منگل، 11 فروری، 2014

دہشت گردی ، شاہد علی خان اور مسلمان

دہشت گردی ، شاہد علی خان اور مسلمان


                دہشت گردی اپنے انجام کے اعتبار سے جتنی ہلاکت خیز ہے بد قسمتی سے ہمارے ملک کے سیاست دانوں کے لیے وہ اتنی ہی مفید ہے۔ البتہ اگر اس کا نقصان کسی کو بھگتنا پڑتا ہے تو وہ اس ملک کے مسلمان ہیں ۔ عموما انہی کے ٹھکانوں پر دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں، وہی ہلاک ہوتے ہیںاور انہیں ہی مورد الزام ٹھہراکر داخل زنداں کیاجاتا ہے ۔ جہاں کہیں کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوا بغیر کسی ثبوت کے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ آج ہزاروں مسلمان برسوں سے جیلوں میں بند اپنے جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ حقیقی دہشت گرد کون ہیں اور ان کے عزائم کیا ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کا آغاز ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر کے کیا اور آج اس کی اولادیں یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ پہلے یہ بات صرف مسلمان کہتے تھے یا وہ لوگ جن کی آوازیں سنی نہیں جاتی تھیں لیکن اب دہشت گردانہ حملوں میں سنگھ پریوار کے شامل ہونے کے پختہ ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ آنجہانی ہیمنت کر کرے نے پہلی بار بھگوا دہشت گردی کا انکشاف کیا تو اب نمونہ عبرت بن چکے معمر سیاست داں لال کرشن اڈوانی بھی تلملا اٹھے جنہوں نے یہ محاورہ رائج کر کے کہ ’ہرمسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے‘ حقیقی دہشت گردوں کے کردار کو چھپانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ ہیمنت کر کر ے کے انکشاف کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب حقیقی دہشت گردوں کو پکڑا جائے گا اور بے قصوروں کی گرفتاریاں بند ہوں گی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ۔ البتہ اس کی کی پاداش میں خود ان کی زندگی کا باب بند کردیا گیا اور بھگوا دہشت گردوں کی گرفتاریوں کے بعد خفیہ ایجنسیاں اپنی قدیم روش پر گامزن ہوگئیں ۔ انہیں پھر سے ہر واقعہ میں انڈین مجاہدین کی کارستانی نظر آنے لگی اور بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ اسی تیزی سے چل پڑا بلکہ اس میں مزید شدت آگئی اوریہ سلسلہ اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
                اس ہفتہ دہشت گردی کے حوالہ سے دو اہم خبریں سامنے آئی ہیں۔ ایک کا تعلق آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ہے اور دوسرے کا ریاست بہار کے وزیر شاہد علی خان سے ۔ کارواں میگزین نے آر ایس ایس سے وابستہ دہشت گرد ی کے ملزم سوامی اسیمانند کا وہ انٹر ویو شائع کر کے کھلبلی مچادی ہے جس میں سوامی نے اعتراف کیا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے بارے میں آر ایس ایس سربراہ اور دیگر رہنماؤں کو نہ صرف جانکاری تھی بلکہ سوامی کو ان کی سرپرستی بھی حاصل تھی اور انہوں نے اسے ملک کے ہندؤوں کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے صرف یہ احتیاط برتنے کی ہدایت کی تھی کہ اس میں سنگھ کا نام سامنے نہ آئے ۔ یہ انکشاف گھر کے بھیدی کا ہے اور یہ بہت بڑا وقعہ ہے جس کی نہ صرف اعلی سطحی جانچ ہونی چاہیے بلکہ موہن بھاگوت اور دیگر لیڈران کی گرفتاری بھی عمل میں آنی چاہیے۔ لیکن یقین مانئے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا اور نہ ہمیں اس وقت اس سے بحث کرنی ہے۔ اس وقت ہمارا موضو ع گفتگو دہشت گردوں سے حکومت بہار کے وزیر کابینہ شاہد علی خان کی وابستگی ہے۔ شاہد علی خان کا تعلق ایسے خانوادے سے ہے جس کے افراد آزادی کی لڑائی میں حصہ لے چکے ہیں ۔ خود موصوف بھی اپنی حد درجہ سیکولر اور صاف ستھری شبیہ کی وجہ سے حکومت میں مقبول ہیں اور ایک طرح سے وزیر اعلی اور ریاست کے مسلمانوں کے درمیان رابطہ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اہل ریاست کو ایک ٹیلی ویژن چینل کے توسط سے پتہ چلا کہ ان کا تعلق دہشت گردی سے ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ سرحد پر ملک کی حفاظت کے لیے مامور سشستر سیمابل (ایس ایس بی) نے ریاستی پولس کو مراسلہ لکھ کر بتایا تھا کہ موتیہاری اور سیتا مڑھی اضلاع کے منظورسائیں اور جمیل اختر نامی دونوجوانوں کی وابستگی آئی ایس آئی اور انڈین مجاہدین سے ہے اور ان کا تعلق وزیر شاہد علی خان سے بھی ہے۔ اس کی تفتیش کی گئی اور دونوں اضلاع کے ایس پی نے ریاستی پولیس کو ارسال کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مذکورہ دونوں افراد سے وزیر کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان دونوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے۔ ٹیلی ویژن پر خبر نشر ہونے کے بعد مذکورہ دونوں نوجوان از خود تھانہ میں حاضر ہوئے اور پولیس کو بتایا کہ ان کا وزیر موصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تھانہ کے مطابق وہ دونوں اپنا نام سامنے آنے کی وجہ سے بے حد دہشت زدہ تھے۔ اس خبر کے نشر ہوتے ہی بی جے پی والوں کی بانچھیں کھل گئیں اور انہوں نے وزارت سے شاہد علی خان کی برطرفی اور اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعلی نتیش کمار پر دہشت گردوں کو پناہ دینے الزام لگانا شروع کردیا۔ حسب عادت میڈیا نے بھی اپنی کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اس خبر کو خوب اچھالا۔ لیکن وزیر اعلی نے ان کے مطالبہ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے بی جے پی کے ذہنی سڑانڈ سے تعبیر کیا۔ خود شاہد علی خان نے میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ان پر یہ الزام مسلمان ہونے کی وجہ سے لگایا گیا ہے۔ سنگھ پریوار جب جب مصیبت میں گھرتا ہے اس سے نکلنے اور اپنی جانب سے رخ پھیرنے کے لیے مسلمانوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے ۔ اسیمانند کے انکشاف کے بعد بی جے پی کی خاموشی اور اچانک ایک مسلم وزیر پر دہشت گرد ی کے الزام کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
                مسلمان ایک عرصہ سے دہشت گردی کی مار جھیلتے آرہے ہیں ۔ ان علاقوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں مجموعی طور پر وہ خوش حال ہیں۔ پہلے ایک خاص خطہ کو نشان زد کیا جاتا ہے اور خفیہ ایجنسیاں ان پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ پھر دوسرا علاقہ منتخب کیا جاتا ہے اور وہاں بھی یہ سلسلہ جاری کیا جا تا ہے۔ چنانچہ یہ نسخہ بہار میں بھی آزمایا گیا اور گذشتہ دو برسوں کے درمیان یہاں سے درجن بھر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ زیر تعلیم ، تعلیم یافتہ اور برسر روزگار نوجوان بطور خاص نشانہ پر رہے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب اس کی آنچ حکومت تک پہنچ گئی اور اس کے ایک ذمہ دار وزیر پر دہشت گردوں سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ہر چند کہ ریاستی حکومت اور پولس نے اسے غلط قرار دے دیا ہے لیکن اس سے مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب حکومت کاوزیر الزام سے بچ نہیں سکتا تو عام مسلمانوں کی کیا بساط ہے۔ گذشتہ دوبرسوں کے درمیان اس حوالہ سے بہار کے مسلمانوں نے جو اذیتیں جھیلی ہیں اس کی داستان کے بڑی روح فرسا ہے۔ مختلف خفیہ ایجنسیاں بیک وقت ٹوٹ پڑیں اور جب جسے چاہا اٹھا کر لے گئیں ۔ دربھنگہ ضلع کو دہشت گردی کے مرکز کے طور پورے ملک میں مشہور کردیا گیا ۔ گرفتار شدگان میں سے ایک قتیل صدیقی نامی نوجوان کو تو زیر حراست قتل بھی کردیا گیا۔ خفیہ ایجنسیوں نے جو تانڈو کیا اس نے یہاں کے مسلمانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ ہر شخص اپنے بچوں کے تحفظ کے تئیں اندیشوں میں گرفتار ہوگیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے خفیہ ایجنسیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ گرفتاریوں کے لیے مقابلہ آرائی ہورہی ہو۔ وہ جب جسے چاہتیں اغوا کے انداز میں اٹھا کر لے جاتیں ۔ ہر طرف خوف ودہشت کا سماں تھا۔ کوئی اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ عجیب کس مپرسی کا عالم تھا۔ لوگ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی جانب امید بھری نگاہوں سے سے دیکھ رہے تھے ، لیکن کوئی سامنے نہیں آیا۔ ان پر آشوب حالات میں فطری طور پر ان مسلم رہنماؤں سے ہمدردی کی توقع کی گئی جنہیں مسلمان سوجتن کر کے اسمبلی اور پارلیامنٹ بھیجتے ہیں لیکن بے سود ، علاقائی نمائندگی کرنے والے قومی سطح کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی گئیں لیکن لا حاصل۔ سوائے غلام غوث کے سبھوں نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وزیر موصوف سے جو آج خود الزام کی زد میں ہیں بڑی توقعات وابستہ کی گئیں لیکن مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ یہاں تک کہ جب دربھنگہ میں رضا کار نتظیم مسلم بیداری کارواں نے عوامی احتجاج کے لیے ریلی نکالی تو بر سر اقتدار جماعت کے مسلم کارکنان نے خفیہ طور پر اسے بھی ناکام بنانے کی کوشش کی اور اس صورتحال کا خفیہ ایجنسیوں نے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا اور اب حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں اور اور پولس نہیں بلکہ سرحدکی حفاظت کے لیے مامور ایس ایس بی کا حوصلہ بھی اتنا بلند ہوگیا ہے کہ اسے ایک موقر وزیر پر الزام لگانے میں بھی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔ وزیر موصوف کی کردار کشی کی جو کوشش کی گئی ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں ۔ ان کا یہ احساس بجا ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان پر الزام تراشی کی گئی لیکن عام مسلمان تو ہمیشہ سے اسی احساس کے تحت جی رہے ہیں۔ کیا اچھی بات ہوتی کہ یہ احساس انہیں اس وقت ہوتا جب ان کی قوم کے بچے اسی نسبت کی وجہ سے زد میں تھے ۔اگر ایسا ہوجاتا تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی۔ اس موقع پر ہمیں ایک بار پھر اپنی کس مپرسی کا شدید احساس ہورہا ہے ، رہنماؤں اور عوام کے درمیان جو دوری پیدا ہوگئی ہے وہ ہمیں اس صورتحال سے آشنا کرارہی جس میں جرمن شاعر نے کہا تھا :
ُپہلے وہ کمیونسٹوں کے لیے آئے میں چپ رہا ، کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا
پھر وہ سوشلسٹوں کے آئے ، میں چپ رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہ میرے لیے آئے ، تب بولنے والا کوئی نہ تھا
                اس سے پہلے کہ ہمارے دیگرسیاست داں یا قائدین اپنے اوپر عائد الزامات عائد ہونے کا انتظار کریںانہیں اپنی قوم کی رہنمائی اور ان کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے جب مسلم قیادت اپنے فرائض منصبی کو سمجھے، ملت تو کب سے پیچھے چلنے کے لیے بیتاب ہے۔ وہ تو اب بھی اس پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہےے جو اس کے دکھ درد کو اپنا سمجھے اور پر آشوب حالات میں اس کی دست گیری کرے۔ وہ دن مسلمانوں کے لیے سعادت وخوشی کا پیغام لے کر آئے گا جب قائدین وعوام اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آشنا ہوجائیں گے کہ اسی میں دونوں کی بھلائی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں