منگل، 3 مئی، 2016

طرزی اور منظوم مقالہ نگاری

طرزی اور منظوم مقالہ نگاری
                عبد المنان طرزی کی شخصیت اور ان کا فن اپنے اندر مختلف جہات رکھتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن جہاں وہ غزل کے بہت اچھے شاعر ہیں تو نظم پر بھی ویسے ہی قادر ہیں۔ انہوں نے شاعری میں موضوعات کی سطح پر مختلف طرح کے تجربات کیے ہیں۔ اپنے انہی گوناگوں تجربات کے ساتھ انہوں نے اردو اور فارسی شاعری میں منفرد مقام بنایا ہے۔ یوں تو انہوں نے شاعری کی شروعات1955میں کی تھی اور1972میں اپنے پہلے شعری مجموعہ لکیر کی اشاعت کے ساتھ اردو شاعری میں اپنی شناخت قائم کی تھی۔ اس پہلے مجموعہ کی اشاعت پر بھی اہل نظر کو انہوں نے اپنی طرف مبذول کر لیا تھا اور اپنے اندر موجود شاعری کے امکانات سے اجتبی حسین رضوی کو یہ کہنے پر مجبور کیا تھا کہ:
طرزی میرے عقیدے میں فی الحقیقت ایک بڑے شاعر کے ممکنات رکھتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ خدا انہیں ان ممکنات کو بروئے کا رلانے کی توفیق اور موقع عطا فرمائے۔ آمین
یہ مجموعہ غزل پر مبنی تھا ۔ دوسرا غزل کا مجموعہ آیات جنوں کے نام سے انہوں نے 2006ءمیں شائع کرایا۔ طرزی جس کلاسیکی انداز کی شاعری کرتے ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غزل کے اچھے شاعر ہیں اور واقعتا ایسا ہے بھی جیسا کہ مشہور تنقید نگار پروفیسر لطف الرحمن نے انہیں غزل کا شاعر قرار دیتے ہوئے کہا ہے ”میں ایک مخلص دوست کی حیثیت سے طرزی صاحب کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ صرف غزل کی صنف کو اپنے جذبہ و احساس کے اظہار کا ذریعہ بنائیں اس لئے کہ ان کی افتاد طبع ، ان کا میلان، ان کا ماحول اور خود ان کی ذاتی زندگی جو پیہم حادثات سے عبارت ہے، مجموعی طور پر صنف غزل سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔
                لیکن غزل کے علاوہ عبد المنان طرزی نے اپنے جن تجربات سے ملک و بیرون ملک کے ماہرین کو اپنی شاعری اور فنکاری کی طرف متوجہ کیا ہے وہ ان کی نظم نگاری ہے۔ نظم نگاری میں انہوں نے جو کام کیا ہے وہ خود نظم کو نئی جہت اور خلاقیت کے نئے امکان بخشتا ہے۔ انہوں علمی مسائل اور علمی و ادبی شخصیات کو اپنے نظم کا موضوع بنایا ہے۔ اس تجربہ کے تحت جہاں انہوں نے منظوم تذکرے اور منظوم خاکے لکھے ہیں، منظوم تنقید اور منظوم تبصرے لکھے ہیں وہیں منظوم مقالے بھی لکھے ہیں۔
                 مقالہ نگاری ایک سنجیدہ تنقیدی و تخلیقی عمل ہے جس کی بنیاد وضاحت و قطعیت پر ہے۔ مقالہ نگار کو نہ صرف موضوع کی تمام جہتوں کو زیر نظر رکھنا پڑتا ہے بلکہ ایک با شعور قاری کی حیثیت سے موضوع کے تمام ابعاد کے سامنے لانا پڑتا ہے تاکہ عام قاری موضوع کے مالہ وما علیہ سے واقف ہوسکے۔ مقالہ میں پیش کئے گٹے دعووں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل بھی پیش کئے جاتے ہیں اور اس کی روشنی میں کسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقالوں کے لیے نثر زیادہ موزوں سمجھی جاتی رہی ہے۔ لیکن طرزی نے شاعری کے وسیلہ سے مقالہ نگاری کا نیا تجربہ کیا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ شاعری پر بے پناہ قدرت نے طرزی کو مقالہ نگاری جیسے علمی پیرایہ بیان کو نظم کرنے میں کامیاب بنا دیا ہے۔
جناب طرزی نے 8مقالے تحریر کیے ہیں ۱۔ ولی دکنی ۲۔ پریم چند ۳۔ سجاد ظہیر ۴۔ میر انیس ۵۔جلال الدین رومی ۶۔ بہادر شاہ ظفر ۷۔ڈاکٹر سید تقی عابدی۔ ۸۔ امام غزالیؒ جن کو مجیر احمد آزاد نے اپنی کتاب منظوم مقالے میں شامل کیا ہے۔یہ وہ مقالے ہیں جن کو طرزی نے ملک کے مختلف علمی سمیناروں میں پیش بھی کیا ہے۔ حالانکہ اس کتاب میں کل 45 نظمیں ہیں لیکن جناب طرزی نے اپنے ایک بیان میں 8 مقالوں کا ہی ذکر کیا ہے۔ مزید یہ کہ اس کتاب میں شامل بعض نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مقالہ کے بجائے تذکرہ ہیں اور اسی طرح سے مختلف شخصیتوں پر نظم کی گئی ہیں جو ان کی تذکرہ سمجھی جانے والی کتابوں میں شامل ہیں۔ تاہم ان میں بھی مولانا ابو الکلام آزاد، سر سید احمد خاں، فیض احمد فیض، ہندوستانی فلمیں اور اردو ادبی تناظر، مناظر عاشق ہرگانوی، امان خان دل اور وقار صدیقی وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن کا مقالے کے تناظر میں مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
                ۱۔            امام غزالی ۷۷۱ اشعار مشتمل طویل مقالہ ہے۔یہ منظوم مقالہ بحر متقارب مثمن سالم میں ہے۔ مقالہ کی ابتدا شخصیت کے تعارف سے ہوتی ہے۔
مقالے کا عنواں ہے اک ذات عالی
محمد تھا گر ان کا اسم گرامی
لقب ان کا حجۃ پر اسلام جانیں
ضلع طوس ہے جو خراسان کا ہی
وہ تھی چار سو اور پچاس ہجری


جسے جانتے سب امام غزالی
تو والد کا بھی تھا یہی نام نامی
وہیں اسم عرفی غزالی کو مانیں
وہاں شہر تھا طابران ایک نامی
کہ جس سال ان کی ولادت ہوئی تھی

اس کے بعد دھیرے دھیرے نظم عروج کی طرف بڑھتی ہے اور قاری کو اپنی گرفت میں لینا شروع کرتی ہے۔ امام غزالی کے اس واقعہ کے بیان سے جس نے امام غزالی کی علمی زندگی میں انقلاب لادیا اور پھر علم کی پیاس نے انہیں علم کے مختلف مشارب پر سیرابی کے لیے مجبور کیا، نظم کو عروج کی طرف لے جاتے ہیں اور پھر ربط وتسلسل کے ساتھ بیانیہ کے سہارے ہر اہم واقعہ کونظم کرتے چلے جاتے ہیں۔نظم میں ان کی علمی خدمات کا بھر پور احاطہ کیا گیا ہے اور شاید ہی کوئی واقعہ ہو جس کو چھوڑا گیا ہو۔ نظم اتنی مربوط ہے کہ اگر درمیان سے ایک شعر بھی نکال دیا جائے تو اس کی کمی محسوس ہوگی۔ نظم کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ طرزی نے امام غزالی کی شخصیت کا بڑا گہرا مشاہدہ کیا ہے :
مقام معید غزالی نے پایا
جب استاد کی ہوگئی ان کے رحلت
وہاں سے وہ گنج گراں لے کے نکلے
جبیں والوں میں آستاں لے کے نکلے
علوم بلیغ وگراں لے کے نکلے
وہ داروئے زخم نہاں لے کے نکلے
تمنا وعزم جواں لے کے نکلے
فقہ، فلسفہ، برزباں لے کے نکلے


کریں درس استاد کا جو اعادہ
گوارا نہیں تھی وہاں کی اقامت
زمیں ہی نہیں آسماں لے کے نکلے
فضیلت کی جوئے رواں لے کے نکلے
مدلل خطابت، بیاں لے کے نکلے
دوائے غم صد زیاں لے کے نکلے
وہ منزل کا اپنے نشاں لے کے نکلے
تصوف کی برق تپاں کے کے نکلے

مذکورہ اشعار میں غزالی کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہین ان ہی باتوں کو اگر نثر میں لکھا جائے تو جولانی طبع کا جو موقع نظم میں حاصل ہوا ہے وہ نثر میں ممکن نہیں تھا۔
۲۔            مولانا جلال الدین رومی طرزی کا دوسرا مقالہ ہے جو بحر رمل مسدس محذوف میں لکھا گیا ہے۔ مقالے کے ابتدائی 9 اشعار میں تصوف کے تصور کو واضح کیا گیا ہے اور پھر دسویں شعر سے نظم کے ابتدائی حصہ کومربوط کیا گیا ہے۔ نظم کا یہاں سے عروج شروع ہوتا ہے اور جیسے جیسے نظم آگے بڑھتی ہے رومی کے بارے میں قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔نظم کا اختتام کچھ اس طرح ہوتا ہے:
الغرض یہ مثنویٔ مولوی

گوہر عرفاں سے ہے گویا بھری
اس میں ہے جہد وعمل کا فلسفہ

اور وظیفہ نفس کی اصلاح کا
ذات کے عرفاں کی ہے تدریس بھی

قابل تقلید ہے ذات نبی
حکم رب ہے اور تعلیم رسول

زندگی کرنے کے کچھ زریں اصول
سارے گوہر بیش قیمت بے بہا

آئینہ، شاعر کے سوز وساز کا
                ۳۔            اردو شاعری کے باوا آدم ولی دکنی ان کا تیسرا مقالہ ہے۔ بحر متقارب مثمن محذوف میںلکھا ہوا یہ مقا162 اشعار پر مشتمل ہے۔ ان کے علاوہ ابتدا میں ۲ اشعار فارسی کے مقتبس کئے گئے ہیں جو خود طرزی کے ہی اشعار ہیں۔ ابتدا میں ولی کے نام اور وطن اور سال وفات کے اختلاف کو ظاہر کیا گیا ہے:
ولی اللہ ہو کہ محمد ولی

وہ معشوق تھا میر کا دکنی
ولادت، وطن، نام کا مسئلہ

ولی کا ہے کچھ اختلافوں بھرا
یہی حال ہے سال رحلت کا بھی

الگ ہر محقق نے ہے رائے دی
اس کے بعد اردو شاعری میں ولی کی جدت کو واضح کیا گیا ہے ۔ یہ مقالہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں طرزی نے استدلال بیان کے لیے نظم کے درمیان ولی کے ۲۲ اشعار بھی مقتبس کئے ہیں
۴۔           چوتھا مقالہ بہادر شاہ ظفر (پہلی جنگ آزادی کے تناظر) میں ہے۔بحر متقارب مثمن محذوف میں کہی گئی یہ نظم ۹۵ اشعار پر مشتمل ہے اور بہادر شاہ ظفر کے ۰۲ اشعار بطور دلیل درج کئے گئے ہیں۔ نظم کی شروعات آزادی وغلامی کے فلسفہ اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات سے شروع ہوتی ہے۔ پہلی جنگ آزادی سے لے کر بہادر شاہ کی رنگون میں قید اور ان کی موت تک کے حالات کو نظم کیا گیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے چند اشعار کو درج کرنے کے بعد طرزی نے ان کی زندانی شاعری کے رنگ کو اس طرح سے دیکھا ہے:
غزل کا یہ پہلو جو ہے حزنیہ
عطیہ ہے یہ اس کے حالات کا
ہوا ہو جو مسند سے زنداں نشیں
غزل بھی کہے گا وہ اندوہ گیں
ہے اظہار غم اس کا یوں معتبر
بنالیتا ہے آنسوؤں سے گہر
۵۔           پانچواں مقالہ میر انیس ہے ۔ یہ نظم بحر متقارب مثمن سالم میں62 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں میر انیس کے کلام پر مختلف جہات سے تبصرے کئے گئے ہیں۔ اور اس کے لیے دلیلیں بھی پیش کی ہیں۔ بعض اشعار میں میر انیس کے اشعار کے خیال کو طرزی نے اپنے ڈھنگ سے نظم کیا ہے:
مضامین نو جمع کرلیتا ہے جب

خبر خوشہ چینوں کو وہ دیتا ہے تب
زمین سخن آسماں سے جو لایا

جو اجڑی ہوئی تھیں انہیں بھی بسایا
گل مضموں کو بند کیسے کرے بھی

چھپانے سے خوشبو نہ جس کی چھپے بھی
وہ حسن کلام اور لطف بیاں ہے

ہے دائم بہار اس کی جو گلستاں ہے
جو مضموں کئے نظم ہیں وہ کتابی

کوئی بند تاثیر ہے نہ خالی
فن کے تئیں انیس کے نظریہ کو اس طرح نظم کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
جو فن کے لئے اک نظریہ تھا اس کا

مسدس کے اک بند میں خود ہے لایا
کجی عیب ہے، حسنِ ابرو ہے لیکن

بدی تیرگی، تابِ گیسو ہے لیکن
اگر سرمہ ہے چشم خوش رو کو زیبا

تو خال سیہ روئے خوباں پہ اچھا
یہ نکتہ وہ سمجھے فصاحت جو جانے

کہ موقع محل کے ہیں کب کیا تقاضے
بڑی جامع اک رائے حالی نے دی ہے

فراوانی، حیرت فزوں جلووں کی ہے
سخن پر اسے قدرتِ فاخرہ ہے

زباں پر اسے دسترس کاملہ ہے
۶۔           چھٹا مقالہ پریم چند ہے۔ یہ نظم بحر رمل مثمن محذوف میں 113 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں بھی طرزی نے پریم چند کی ناول نگاری اور افسانہ نگاری پر تبصرے کئے ہیں اور ان کے فکر وفن کو واضح کیا ہے۔:
ہے قلم میں اس کے حرکت نبض ہستی کی طرح

راستی فن میں ہے اس کے حق پرستی کی طرح
بارہ ناول اور کہانی تین سو کے ہے قریب

اس نے لکھے ہیں ڈرامے بچوں کا بھی تھا ادیب
                                طرزی نے مقالے میں ناول اور افسانوں کے موضوعات اور ان کے فنی اجزا کو سامنے رکھ کر بھی ان کے افسانوں اورناولوںکا جائزہ لیا ہے:
جبر واستبداد، استحصال کی نوحہ گری

ساہو کاروں اور زمیں داروں کی کوئی ساحری
دست محنت کش کا اس نے اس طرح بوسہ لیا

دھنیا“ کوئی بن گئی تو کوئی ”گوبر“ بن گیا
........
فن افسانہ کا اس کے وصف ہے یہ اک بڑا

تار و پود حسّی نے ہے پیرہن فن کا بُنا
طرزی نے پریم چند کے کرداروں کو مثالی قرار دیا ہے۔ دیکھئے یہ اشعار
کچھ اصول آدرش پر رکھتا ہے وہ ایسا یقیں

ہوتی ہے کرداروں سے اس کے خطا سرزد نہیں
اس طرح ہے غیر استدلالی جذبہ خیر کا

متصف اخلاق سے کردار ہے دائم رہا
دھنیا، سکھدا، ہوری، قادر خاں، کہ ہو رام کلی

پورنا، امرت، دھنک داری کہ ہو وہ لکشمی
اور پھر بلراج، گوبر کہ سلیم و صوفیا

ہاں سکینہ، سورداس و مایا شنکر جو ہوا
نظم کے دوران جہاں ناول اور افسانوں کے حسن پر بحث کی ہے وہیں اس کے قبح کو بھی ظاہر کیا ہے:
ناولوں کو فکری کردار اس نے اپنے ہے دیا

شخصیت کا بھی نمو فطری مگر قائم رہا
خیر اور اصلاح کے جذبوں سے وہ خالی نہ تھا

گاہے کچھ کمزور تو کچھ ڈھیلے جملے لکھ گیا
۷۔           ساتواں مقالہ سجاد ظہیر ہے۔ یہ نظم بحررمل مثمن محذوف میں 87 اشعار پر مشتمل ہے جس میں سجاد ظہیر کی علمی کاوشوں اور ترقی پسندی کے حوالہ سے ان کی افسانہ نگاری پر تبصرے کیے گئے ہیں۔ ان تبصروں سے خود طرزی کے ادبی نظریہ کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ سجاد ظہیر نظم کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے:
ہے تغیر ہی حقیقت میں اساس کائنات

روز روشن ہی کا اک پیغام ہے تاریک رات
خود خزاں ہے آمد فصل بہاری کا پیام

ہے کسی تعمیر نو کا پیش خیمہ انہدام
سجاد ظہیر میں لند ن کی ایک رات کا جس طرح سے جائزہ لیا ہے اس سے طرزی کی ناول کے فن پر گہری نظر کا اندازہ ہوتا ہے:
ایک رات ہے لاحقہ، ’لندن کی‘ جس پر سابقہ

نام ہے یہ آپ نے مشہور ناول جو لکھا
اک شعوری رو کے فنکارانہ استعمال سے

تانے بانے اپنے اس ناول کے ہیں وہ بن گئے
ماجرائی ربط کا، یا مرکزی کردار کا

نقش اس ناول میں کچھ ہے بھی اگر تو یوں ہی سا
پر نعیم الدین کی ہے جس طرح موجودگی

مرکزی کردار کی ہوجاتی ہے خانہ پری
پال ہیرن، عارف واحسان یا اعظم ہوئے

نام، جم، شیلا، کریمہ سب ہیں اچھا کر گئے
ہاں مگر احسان، شیلا کا الگ انداز ہے

پیدا دو کرداروں سے فنکاری کا اعجاز ہے
ایک لعنت ہے غلامی، ہوتا ناول سے عیاں

زندگی آزادی میں ہے ایک بحر بیکراں
ایسے ہیں اسلوب یا کردار موضوع ومواد

بن گیا تاریخ میں ناول یہ ان کا اجتہاد
۸۔            آٹھواں مقالہ ڈاکٹر سید تقی عابدی ہے۔ یہ بحر رمل مثمن محذوف میں 178 اشعار پر مشتمل طویل نظم ہے۔ نظم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان دونوں حصوں میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی تصنیفات وتالیفات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔یہ نظم جہاں ڈاکٹر تقی عابدی کی جملہ علمی وادبی خدمات کا احاطہ کرتی ہے وہیں سلاست وروانی میں بھی اپنی مثال ہے:
ان کی تنقیدی بصیرت کا کوئی ہمسر نہیں

ان کے جیسا جادۂ تحقیق کا رہ بر نہیں
لطف ہے اجمال کا تو کیفیت تفصیل کی

زور کچھ دعووں کا ہے طاقت ہے کچھ تدلیل کی
آپ کے اسلوب میں سرعت ہے وہ ترسیل کی

پالکی مشکل سے بڑھتی ہے کبھی تخئیل کی
بات کرنے کا یہ رکھتے ہیں الگ اپنا ہنر

کوئی یوں ہی تو نہیں بن جاتا بھی ہے دیدہ ور
سامنے لاتے ہیں حقائق آپ اس انداز سے

جیسے پیشِ روئے جاناں رکھ دے کوئی آئینے
یہ تدبر، یہ تفکر، یہ تعشق، آپ کا

یہ تعقل، یہ تفعل، یہ تعلق، آپ کا
یہ بصیرت، علم سے ایسی محبت آپ کی

تاج یکتائی ہے سر پر آپ ہی کے رکھ گئی
ذات اقلیم ادب میں ہے غنیمت آپ کی

راز دارِ عظمت اقبال وغالب آپ ہی
رکھتے تاریخ ادب پر آپ وہ گہری نظر

دسترس ماضی پہ بھی اور حال سے ہیں باخبر
                عبد المنان طرزی نے ایسی شخصیاتی اور تنقیدی نظم گوئی کے لیے مثنوی کا فارم اختیار کیا ہے۔ مثنوی کا فارم ایسا وسیلہ ہے جس میں واقعات کے بیان میں شاعرکو بڑی آزادی حاصل ہوتی ہے اور دو دو مصرعوں میں آسانی اور روانی کے ساتھ وہ اپنی بات کہتا چلا جاتا ہے۔ طرزی نے بھی مثنوی کے فارم سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اور مشکل ترین خیالات کو بھی بڑی آسانی سے بیان کرتے چلے گئے ہیں۔
                نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبد المنان طرزی زبان و بیان پر بے پناہ قدرت رکھتے ہیں۔اردو اور فارسی زبان و ادب کے قدیم و جدید سرمایہ پربھی ان کی گہری نظر ہے جس سے ان کے کلام میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ ان کی نظموں میں معنی آفرینی کی ایسی فضا ملتی ہے کہ طویل سے طویل نظم بھی قاری رکے بغیر پڑھتا چلا جاتا ہے۔مشکل سے مشکل الفاظ کو بھی نظم میں ایسے کھپا دیتے ہیں کہ وہ قاری کو بوجھل یا ثقیل نہیں معلوم ہوتے ہیں۔طرزی کی مقالہ نگاری میں علمی وفور کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی، فصاحت و بلاغت، جودت طبع، زور بیان اور احساس کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طرزی نے شعر میں مقالہ نگاری کا جو تجربہ کیا ہے وہ اردو شاعری کو نئی جہت عطا کرسکتا ہے۔
٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں