بدھ، 12 فروری، 2014

فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ


فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ

ہندوستان میں آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا نتیجہ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کی شکل میں آیا ہے جس کی رو سے مسلمان ہندوستان میں دلتوں سے بدتر حالت میں ہیںاور یہ سفارش کی گئی کہ مختلف شعبوں میں خصوصی مراعات دے کر ان کے حالات کو ٹھیک کیا جائے۔ اس کمیشن کا مقصدمسلمانوں کے حالات کا پتہ لگاکر ان کے حقوق دینے تھے یا انہیں ماضی کی طرح رپورٹ شائع کر کے خوش کرنا تھا یہ اب بالکل ظاہر ہوگیا ہے اوراقلیت کے نام پر جتنی اسکیمیں چلائے جانے کا دعوی کیا جارہا ہے ان کا فائدہ مسلمانوں کو بہت کم مل رہا ہے۔ بہر حال مسلمانوں کی بد حالی کا اندازہ اس سے قبل بھی کیا جاتا رہا ہے جو عام طور پر مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی اور اقتصادی پسماندگی کے مجموعی تاثر کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا تھا لیکن سچر کمیٹی نے اعداد وشمار کی روشنی میں اس کو ثابت کردیا اور اس طرح اس پرخود حکومت کی مہر لگ گئی۔ اس رپورٹ نے کسی کی آنکھ کھولی یا نہ کھولی حکومت کو ضروریہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ملک میں مسلمانوں کو جس طرح سے ٹھگا گیا ہے اس رپورٹ کے بعد مسلمانوں نے اگراس کا احساس کر لیا تو بر سر اقتدار پارٹی کے لیے اپنا وجود باقی رکھنا مشکل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ سچر کمیٹی کی سفارشات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور اس ضمن میں حکومت کی کاوشوں کو بروئے کار لانے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کی غرض سے حکومت ہند کی وزارت فروغ انسانی وسائل کے وزیر مملکت مسٹر ایم اے اے فاطمی کی قیادت میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی جسے فاطمی کمیٹی اور بعد میں ہائی لیول کمیٹی ۔ منسٹری آف ایچ آر ڈی سے موسوم کیا گیا ۔
اس کمیٹی کو ذمہ داری دی گئی کہ سچرکمیٹی نے مسلمانوں کے تعلق سے جس تشویشناک صورت حال کا انکشاف کیا ہے اس کا جائزہ لے کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جائے ۔ اس میں بطور خاص تعلیم کو خاص اہمیت دی گئی جس میں مسلم کمیونٹی کی تعلیم تک رسائی کے ساتھ مسلم علاقوں میں واقع اسکول کے انفراسٹرکچر کی تقابلی سطح کا پتہ لگانا شامل ہے۔ چنانچہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے سیاق وسباق میں بنیادی ، سکینڈری ، اعلی وتکنیکی خواندگی اور تعلیم کی تمام سطحوں پر نافذ تمام موجودہ اسکیموں کا از سر نو جائزہ لیاگیا۔ اس سلسلہ میں مختلف علاقوں میں مسلم بچوں کی تعلیمی شرح کا جائزہ لیتے ہوئے ان اسباب پر غور کیا گیاجن کی وجہ سے مسلم بچوں میں تعلیمی شرح کم ہوتی ہے۔
                تمام جہتوں سے جائزہ اور واقف کاروں سے مشورہ کے بعدفاطمی کمیٹی نے جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ نہ صرف لائق عمل ہے بلکہ اس پر عمل کیا جائے تو جہاں مسلمانوں میں کی تعلیمی شرح میں اضافہ ہوگا وہیں ملک کی ترقی میں تیزی آئے گی۔ کیونکہ کمیٹی نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی تیز تر قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ مسلم علاقوں میں اسکول اور کالج کھولنے کی سفارش کی گئی اور کہا گیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ان کی معاشی پسماندگی کا بھی سبب ہے ۔ ہندوستان میں جو ریزرویشن سسٹم ہے جس کے بارے میں آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ملک میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ہے۔ فاطمی کمیٹی نے حوصلہ کے ساتھ اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کو جو ریزرویشن دیئے جارہے ہیں اس میں صرف مذہب بنیاد ہے اور مسلمانوں میں موجود دلتوں کو ہم پیشہ کمیونٹی کو صرف مذہب کی وجہ سے ان کی مراعات نہیں دی جارہی ہیں ۔ فاطمی کمیٹی نے اس قانون میں اصلاح کی سفارش کی ہے۔
فاطمی کمیٹی نے محسوس کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کم از کم چار کیمپس لازمی طور پر قائم کئے جانے چاہئیں۔ اس نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کے قیام میں ریاستی حکومتیں کامیاب نہ ہوں تو اس ضمن میں مرکزی حکومت کو اقدام کرنا چاہیے۔ اس کی سب سے اہم سفارش یہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی شرح بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا ذریعہ تعلیم اردو کیا جائے۔اس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ اردو کو نظر انداز کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ سہ لسانی فارمولہ نافذ نہیں کیا جارہا ہے ۔ پرائمری تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب اردو جاننے والے اساتذہ کی بڑی تعداد میں تقرری ہو اور جہاں ضروری ہو وہاں پارا ٹیچرس بھی مہیا کرائے جائیں۔ کیندریہ ودیالیہ کے اسکول کھولنے کے لیے ایسے اضلاع منتخب کیے جائیں جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی بستی ہے۔
پیشہ ورانہ تعلیم مہیا کرانے کے لیے مسلم طبقہ کی ہمت افزائی کی جائے اور اسے اس قسم کے ادارے کھولنے کی اجازت دی جائے۔
ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں مسلمانوں کی تعداد 5000 سے زیادہ ہے وہاں اسکول کھولے جائیں ۔ ایسے تقریبا 2000 اسکولوں کی ضرورت ہے۔
یہ کچھ اہم سفارشات ہیںجو فاطمی کمیٹی نے پیش کی ہیں۔
                                حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں کی تعلیمی فلاح کے لیے اس طرح کا مربوط لائحہ شاید پہلی مرتبہ حکومت کے سامنے رکھا گیا ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ جتنی اچھی رپورٹ ہے اس سے زیادہ تر مسلمان ناواقف ہیں ۔ عوام تو عوام خواص نے بھی صرف نام سنا ہے ۔ورنہ جس جانفشانی کے ساتھ یہ رپورٹ تیار کرکے حکومت کے سامنے پیش کی گئی ہے اگر مسلم خواص اور عوام کی طرف اس کے نفاذ کا مطالبہ اسی ڈھنگ سے کیا جاتا تو ناممکن نہیں تھا کہ اس کے کم از کم کچھ حصوں پر عمل بھی ہوجاتا ۔
                                جنا ب علی اشرف فاطمی مسلم مسائل کے حوالے سے ہمیشہ سنجیدہ رہے ہیں اور بطور خاص ان کے تعلیمی مسائل پر ہمیشہ توجہ دی ہے۔ وہ ان کی تعلیمی ترقی کے تئیں سنجیدہ فکر رکھتے ہیں اور اس کا اثر پوری رپورٹ میں محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم مبارک باد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس رپورٹ کی اہمیت کے پیش نظر دانشوروں اور تعلیمی و سماجی سروکار رکھنے والے افراد سے فاطمی کمیٹی رپورٹ کا تجزیاتی مطالعہ کراکے ”فاطمی کمیٹی رپورٹ:تجزیاتی مطالعہ“ کے نام سے مرتب اور شائع کرادیا ہے۔ اس کتاب میں مولانا محمود مدنی کے پیغام ، مولانا اسرار الحق قاسمی کی تقریض اور مرتب ڈاکٹر امام اعظم کے پیش لفظ کے علاوہ تیرہ مضامین شامل ہیں جن میں کمیٹی کی پیش کردہ تجاویز اورسفارشات کا کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر امام اعظم نے ان مضامین کو کتابی صورت نہ دی ہوتی تو لوگ فاطمی کمیٹی رپورٹ سے ناواقف رہ جاتے اور یہ بھی دیگر حکومتی رپورٹوں کی طرح کیڑوں کی خوراک بن جاتی۔ حکومتی سطح پر اس پر کس قدر عمل در آمد ہوا یہ الگ موضوع ہے لیکن ان کے سامنے آنے کے بعد اتنا تو ضرور ہوا کہ کسی نہ کسی سطح پر مسلمانوں میں بیداری آئی، یہ الگ بات ہے کہ بیدار ہونے میں کافی وقت لگا ۔ اس کے باوجود یہ سوال بہر حال قائم ہے کہ کیا مسلمان ان سفارشات کے پیش ہوجانے کے بعد حکومتی سردمہری کے خاتمہ کے لئے کوئی اقدام کریں گے ۔ یوپی اے حکومت اپنی دو میعادیں مکمل کر کے رخت سفر باندھ رہی ہے اور عام انتخاب کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے ۔ اگر مسلمانوں نے اس رپورٹ کی اہمیت کو سمجھ لیا تو وہ اسے انتخابی ایشو بناسکتے ہیں ۔ہماری غور و فکرکااایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہئے کی کیا حکومت ہمارے تمام مسائل حل کرسکتی ہے ۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے اپنی ترقی کا انحصار حکومت کی نظر عنایت پر تسلیم کر لیا ہے ۔ جب بھی ان کی تعلیمی ، معاشی ، سماجی اور سیاسی صورت حال کی بات سامنے آتی ہے تو وہ حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ گو کہ یہ بات صد فیصد درست ہے لیکن اگر حکومتیں مخالفانہ رویہ رکھتی ہیں تو کیا ہمیں ان پر بھروسہ کرکے اپنی ساری تگ و دو چھوڑ دینی چاہئے ۔ یہ ذکر نامناسب نہیں ہے کہ حکومت کے کرنے کے جو کام ہیں ان پر عمل درآمد کے لئے ہمیں متحد ہوکر مطالبہ کرنا چاہئے لیکن ساتھ ہی جو کام خود ہمارے اپنے کرنے کے ہیں ان پر بلاتاخیر عمل پیرا ہوجانا چاہئے ۔اگر ان دونوں پہلوں پر توجہ ہو تو کامیابی یقینی ہے ۔
                                کتاب میں شامل تمام مضامین لائق مطالعہ ہیں اور محنت سے لکھے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کتاب کو مقبولیت بھی حاصل ہوئی ۔ چنانچہ اس کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نکل گیا اور اشاعت ثانی کی نوبت آگئی ۔ اس دوسرے ایڈیشن میں بطور ضمیمہ ظفر آغا ، سید علی اور شاہد اقبال کے مضامین بھی شامل کر دیئے گئے ہیں جن سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ کتاب کی پشت پر پروفیسر اخترالواسع کی گراں قدر آراءتحریر ہیں ۔ امید ہے کہ مسلمان اس کتاب سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لئے بہتر حکمت عملی کے ساتھ پیش قدمی کریں گے۔

1 تبصرہ: