ہفتہ، 18 مارچ، 2017

طارق فتح کا فتنہ: کیا ہمارے پاس اس کا جواب ہے؟

طارق فتح کا فتنہ: کیا ہمارے پاس اس کا جواب ہے؟
                آج دنیا بھر میں شہرت، عزت اور دولت حاصل کرنے کا سب آسان طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف زہر اگلا جائے اور اس کی پر امن اور مبنی بر فطرت تعلیمات کو انسانیت دشمن اور رجعت پسند قرار دیا جائے اور اس مذہب اور اس کے حاملین کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا جائے۔ ایسا کرنے والے افراد راتوں رات اسلام دشمن طاقتوں کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اگر ایسے افراد کا نام بھی مسلمانوں والا ہو تو پھر کیا کہنے۔ ان کی وہ پذیرائی ہوتی ہے جو اچھے اچھے مفکرین اور دانشوران کے حصہ میں بھی نہیں آتی۔ ان کی ہفوات کو دنیا کا سب سے بڑا ادب اور ان کے خیالات کو دانشوری کا معیار قرار دیا جاتا ہے۔ سلمان رشدی اورتسلیمہ نسرین اس کی مثالیں ہیں ۔ آج کل اس میں ایک نئے نام طارق فتح کا اضافہ ہوگیا ہے۔
                طارق فتح پاکستانی نژاد کناڈائی شہری ہے۔ ملک مخالف رویہ کی وجہ سے پاکستان سے نکالے جانے کے بعد اس نے کناڈا کی شہریت حاصل کرلی ہے۔ اس سے قبل وہ دس برس تک سعودی عرب میں بھی رہ چکا ہے۔ اپنے فاسد خیالات اور رویوں کی وجہ سے اس کی شخصیت ہر جگہ متنازعہ رہی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ وہ اب ہندوستانی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے اور حکومت کی نظروں میں سرخ رو ہونے کے لیے آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو فروغ دینے میں لگا ہوا ہے۔ چونکہ وہ خود کو مسلمان بتاتے ہوئے اسلام اور اسلامی تعلیمات پر حملے کرتا ہے اور اس لیے وہ اسلام دشمنوں کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا ہے اور ایک بڑے سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے مشہور چینل زی ٹی وی نے اسے اپنا مہمان بنایا ہوا ہے۔ یہ چینل ہفتہ میں دو دن اس کا پروگرام دکھاتا ہے جس کا نام ہے فتح کا فتوی۔ اس کے نام سے ہی پروگرام پیش کرنے والوں کی بد باطنی اور خباثت ظاہر ہوتی ہے۔ طارق فتح کے بے تکے اور بیہودہ خیالات کو فتوی کا عنوان دیا گیا ہے گویا وہ اسلام کا ایکسپرٹ ہو اور اس سلسلے میںاس کی کہی ہوئی بات حرف آخر ہو۔ اس پروگرام میں وہ ان مسائل کو زیر بحث لاتا ہے جس کا علمی جواب تو بہت پہلے ہی ہمارے اکابرین کی جانب سے دیا جاچکا ہے۔ لیکن اب وہ کتابوں میں محفوظ ہے اور جس سے عام مسلمان بھی واقف نہیں ہیں۔ ٹیلی ویژن کا فائدہ اٹھاکر یہ شخص انتہائی بھونڈے اندا زمیں رسول، صحابہ کرامؓ، ائمہ دینؒ ، علماءاور اسلامی تعلیمات سب کا مذاق اڑاتا ہے جس کی توقع کسی جاہل اور بے عمل مسلمان سے بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ آیات واحادیث کی من مانی تاویلات پیش کرتا ہے۔ مستشرقین اور سنگھی نظریات کے حامل مصنفین کے خیالات اور اعتراضات کو بنیاد بناکر اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیاں پھیلاتا ہے ۔ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور خود کو سب سے بڑا ہندوستانی قرار دیتا ہے۔
                 کسی نے مجھے واٹس ایپ پر اس پروگرام کی ایک مختصر ویڈیو کلپ بھیجی تھی جس میں ایک مولانا کو طارق فتح کو گالیاں دیتے اور لعنت ملامت کرتے دکھایا گیا تھا۔ میرے لیے یہی کلپ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پروگرام کے ایک قسط کو دیکھنے کا سبب ہوئی۔ پروگرام میں طارق فتح دو تین ایسے افراد (مرد وخواتین) کو مدعو کرتا ہے جنہیں یہ ضد ہے کہ وہ نہ صرف اپنی مرضی کے مطابق اسلامی تعلیمات کی تشریح کریں گے بلکہ اسے ہی درست باور بھی کرائیں گے۔ ان نام نہاد روشن خیال افراد کے علاوہ ایک عالم دین کو بھی مدعو کیا جاتا ہے اور اس کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے جو بظاہر عالم تو ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس علم ہوتا ہے اور نہ مباحثہ کی صلاحیت۔ کوشش کی جاتی ہے کہ مولانا کوجذبات میں لاکر بھڑکا دیا جائے ۔ پھر مولانا طارق فتح کے منصوبہ کے عین مطابق اس کی ذاتیات پر حملے شروع کردیتے ہیں۔ اس کی بیٹی کو فاحشہ اور زانیہ قرار دیتے ہیں۔ پھر مباحثہ میں شریک تمام افراد مولانا پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام کے نمائندے ایسی ہی اجڈ اور جذباتی ہوتے ہیں۔ ان کے پاس دلیل کی طاقت ہوتی ہے اورنہ ہی برداشت کی قوت۔ مولانا کے جذباتی کردار سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایسے ہی ہیں اور ان کی وجہ سے شدت پسندی، عدم برداشت اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ تقریبا ہر ایپی سوڈ میں یہ منظر ہوتا ہے۔ ہر عالم کے ایک ہی رویہ کو دیکھ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کہیں سب کچھ منصوبہ بند تو نہیں ہے۔ اس پروگرام میں اچھے اور با صلاحیت علما کو مدعو نہیں کیا جاتا ہے اور اگر کسی کی جانب سے کوئی مدلل بات پیش کی جاتی ہے تو بعد میں اس کو کانٹ چھانٹ کر سیاق وسباق سے الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے یا حذف ہی کردیا جاتا ہے۔ حتی کہ بعض لبرل افراد کی بھی وہ باتیں حذف کردی جاتی ہیں جو اس کے منصوبے کے خلاف ہوتی ہیں۔ آزادی اظہار کے ایک بڑے حامی مسلمان نے بھی اس بات کا اظہارکیا ہے جو اس پروگرام کا حصہ بنے تھے۔ یوں بھی اب تک اس پروگرام میں کسی ایسے عالم دین کی شرکت ہوئی ہی نہیں ہوئی ہے جو طارق فتح کی ہوشیاری کا جواب بہتر طریقہ سے دے سکیں اور اس کی غلط باتوں اور دلیلوں کو بے نقاب کرسکیں۔ وہ بڑی چالاکی سے بات کا رخ موڑ دیتا ہے اور شریک عالم دین اس لائق بھی نہیں ہوتا کہ اس کی اس عیاری کو سمجھ پائے۔ حالانکہ ایسے علماءکو جو اس کے اہل نہ ہوں اس پروگرام میں شریک نہیں ہونا چاہئے لیکن کیا کیجئے کہ شہرت کی ہوس انہیں وہاں پہنچادیتی ہے جو خود ان کی ذلت اور اسلام کی بدنامی پر منتج ہوتی ہے۔خبر ہے کہ ایک بڑے عالم دین نے طارق فتح کو بحث کا چیلنج دیا تو اس نے ان سے بحث کرنے سے انکار کردیا۔
                آخر اس کا حل کیا ہے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اس پروگرام کا نوٹس ہی نہیں لینا چاہئے کیونکہ جب سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین اپنے فاسد خیالات سے اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو طارق فتح کیا بگاڑے گا۔ بعض حضرات نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر اس کے خلاف تحریک بھی چلائی ہے۔ بعض مقامات پر اس کے خلاف مقدمے بھی درج ہوئے ہیں ۔سننے میں آیا ہے کہ اب یہ شو ختم ہوگیا ہے اور اس ہفتہ پیش ہونے والا پروگرام آخری تھا۔ اگر واقعی یہ سچ ہے تب بھی یہ سمجھ لینا بڑی نادانی ہوگی کہ مسلمانوں کے دباو

¿ کی وجہ سے اسے ختم کیا گیا ہے اور یہ کہ اس طرح کا پروگرام آئندہ ٹیلی ویژن چینلوں پر نہیں دکھایا جائے گا۔ لہٰذا اس کا نوٹس لیا جانا بہر حال ضروری ہے۔ احتجاج اور مقدمات اپنی جگہ۔ لیکن ایسے لوگوں کی باتوں اور دلیلوں کا علمی جواب دیا جانا بہر حال ضروری ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس طرح کی بحثوں میں ان لوگوںکو حصہ لینا چاہئے جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے بھی واقف ہوں اور جن کی عصری مسائل اور نظریات پر بھی گہری نظر ہو اور زیر بحث مسائل سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہوں۔

                لیکن اس کا سب سے اچھا بلکہ ضروری جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کا اپنا ٹیلی ویژن چینل ہو جو کسی بھی سطح پر دوسرے قومی چینلوں سے کمزور نہ ہو۔ لیکن بد قسمتی سے اس کے آثار اب بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں میڈیا کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ پھر بھی پتہ نہیں کیوں اس نے ہماری ترجیحات میں کبھی جگہ نہیں پائی ۔ ماضی میں کچھ کوششیں ہوئیں بھی تو بار آور نہ ہوسکیں۔ ٹیلی ویژن چینل کی تو بات ہی چھوڑیئے، کتنے اخبارات نکلنے اور بند ہوئے۔ مسلم انڈیا ہو یا نیشن اینڈ دی ورلڈ یا حالیہ دنوں میں ملی گزٹ سب کا ایک ہی حشرا ہوا۔ حالانکہ یہ سب مل کر بھی معیار کے اعتبار سے قومی اخبارات ورسائل کے مقابلہ میں بہت بونے تھے۔ لیکن غنیمت تھے۔ مگر پھر بھی ہم انہیں باتی نہ رکھ سکے۔ آج دنیا بھر میں میڈیا کی توجہ کا مرکز اسلام اور مسلمان ہیں۔ ان کی فکر یہ ہے کہ صحیح اسلام کو دنیا سے نیست ونابود کردیا جائے۔ اس لئے بین الاقوامی سطح پر اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی سعی کی جارہی ہے۔ میڈیا کا استعمال حقائق کو آشکار کرنے کے بجائے حقائق کو چھپانے یا توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور جھوٹ پھیلانے کے لیے کیاجارہا ہے۔ اسلام کو تشدد کا علمبردار اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کا کوئی موقع میڈیا اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے 96 فیصد میڈیا پر صرف 6 کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور یہ سبھی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہیں بلکہ انسانی ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ مسلم دنیا کے پاس یہودیوں سے دس گنا زیادہ دولت ہے لیکن یہ فضولیات پر خرچ ہورہی ہے۔ سب سے اونچا کلاک ٹاور، سب سے بڑا ہوٹل، سب سے اونچی عمارت، سب سے بڑا شاپنگ مال مسلم دنیا کے لیے طرہ امتیاز ہیں۔ ہندوستانی میڈیا بھی یہودی طرز پر کام کر رہا ہے۔ اس لیے یہودی سازش اور برہمن سازش کی رٹ لگانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ جس طریقہ سے میڈیا کے استعمال کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کی جارہی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ابلاغی عسرت سے پیچھا چھڑائیں اور مضبوط میڈیا ہاؤس قائم کریں۔ اس کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ سڑکوں پر نعرے لگانے اور احتجاج کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور ہر دن کوئی طارق فتح کسی چینل پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا نظر آئے گا۔ کیا ہم اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟

٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں