ کو اس قدر دشوار بنا دیا ہے کہ اب یہ کام عام انسان کے بس سے باہر ہورہا ہے ۔ مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کا غیر ہمدردانہ سلوک ضرورت سے زیادہ فیس ، مریضوں پر غیر ضروری جانچ کا بوجھ ، سستی دوائوں کی موجودگی کے باوجود مہنگی دوائیں تجویز کرنا، مخصوص لیب میں جانچ کرانے کی تاکید اور اس کی پابندی نہ کرنے پر رپورٹ کوغیر معیاری قرار دینا عام بات ہے۔ ڈاکٹر جو اپنے پیشہ کے تئیں ایمانداری اور مریضوں سے ہمدردی کا حلف لے کر میدان عمل میں آتے ہیں پریکٹس شروع کرتے ہی طبی اخلاقیات کو طاق نسیاں کے حوالہ کر دیتے ہیں ۔ اس صورت حال میں میڈیکل اور اسلامی ضابطۂ اخلاق پر عمل کے جذبے کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کے لئے ایسوسی ایشن کا قیام بے حد لائق تحسین ہے اور تمام مسلم ڈاکٹروں کو اس تنظیم سے وابستہ ہوجانا چاہئے نیز اس کے دائرئہ کار کو وسیع کرنا چاہئے ۔ یہ نہ صرف خود ڈاکٹروں کی دنیا اور آخرت بہتر بنانے کا ذریعہ ہوگا بلکہ تبلیغ اسلام کا بھی ایک اہم وسیلہ ثابت ہوگا۔
                یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمان تعلیمی ، معاشی ، سماجی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں جس کے لئے سیاسی سازشوں کے علاوہ خود ان کا اپنا رویہ بھی کم ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی شامت اعمال کے نیتجہ میں ہی اس صورت حال سے دوچار ہیں ۔ وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ وہ ایک نظریاتی گروہ ہیں جسے دنیا میں خیر امت بناکر بھیجا گیا ہے ۔ انہیں اپنی تاریخ پر فخر تو ہے لیکن وہ اس سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہے حالانکہ اگر ماضی کے آئینہ میں اپنے موجودہ زوال کا حل تلاش کریں تو وہ پھر زمانہ کی امامت و قیادت کے حقدار ہوسکتے ہیں ۔ ماضی میں انہیں برتری اور سرخروئی اپنے دین سے والہانہ تعلق ، علوم و فنون میں مہارت اور تحقیق و جستجو سے حاصل ہوئی ، انہوں نے سماج کے مجبوروں ، محکوموں، بے کسوں اور کمزوروں کی دست گیری کی ، دنیا کی بھلائی صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھی بلکہ انسانی معاشرہ کی صلاح و فلاح اور خدمت خلق کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ ان کے اخلاق وکردار کی بلندی نے انہیں عام انسانوں کی نگاہ میں بلند کردیا جب کہ آج وہ اپنی عملی و اخلاقی کوتاہی کے سبب بے وزن ہوکر رہ گئے ہیں۔ پہلے مسلمان اپنے کردار و عمل کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے جب کہ آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس سماج میں رہتے ہیں اس پر ان کی کوئی چھاپ نہیں ہے ، وہ عملاً سماج کے لئے غیر متعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ چونکہ سماج کے کمزور ، محروم اور ضرورت مند طبقوں کے تعلق سے وہ کچھ نہیں سوچتے اس لئے ان کا وزن بھی محسوس نہیں کیا جاتا ہے ۔ موجودہ حالات میں تعلیمی معاشی اور سیاسی میدان میں برادران وطن کے مقابلہ میں آنا ان کے لئے بیحد مشکل ہے لیکن وہ اپنی اخلاقی قوت کے ذریعہ اپنا وزن محسوس کر اسکتے ہیں۔ اگر وہ رحمت و شفقت اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے سفیر بن جائیں تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں پچھڑنے کے باوجود وہ اپنی عظمت اور اہمیت کا احساس کرا سکتے ہیں کیونکہ یوں تو اس ملک میں سب کچھ ہے لیکن اخلاقی قدروں کا زبردست فقدان ہے اور اس خلا کو رسول رحمت کی امت ہی پورا کر سکتی ہے ۔اگر ہر شعبہ کے مسلمان اپنی دینی و منصبی ذمہ داری کا ادراک کر لیں تو انقلاب لا سکتے ہیںجس کی اشد ضرورت ہے ۔خدمت خلق، انسانیت کی خیر خواہی اور بھلائی کا درس ہمیں اپنے رسول کی زندگی سے ملتا ہے۔ آپ کی حیات مبارکہ میں انسانیت پسندی کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں ۔ آپ اپنے اہل خانہ ،ساتھیوں ،خویش و اقارب ، پڑوسی ، غلام ، بچے ، بوڑھے، کمزور طبقات ، فقرا و مساکین سب کے لئے درد مند دل رکھتے تھے حتی کہ آپ کی شفقت و ہمدردی جانوروں کو بھی حاصل تھی ۔ خدمت انسانی کے اس رویہ سے متاثر ہوکر غیر مسلم جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور جن لوگوں نے اسلام کو نیست و نابود کر دینے کا بیڑا اٹھایا تھا انہوں نے بھی اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لی ۔ آج مسلمان ملک میں دھرتی کا بوجھ سمجھے جارہے ہیں اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے لیکن اگر وہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکر میدان عمل میں آئیں تو وہ سماج کی ناگزیر ضرورت بن سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنے کردار و عمل سے ثابت کردیں کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں جیتے ہیں بلکہ سب کے دکھ درد میں کام آنے والے ہیں ، بھوکوں ، ننگوں ، مریضوں، بیوائوں ، یتیموں ، ضرورت مندوں اور محتاجوں کی دست گیری کرنے والے ہیں تو وہی لوگ جو آج انہیں دھرتی کا بوجھ سمجھ رہے ہیں اپنی آنکھوں کا تارا بنا لیں گے اور اپنے سر وں پر بیٹھانے کے لئے خود کو مجبور پائیں گے ۔ یہی وہ میدان ہے جس میں مسلمان آسانی سے برداران وطن سے سبقت لے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اندر مسلمان ہونے کا احساس پیدا ہوجائے۔
                جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا کہ چونکہ ڈاکٹروں کا تعلق براہ راست عام لوگوں سے ہوتا ہے اس لئے وہ اگر اپنے پیشہ میں اسلامی اصول و آداب کا پاس و لحاظ رکھیں تو صرف انہیں کے ذریعہ انقلاب آسکتا ہے ۔ ڈاکٹر چونکہ مریضوں کے علاج میں اپنی توانائی اور وقت صرف کرتے ہیں اس لئے مریضوں سے فیس لینا ان کا حق ہے ، انہیں پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مریضوں سے پیسے لیں لیکن آج جس طرح سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور مریضوں پر بے انتہا بوجھ ڈالا جارہا ہے نیز ڈاکٹر دواساز کمپنیوں کے اشتہار کے طور پر کام کر رہے ہیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے اور مسلم ڈاکٹر اس سے احتراز کر لیں تو وہ ممتاز مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے علم و فن اور مریضوں کے تئیں اخلاص ان کا سرمایہ ہونا چاہئے۔ اس وقت صحت کا مسئلہ عالم گیر نوعیت کا حامل بن گیا ہے اور اس کے حل کے لئے اسی سطح پر کوششیں بھی ہورہی ہیں ۔ خود ہمارے ملک میں بھی صحت کے تئیں عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں جس کا فائدہ بھی نظر آرہا ہے  لیکن مسلمان بالعموم اپنے اندر تبدیلی نہیں پیدا کر رہے ہیں ، ایسوسی ایشن آف مسلم ڈاکٹرس کو اس پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔ اسی طرح میڈیکل سائنس کی ترقی نے نت نئے مسائل بھی پیدا کئے ہیں اس سلسلہ میں اسلامی موقف کی وضاحت اور اس پر عمل ضروری ہے جس کی طرف کانفرنس میں اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ بہر حال مسلم ڈاکٹروں کی یہ تنظیم جس مقصد کے تحت قائم کی گئی ہے وہ بلاشبہ اہم ہے اور ہم اور ہمارے جیسے عام لوگوں کی تمام تر نیک خواہشات اس کے ساتھ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ دیگر پیشوں سے وابستہ مسلمانوں کے لئے یہ تنظیم قابل تقلید نمونہ بنے گی ۔ الحمد للہ انسانی خدمات کے دیگر شعبوں میں بھی مسلمان موجود ہیں ، اگرچہ ان کی تعداد کم ہے اور وہ منتشر ہیں ۔ اگر تمام پیشوں سے وابستہ افراد انہیں بنیادوں پر اپنی اپنی تنظمیں قائم کر لیں تو اس کے اچھے اثرات ظاہر ہوں گے اور اس سے نئی نسل کو بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے گا ۔  ساتھ ہی اگر مسلمان اپنی اور اپنے سماج کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سیاست، معاش اور تعلیم کو بھی اخلاقی قدروں کا پابند بنانے کی ٹھان لیں اور معاشرہ کے کمزور ،محروم ، مجبور اور بے سہار الوگوں کا سہارا بننے اور ان کے درد کی مسیحائی کرنے کی کوشش کریں اور اخلاقی قوت بن کر ابھریں تو وہ اس ملک کے لئے غیر معمولی اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں اور یہی ان کا اصل کردار اور مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔
               
                                                                                                              

بدھ، 12 فروری، 2014

فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ


فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ

ہندوستان میں آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا نتیجہ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کی شکل میں آیا ہے جس کی رو سے مسلمان ہندوستان میں دلتوں سے بدتر حالت میں ہیںاور یہ سفارش کی گئی کہ مختلف شعبوں میں خصوصی مراعات دے کر ان کے حالات کو ٹھیک کیا جائے۔ اس کمیشن کا مقصدمسلمانوں کے حالات کا پتہ لگاکر ان کے حقوق دینے تھے یا انہیں ماضی کی طرح رپورٹ شائع کر کے خوش کرنا تھا یہ اب بالکل ظاہر ہوگیا ہے اوراقلیت کے نام پر جتنی اسکیمیں چلائے جانے کا دعوی کیا جارہا ہے ان کا فائدہ مسلمانوں کو بہت کم مل رہا ہے۔ بہر حال مسلمانوں کی بد حالی کا اندازہ اس سے قبل بھی کیا جاتا رہا ہے جو عام طور پر مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی اور اقتصادی پسماندگی کے مجموعی تاثر کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا تھا لیکن سچر کمیٹی نے اعداد وشمار کی روشنی میں اس کو ثابت کردیا اور اس طرح اس پرخود حکومت کی مہر لگ گئی۔ اس رپورٹ نے کسی کی آنکھ کھولی یا نہ کھولی حکومت کو ضروریہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ملک میں مسلمانوں کو جس طرح سے ٹھگا گیا ہے اس رپورٹ کے بعد مسلمانوں نے اگراس کا احساس کر لیا تو بر سر اقتدار پارٹی کے لیے اپنا وجود باقی رکھنا مشکل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ سچر کمیٹی کی سفارشات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور اس ضمن میں حکومت کی کاوشوں کو بروئے کار لانے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کی غرض سے حکومت ہند کی وزارت فروغ انسانی وسائل کے وزیر مملکت مسٹر ایم اے اے فاطمی کی قیادت میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی جسے فاطمی کمیٹی اور بعد میں ہائی لیول کمیٹی ۔ منسٹری آف ایچ آر ڈی سے موسوم کیا گیا ۔
اس کمیٹی کو ذمہ داری دی گئی کہ سچرکمیٹی نے مسلمانوں کے تعلق سے جس تشویشناک صورت حال کا انکشاف کیا ہے اس کا جائزہ لے کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جائے ۔ اس میں بطور خاص تعلیم کو خاص اہمیت دی گئی جس میں مسلم کمیونٹی کی تعلیم تک رسائی کے ساتھ مسلم علاقوں میں واقع اسکول کے انفراسٹرکچر کی تقابلی سطح کا پتہ لگانا شامل ہے۔ چنانچہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے سیاق وسباق میں بنیادی ، سکینڈری ، اعلی وتکنیکی خواندگی اور تعلیم کی تمام سطحوں پر نافذ تمام موجودہ اسکیموں کا از سر نو جائزہ لیاگیا۔ اس سلسلہ میں مختلف علاقوں میں مسلم بچوں کی تعلیمی شرح کا جائزہ لیتے ہوئے ان اسباب پر غور کیا گیاجن کی وجہ سے مسلم بچوں میں تعلیمی شرح کم ہوتی ہے۔
                تمام جہتوں سے جائزہ اور واقف کاروں سے مشورہ کے بعدفاطمی کمیٹی نے جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ نہ صرف لائق عمل ہے بلکہ اس پر عمل کیا جائے تو جہاں مسلمانوں میں کی تعلیمی شرح میں اضافہ ہوگا وہیں ملک کی ترقی میں تیزی آئے گی۔ کیونکہ کمیٹی نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی تیز تر قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ مسلم علاقوں میں اسکول اور کالج کھولنے کی سفارش کی گئی اور کہا گیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ان کی معاشی پسماندگی کا بھی سبب ہے ۔ ہندوستان میں جو ریزرویشن سسٹم ہے جس کے بارے میں آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ملک میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ہے۔ فاطمی کمیٹی نے حوصلہ کے ساتھ اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کو جو ریزرویشن دیئے جارہے ہیں اس میں صرف مذہب بنیاد ہے اور مسلمانوں میں موجود دلتوں کو ہم پیشہ کمیونٹی کو صرف مذہب کی وجہ سے ان کی مراعات نہیں دی جارہی ہیں ۔ فاطمی کمیٹی نے اس قانون میں اصلاح کی سفارش کی ہے۔
فاطمی کمیٹی نے محسوس کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کم از کم چار کیمپس لازمی طور پر قائم کئے جانے چاہئیں۔ اس نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کے قیام میں ریاستی حکومتیں کامیاب نہ ہوں تو اس ضمن میں مرکزی حکومت کو اقدام کرنا چاہیے۔ اس کی سب سے اہم سفارش یہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی شرح بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا ذریعہ تعلیم اردو کیا جائے۔اس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ اردو کو نظر انداز کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ سہ لسانی فارمولہ نافذ نہیں کیا جارہا ہے ۔ پرائمری تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب اردو جاننے والے اساتذہ کی بڑی تعداد میں تقرری ہو اور جہاں ضروری ہو وہاں پارا ٹیچرس بھی مہیا کرائے جائیں۔ کیندریہ ودیالیہ کے اسکول کھولنے کے لیے ایسے اضلاع منتخب کیے جائیں جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی بستی ہے۔
پیشہ ورانہ تعلیم مہیا کرانے کے لیے مسلم طبقہ کی ہمت افزائی کی جائے اور اسے اس قسم کے ادارے کھولنے کی اجازت دی جائے۔
ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں مسلمانوں کی تعداد 5000 سے زیادہ ہے وہاں اسکول کھولے جائیں ۔ ایسے تقریبا 2000 اسکولوں کی ضرورت ہے۔
یہ کچھ اہم سفارشات ہیںجو فاطمی کمیٹی نے پیش کی ہیں۔
                                حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں کی تعلیمی فلاح کے لیے اس طرح کا مربوط لائحہ شاید پہلی مرتبہ حکومت کے سامنے رکھا گیا ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ جتنی اچھی رپورٹ ہے اس سے زیادہ تر مسلمان ناواقف ہیں ۔ عوام تو عوام خواص نے بھی صرف نام سنا ہے ۔ورنہ جس جانفشانی کے ساتھ یہ رپورٹ تیار کرکے حکومت کے سامنے پیش کی گئی ہے اگر مسلم خواص اور عوام کی طرف اس کے نفاذ کا مطالبہ اسی ڈھنگ سے کیا جاتا تو ناممکن نہیں تھا کہ اس کے کم از کم کچھ حصوں پر عمل بھی ہوجاتا ۔
                                جنا ب علی اشرف فاطمی مسلم مسائل کے حوالے سے ہمیشہ سنجیدہ رہے ہیں اور بطور خاص ان کے تعلیمی مسائل پر ہمیشہ توجہ دی ہے۔ وہ ان کی تعلیمی ترقی کے تئیں سنجیدہ فکر رکھتے ہیں اور اس کا اثر پوری رپورٹ میں محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم مبارک باد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس رپورٹ کی اہمیت کے پیش نظر دانشوروں اور تعلیمی و سماجی سروکار رکھنے والے افراد سے فاطمی کمیٹی رپورٹ کا تجزیاتی مطالعہ کراکے ”فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ“ کے نام سے مرتب اور شائع کرادیا ہے۔ اس کتاب میں مولانا محمود مدنی کے پیغام ، مولانا اسرار الحق قاسمی کی تقریض اور مرتب ڈاکٹر امام اعظم کے پیش لفظ کے علاوہ تیرہ مضامین شامل ہیں جن میں کمیٹی کی پیش کردہ تجاویز اورسفارشات کا کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر امام اعظم نے ان مضامین کو کتابی صورت نہ دی ہوتی تو لوگ فاطمی کمیٹی رپورٹ سے ناواقف رہ جاتے اور یہ بھی دیگر حکومتی رپورٹوں کی طرح کیڑوں کی خوراک بن جاتی۔ حکومتی سطح پر اس پر کس قدر عمل در آمد ہوا یہ الگ موضوع ہے لیکن ان کے سامنے آنے کے بعد اتنا تو ضرور ہوا کہ کسی نہ کسی سطح پر مسلمانوں میں بیداری آئی، یہ الگ بات ہے کہ بیدار ہونے میں کافی وقت لگا ۔ اس کے باوجود یہ سوال بہر حال قائم ہے کہ کیا مسلمان ان سفارشات کے پیش ہوجانے کے بعد حکومتی سردمہری کے خاتمہ کے لئے کوئی اقدام کریں گے ۔ یوپی اے حکومت اپنی دو میعادیں مکمل کر کے رخت سفر باندھ رہی ہے اور عام انتخاب کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے ۔ اگر مسلمانوں نے اس رپورٹ کی اہمیت کو سمجھ لیا تو وہ اسے انتخابی ایشو بناسکتے ہیں ۔ہماری غور و فکرکااایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہئے کی کیا حکومت ہمارے تمام مسائل حل کرسکتی ہے ۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے اپنی ترقی کا انحصار حکومت کی نظر عنایت پر تسلیم کر لیا ہے ۔ جب بھی ان کی تعلیمی ، معاشی ، سماجی اور سیاسی صورت حال کی بات سامنے آتی ہے تو وہ حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ گو کہ یہ بات صد فیصد درست ہے لیکن اگر حکومتیں مخالفانہ رویہ رکھتی ہیں تو کیا ہمیں ان پر بھروسہ کرکے اپنی ساری تگ و دو چھوڑ دینی چاہئے ۔ یہ ذکر نامناسب نہیں ہے کہ حکومت کے کرنے کے جو کام ہیں ان پر عمل درآمد کے لئے ہمیں متحد ہوکر مطالبہ کرنا چاہئے لیکن ساتھ ہی جو کام خود ہمارے اپنے کرنے کے ہیں ان پر بلاتاخیر عمل پیرا ہوجانا چاہئے ۔اگر ان دونوں پہلوں پر توجہ ہو تو کامیابی یقینی ہے ۔
                                کتاب میں شامل تمام مضامین لائق مطالعہ ہیں اور محنت سے لکھے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کتاب کو مقبولیت بھی حاصل ہوئی ۔ چنانچہ اس کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نکل گیا اور اشاعت ثانی کی نوبت آگئی ۔ اس دوسرے ایڈیشن میں بطور ضمیمہ ظفر آغا ، سید علی اور شاہد اقبال کے مضامین بھی شامل کر دیئے گئے ہیں جن سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ کتاب کی پشت پر پروفیسر اخترالواسع کی گراں قدر آراءتحریر ہیں ۔ امید ہے کہ مسلمان اس کتاب سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لئے بہتر حکمت عملی کے ساتھ پیش قدمی کریں گے۔

منگل، 11 فروری، 2014

دہشت گردی ، شاہد علی خان اور مسلمان

دہشت گردی ، شاہد علی خان اور مسلمان


                دہشت گردی اپنے انجام کے اعتبار سے جتنی ہلاکت خیز ہے بد قسمتی سے ہمارے ملک کے سیاست دانوں کے لیے وہ اتنی ہی مفید ہے۔ البتہ اگر اس کا نقصان کسی کو بھگتنا پڑتا ہے تو وہ اس ملک کے مسلمان ہیں ۔ عموما انہی کے ٹھکانوں پر دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں، وہی ہلاک ہوتے ہیںاور انہیں ہی مورد الزام ٹھہراکر داخل زنداں کیاجاتا ہے ۔ جہاں کہیں کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوا بغیر کسی ثبوت کے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ آج ہزاروں مسلمان برسوں سے جیلوں میں بند اپنے جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ حقیقی دہشت گرد کون ہیں اور ان کے عزائم کیا ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کا آغاز ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر کے کیا اور آج اس کی اولادیں یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ پہلے یہ بات صرف مسلمان کہتے تھے یا وہ لوگ جن کی آوازیں سنی نہیں جاتی تھیں لیکن اب دہشت گردانہ حملوں میں سنگھ پریوار کے شامل ہونے کے پختہ ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ آنجہانی ہیمنت کر کرے نے پہلی بار بھگوا دہشت گردی کا انکشاف کیا تو اب نمونہ عبرت بن چکے معمر سیاست داں لال کرشن اڈوانی بھی تلملا اٹھے جنہوں نے یہ محاورہ رائج کر کے کہ ’ہرمسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے‘ حقیقی دہشت گردوں کے کردار کو چھپانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ ہیمنت کر کر ے کے انکشاف کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب حقیقی دہشت گردوں کو پکڑا جائے گا اور بے قصوروں کی گرفتاریاں بند ہوں گی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ۔ البتہ اس کی کی پاداش میں خود ان کی زندگی کا باب بند کردیا گیا اور بھگوا دہشت گردوں کی گرفتاریوں کے بعد خفیہ ایجنسیاں اپنی قدیم روش پر گامزن ہوگئیں ۔ انہیں پھر سے ہر واقعہ میں انڈین مجاہدین کی کارستانی نظر آنے لگی اور بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ اسی تیزی سے چل پڑا بلکہ اس میں مزید شدت آگئی اوریہ سلسلہ اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
                اس ہفتہ دہشت گردی کے حوالہ سے دو اہم خبریں سامنے آئی ہیں۔ ایک کا تعلق آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ہے اور دوسرے کا ریاست بہار کے وزیر شاہد علی خان سے ۔ کارواں میگزین نے آر ایس ایس سے وابستہ دہشت گرد ی کے ملزم سوامی اسیمانند کا وہ انٹر ویو شائع کر کے کھلبلی مچادی ہے جس میں سوامی نے اعتراف کیا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے بارے میں آر ایس ایس سربراہ اور دیگر رہنماؤں کو نہ صرف جانکاری تھی بلکہ سوامی کو ان کی سرپرستی بھی حاصل تھی اور انہوں نے اسے ملک کے ہندؤوں کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے صرف یہ احتیاط برتنے کی ہدایت کی تھی کہ اس میں سنگھ کا نام سامنے نہ آئے ۔ یہ انکشاف گھر کے بھیدی کا ہے اور یہ بہت بڑا وقعہ ہے جس کی نہ صرف اعلی سطحی جانچ ہونی چاہیے بلکہ موہن بھاگوت اور دیگر لیڈران کی گرفتاری بھی عمل میں آنی چاہیے۔ لیکن یقین مانئے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا اور نہ ہمیں اس وقت اس سے بحث کرنی ہے۔ اس وقت ہمارا موضو ع گفتگو دہشت گردوں سے حکومت بہار کے وزیر کابینہ شاہد علی خان کی وابستگی ہے۔ شاہد علی خان کا تعلق ایسے خانوادے سے ہے جس کے افراد آزادی کی لڑائی میں حصہ لے چکے ہیں ۔ خود موصوف بھی اپنی حد درجہ سیکولر اور صاف ستھری شبیہ کی وجہ سے حکومت میں مقبول ہیں اور ایک طرح سے وزیر اعلی اور ریاست کے مسلمانوں کے درمیان رابطہ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اہل ریاست کو ایک ٹیلی ویژن چینل کے توسط سے پتہ چلا کہ ان کا تعلق دہشت گردی سے ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ سرحد پر ملک کی حفاظت کے لیے مامور سشستر سیمابل (ایس ایس بی) نے ریاستی پولس کو مراسلہ لکھ کر بتایا تھا کہ موتیہاری اور سیتا مڑھی اضلاع کے منظورسائیں اور جمیل اختر نامی دونوجوانوں کی وابستگی آئی ایس آئی اور انڈین مجاہدین سے ہے اور ان کا تعلق وزیر شاہد علی خان سے بھی ہے۔ اس کی تفتیش کی گئی اور دونوں اضلاع کے ایس پی نے ریاستی پولیس کو ارسال کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مذکورہ دونوں افراد سے وزیر کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان دونوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے۔ ٹیلی ویژن پر خبر نشر ہونے کے بعد مذکورہ دونوں نوجوان از خود تھانہ میں حاضر ہوئے اور پولیس کو بتایا کہ ان کا وزیر موصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تھانہ کے مطابق وہ دونوں اپنا نام سامنے آنے کی وجہ سے بے حد دہشت زدہ تھے۔ اس خبر کے نشر ہوتے ہی بی جے پی والوں کی بانچھیں کھل گئیں اور انہوں نے وزارت سے شاہد علی خان کی برطرفی اور اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعلی نتیش کمار پر دہشت گردوں کو پناہ دینے الزام لگانا شروع کردیا۔ حسب عادت میڈیا نے بھی اپنی کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اس خبر کو خوب اچھالا۔ لیکن وزیر اعلی نے ان کے مطالبہ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے بی جے پی کے ذہنی سڑانڈ سے تعبیر کیا۔ خود شاہد علی خان نے میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ان پر یہ الزام مسلمان ہونے کی وجہ سے لگایا گیا ہے۔ سنگھ پریوار جب جب مصیبت میں گھرتا ہے اس سے نکلنے اور اپنی جانب سے رخ پھیرنے کے لیے مسلمانوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے ۔ اسیمانند کے انکشاف کے بعد بی جے پی کی خاموشی اور اچانک ایک مسلم وزیر پر دہشت گرد ی کے الزام کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
                مسلمان ایک عرصہ سے دہشت گردی کی مار جھیلتے آرہے ہیں ۔ ان علاقوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں مجموعی طور پر وہ خوش حال ہیں۔ پہلے ایک خاص خطہ کو نشان زد کیا جاتا ہے اور خفیہ ایجنسیاں ان پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ پھر دوسرا علاقہ منتخب کیا جاتا ہے اور وہاں بھی یہ سلسلہ جاری کیا جا تا ہے۔ چنانچہ یہ نسخہ بہار میں بھی آزمایا گیا اور گذشتہ دو برسوں کے درمیان یہاں سے درجن بھر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ زیر تعلیم ، تعلیم یافتہ اور برسر روزگار نوجوان بطور خاص نشانہ پر رہے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب اس کی آنچ حکومت تک پہنچ گئی اور اس کے ایک ذمہ دار وزیر پر دہشت گردوں سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ہر چند کہ ریاستی حکومت اور پولس نے اسے غلط قرار دے دیا ہے لیکن اس سے مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب حکومت کاوزیر الزام سے بچ نہیں سکتا تو عام مسلمانوں کی کیا بساط ہے۔ گذشتہ دوبرسوں کے درمیان اس حوالہ سے بہار کے مسلمانوں نے جو اذیتیں جھیلی ہیں اس کی داستان کے بڑی روح فرسا ہے۔ مختلف خفیہ ایجنسیاں بیک وقت ٹوٹ پڑیں اور جب جسے چاہا اٹھا کر لے گئیں ۔ دربھنگہ ضلع کو دہشت گردی کے مرکز کے طور پورے ملک میں مشہور کردیا گیا ۔ گرفتار شدگان میں سے ایک قتیل صدیقی نامی نوجوان کو تو زیر حراست قتل بھی کردیا گیا۔ خفیہ ایجنسیوں نے جو تانڈو کیا اس نے یہاں کے مسلمانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ ہر شخص اپنے بچوں کے تحفظ کے تئیں اندیشوں میں گرفتار ہوگیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے خفیہ ایجنسیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ گرفتاریوں کے لیے مقابلہ آرائی ہورہی ہو۔ وہ جب جسے چاہتیں اغوا کے انداز میں اٹھا کر لے جاتیں ۔ ہر طرف خوف ودہشت کا سماں تھا۔ کوئی اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ عجیب کس مپرسی کا عالم تھا۔ لوگ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی جانب امید بھری نگاہوں سے سے دیکھ رہے تھے ، لیکن کوئی سامنے نہیں آیا۔ ان پر آشوب حالات میں فطری طور پر ان مسلم رہنماؤں سے ہمدردی کی توقع کی گئی جنہیں مسلمان سوجتن کر کے اسمبلی اور پارلیامنٹ بھیجتے ہیں لیکن بے سود ، علاقائی نمائندگی کرنے والے قومی سطح کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی گئیں لیکن لا حاصل۔ سوائے غلام غوث کے سبھوں نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وزیر موصوف سے جو آج خود الزام کی زد میں ہیں بڑی توقعات وابستہ کی گئیں لیکن مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ یہاں تک کہ جب دربھنگہ میں رضا کار نتظیم مسلم بیداری کارواں نے عوامی احتجاج کے لیے ریلی نکالی تو بر سر اقتدار جماعت کے مسلم کارکنان نے خفیہ طور پر اسے بھی ناکام بنانے کی کوشش کی اور اس صورتحال کا خفیہ ایجنسیوں نے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا اور اب حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں اور اور پولس نہیں بلکہ سرحدکی حفاظت کے لیے مامور ایس ایس بی کا حوصلہ بھی اتنا بلند ہوگیا ہے کہ اسے ایک موقر وزیر پر الزام لگانے میں بھی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔ وزیر موصوف کی کردار کشی کی جو کوشش کی گئی ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں ۔ ان کا یہ احساس بجا ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان پر الزام تراشی کی گئی لیکن عام مسلمان تو ہمیشہ سے اسی احساس کے تحت جی رہے ہیں۔ کیا اچھی بات ہوتی کہ یہ احساس انہیں اس وقت ہوتا جب ان کی قوم کے بچے اسی نسبت کی وجہ سے زد میں تھے ۔اگر ایسا ہوجاتا تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی۔ اس موقع پر ہمیں ایک بار پھر اپنی کس مپرسی کا شدید احساس ہورہا ہے ، رہنماؤں اور عوام کے درمیان جو دوری پیدا ہوگئی ہے وہ ہمیں اس صورتحال سے آشنا کرارہی جس میں جرمن شاعر نے کہا تھا :
ُپہلے وہ کمیونسٹوں کے لیے آئے میں چپ رہا ، کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا
پھر وہ سوشلسٹوں کے آئے ، میں چپ رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہ میرے لیے آئے ، تب بولنے والا کوئی نہ تھا
                اس سے پہلے کہ ہمارے دیگرسیاست داں یا قائدین اپنے اوپر عائد الزامات عائد ہونے کا انتظار کریںانہیں اپنی قوم کی رہنمائی اور ان کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے جب مسلم قیادت اپنے فرائض منصبی کو سمجھے، ملت تو کب سے پیچھے چلنے کے لیے بیتاب ہے۔ وہ تو اب بھی اس پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہےے جو اس کے دکھ درد کو اپنا سمجھے اور پر آشوب حالات میں اس کی دست گیری کرے۔ وہ دن مسلمانوں کے لیے سعادت وخوشی کا پیغام لے کر آئے گا جب قائدین وعوام اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آشنا ہوجائیں گے کہ اسی میں دونوں کی بھلائی ہے۔