پیر، 21 اپریل، 2014

سیکولر امیدواروں کی الجھن میں گرفتارمسلم رائے دہندگان


سیکولر امیدواروں کی الجھن میں گرفتارمسلم رائے دہندگان
یاد رکھئے ! اگر ہم ذات پات ، مسلک، رشتہ داری اور سطحی گروہ بندیوں کو بالائے طاق رکھ کر متحد نہ ہوسکے تو انسانیت کے قاتل کو مسند اقتدار تک پہنچانے کے مجرم بھی ہم ہی ہوں گے۔

                ملک کی سولہویں پارلیمنٹ منتخب کرنے کے لیے انتخابی عمل جاری ہے۵۴۳ نشستوں میں سے ۲۳۲ پر انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ انتخابات میں ہر پارٹی یا اتحاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے حکومت تشکیل کرسکے۔ حالیہ انتخاب ان معنوں میں گذشتہ انتخاب سے مختلف ہے کہ اس میں فرقہ پرست طاقتیں جارحانہ فرقہ پرستی میں یقین رکھنے والے انسانیت کے قاتل نریندر مودی کی قیادت میں دلی کے تخت پر قابض ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو یہ ملک کے حق میں بے حد خطرناک ہوگا۔ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے یہ طاقتیں میڈیا کے دوش پر سوار ہوکر ہر طرح کی جائز وناجائزحرکت کر رہی ہیں اور پوری طرح متحد ہیں جبکہ خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں باہم دست وگریباں ہیں۔ ان حالات میں یہ انتخاب رائے دہندگان کی بصیرت کا امتحان ہے۔ انہیں ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملک سیکولرزم کے اپنے دیرینہ خطوط پر گامزن رہے گا اور آئین وقانون کی حکمرانی برقرار رہے گی یا جارحانہ فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوگا اور سیکولرزم کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا جائے گا۔
                مسلمانوں کی اہمیت کا احساس اور کبھی ہو یا نہ ہو لیکن انتخاب کے وقت ہر پارٹی کی نظر مسلمانوں پر ہوتی ہے۔ بھلے ہی مودی ٹوپی پہننے سے انکار کریں لیکن راج ناتھ سنگھ کو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہے کہ ملک میں تقریبا پونے دو سو نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لئے انہیں اپنے ووٹوں کی قیمت کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن سیاسی جماعتیں اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر مسلمان اپنی اس طاقت کا صحیح ادراک کرلیں تو وہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سیکولرزم اس ملک کی ضرورت ہے اور خوش گوار امر یہ ہے کہ ملک کی اکثریت سیکولرزم میں یقین رکھتی ہے لیکن یہ مسلمانوں کی مجبوری بھی ہے اس لئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری ان پر دوسروں سے زیادہ ہے کیونکہ فرقہ پرستوں کی زد پر وہی رہتے ہیں ۔ کوئی سیاسی پارٹی فتح حاصل کرتی ہے یا شکست سے دو چار ہوتی ہے اس سے دوسروں کو بہت فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے انتخاب کے جو مراحل بچ گئے ہیں ان میں مسلمانوں کو بہت زیادہ سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے ووٹ تقسیم نہ ہونے پائیں۔
                اس قت ہمارے پیش نظر بہار کا انتخابی منظر نامہ ہے۔ بہار میں پارلیمنٹ کی ۴۰ نشستیں ہیں جن میں سے ۱۳ پر انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ جن نشستوں پر انتخاب باقی ہے وہ بے حد اہم ہیں۔ اس لئے کہ ان میں بیشتر حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ سیمانچل ، کوسی ، متھلانچل سمیت ان حلقوںمیں ان کا فیصد ۲۰ سے ۶۹ تک ہے۔ اس کے باوجود گذشتہ انتخاب میں کشن گنج کے علاوہ ساری نشستیں فرقہ پرستوں یا ان کے حامیوں کے قبضہ میں چلی گئیں اور یہ مسلم ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے ہوا۔ اگر مسلمانوں نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوتے بلکہ ایوان میں مسلم نمائندگی میں بھی اضافہ ہوتا جس کی کمی کا رونا ہم روتے رہتے ہیں۔ اگر اس بار مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچالیا تو دونوںباتیں ہوسکتی ہیں۔ مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی نہ تو کوئی لیڈرشپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کو لیڈر تسلیم کرنے کو تیار ہیں ۔ مسلم تنظیموں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود ہی آپس میں متحد نہیں ہیں تو بھلا قوم کو کیسے متحد رکھ سکتی ہیں۔ مسلم تنظیموں اور دانشوروں کی جانب سے جیسی رہنمائی کی توقع تھی وہ نہ ہوسکی سوائے اس مبہم اپیل کے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکیں اور سیکولر امیدواروں کو ووٹ دیں ۔ ساتھ ہی ان کی جانب سے مسلم نمائندگی میں اضافہ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ کاغذی اپیل کی بجائے حلقوں کی سطح پر سیکولر امیدواروں کی نشاندہی کی جاتی۔ جب یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو ووٹ نہ دیا جائے تو یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ کسے ووٹ دیا جائے۔
                تمام مسلم رائے دہندگان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ فرقہ پرست کون ہے۔ اسے پہچاننے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہے۔ ان کی الجھن کا سبب سیکولر امیدوار ہیں۔ ہر پارٹی سیکولر ہونے کی دعویدار ہے اور سب کے امیدوار میدان میں ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ مسلم امیدواروں کا انتخاب کریں یا اس سیکولر امیدوار کا جس کی پوزیشن مضبوط ہو۔ لیکن یہ نصیحت اس لیے ناکافی ہے کہ نہ تو سبھی مسلم امیدوار منتخب ہونے کا حق رکھتے ہیں اور نہ ہی عام آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ کس امیدوار کی پوزیشن مستحکم ہے۔ جہاں مسلمان ۵۲ فیصد سے یا اس سے زیادہ ہیں وہاں وہ جس طرف چلے جائیں اس کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ جہاں تک مسلم نمائندگی میں اضافہ کا سوال ہے میرے خیال میں یہ غیر ضروری اور لا یعنی بات ہے۔ کوئی بھی مسلم امیدوار اپنی پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے اور اسی کا وفادار اپنی قوم کا نہیں۔ اس کے اندر مسلم مسائل پر اپنی پارٹی کے اندر اور باہر کھل کر اظہار خیال کرنے کی جرأت نہیں ہوتی، ہم نے دیکھا ہے کہ بے قصور مسلم نوجوان دہشت گردی کے نام پر اندھا دھند گرفتار ہوتے رہے اور ان کے لبوں میں جنبش نہیں ہوئی۔ کسی نے لب کشائی کی بھی تو یہ کہنے کے لیے کہ انڈین مجاہدین گجرات فساد کا رد عمل ہے یا بابری مسجد کے بعد دہشت گردی پیدا ہوئی۔ گویا یہ اپنے قوم کے نو نہالوں کو تحفظ کیا فراہم کرتے ان کے گناہگار ہونے کی تصدیق کردی۔ ویسے استثنائی صورت ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام سیکولر جماعتیں مسلم آبادی والے حلقوں سے مسلمانوں کو ہی کھڑا کردیتی ہیں اور اور گویا اس طرح خود ہی فرقہ پرستوں کے لیے بازی مارنے کی راہ آسان بنادیتی ہیں۔ اگر مسلم امیدوار واقعی مخلص ہوتے تو آپس میں نہ ٹکراتے۔ لیکن سیاست کے تو کھیل ہی نرالے ہوتے ہیں اور کسی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دے۔ اختر الایمان نے ضرور ایک راہ دکھائی ہے جس کا مثبت اثر کش گنج کے انتخاب پر ہوگا لیکن بہر حال سیاست کی اخلاقیات ان کے اس اقدام کو درست نہیں قرار دیتی ہے۔ کیا ہمیں شاہنواز حسین اور محبوب علی قیصر کو بھی مسلمان ہونے کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہیے ۔ حالانکہ ان کا تعلق فرقہ پرست بی جے پی یا اس کی حلیف جماعت سے ہے۔ یوں بھی اب مسلمان اتنے بے شرم ہوچکے ہیں کہ انہیں بی جے پی میں شامل ہونے میں بھی عار محسوس نہیں ہوتی۔ صابر علی تو خیر سے نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے لیکن ایم جے اکبر ، جمشید اشرف اور اخلاق احمد کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ ایسے میں تو ہمیں رام بلاسوں سے شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہمیں موجودہ وقت میں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں مسلم ممبران کی بھیڑ اکٹھا کرنی ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا امیدوار مرکز میں فرقہ پرستوں کو روکنے میں معاون ہوسکتا ہے۔
                ریاست میں بی جے پی- ایل جے پی-راشٹریہ لوک سمتا پارٹی ، راجد -کانگریس اور جنتا دل یو اور سی پی آئی کا اتحاد ہے۔ چونکہ ایل جے پی کا اتحاد بی جے پی کے ساتھ ہے اس لیے اس کے امیدوار کو ووٹ دینا بی جے پی کو ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ کانگریس کی بنیاد بھلے ہی سیکولرزم پر ہو لیکن اس کے اقتدار میں مسلمانوں کو چین کے دن کم ہی نصیب ہوئے ہیں تاہم اگر بی جے پی اور کانگریس میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا مجبوری ہو تو Lesser Evil کے طور پر کانگریس ہی اس کی حقدار ہوگی۔ فرقہ پرستوں سے لوہا لینے میں لالو پرساد کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بوجوہ وہ فرقہ پرستوں کی حمایت کبھی نہیں کرسکتے۔ جنتادل متحدہ سترہ سالوں تک بی جے پی کی حلیف رہی ہے اور بظاہر مودی کے وزیر اعظم کے امیدوار بنائے جانے پر یہ اتحاد ختم ہوا ہے ۔ گویا اگر بی جے پی نریندر مودی سے دستبردار ہوجائے گی تو جدیو کے لیے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ حالیہ منظر نامہ یہ ہے کہ جد یو کا مقابلہ بی جے پی اور راشٹریہ جنتادل دونون سے ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا پہلا دشمن راجد ہے۔ مسلم آبادی والے حلقوں میں اس نے راشٹریہ جنتا دل کے مقابلہ میں جو امیدوار دیئے ہیں اس کا مقصد جیتنا نہیں بلکہ راشٹریہ جنتادل کے امیدواروں کو ہرانا ہے۔ اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں آپس میں ٹکرائیں اور دونوں ہی شکست سے دوچار ہوجائیں ۔ اگر یہ مقصد نہ ہوتا تو بیگو سرائے سے جد یو اور مدھوبنی سے سی پی آئی کا امیدوار ہوتا۔کیونکہ بیگو سرائے جد یو کی جیتی ہوئی نشست ہے جس سے مناظر حسین منتخب ہوئے تھے جبکہ مدھوبنی میں جدیو نے پچھلی بارامیدوار نہیں دیا تھا۔ یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے جسے مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے ۔ مسلم لیڈروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بآسانی سیاسی پارٹیوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ان سطور کے راقم کو کم از کم مدھوبنی سے جد یو کے امیدوار پر اس لیے افسوس ہے کہ وہ مسلم مسائل پر کھل کر بولتے تھے اور مسلمانوں کی حق تلفی کے لیے ریاست کے وزیر اعلی کو پانی پی پی کر کوستے تھے لیکن بالآخر خو د انہیں کا شکار ہوگئے اور اب حالت یہ ہے کہ جن خرابیوں کے واسطہ سے وزیر اعلی کو کوستے تھے پارٹی سے ٹکٹ ملتے ہی وہ ساری خرابیاں وزیر اعلی کی خوبیوں میں بدل گئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب مرکز میں کسی ایک پارٹی کے اقتدار کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔ انتخاب کے بعدجو بڑا محاذ ہوگا اسی کی حکومت ہوگی۔ علاقائی پارٹیاں اس میں اہم کردار ادا کریں گی۔ سیاست میں مستقل دوستی یا دشمنی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر کانگریس کی قیادت والے اتحاد کو حمایت دینے کا سوال پیدا ہوا تو جد یو اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ایسانہیں کرسکے گا کیونکہ کانگریس کے ساتھ راشٹریہ جنتا دل ہوگا۔ لیکن اگر بی جے پی والے محاذ کو حکومت سازی کے لیے حمایت دینے کی ضرورت پڑتی ہے تو نریندر مودی اور دیگر متازعہ ایشوز کے چھوڑنے کی شرط پر جد یو کے لیے اس کی حمایت میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی بھلے ہی اس کا اعتراف نہ کرے لیکن وہ یہ سمجھ چکی ہے کہ اس کے لیے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانا آسان نہیں ہے اور راج ناتھ سنگھ کا مسلم پریم اسی کا اشاریہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اس امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جو مرکز میں فرقہ پرستوں کو روکنے میں موثر کردار ادا کرسکے۔
                مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کا یک سبب ذات ، برادری اور مسلکی تقسیم بھی ہے۔ پھر یہ کہ مقامی سطح کی سیاست کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے۔ ایک ہی بستی میں ایک محلہ کے لوگ کسی امیدوار کی حمایت کرتے ہیں تو دوسرے محلہ والے محض اس لیے اس کی مخالفت کریں گے کہ ان کا مخالف گروہ اس کا حامی ہے۔ پارلیمانی انتخاب میں بھی ان کی ذہنیت پنچایتی انتخاب سے بلند نہیں ہوپاتی جو بد قسمتی کی بات ہے ۔ اس لیے ہر طرح کے آپسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ملک وقوم کے مفاد میں ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشکل گھڑی میں زندہ قومیں متحد ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ مشکل گھڑی ہے جو ہم سے اتحاد کی متقاضی ہے۔ اگر ہمیں اپنی سیاسی بے وزنی ختم کرنی ہے تو اس کے لیے اتحاد شرط اولین ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا صد فی صد ووٹ استعمال
ہو۔ عام طو پر مسلم خواتین حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرتی ہیں یہ رویہ درست نہیں ہے۔ جہاں بندوں کو تولنے کی بجائے گننے کا دستور ہو وہاں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یاد رکھئے کہ اگر ہم ذات پات ، مسلک، رشتہ داری اور سطحی گروہ بندیوں کو بالائے طاق رکھ کر متحد نہ ہوسکے تو انسانیت کے قاتل کو مسند اقتدار تک پہنچانے کے مجرم بھی ہم ہی ہوں گے اور اس دن ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم ہوگا۔

جمعرات، 17 اپریل، 2014

پارلیمانی انتخاب کے بہار پر دور رس اثرات ونتائج

پارلیمانی انتخاب کے بہار پر دور رس اثرات ونتائج

            جمہوریت میں انتخاب ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے عوام اپنی پسند وناپسند کا اظہار کر کے حکومت کی تشکیل کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے نظام جمہوریت میں معاملہ کا انحصار تعداد پر ہوتا ہے۔ لیکن پارٹیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوجاتے ہیں اور بیشتر ایسے امیدوار میدان مار لیتے ہیں اکثریت کی رائے جن کے خلاف ہوتی ہے۔اس لیے ہماری حکومت میں ایسے لوگوں کی قابل لحاظ تعداد ہوتی ہے جو سماجی اور قانونی حیثیت سے غیر مقبول ہیں۔ پھر ایسے افراد کی قیادت بدعنوانی پر منتج ہوتی ہے اور عوام کو ان کا حق نہیں مل پاتا جس کی ایک جمہوری ملک میں توقع کی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو روکنے کے لیے لازمی ہے کہ رائے کو انتشار سے روکا جائے اور جب عوام کی رائے متحد ہوگی تو ایسے افراد کو رد کیا جاسکے گا جو سماجی اور قانونی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اسی طرح جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کا ایک ایک فرد جو حق رائے دہی رکھتا ہے اپنے اس حق کے استعمال کے لیے آمادہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا شعور اتنا بالیدہ ہو کہ اس کا نمائندہ کس حد تک ملک ، قوم اور جمہوریت کے لیے مناسب ہے اور پھر اس لحاظ سے ہر رائے دہندہ اپنی رائے بدلنے اور ملکی مفاد کے پیش نظر رائے کے استعمال کرنے کی جرأت رکھتا ہو۔ آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں حق رائے ہی کے استعمال کا لوگوں میںجذبہ بڑھتا گیا ہے اور لوگ اپنی پسند وناپسند کے مطابق رفتہ رفتہ رائے دہی کرنے کی جرأت بھی کر پارہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہندوستانی جمہوریت کا المیہ ہے کہ ہمارا رائے دہندہ آج بھی ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور مختلف طرح کی وقتی ترجیحات سے متاثر ہوجاتا ہے۔
             عام انتخاب ۴۱۰۲ دیگر انتخابات سے اس طرح مختلف ہے کہ پہلی مرتبہ اس انتخاب میں پارٹیاں عوام کے مسائل کی بجائے صرف اور صرف سیکولرزم اور فرقہ پرستی کو پورے انتخابی تشہیر کی بنیاد بنا رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہی ہے کہ بی جے پی نے اس انتخاب کے ذریعہ بڑی حد تک ملک کے سیکولر کردار کو ہی چیلنج کردیا ہے نتیجتاً دیگر پارٹیوں کو اس کے رد عمل کے طور پر سیکولرزم کا علم بلند کر نا پڑ رہا ہے۔ ان کی علم برداری کس حد تک خلوص پر مبنی ہے اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے تاہم بی جے پی کا جو ایجنڈا ہے اگر وہ ملک میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ملک کے مفاد کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹیاں ہی نہیں ہر عقل مند آدمی اس بار کے الیکشن میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے اور ووٹنگ کرنے اور کرانے کے لیے بہت پر عزم دکھائی دیتا ہے تاکہ ایسی فرقہ پرست جماعت کو حاشیہ پر ہی رکھا جائے ۔ دوسری جانب فرقہ پرستوں کے لیے بھی یہ آر پار کی لڑائی ہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ گذشتہ دو مدتوں میں بی جے پی کا اقتدار سے بے دخل رہ جانا ہے ۔ اس لیے بی جے پی حامیوں میں بھی ایک ایک ووٹ کاسٹ کرنے کا حوصلہ نظر آرہا ہے۔ شاید اس کے پیچھے قاتل انسانیت نریندر مودی کو وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھاکر پورے ملک کو گجرات بنانے کا کھیل کھیلے جانے کا خواب بھی پوشیدہ ہے۔ ایسے میں امن پسند عوام کی ذمہ داری بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ وہ ملک میں امن وامان باقی رکھنے کے لیے نہ صرف اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں بلکہ ملک میں سیکولر فرنٹ کو آگے لانے اور فرقہ پرست ذہنیت کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے ووٹنگ کریں۔ کیونکہ اگر بی جے پی موجودہ منشور کے تحت برسر اقتدار آتی ہے تو اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ملک میں سیکولرزم کی بنیاد کمزور ہوگی اور پھر اس کا اثر جمہوری تقاضوں پر بھی پڑے گا۔ ہندوستان میں کثرت میں وحدت کی جو خصوصیت پائی جاتی ہے وہ بھی کمزور پڑجائے گی۔ ملک تقسیم ہو نہ ہولیکن شدید خلفشار کا شکار ضرور ہوگا۔
            ظاہر ہے کہ ملک کا بڑا طبقہ سیکولر ذہن ہے اور امن وامان کا خواہاں ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کثیر پارٹی نظام ہمارے ملک میں ووٹروں کو متحد ہونے سے روکتا ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں عوام کم از کم ۳ یا ۴ خانوں میں بنٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بہار ایسی ریاست ہے جس سے چالیس ممبران منتخب ہوکر پارلیامنٹ پہنچتے ہیں ۔ اگر منتخب نمائندوں کی بڑی تعداد کسی ایک پارٹی یا محاذ کی ہو تو مرکزکی سرکار طے کرنے میں اس کا اہم رول ہوگا۔ لیکن یہ انتخابی نتائی کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ بہار کے منتخب نمائندگان کوئی اہم کردار ادا کرسکیں گے یا نہیں۔ کیونکہ اس انتخاب میں پورے بہار میں سہ رخی مقابلہ ہے ۔ ایک طرف این ڈی اے ہے جس میں بی جے پی ، لوجپا اور راشٹریہ لوک سمتا پارٹی شامل ہیں تو دوسری جانب راجد، کانگریس اور این سی پی کا اتحاد ہے جبکہ جد یو کا اتحاد سی پی آئی سے ہے۔ اس وقت یہاں جد یو کی حکومت ہے جو ۷۱ سالوں تک بی جے پی کی حلیف رہی ہے اور ابھی چند ماہ قبل تک یہاں کی حکومت میں وہ شامل تھی۔ ظاہر ہے کہ گذشتہ انتخاب بھی دونوں پارٹیوں نے مل کر لڑا تھا اور بڑی کامیابی درج کی تھی جبکہ کانگریس ، راجد، لوجپا کو الگ الگ انتخاب لڑنے کی وجہ سے سخت ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔ اس وقت صورتحال مختلف ہے، جد یو تنہا پڑی ہے، جبکہ بی جے پی لوجپا سے اتحاد اور ہر ہر مودی کے سہارے میدان میں ہے۔ نتیش کمار بہار میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں جبکہ راجد، کانگریس فرقہ پرستی کے خاتمہ اور سیکولرزم کے استحکام کا نعرہ دے رہی ہیں۔ مذکورہ تینوں محاذوں میں سے اگر کوئی ایک محاذ بیشتر سیٹیں حاصل کرلیتا ہے تو مرکز میں اس کا دبدبہ رہے گا۔ مرکز میں جو بھی سرکار ہو وہ بہار کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی لیکن اگر تینوں کے درمیان سیٹیں تقسیم ہوگئیں تو یہ میں مرکز میں اہم کردار ادا نہیں کرسکیں گی اور اس کا خمیازہ ریاست کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جد یو اور بی جے پی الائنس ختم ہونے کی وجہ سے دونوں کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے تو دوسری جانب لالو یادو کی سزایابی نے ان کی ذات والوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو ان کے حق میں تقریبا پولرائز کردیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جان بوجھ کر بڑی طاقتوں نے پھنسایا ہے جبکہ فرقہ پرستی کے خلاف ان کے بے لچک رویہ کی وجہ سے مسلمان بھی ایک بار ان کی جانب مائل نظر آرہے ہیں۔ ایسی حالت میں بہار میں اگر راجد کانگریس اتحاد زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو مرکز میں خواہ حکومت کسی کی ہو فرقہ پرستوں کو کھیل کھیلنے کی راہ آسان نہیں ہوگی اور مجموعی طور پر سیاست کے رخ میں تبدیلی آئے گی۔ بہار کی برسر اقتدار جماعت جد یو کی حالت یہ ہے کہ اس کو اپنی ۸ سالہ مدت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے عوام کی کچھ نہ کچھ ہمدردی ضرور حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود دیکھا گیا ہے کہ اسے انتخاب میں اچھے امیدوار بھی نہیں مل سکے ہیں۔بیشتر جگہوں پر جدیو کے امیدوار جیتنے کی بجائے راجد امیدواروں کو شکست دینے کے لیے کھڑے کیے گئے ہیں۔ بہت کم حلقوں میں اس کے امیدوار مضبوط حالت میں دکھائی دیتے ہیں اور اگر کہیں ایسا ہے تو یہ امیدوار کی اپنی شخصیت کی وجہ سے ہے۔ عام طور پر جد یو کو جہاں کہیں حمایت حاصل ہورہی ہے اس میں مسلم ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہندو بڑی ذاتوں کی حمایت بی جے پی کو زیادہ حاصل ہے تو چھوٹی ذاتوں میں زبردست انتشار ہے۔ کچھ جد یو کے ساتھ ہیں تو کچھ یوپی اے اتحاد اور کچھ بی جے پی کے کھاتہ میں بھی ہیں۔ الغرض زیادہ تر پارلیمانی حلقوںمیں سیکولر امیدوار کو کسی نہ کسی سیکولر امیدوار کی وجہ سے ہی شکست کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہو اتو بی جے پی کو اس کا فائدہ حاصل ہوگا ۔ حالانکہ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ریاست میں یوپی اے اتحاد ہی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی جبکہ بی جے پی دوسرے نمبر پر اور جد یو تیسرے نمبر پر ہوگی۔
            اگر بہار میں یوپی اے اتحا دکامیاب ہوتا ہے اور مرکز میں یوپی اتحاد کی حکومت بنتی ہے تو ایسی صورت میں موجودہ ریاستی سرکار کے لیے مشکلیں کھڑی ہوجائیں گی۔ کیونکہ بی جے پی سے اتحاد ٹوٹنے کے بعد موجودہ ریاستی سرکار بیساکھی کے سہارے چل رہی ہے اور انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ کہاجارہا ہے کہ موجودہ ریاستی سرکار کی ترقی میں خود یوپی اے دوم کا تعاون رہا ہے اور باوجودیکہ مرکز نے بہار کوخصوصی ریاست کا درجہ دینے کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا لیکن بہار کی ترقی کے لیے اپنی مالیات کا منہ کھولے رکھا ۔اگر مرکز میں یو پی اے بر سر اقتدار آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ سلوک برقرار نہ رہے۔ پھر اس کا اثر آئندہ ریاستی انتخاب پر بھی ہوگا ۔لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر آئندہ انتخاب میںبہارمیں جد یو کی حکومت نہیں بنتی ہے تو یہ شاید بہار کی بدقسمتی ہوگی۔ کیونکہ جد یو نے ۸ سالوں میں بہار میں ترقی کے راستے ہموار کئے ہیں ۔ حالانکہ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دوران اگر جدیو کے علاوہ بھی کوئی دوسری حکومت ہوتی تو بھی بہار میں ترقیاتی کام ضرور دیکھے جاتے ۔
            دوسری جانب اگر جد یو ریاست میں بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے اور اگر یوپی اے کی حکومت بنتی ہے تو جد یو شایدخصوصی ریاست کے درجہ کی شرط پر کانگریس کو حمایت پیش کرسکتی ہے۔ لیکن اس کا امکان راجد کے رہتے ہوئے ناممکن ہے۔ پھر یہ کہ ریاست میں اس وقت جو سیاسی فضاہے اس سے یہ نہیں لگتا کہ اس مرتبہ راجد کانگریس کی حالت وہ رہے گی جو گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں اس کی رہی ہے۔دوسری جانب لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ اگر مرکز میںاین ڈی اے یا یو پی اے میں سے کسی ایک کو حمایت دینے کی ضرورت ہوگی تو جد یو کی ترجیح این ڈی اے ہوگا اور وہ مودی کو ہٹاکر اور این ڈی اے کے متنازعہ شقوں سے اختلاف کر کے خصوصی ریاست کے درجہ کی شرط پر این ڈی اے کی ہی حمایت کرے گی۔ اگر ان شرطوں کو مان کر باہر سے بھی اس کی حمایت کے لیے جد یو تیار ہوتی تب بھی اسے ریاست میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ریاست میں بی جے پی کی ناز برداری اس کی بڑی مجبوری رہے گی۔ ایسی حالت میں اس کے لیے بی جے پی کی شاطرانہ چالوں کا جواب دینا مشکل ہوگا۔ قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ جد یو نے این ڈی اے اتحاد کے ساتھ حکومت بنانے کے باوجود ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی تھی لیکن بی جے پی سے الگ ہوکر اسے اس معاملہ میں بھی سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور شایداس میں وہ ناکام بھی ہوجائے۔
            بہار میں ۹۔۸ سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن سمجھے جاتے ہیں وہیں مجموعی طور پر جو حالات ہیں اس میں بیشتر سیٹوں پر مسلمان متحد ہوکر جس کے حق میں ووٹنگ کریں گے اس کا پلڑا بھاری ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا کوئی واضح رخ نہیں بن پایا ۔جن حلقوںمیں انتخاب ہوئے ہیں وہاں بھی ان کا ووٹ بری طرح منتشر رہا ہے اور آئندہ انتخاب میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اس بار بھی ہمیشہ کی طرح مسلم تنظیموں اور دانشوروں کا انہیں یہ مشورہ رہا ہے کہ فرقہ پرستوں سے بچتے ہوئے جماعتی سیاست سے اوپر اٹھ وہ اپنے حلقہ کے مضبوط امیدوار کی حمایت میں آگے آئیں جو صدا بہ صحرا ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ 

بدھ، 5 مارچ، 2014

بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور رہائی

بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور رہائی
ہم کہاں کھڑے ہیں؟

                                                                                               
          کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کے کبیرہ گناہوں کی فہرست یوں تو بڑی طویل ہے لیکن ان میں ریاستی دہشت گردی کے فروغ کو اکبر الکبائر کی حیثیت حاصل ہے۔کہنے کو تو یہ سیکولر حکومت ہے لیکن اس کی دونوں میعادوں میں جس طرح دہشت گردی کے نام پر پولس اور خفیہ ایجنسیوں کو مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دی گئی اس نے اس کے نقلی سیکولرزم کی قلعی کھول کر دکھ دی اور ثابت ہوگیا کہ یہ حکومت بھی جداگانہ تیور کے ساتھ فرقہ پرستوں کی پالیسی پر عمل میں ہی یقین رکھتی ہے۔ یا تو کانگریس کا سیکولرزم کا دعوی کھوکھلا ہے یا اب اس کے ارباب اختیار میں موجود فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والوں کو بالادستی حاصل ہے۔ یو پی اے نے جن وعدوں کے ساتھ اقتدار سنبھالا اور مسلمانوں نے جن امیدوں سے سے زمام اقتدار سونپی ان پر عمل تو کجا بر عکس نتیجہ ہی نظر آیا۔ حکومت مسلمانوں کے تحفظ کے دعوے تو کرتی رہی لیکن عملا انہیں ہمیشہ عدم تحفظ کے احساس میں گرفتار رکھا، دہشت گردی کے نام پر ہزاروں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں، انکاؤنٹر ، زیر حراست قتل اس کے نامہ اعمال کے سیاہ ترین ابواب ہیں۔ ہر چند کہ حقیقی دہشت گرد چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں، خود حکومت کے موجودہ اور سابق وزرائے داخلہ دہشت گردانہ حملوں میں شدت پسند ہندو تنظیموں کے رول کا اعتراف کرچکے ہیں، عدالتوں کے ذریعہ سیکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کی با عزت رہائی بھی ثابت کرتی رہی ہے کہ پولس اور خفیہ ایجنسیاں بغیر کسی ثبوت کے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرتی ہیں، وزیر اعظم سمیت ارباب اقتدار مسلم قیادت کو یقین بھی دلاتے رہے کہ بے قصوروں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا لیکن ان سب کے باوجود یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور آئے دن گرفتار یوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دو دنوں قبل بہار کے ارول سے دو مسلم نوجوانوں کو گذشتہ سال مہا بودھی مندر میں ہونے والے بم دھماکوں کے سلسلہ میں قومی تفتیشی ایجنسی نے گرفتار کرلیا۔ مقامی ایس پی کے مطابق این آئی اے نے تین افراد محمد عرفان، راج آنند اور رنجن کو حراست میں لیا ۔ راج آنندد اور رنجن کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ محمد عرفان کو گرفتار کر لیا گیا۔  پولس کے مطابق پکڑے گئے نوجوان کا تعلق مبینہ دہشت گرد تحسین عرف مونو سے ہے۔ پولیس کے دعوی کے برعکس محمد عرفان کے والد کلام الدین کا کہنا ہے کہ پولس عرفان کے علاوہ ان کے بڑے بیٹے رستم انصاری کو بھی ساتھ لے گئی ہے۔ عرفان نے ابھی انٹر میڈیٹ کا امتحان دیا ہے جبکہ رستم بی اے کا طالب علم ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کسی واقعہ میں اکثریتی واقلیتی دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاری کے بعد اکثریتی فرقہ کے افراد کو رہا کردیا گیا ہو یا ان پر دہشت گردی کی بجائے دوسرے جرائم کے سلسلہ میں الزامات عائد کئے گئے ہوں۔ کچھ ہی دنوں قبل پٹنہ میں مودی کی ریلی میں ہونے والے دھماکوں کے سلسلہ میں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن کروڑوں روپے کے ٹرانزکشن کے سرغنہ گوپال کمار گویل اور اس کے ساتھی وکاس کمار، پون کمار، گنیش ساہو اور بنگلور سے گرفتار عائشہ اور زبیر جو اصل میں دنیش اور سنیتا ہیں، کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پیسے پہنچانے کے پختہ ثبوت کے باوجود دہشت گرد ی کا ملزم نہیں بنایا گیا۔
          بہر حال ایک جانب جہاں گرفتاریوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے وہیں عدالتوں کے ذریعہ بے قصوروں کو باعزت رہائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لیکن بد قسمتی سے میڈیا کی خیانت کے نتیجہ میں گرفتاری کی خبر تو خوب مشتہر ہوتی ہے اور عام آدمی پولس کی کہانی پر یقین کرلیتا ہے لیکن وہی میڈیا جو عدالتی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی ملزم کو مجرم ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ تا اور زیر حراست تشدد اور بد ترین اذیت کے نتیجہ میں ملزمین کے ذریعہ دیئے گئے بیان کو اقبال جرم قرار دیتا ہے، اسے رہائی کی خبر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، گویا اس کی نظر میں پولس کے ذریعہ لگائے گئے الزامات رہائی کے  عدالتی فیصلوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ جس وقت اخبارات اور نیوز چینل چیخ چیخ کر مہابودھی مندر دھماکہ کے حوالہ سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کی خبر دے رہے تھے ٹھیک اسی وقت بے قصور مسلم نوجوانوں کی باعزت رہائی بھی عمل میں آئی تھی جسے قومی میڈیا نے پوری طرح دبا دیا۔ عبد اللہ، طارق اختر اور انور رحمان کو کولکاتا کی ایک عدالت نے رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ یہ نوجوان گذشتہ آٹھ برسوں سے جیلوں میں بند اپنے جرم بے گناہی کی کی سزا بھگت رہے تھے۔ ان پر دہشت گردوں سے رابطہ رکھنے اور ملک کے آئین کو تسلیم نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ مگر ان کے خلاف پولس کے پاس کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے عدالت نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ پولس کا دعوی تھا کہ کچھ دہشت گردوں کی ڈائری میں ان تینوں کے نام تھے اور انہوں نے متعدد مرتبہ ان سے باتیں کی تھیں مگر وہ عدالت کے سامنے اس بات چیت کا ریکارڈ بھی پیش نہیں کرسکی۔ رہائی پانے والوں میں سے ایک نوجوان عبد اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ وہ بنارس کے ایک مدرسہ میں زیر تعلیم تھا جب اسے پاسپورٹ انکوائری کے بہارنے تھانہ لے جایا گیا اور وہاں سے کولکاتا پولس اسے اپنے ساتھ لے گئی ۔ اس نے اپنی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ گرفتاری کے وقت ہی ایک افسر نے اپنے سینئر کو بتایا تھا کہ یہ بے قصور ہے اس کو غلط پکڑ لیا گیا ہے۔ مگر سینئر افسر نے کہا کہ ابھی رہنے دو آگے دیکھا جائے گا۔ اس نے بتایا کہ ایک تفتیشی افسر نے ٹرائل کے دوران کم از کم تیس بار اس سے کہا کہ وہ بے قصور ہے اور چھوٹ جائے گا۔ اسے اعلی افسران کے دباؤ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ عبد اللہ نے سوال کیا کہ بے قصور ہونے کے باوجود اسے جیل سے باہر آنے میں آٹھ برس کیوں لگے؟ جیل کے تجربوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ مسلم افسران زیادہ سخت ہوتے ہیں اور ان کا رویہ توہین آمیز ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو ایماندار اور غیر جانب دار ثابت کرنے کے لیے مسلم افسروں کا رویہ مسلم قیدیوں کے ساتھ بہت خراب ہوتا ہے اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں کسی مسلم آفیسر کی نگرانی میں نہ رکھا جائے ۔ یہ کہانی کسی ایک عبد اللہ کی نہیں ہے بلکہ سیکڑوں ایسے عبد اللہ ہیں جنہیں ان اذیتوں سے گزرنا پڑا ہے اور ہزاروں ابھی بھی جھیل رہے ہیں۔ یہ تو خوش نصیب ہیں کہ ایک عرصہ تک اذیت جھیلنے کے بعد رہائی نصیب ہوئی ورنہ ہزاروں ایسے بھی ہیں جو پانچ برسوں سے جیلوں میں بند ہیں لیکن ابھی ان کے مقدمہ کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔ تنہا مہاراشٹر میں ایسے نو ہزار بے قصور جیلوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں جن کا مقدمہ ابھی کھلا بھی نہیں ہے۔ چونکہ پولس بے قصوروں کو گرفتار کرتی ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت میںوہ ان کا قصور ثابت کرنے میں ناکام رہے گی۔ اس لیے ایک ایک ملزم پر ۴۰؍ سے ۵۰؍ مقدمات تک قائم کردئے جاتے ہیں اور وہ بھی الگ الگ ریاستوں میں ۔ اس پر مستزاد گواہان کی تعداد بھی ۵۰ ؍ سے ڈھائی سو تک ہوتی ہے۔ یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے ملزمین کی زندگی کے ایام ہی ختم ہوجائیں چونکہ پولس کو کسی جوابدہی کا خوف نہیں ہوتا اس لیے وہ ایسی مضحکہ خیز حرکتیں اور دعوے کرتی ہے کہ مقدمہ شروع ہوتے ہی ان دعووں کی حقیقت اور پولس کی بد نیتی آشکار ا ہوجاتی ہے۔ مثلا کئی مقدمات میں پولیس نے کسی ملزم پر کسی مخصوص جگہ پر دھماکوں کی سازش رچنے کا الزام لگایا حالانکہ پتہ چلا کہ اس سے قبل ہی وہ داخل زنداں ہوچکا تھا۔ ملزموں کے عدالت سے بری ہوجانے کے اندیشہ سے انہیں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ پہلے اس کے لئے فرضی انکاؤنٹر کا سہارا لیا جاتا تھا لیکن جب اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں تو زیر حراست قتل کا طریقہ اپنایا جانے لگا ۔ قتیل صدیقی اور خالد مجاہد اس کی تازہ مثالیں ہیں۔
          ہندوستانی جمہوریت کے لیے یہ امر خوش آئند ہے کہ اس کے ایک اہم ستون عدلیہ پر اب بھی لوگوں کا اعتماد بر قرار ہے ۔ حالانکہ اب تو عدالتیں بھی اجتماعی ضمیر کا دباؤ قبول کرنے لگی ہیں۔ تاہم ایسے وقت میں جبکہ امریکہ کے نام نہاد ’’وار آن ٹیرر ‘‘مہم کا حصہ بننے پرمجبور حکومت اور اس کے ادارے مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے پر تلے ہوں عدالتوں سے بے قصور وں کی رہائی کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ عبد اللہ کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں آٹھ سال کیوں لگتے ہیں ۔ اس دوران اسے جیل میں جن اذیتوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس کے والدین اور رشتہ داروں کو جن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور مجموعی طور پر پوری قوم کو جس صورتحال کا سامنا ہوتا ہے اس کا حساب کون دے گا؟ گرفتار شدگان کی زندگیوں کے بیش قیمت ماہ وسال کون لوٹائے گا۔ عہد شباب کے آٹھ دنوں کی بھی اہمیت ہوتی ہے ۔ زندگی کے آٹھ قیمتی سال جیلوں میں گزارنے اور ذہنی وجسمانی اذیتیں جھیلنے کے بعد بھی کیا کوئی اس قابل رہ سکتا ہے کہ اپنی زندگی کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر لاسکے۔ جو لڑکا ڈاکٹر انجینئر بن کر ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں اسے دہشت گرد بنا دیتی ہیں۔ اگر وہ رہا بھی ہوجائے تو گرفتاری کے باعث اسے جن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس کی سماجی ومعاشی زندگی پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں کیا اس کی تلافی ممکن ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جس گھر کا کوئی فرد دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار ہوتا ہے اس کے قریبی رشتہ دار تک اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ،حد تو یہ ہے کہ ایسے گھرانوں میں لوگ شادی بیاہ تک نہیں کرتے ہیں۔ کیا جسے دوران تعلیم حراست میں لیا گیا ہو وہ بری ہونے کے بعد اپنی تعلیم دوبارہ جاری رکھ سکتا ہے۔ با عزت بری ہونے اور ملازمت کا اہل ہونے کے باوجود کیا سے ملازمت مل سکتی ہے۔ آخر عبد للہ کو ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کو پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی قرار دیتے ہیں اور کم از کم نا م نہاد سیکولر حکومتوں کو پاک دامن سمجھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری ملی قیادت رحم کی درخواستیں لے کر ارباب اقتدار کے دروازہ پر دستک دیتی ہے۔ لیکن کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ حکومتوں کی نیت صحیح ہوتی اس صورتحال پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ اگر حکومت براہ راست اس سازش کا حصہ نہیں ہوتی تو نام نہاد دہشت گردی کے نام پر یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کا سہارا نہیں لیتی۔ اگر اس کا دامن پاک ہوتا تو آ ر ایس ایس کے کئی لیڈران جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ بے قصوروں کی گرفتاری روکنے کے لیے وزیر اعظم نے جو مضبوط میکانزم تیار کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اس پر عمل ہوچکا ہوتا۔ فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم ہوچکی ہوتیں، رہا شدگان کی باز آبادکاری کا رونا بھی ہمیں نہیں رونا پڑتا۔ عدالتی احکام کے پیش نظر خطا کار پولس افسران بھی سزایاب ہوچکے ہوتے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کے باوجود اگر ہم اسے محض پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی سمجھ رہے ہوں تو پتہ نہیں اسے ہماری بے حسی کہا جائے ، سادہ لوحی کہی جائے یا بے بصیرتی۔
          حقیقت یہ ہے اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کو ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے جس کا مقابلہ احتجاجوں ، یاد داشتوں اور ملاقاتوں کے ذریعہ ممکن نہیں ۔ ہر چند کہ جمہوریت میں ان چیزوں کی بھی اہمیت ہے لیکن ہم یہ کر کے تھک چکے ہیں، اس کا مقابلہ الیکشن کے میدان میں ہی ہوسکتا ہے اگر مسلمان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ووٹ بینک بننے سے انکار کردیں۔ اس سے ہماری بے وزنی اور بے وقعتی ختم ہوگی اور ہم اپنے حقوق بحال کرپائیں گے۔ عام انتخاب کا اعلان ہوچکا ہے۔ مرکزی حکومت رخت سفر باندھ رہی ہے لیکن ساتھ ہی ایک خطرناک دشمن کی آمد کا خوف بھی دلارہی ہے اور یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کہ وہی در حقیقت مسلمانوں کی بہی خواہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں خوش نما وعدوں کے پٹارے لے کر مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش میں لگ گئی ہیں لیکن کیا ہم نے اس کے لیے کوئی تیاری کی ہے؟


ہفتہ، 22 فروری، 2014

مسلم ڈاکٹروں کی تنظیم

مسلم ڈاکٹروں کی تنظیم
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

                چند دنوں قبل اخبارات میں ملی سرگرمیوں کے حوالہ سے ایک خوش آئند خبر پڑھنے کو ملی ۔ ۱۰ فروری کے اخبارات نے پٹنہ میں ایسوسی ایشن آف مسلم ڈاکٹرس کی پانچویں ریاستی اور پہلی قومی کانفرنس کے انعقاد کی رپورٹ شائع کی جس سے پتہ چلا کہ مسلم ڈاکٹروں کی یہ تنظیم ۲۰۰۹ء میں قائم ہوئی۔ ابتدا میں اس کے ۳۰ ممبران تھے اور اب ان کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ ہوچکی ہے نیز پٹنہ، مظفرپور ، دربھنگہ اور پورنیہ میں اس کی شاخیں بھی قائم ہوچکی ہیں۔ اس تنظیم کے اغراض و مقاصد میں مذہبی و سماجی تناظر میں سائنسی حقائق کا اطلاق ، طبی خدمات میں میڈیکل او ر اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی ، ہمدردی و مساوات اور اسلامی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنا، مسلمانوں کی صحت کے مسائل اور میڈیکل سائنس پر اسلام کے اثرات کا مطالعہ شامل ہیں۔ کانفرنس میں ہونے والی تقریروں میں مسلمانوں کے اندر اتفاق و اتحاد کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور عمومی اتحاد کے ساتھ ہی دانشوروں کی صفوں میں اتحاد کو بھی ملت اسلامیہ کے مفاد میں ضروری قرار دیا گیا ۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے کہا کہ مسلم ڈاکٹروں کا اتحاد وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے جسے شدت سے محسوس کرتے ہوئے اس تنظیم کی تشکیل کی گئی ۔ بتایا گیا کہ چونکہ مسلم ڈاکٹروں میں ہم مذہب ہونے کے علاوہ زبان ، تہذیب،وراثت اور بڑی حد تک پسند اور ناپسند میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے اس لئے ان کا اتحاد اہم ہے اور اس تنظیم کے ذریعہ صحت کے مسائل پر غور و فکر اور اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ انسانیت کے مفاد میں کام کرنے کے لئے ڈاکٹروں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا گیا ہے ۔ کانفرنس میں جھارکھنڈ ، بنگال اور دیگر ریاستوں کے ڈاکٹروں نے شرکت کرکے اتحاد کا مظاہر کیا اور ملت کو بھی اپنے فروعی اختلافات کو ختم کرکے اتحاد کے ساتھ زندگی گذارنے اور درپیش چیلنجوں کے مقابلہ کرنے کا پیغام دیا۔ ایسے وقت میں جب کہ انسانی خدمات سے متعلق تمام پیشوں میں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول مقصد زندگی بن گیا ہے اور انسانی مفاد میں کام کرنے کا جذبہ دم توڑ رہا ہے مسلم ڈاکٹروں کی اس تنظیم کو ’بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔
                صحت اور مرض کا تعلق براہ راست جسم انسانی سے ہے اس لئے حیات انسانی میں اسے ہمیشہ بنیادی اور ترجیحی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ اچھی صحت کے بغیر انسان نہ تو دنیاوی لذتوں سے آشنا ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوسکتا ہے جو اس پر اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتی ہیں ۔ اس طرح بیماریوں سے پاک اور صحت مند رہنا ہر انسان کی ضرورت ہے۔ چنانچہ خدمات انسانی کے شعبوں میں طب کو زبردست اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق خدمت خلق سے ہے ۔ اس اعتبار سے تمام ڈاکٹروں بلکہ علاج و معالجہ سے وابستہ تمام افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیشہ کے تئیں مخلص اور ایماندار ہوں اور صحت مند سماج کی تشکیل کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیں ۔ لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے ۔ مسلم ڈاکٹر جس شریعت کے پیروکار ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے وجود کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے مفید ثابت کریں ۔ خدمت خلق کا جذبہ ہمیشہ ان کے پیش نظر رہنا چاہئے اوراسے صرف ذریعۂ معاش یا مریضوں کے استحصال کا ذریعہ ہرگز نہیں بننے دینا چاہئے ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ طب و صحت کا میدان جتنا اہم ہے اسی قدر اس میں لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی گرم ہے ۔ ڈاکٹر جنہیں کبھی مسیحا کہا جاتا تھا قاتل بنے بیٹھے ہیں ، حکومتی بے اعتنائیوں کے علاوہ ڈاکٹروں ، اسپتالوں اور صحت عملے کے غیر انسانی رویہ نے علاج و معالجہ کو اس قدر دشوار بنا دیا ہے کہ اب یہ کام عام انسان کے بس سے باہر ہورہا ہے ۔ مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کا غیر ہمدردانہ سلوک ضرورت سے زیادہ فیس ، مریضوں پر غیر ضروری جانچ کا بوجھ ، سستی دوائوں کی موجودگی کے باوجود مہنگی دوائیں تجویز کرنا، مخصوص لیب میں جانچ کرانے کی تاکید اور اس کی پابندی نہ کرنے پر رپورٹ کوغیر معیاری قرار دینا عام بات ہے۔ ڈاکٹر جو اپنے پیشہ کے تئیں ایمانداری اور مریضوں سے ہمدردی کا حلف لے کر میدان عمل میں آتے ہیں پریکٹس شروع کرتے ہی طبی اخلاقیات کو طاق نسیاں کے حوالہ کر دیتے ہیں ۔ اس صورت حال میں میڈیکل اور اسلامی ضابطۂ اخلاق پر عمل کے جذبے کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کے لئے ایسوسی ایشن کا قیام بے حد لائق تحسین ہے اور تمام مسلم ڈاکٹروں کو اس تنظیم سے وابستہ ہوجانا چاہئے نیز اس کے دائرئہ کار کو وسیع کرنا چاہئے ۔ یہ نہ صرف خود ڈاکٹروں کی دنیا اور آخرت بہتر بنانے کا ذریعہ ہوگا بلکہ تبلیغ اسلام کا بھی ایک اہم وسیلہ ثابت ہوگا۔
                یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمان تعلیمی ، معاشی ، سماجی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں جس کے لئے سیاسی سازشوں کے علاوہ خود ان کا اپنا رویہ بھی کم ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی شامت اعمال کے نیتجہ میں ہی اس صورت حال سے دوچار ہیں ۔ وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ وہ ایک نظریاتی گروہ ہیں جسے دنیا میں خیر امت بناکر بھیجا گیا ہے ۔ انہیں اپنی تاریخ پر فخر تو ہے لیکن وہ اس سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہے حالانکہ اگر ماضی کے آئینہ میں اپنے موجودہ زوال کا حل تلاش کریں تو وہ پھر زمانہ کی امامت و قیادت کے حقدار ہوسکتے ہیں ۔ ماضی میں انہیں برتری اور سرخروئی اپنے دین سے والہانہ تعلق ، علوم و فنون میں مہارت اور تحقیق و جستجو سے حاصل ہوئی ، انہوں نے سماج کے مجبوروں ، محکوموں، بے کسوں اور کمزوروں کی دست گیری کی ، دنیا کی بھلائی صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھی بلکہ انسانی معاشرہ کی صلاح و فلاح اور خدمت خلق کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ ان کے اخلاق وکردار کی بلندی نے انہیں عام انسانوں کی نگاہ میں بلند کردیا جب کہ آج وہ اپنی عملی و اخلاقی کوتاہی کے سبب بے وزن ہوکر رہ گئے ہیں۔ پہلے مسلمان اپنے کردار و عمل کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے جب کہ آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس سماج میں رہتے ہیں اس پر ان کی کوئی چھاپ نہیں ہے ، وہ عملاً سماج کے لئے غیر متعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ چونکہ سماج کے کمزور ، محروم اور ضرورت مند طبقوں کے تعلق سے وہ کچھ نہیں سوچتے اس لئے ان کا وزن بھی محسوس نہیں کیا جاتا ہے ۔ موجودہ حالات میں تعلیمی معاشی اور سیاسی میدان میں برادران وطن کے مقابلہ میں آنا ان کے لئے بیحد مشکل ہے لیکن وہ اپنی اخلاقی قوت کے ذریعہ اپنا وزن محسوس کر اسکتے ہیں۔ اگر وہ رحمت و شفقت اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے سفیر بن جائیں تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں پچھڑنے کے باوجود وہ اپنی عظمت اور اہمیت کا احساس کرا سکتے ہیں کیونکہ یوں تو اس ملک میں سب کچھ ہے لیکن اخلاقی قدروں کا زبردست فقدان ہے اور اس خلا کو رسول رحمت کی امت ہی پورا کر سکتی ہے ۔اگر ہر شعبہ کے مسلمان اپنی دینی و منصبی ذمہ داری کا ادراک کر لیں تو انقلاب لا سکتے ہیںجس کی اشد ضرورت ہے ۔خدمت خلق، انسانیت کی خیر خواہی اور بھلائی کا درس ہمیں اپنے رسول کی زندگی سے ملتا ہے۔ آپ کی حیات مبارکہ میں انسانیت پسندی کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں ۔ آپ اپنے اہل خانہ ،ساتھیوں ،خویش و اقارب ، پڑوسی ، غلام ، بچے ، بوڑھے، کمزور طبقات ، فقرا و مساکین سب کے لئے درد مند دل رکھتے تھے حتی کہ آپ کی شفقت و ہمدردی جانوروں کو بھی حاصل تھی ۔ خدمت انسانی کے اس رویہ سے متاثر ہوکر غیر مسلم جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور جن لوگوں نے اسلام کو نیست و نابود کر دینے کا بیڑا اٹھایا تھا انہوں نے بھی اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لی ۔ آج مسلمان ملک میں دھرتی کا بوجھ سمجھے جارہے ہیں اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے لیکن اگر وہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکر میدان عمل میں آئیں تو وہ سماج کی ناگزیر ضرورت بن سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنے کردار و عمل سے ثابت کردیں کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں جیتے ہیں بلکہ سب کے دکھ درد میں کام آنے والے ہیں ، بھوکوں ، ننگوں ، مریضوں، بیوائوں ، یتیموں ، ضرورت مندوں اور محتاجوں کی دست گیری کرنے والے ہیں تو وہی لوگ جو آج انہیں دھرتی کا بوجھ سمجھ رہے ہیں اپنی آنکھوں کا تارا بنا لیں گے اور اپنے سر وں پر بیٹھانے کے لئے خود کو مجبور پائیں گے ۔ یہی وہ میدان ہے جس میں مسلمان آسانی سے برداران وطن سے سبقت لے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اندر مسلمان ہونے کا احساس پیدا ہوجائے۔
                جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا کہ چونکہ ڈاکٹروں کا تعلق براہ راست عام لوگوں سے ہوتا ہے اس لئے وہ اگر اپنے پیشہ میں اسلامی اصول و آداب کا پاس و لحاظ رکھیں تو صرف انہیں کے ذریعہ انقلاب آسکتا ہے ۔ ڈاکٹر چونکہ مریضوں کے علاج میں اپنی توانائی اور وقت صرف کرتے ہیں اس لئے مریضوں سے فیس لینا ان کا حق ہے ، انہیں پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مریضوں سے پیسے لیں لیکن آج جس طرح سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور مریضوں پر بے انتہا بوجھ ڈالا جارہا ہے نیز ڈاکٹر دواساز کمپنیوں کے اشتہار کے طور پر کام کر رہے ہیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے اور مسلم ڈاکٹر اس سے احتراز کر لیں تو وہ ممتاز مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے علم و فن اور مریضوں کے تئیں اخلاص ان کا سرمایہ ہونا چاہئے۔ اس وقت صحت کا مسئلہ عالم گیر نوعیت کا حامل بن گیا ہے اور اس کے حل کے لئے اسی سطح پر کوششیں بھی ہورہی ہیں ۔ خود ہمارے ملک میں بھی صحت کے تئیں عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں جس کا فائدہ بھی نظر آرہا ہے  لیکن مسلمان بالعموم اپنے اندر تبدیلی نہیں پیدا کر رہے ہیں ، ایسوسی ایشن آف مسلم ڈاکٹرس کو اس پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔ اسی طرح میڈیکل سائنس کی ترقی نے نت نئے مسائل بھی پیدا کئے ہیں اس سلسلہ میں اسلامی موقف کی وضاحت اور اس پر عمل ضروری ہے جس کی طرف کانفرنس میں اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ بہر حال مسلم ڈاکٹروں کی یہ تنظیم جس مقصد کے تحت قائم کی گئی ہے وہ بلاشبہ اہم ہے اور ہم اور ہمارے جیسے عام لوگوں کی تمام تر نیک خواہشات اس کے ساتھ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ دیگر پیشوں سے وابستہ مسلمانوں کے لئے یہ تنظیم قابل تقلید نمونہ بنے گی ۔ الحمد للہ انسانی خدمات کے دیگر شعبوں میں بھی مسلمان موجود ہیں ، اگرچہ ان کی تعداد کم ہے اور وہ منتشر ہیں ۔ اگر تمام پیشوں سے وابستہ افراد انہیں بنیادوں پر اپنی اپنی تنظمیں قائم کر لیں تو اس کے اچھے اثرات ظاہر ہوں گے اور اس سے نئی نسل کو بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے گا ۔  ساتھ ہی اگر مسلمان اپنی اور اپنے سماج کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سیاست، معاش اور تعلیم کو بھی اخلاقی قدروں کا پابند بنانے کی ٹھان لیں اور معاشرہ کے کمزور ،محروم ، مجبور اور بے سہار الوگوں کا سہارا بننے اور ان کے درد کی مسیحائی کرنے کی کوشش کریں اور اخلاقی قوت بن کر ابھریں تو وہ اس ملک کے لئے غیر معمولی اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں اور یہی ان کا اصل کردار اور مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔
               
                                                                                                              

بدھ، 12 فروری، 2014

فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ


فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ

ہندوستان میں آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا نتیجہ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کی شکل میں آیا ہے جس کی رو سے مسلمان ہندوستان میں دلتوں سے بدتر حالت میں ہیںاور یہ سفارش کی گئی کہ مختلف شعبوں میں خصوصی مراعات دے کر ان کے حالات کو ٹھیک کیا جائے۔ اس کمیشن کا مقصدمسلمانوں کے حالات کا پتہ لگاکر ان کے حقوق دینے تھے یا انہیں ماضی کی طرح رپورٹ شائع کر کے خوش کرنا تھا یہ اب بالکل ظاہر ہوگیا ہے اوراقلیت کے نام پر جتنی اسکیمیں چلائے جانے کا دعوی کیا جارہا ہے ان کا فائدہ مسلمانوں کو بہت کم مل رہا ہے۔ بہر حال مسلمانوں کی بد حالی کا اندازہ اس سے قبل بھی کیا جاتا رہا ہے جو عام طور پر مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی اور اقتصادی پسماندگی کے مجموعی تاثر کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا تھا لیکن سچر کمیٹی نے اعداد وشمار کی روشنی میں اس کو ثابت کردیا اور اس طرح اس پرخود حکومت کی مہر لگ گئی۔ اس رپورٹ نے کسی کی آنکھ کھولی یا نہ کھولی حکومت کو ضروریہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ملک میں مسلمانوں کو جس طرح سے ٹھگا گیا ہے اس رپورٹ کے بعد مسلمانوں نے اگراس کا احساس کر لیا تو بر سر اقتدار پارٹی کے لیے اپنا وجود باقی رکھنا مشکل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ سچر کمیٹی کی سفارشات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور اس ضمن میں حکومت کی کاوشوں کو بروئے کار لانے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کی غرض سے حکومت ہند کی وزارت فروغ انسانی وسائل کے وزیر مملکت مسٹر ایم اے اے فاطمی کی قیادت میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی جسے فاطمی کمیٹی اور بعد میں ہائی لیول کمیٹی ۔ منسٹری آف ایچ آر ڈی سے موسوم کیا گیا ۔
اس کمیٹی کو ذمہ داری دی گئی کہ سچرکمیٹی نے مسلمانوں کے تعلق سے جس تشویشناک صورت حال کا انکشاف کیا ہے اس کا جائزہ لے کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جائے ۔ اس میں بطور خاص تعلیم کو خاص اہمیت دی گئی جس میں مسلم کمیونٹی کی تعلیم تک رسائی کے ساتھ مسلم علاقوں میں واقع اسکول کے انفراسٹرکچر کی تقابلی سطح کا پتہ لگانا شامل ہے۔ چنانچہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے سیاق وسباق میں بنیادی ، سکینڈری ، اعلی وتکنیکی خواندگی اور تعلیم کی تمام سطحوں پر نافذ تمام موجودہ اسکیموں کا از سر نو جائزہ لیاگیا۔ اس سلسلہ میں مختلف علاقوں میں مسلم بچوں کی تعلیمی شرح کا جائزہ لیتے ہوئے ان اسباب پر غور کیا گیاجن کی وجہ سے مسلم بچوں میں تعلیمی شرح کم ہوتی ہے۔
                تمام جہتوں سے جائزہ اور واقف کاروں سے مشورہ کے بعدفاطمی کمیٹی نے جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ نہ صرف لائق عمل ہے بلکہ اس پر عمل کیا جائے تو جہاں مسلمانوں میں کی تعلیمی شرح میں اضافہ ہوگا وہیں ملک کی ترقی میں تیزی آئے گی۔ کیونکہ کمیٹی نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی تیز تر قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ مسلم علاقوں میں اسکول اور کالج کھولنے کی سفارش کی گئی اور کہا گیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ان کی معاشی پسماندگی کا بھی سبب ہے ۔ ہندوستان میں جو ریزرویشن سسٹم ہے جس کے بارے میں آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ملک میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ہے۔ فاطمی کمیٹی نے حوصلہ کے ساتھ اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کو جو ریزرویشن دیئے جارہے ہیں اس میں صرف مذہب بنیاد ہے اور مسلمانوں میں موجود دلتوں کو ہم پیشہ کمیونٹی کو صرف مذہب کی وجہ سے ان کی مراعات نہیں دی جارہی ہیں ۔ فاطمی کمیٹی نے اس قانون میں اصلاح کی سفارش کی ہے۔
فاطمی کمیٹی نے محسوس کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کم از کم چار کیمپس لازمی طور پر قائم کئے جانے چاہئیں۔ اس نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کے قیام میں ریاستی حکومتیں کامیاب نہ ہوں تو اس ضمن میں مرکزی حکومت کو اقدام کرنا چاہیے۔ اس کی سب سے اہم سفارش یہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی شرح بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا ذریعہ تعلیم اردو کیا جائے۔اس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ اردو کو نظر انداز کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ سہ لسانی فارمولہ نافذ نہیں کیا جارہا ہے ۔ پرائمری تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب اردو جاننے والے اساتذہ کی بڑی تعداد میں تقرری ہو اور جہاں ضروری ہو وہاں پارا ٹیچرس بھی مہیا کرائے جائیں۔ کیندریہ ودیالیہ کے اسکول کھولنے کے لیے ایسے اضلاع منتخب کیے جائیں جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی بستی ہے۔
پیشہ ورانہ تعلیم مہیا کرانے کے لیے مسلم طبقہ کی ہمت افزائی کی جائے اور اسے اس قسم کے ادارے کھولنے کی اجازت دی جائے۔
ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں مسلمانوں کی تعداد 5000 سے زیادہ ہے وہاں اسکول کھولے جائیں ۔ ایسے تقریبا 2000 اسکولوں کی ضرورت ہے۔
یہ کچھ اہم سفارشات ہیںجو فاطمی کمیٹی نے پیش کی ہیں۔
                                حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں کی تعلیمی فلاح کے لیے اس طرح کا مربوط لائحہ شاید پہلی مرتبہ حکومت کے سامنے رکھا گیا ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ جتنی اچھی رپورٹ ہے اس سے زیادہ تر مسلمان ناواقف ہیں ۔ عوام تو عوام خواص نے بھی صرف نام سنا ہے ۔ورنہ جس جانفشانی کے ساتھ یہ رپورٹ تیار کرکے حکومت کے سامنے پیش کی گئی ہے اگر مسلم خواص اور عوام کی طرف اس کے نفاذ کا مطالبہ اسی ڈھنگ سے کیا جاتا تو ناممکن نہیں تھا کہ اس کے کم از کم کچھ حصوں پر عمل بھی ہوجاتا ۔
                                جنا ب علی اشرف فاطمی مسلم مسائل کے حوالے سے ہمیشہ سنجیدہ رہے ہیں اور بطور خاص ان کے تعلیمی مسائل پر ہمیشہ توجہ دی ہے۔ وہ ان کی تعلیمی ترقی کے تئیں سنجیدہ فکر رکھتے ہیں اور اس کا اثر پوری رپورٹ میں محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم مبارک باد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس رپورٹ کی اہمیت کے پیش نظر دانشوروں اور تعلیمی و سماجی سروکار رکھنے والے افراد سے فاطمی کمیٹی رپورٹ کا تجزیاتی مطالعہ کراکے ”فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ“ کے نام سے مرتب اور شائع کرادیا ہے۔ اس کتاب میں مولانا محمود مدنی کے پیغام ، مولانا اسرار الحق قاسمی کی تقریض اور مرتب ڈاکٹر امام اعظم کے پیش لفظ کے علاوہ تیرہ مضامین شامل ہیں جن میں کمیٹی کی پیش کردہ تجاویز اورسفارشات کا کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر امام اعظم نے ان مضامین کو کتابی صورت نہ دی ہوتی تو لوگ فاطمی کمیٹی رپورٹ سے ناواقف رہ جاتے اور یہ بھی دیگر حکومتی رپورٹوں کی طرح کیڑوں کی خوراک بن جاتی۔ حکومتی سطح پر اس پر کس قدر عمل در آمد ہوا یہ الگ موضوع ہے لیکن ان کے سامنے آنے کے بعد اتنا تو ضرور ہوا کہ کسی نہ کسی سطح پر مسلمانوں میں بیداری آئی، یہ الگ بات ہے کہ بیدار ہونے میں کافی وقت لگا ۔ اس کے باوجود یہ سوال بہر حال قائم ہے کہ کیا مسلمان ان سفارشات کے پیش ہوجانے کے بعد حکومتی سردمہری کے خاتمہ کے لئے کوئی اقدام کریں گے ۔ یوپی اے حکومت اپنی دو میعادیں مکمل کر کے رخت سفر باندھ رہی ہے اور عام انتخاب کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے ۔ اگر مسلمانوں نے اس رپورٹ کی اہمیت کو سمجھ لیا تو وہ اسے انتخابی ایشو بناسکتے ہیں ۔ہماری غور و فکرکااایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہئے کی کیا حکومت ہمارے تمام مسائل حل کرسکتی ہے ۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے اپنی ترقی کا انحصار حکومت کی نظر عنایت پر تسلیم کر لیا ہے ۔ جب بھی ان کی تعلیمی ، معاشی ، سماجی اور سیاسی صورت حال کی بات سامنے آتی ہے تو وہ حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ گو کہ یہ بات صد فیصد درست ہے لیکن اگر حکومتیں مخالفانہ رویہ رکھتی ہیں تو کیا ہمیں ان پر بھروسہ کرکے اپنی ساری تگ و دو چھوڑ دینی چاہئے ۔ یہ ذکر نامناسب نہیں ہے کہ حکومت کے کرنے کے جو کام ہیں ان پر عمل درآمد کے لئے ہمیں متحد ہوکر مطالبہ کرنا چاہئے لیکن ساتھ ہی جو کام خود ہمارے اپنے کرنے کے ہیں ان پر بلاتاخیر عمل پیرا ہوجانا چاہئے ۔اگر ان دونوں پہلوں پر توجہ ہو تو کامیابی یقینی ہے ۔
                                کتاب میں شامل تمام مضامین لائق مطالعہ ہیں اور محنت سے لکھے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کتاب کو مقبولیت بھی حاصل ہوئی ۔ چنانچہ اس کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نکل گیا اور اشاعت ثانی کی نوبت آگئی ۔ اس دوسرے ایڈیشن میں بطور ضمیمہ ظفر آغا ، سید علی اور شاہد اقبال کے مضامین بھی شامل کر دیئے گئے ہیں جن سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ کتاب کی پشت پر پروفیسر اخترالواسع کی گراں قدر آراءتحریر ہیں ۔ امید ہے کہ مسلمان اس کتاب سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لئے بہتر حکمت عملی کے ساتھ پیش قدمی کریں گے۔

منگل، 11 فروری، 2014

دہشت گردی ، شاہد علی خان اور مسلمان

دہشت گردی ، شاہد علی خان اور مسلمان


                دہشت گردی اپنے انجام کے اعتبار سے جتنی ہلاکت خیز ہے بد قسمتی سے ہمارے ملک کے سیاست دانوں کے لیے وہ اتنی ہی مفید ہے۔ البتہ اگر اس کا نقصان کسی کو بھگتنا پڑتا ہے تو وہ اس ملک کے مسلمان ہیں ۔ عموما انہی کے ٹھکانوں پر دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں، وہی ہلاک ہوتے ہیںاور انہیں ہی مورد الزام ٹھہراکر داخل زنداں کیاجاتا ہے ۔ جہاں کہیں کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوا بغیر کسی ثبوت کے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ آج ہزاروں مسلمان برسوں سے جیلوں میں بند اپنے جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ حقیقی دہشت گرد کون ہیں اور ان کے عزائم کیا ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کا آغاز ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر کے کیا اور آج اس کی اولادیں یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ پہلے یہ بات صرف مسلمان کہتے تھے یا وہ لوگ جن کی آوازیں سنی نہیں جاتی تھیں لیکن اب دہشت گردانہ حملوں میں سنگھ پریوار کے شامل ہونے کے پختہ ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ آنجہانی ہیمنت کر کرے نے پہلی بار بھگوا دہشت گردی کا انکشاف کیا تو اب نمونہ عبرت بن چکے معمر سیاست داں لال کرشن اڈوانی بھی تلملا اٹھے جنہوں نے یہ محاورہ رائج کر کے کہ ’ہرمسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے‘ حقیقی دہشت گردوں کے کردار کو چھپانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ ہیمنت کر کر ے کے انکشاف کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب حقیقی دہشت گردوں کو پکڑا جائے گا اور بے قصوروں کی گرفتاریاں بند ہوں گی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ۔ البتہ اس کی کی پاداش میں خود ان کی زندگی کا باب بند کردیا گیا اور بھگوا دہشت گردوں کی گرفتاریوں کے بعد خفیہ ایجنسیاں اپنی قدیم روش پر گامزن ہوگئیں ۔ انہیں پھر سے ہر واقعہ میں انڈین مجاہدین کی کارستانی نظر آنے لگی اور بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ اسی تیزی سے چل پڑا بلکہ اس میں مزید شدت آگئی اوریہ سلسلہ اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
                اس ہفتہ دہشت گردی کے حوالہ سے دو اہم خبریں سامنے آئی ہیں۔ ایک کا تعلق آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ہے اور دوسرے کا ریاست بہار کے وزیر شاہد علی خان سے ۔ کارواں میگزین نے آر ایس ایس سے وابستہ دہشت گرد ی کے ملزم سوامی اسیمانند کا وہ انٹر ویو شائع کر کے کھلبلی مچادی ہے جس میں سوامی نے اعتراف کیا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے بارے میں آر ایس ایس سربراہ اور دیگر رہنماؤں کو نہ صرف جانکاری تھی بلکہ سوامی کو ان کی سرپرستی بھی حاصل تھی اور انہوں نے اسے ملک کے ہندؤوں کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے صرف یہ احتیاط برتنے کی ہدایت کی تھی کہ اس میں سنگھ کا نام سامنے نہ آئے ۔ یہ انکشاف گھر کے بھیدی کا ہے اور یہ بہت بڑا وقعہ ہے جس کی نہ صرف اعلی سطحی جانچ ہونی چاہیے بلکہ موہن بھاگوت اور دیگر لیڈران کی گرفتاری بھی عمل میں آنی چاہیے۔ لیکن یقین مانئے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا اور نہ ہمیں اس وقت اس سے بحث کرنی ہے۔ اس وقت ہمارا موضو ع گفتگو دہشت گردوں سے حکومت بہار کے وزیر کابینہ شاہد علی خان کی وابستگی ہے۔ شاہد علی خان کا تعلق ایسے خانوادے سے ہے جس کے افراد آزادی کی لڑائی میں حصہ لے چکے ہیں ۔ خود موصوف بھی اپنی حد درجہ سیکولر اور صاف ستھری شبیہ کی وجہ سے حکومت میں مقبول ہیں اور ایک طرح سے وزیر اعلی اور ریاست کے مسلمانوں کے درمیان رابطہ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اہل ریاست کو ایک ٹیلی ویژن چینل کے توسط سے پتہ چلا کہ ان کا تعلق دہشت گردی سے ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ سرحد پر ملک کی حفاظت کے لیے مامور سشستر سیمابل (ایس ایس بی) نے ریاستی پولس کو مراسلہ لکھ کر بتایا تھا کہ موتیہاری اور سیتا مڑھی اضلاع کے منظورسائیں اور جمیل اختر نامی دونوجوانوں کی وابستگی آئی ایس آئی اور انڈین مجاہدین سے ہے اور ان کا تعلق وزیر شاہد علی خان سے بھی ہے۔ اس کی تفتیش کی گئی اور دونوں اضلاع کے ایس پی نے ریاستی پولیس کو ارسال کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مذکورہ دونوں افراد سے وزیر کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان دونوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے۔ ٹیلی ویژن پر خبر نشر ہونے کے بعد مذکورہ دونوں نوجوان از خود تھانہ میں حاضر ہوئے اور پولیس کو بتایا کہ ان کا وزیر موصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تھانہ کے مطابق وہ دونوں اپنا نام سامنے آنے کی وجہ سے بے حد دہشت زدہ تھے۔ اس خبر کے نشر ہوتے ہی بی جے پی والوں کی بانچھیں کھل گئیں اور انہوں نے وزارت سے شاہد علی خان کی برطرفی اور اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعلی نتیش کمار پر دہشت گردوں کو پناہ دینے الزام لگانا شروع کردیا۔ حسب عادت میڈیا نے بھی اپنی کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اس خبر کو خوب اچھالا۔ لیکن وزیر اعلی نے ان کے مطالبہ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے بی جے پی کے ذہنی سڑانڈ سے تعبیر کیا۔ خود شاہد علی خان نے میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ان پر یہ الزام مسلمان ہونے کی وجہ سے لگایا گیا ہے۔ سنگھ پریوار جب جب مصیبت میں گھرتا ہے اس سے نکلنے اور اپنی جانب سے رخ پھیرنے کے لیے مسلمانوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے ۔ اسیمانند کے انکشاف کے بعد بی جے پی کی خاموشی اور اچانک ایک مسلم وزیر پر دہشت گرد ی کے الزام کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
                مسلمان ایک عرصہ سے دہشت گردی کی مار جھیلتے آرہے ہیں ۔ ان علاقوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں مجموعی طور پر وہ خوش حال ہیں۔ پہلے ایک خاص خطہ کو نشان زد کیا جاتا ہے اور خفیہ ایجنسیاں ان پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ پھر دوسرا علاقہ منتخب کیا جاتا ہے اور وہاں بھی یہ سلسلہ جاری کیا جا تا ہے۔ چنانچہ یہ نسخہ بہار میں بھی آزمایا گیا اور گذشتہ دو برسوں کے درمیان یہاں سے درجن بھر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ زیر تعلیم ، تعلیم یافتہ اور برسر روزگار نوجوان بطور خاص نشانہ پر رہے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب اس کی آنچ حکومت تک پہنچ گئی اور اس کے ایک ذمہ دار وزیر پر دہشت گردوں سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ہر چند کہ ریاستی حکومت اور پولس نے اسے غلط قرار دے دیا ہے لیکن اس سے مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب حکومت کاوزیر الزام سے بچ نہیں سکتا تو عام مسلمانوں کی کیا بساط ہے۔ گذشتہ دوبرسوں کے درمیان اس حوالہ سے بہار کے مسلمانوں نے جو اذیتیں جھیلی ہیں اس کی داستان کے بڑی روح فرسا ہے۔ مختلف خفیہ ایجنسیاں بیک وقت ٹوٹ پڑیں اور جب جسے چاہا اٹھا کر لے گئیں ۔ دربھنگہ ضلع کو دہشت گردی کے مرکز کے طور پورے ملک میں مشہور کردیا گیا ۔ گرفتار شدگان میں سے ایک قتیل صدیقی نامی نوجوان کو تو زیر حراست قتل بھی کردیا گیا۔ خفیہ ایجنسیوں نے جو تانڈو کیا اس نے یہاں کے مسلمانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ ہر شخص اپنے بچوں کے تحفظ کے تئیں اندیشوں میں گرفتار ہوگیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے خفیہ ایجنسیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ گرفتاریوں کے لیے مقابلہ آرائی ہورہی ہو۔ وہ جب جسے چاہتیں اغوا کے انداز میں اٹھا کر لے جاتیں ۔ ہر طرف خوف ودہشت کا سماں تھا۔ کوئی اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ عجیب کس مپرسی کا عالم تھا۔ لوگ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی جانب امید بھری نگاہوں سے سے دیکھ رہے تھے ، لیکن کوئی سامنے نہیں آیا۔ ان پر آشوب حالات میں فطری طور پر ان مسلم رہنماؤں سے ہمدردی کی توقع کی گئی جنہیں مسلمان سوجتن کر کے اسمبلی اور پارلیامنٹ بھیجتے ہیں لیکن بے سود ، علاقائی نمائندگی کرنے والے قومی سطح کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی گئیں لیکن لا حاصل۔ سوائے غلام غوث کے سبھوں نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وزیر موصوف سے جو آج خود الزام کی زد میں ہیں بڑی توقعات وابستہ کی گئیں لیکن مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ یہاں تک کہ جب دربھنگہ میں رضا کار نتظیم مسلم بیداری کارواں نے عوامی احتجاج کے لیے ریلی نکالی تو بر سر اقتدار جماعت کے مسلم کارکنان نے خفیہ طور پر اسے بھی ناکام بنانے کی کوشش کی اور اس صورتحال کا خفیہ ایجنسیوں نے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا اور اب حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں اور اور پولس نہیں بلکہ سرحدکی حفاظت کے لیے مامور ایس ایس بی کا حوصلہ بھی اتنا بلند ہوگیا ہے کہ اسے ایک موقر وزیر پر الزام لگانے میں بھی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔ وزیر موصوف کی کردار کشی کی جو کوشش کی گئی ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں ۔ ان کا یہ احساس بجا ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان پر الزام تراشی کی گئی لیکن عام مسلمان تو ہمیشہ سے اسی احساس کے تحت جی رہے ہیں۔ کیا اچھی بات ہوتی کہ یہ احساس انہیں اس وقت ہوتا جب ان کی قوم کے بچے اسی نسبت کی وجہ سے زد میں تھے ۔اگر ایسا ہوجاتا تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی۔ اس موقع پر ہمیں ایک بار پھر اپنی کس مپرسی کا شدید احساس ہورہا ہے ، رہنماؤں اور عوام کے درمیان جو دوری پیدا ہوگئی ہے وہ ہمیں اس صورتحال سے آشنا کرارہی جس میں جرمن شاعر نے کہا تھا :
ُپہلے وہ کمیونسٹوں کے لیے آئے میں چپ رہا ، کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا
پھر وہ سوشلسٹوں کے آئے ، میں چپ رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہ میرے لیے آئے ، تب بولنے والا کوئی نہ تھا
                اس سے پہلے کہ ہمارے دیگرسیاست داں یا قائدین اپنے اوپر عائد الزامات عائد ہونے کا انتظار کریںانہیں اپنی قوم کی رہنمائی اور ان کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے جب مسلم قیادت اپنے فرائض منصبی کو سمجھے، ملت تو کب سے پیچھے چلنے کے لیے بیتاب ہے۔ وہ تو اب بھی اس پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہےے جو اس کے دکھ درد کو اپنا سمجھے اور پر آشوب حالات میں اس کی دست گیری کرے۔ وہ دن مسلمانوں کے لیے سعادت وخوشی کا پیغام لے کر آئے گا جب قائدین وعوام اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آشنا ہوجائیں گے کہ اسی میں دونوں کی بھلائی ہے۔ 

بدھ، 22 جنوری، 2014

اب انڈین مجاہدین کے نشانہ پر اروند کیجریوال

اب انڈین مجاہدین کے نشانہ پر اروند کیجریوال
قتل جہاں کے واسطے تازہ پھر اک بہانہ کر

                آزادی وطن کی خاطر مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کا صلہ انہیں اس صورت میں دیا گیا کہ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی خود ان کی قربانی جائز قرار دے دی گئی ۔ ملک میں رونما ہونے والے ہزاروں فسادات میں جس طرح ان کی نسل کشی کی گئی اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا گیا آزادی کے متوالوں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ملک کی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں ، بیورو کریسی ، ذرائع ابلاغ سب نے منظم طور پر اس پالیسی پر عمل کیا کہ مسلمان اس ملک میں سر اٹھاکر جینے کے لائق نہ بن پائیں اور ان کے خلاف نفرت کی ایسی فضا ہموار کی جائے کہ وہ اچھوت بن کر رہ جائیں۔ اس پالیسی پر عمل کرنے کے لئے ہر وہ حربہ اختیار کیا گیا جس سے ایک جانب مسلمان اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے تئیں اندیشوں میں مبتلا رہیں تو دوسری جانب انہیں ملک دشمن بلکہ انسانیت دشمن کے آئینہ میں دیکھا جانے لگے ۔ لہٰذا ابتدا سے ہی ہر قسم کی ملک مخالف سرگرمی کے لئے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا اور ان کی وفاداریاں پاکستان سے منسوب کی جانے لگیں ۔ حالانکہ اس الزام سے بچنے کے لئے وہ ملک کے تئیں اپنی وفاداری کے اضافی ثبوت بھی پیش کرتے رہے لیکن صورت حال میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان کی شبیہ بگاڑنے کی کوششیں تیز تر ہوگئیں ۔ ملک میں رونما ہونے والے ہر دہشت گردانہ واقعہ کے پیچھے مسلمان نظر آنے لگا اور اس کا تعلق پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑنے کا سلسلہ چل پڑا۔ ایک عرصہ تک دہشت گردانہ واقعات انجام دینے کے لئے” لشکر توئبہ“اور ہوجی جیسی تنظیموں کو ذمہ دار قرار دینے کے بعد اب ہماری حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے انڈین مجاہدین کے نام سے اس کا ہندوستانی ایڈیشن تیار کر لیا ہے ۔ چنانچہ اب ایسے تمام واقعات کی انجام دہی کے لئے اسی کومورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔اس فرضی تنظیم سے وابستگی کے نام پر اب نہ جانے کتنے بے قصور نوجوانوں کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑ چکا ہے اور ہزاروں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر انصاف پسند افراد اور تنظیموں کے مسلسل مطالبے کے باوجود حکومت اور اس کی ایجنسیاں اس نام نہاد تنظیم کی اصلیت ثابت نہ کر سکیں لیکن اس کے نام پر مسلمانوں پر عتاب کا سلسلہ پورے شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ بیشتر دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے نام نہاد قوم پرستوں کا ہاتھ ہونے کے پختہ ثبوت کے باوجود پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں نے انہیں مکمل چھوٹ دے رکھی ہے اور ان کی تمام تر توجہات کا مرکز مسلم نوجوان ہیں ۔ چونکہ حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کو مکمل آزادی دے رکھی ہے اس لے وہ بے خوف ہوکر مسلمانوں کو اپنی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ ایک جانب ملک کے وزیر داخلہ مسلمانوں کو گرفتار کرنے میں محتاط رویہ اپنانے کی نصیحت فرمارہے ہیں تو دوسری جانب خفیہ ایجنسیاں نئے نئے شگوفے چھوڑ کر مسلمانوں کی گرفتاریوں کی راہ آسان بنا رہی ہیں ۔
                آج کل خفیہ ایجنسی انٹلی جنس بیورو انڈین مجاہدین کے حوالے سے نئے نئے انکشاف کرنے کا ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔یہ وہی آئی بی ہے جس کی اطلاع کے نتیجہ میں گجرات ، بٹلہ ہاؤس اور ملک کے مختلف حصوں میں فرضی انکاؤنٹروں کی کارروائیاں عمل میں آچکی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ چار ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخاب سے قبل آئی بی کے ذریعہ مسلسل یہ الرٹ جاری کیا جاتا رہا کہ مودی کی جان کو انڈین مجاہدین سے خطرہ ہے ۔ آئی بی کا کمال یہ ہے کہ وہ معمولی دھماکوں کے ذریعہ اپنی بات کی تصدیق بھی کرالیتی ہے جس کا واضح ثبوت پٹنہ ریلی میں ہونے والا دھماکہ ہے جس سے مودی نے خطاب کیا تھا۔ اس دھماکہ کی بنیاد پر بہار سے لے کر جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ تک مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن لکھی سرائے سے گرفتار ہندؤں کو جن کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے پیسے پہنچانے کے پختہ ثبوت ملے ،دہشت گردی کا ملزم نہیں بنایا گیا ۔ راہل گاندھی نے اسی آئی بی کے حوالہ سے یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں مظفر نگر کے فساد زدہ نوجوانوں سے رابطہ میں ہیں اور ہریانہ سے دو ائمہ مساجد کو گرفتار کرکے اس کی توثیق بھی کر دی گئی ۔ اب آئی بی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے ۔ اس کے مطابق انڈین مجاہدین دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو اغوا کر سکتا ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم اپنے سرغنہ یٰسین بھٹکل کو چھڑانے کے لئے اغوا کی سازش کر رہا ہے ۔ گویا آئی بی نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ انڈین مجاہدین کے عفریت کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے۔ کیجریوال نے آئی بی کے اس الرٹ کے بعد سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس یا تو بےوقوف ہے یا پھر سیاست کر رہی ہے ۔انہوں نے ٹویٹ کیا کہ پولیس نے انہیں اس کی اطلاع دیتے ہوئے تاکید کی کہ وہ میڈیا کو اس کے بارے میں نہ بتائیں جب کہ خود ہی سب کچھ بتا دیا ۔ کوئی بھی حملہ کرے گا تو بھٹکل کا ہی نام آئے گا ۔ کیجریوال نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں کسی سے ڈر نہیں ہے ۔ کیجریوال کا رد عمل کچھ بھی ہو اور انہیں اپنی جان کا خوف ہو یا نہ ہو آئی بی اور پولیس کی سابقہ کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں ضرور یہ خوف ہے کہ اب کیجریوال پر حملہ یقینی ہے اور اس کی پاداش میں پھر نہ جانے کتنے مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔
                ایک طرف حکومت مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ بہت سے معاملات میں مسلم نوجوانوں کو غلط ڈھنگ سے پھنسایا گیا ہے تو دوسری طرف اس نے خفیہ اور تفتیشی ایجنسیوں کو شب خون مارنے کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے ۔ یہ ایجنسیاں ایسے ایسے مضحکہ خیز دعوے اور حرکتیں کرتی ہیں کہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا انسان بھی اسے باسانی سمجھ سکتا ہے لیکن اس سے نہ حکومت کی صحت پر اثر پڑتا ہے نہ ہی میڈیا کی جانب سے کوئی سوال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جب مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بات ہو تو یہی میڈیا ایسی ایسی گل افشانیاں کرتاہے کہ خدا کی پناہ اورمسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے ساتھ ہی اپنے ٹرائل کے ذریعہ فوراً ملزم کو مجرم ثابت کر دیتا ہے۔ چند ہفتہ قبل تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے یسین بھٹکل کے حوالہ سے یہ مضحکہ خیز انکشاف کیا کہ وہ گجرات کے سورت شہر پر نیوکلیر بموں سے حملہ کر نے والا تھا لیکن اس سے قبل ہی اس کی گرفتاری عمل میں آگئی ۔اس انکشاف کے بعد نہ حکومت نے اس کا کوئی نوٹس لیا اور نہ میڈیا نے ہی کوئی سوال پوچھا ۔ایسا لگا جیسے نیوکلیر بم کی بجائے غلیل کی بات کی گئی ہو ۔ اس انکشاف کا دوسرا مضحکہ خیز لیکن بے حد خطرناک پہلو یہ ہے کہ بھٹکل کے اس منصوبہ پر جب پاکستان میں موجود اس کے سرغنہ نے کہا کہ ایسے حملہ میں تو مسلمان بھی مارے جائیں گے تو ا س نے کہا کہ وہ مساجد میں اشتہار چسپاں کرکے ان سے کہے گا کہ وہ سب کے سب شہر چھوڑ کر چلے جائیں ۔ گویا بین السطور یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ تمام مسلمان بھٹکلی منصوبہ کی نہ صرف تائید کرنے والے ہیں بلکہ وہ اس کے معین و مددگار بھی ہیں اور مساجد و مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں ۔ اسی تناظرمیں کیجریوال کے اغوا یا ان پر حملہ کی بات کو بھی دیکھنا چاہئے حالانکہ کیجریوال کو واقعی خطرہ ہندو دہشت گردوں سے ہے جو ان کے کارکنان اور دفاتر پر مسلسل حملے کر رہے ہیں ۔
                مسلمان ایک عرصہ سے دہشت گردانہ حملوں کی مار جھیل رہے ہیں ۔ انہیں کی عبادت گاہوں پر حملہ ہوتا ہے ، وہی مارے جاتے ہیں اور انہیں ہی مورد الزام بھی ٹھہرایا جاتا ہے ۔ وہ انصاف کی دہائی دیتے ہیں لیکن انہیں جھوٹے دلاسوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ درحقیقت ہمارا پورا ملکی نظام فسطائیت کے نرغہ میں ہے ۔ فرقہ پرستی کے عفریت نے مقننہ سے لے کر انتظامیہ تک سب کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ایک شخص جو کل تک دھماکوں میں آر ایس ایس کارکنان کے ملوث پائے جانے کے پختہ ثبوت ہونے کا اعلان کرتا رہا آج خود آر ایس ایس کی گود میں جاکر بیٹھ گیا ہے اور اس کے پالیسی سازوں میں شامل ہوگیا ہے ۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز وہ لوگ جو سبک دوشی کے بعد فرقہ پرستوں کی پناہ گاہ میں داخل ہوجاتے ہیں برسر کار رہتے ہوئے انہوں نے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے ۔ یہ صورت حال نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کی سلامتی کے لئے بے حدتشویش ناک ہے اور اگر فسطائیت کے اس جن کو بوتل میں بند نہیں کیا گیا تو پورا ملک تباہ ہوجائے گا۔ کیا ملک کو فرقہ پرستی سے نجات دلانے کے جھوٹے دعوے داروں اور سیکولرزم کے نام نہاد علمبرداروں کے پاس اس کا کوئی علاج ہے ؟