جمعرات، 23 مارچ، 2017

مودی، یوگی اور مسلمان

مودی، یوگی اور مسلمان
                ۲۰۱۴ کے عام انتخابات میں بی جے پی کی زبردست جیت کی بعد ملک میں جو سیاسی منظرنامہ بنا اس نے بجا طور پر مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ مرکز کی کامیابی کے بعد ریاستوں میں بھی جس طرح پارٹی نے پے در پے کامیابیاں حاصل کیں اس سے ایسا لگنے لگا کہ اب بی جے پی ناقابل تسخیر بن گئی ہے۔ لیکن دلی اور بہار کے انتخابات میں اس کی ذلت آمیز شکست نے اس کے بڑھتے قدم کو روک دیا تو مسلمانوں اور دیگر امن پسند شہریوں نے اطمینان کی سانس لی۔ تاہم ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش پر سب کی نگاہیں جمی رہیں جہاں حال ہی میں اختتام پذیر انتخاب میں بی جے پی نے ریکارڈ کامیابی درج کی ہے۔ بی جے پی کی اس فتح نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر امن پسند اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب میں یقین رکھنے والوں میں ایک بار پھر تشویش کی لہر دوڑادی ہے۔ کیونکہ اس کی اس جیت سے نہ صرف ریاستوں میں اس کے قدم مضبوط ہوئے ہیں بلکہ اب مرکز میں بھی وہ پوری طرح مستحکم ہوگئی ہے جہاں راجیہ سبھا میں کم تعداد کی وجہ سے اسے دشواریوں کا سامنا تھا۔ مسلمانوں کی تشویش میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب اس نے اتر پردیش میں اپنے شعلہ بیان بلکہ دریدہ دہن لیڈریوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلی بنا دیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ صرف فائر برانڈ لیڈر ہی نہیں ہیںبلکہ جارحیت پسندی اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا ہی ان کی سب سے بڑی قوت ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے خلاف فساد کرانے، نفرت پھیلانے سمیت ایک درجن مقدمات چل رہے ہیں۔ اس نے اپنی نفرت انگیز تقریروں سے ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا۔ ببانگ دہل مسلمانوں کو گالیاں دیں، لو جہاد جیسے شوشے چھوڑ کر ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا۔ دریدہ دہنی کی انتہا یہ ہے کہ اس نے مسلم عورتوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی عصمت دری کرنے کے لیے کہا۔ ہندویووا واہنی کے نام سے اس نے اپنی فوج تیار کر رکھی ہے جس کا استعمال مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ۳۲۵ ممبران اسمبلی کو نظر انداز کر کے اگر بی جے پی نے اس شخص کو وزیر اعلی بنایا ہے جو اسمبلی کا ممبر بھی نہیں ہے تو یہ بلاوجہ نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ آئندہ ریاست اور ملک بھر کا منظر نامہ کیسا ہوگا۔ ایسے حالات میں جو تشویش اور اندیشے ہیں وہ بے جا نہیں ہیں۔
                اس وقت ملک میں جو جماعت برسر اقتدار ہے وہ علانیہ طور پر مسلم مخالف ہے۔ اس کی مادر تنظیم آر ایس ایس کا قیام ۱۹۲۵ عمل میں آیا جس کا مقصد ہی ملک کو ہندو راشٹر میں بدلنا تھا۔ اس نے اس کی منظم منصوبہ بندی کی اور اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے پیہم جد وجہد کرتی رہی۔ ظاہر ہے کہ طویل جد وجہد اور انتظارکے بعد جو کامیابی ملی ہے اسے وہ یونہی ضائع نہیں ہونے دے گی۔ جو لوگ آر ایس ایس کی فکر اور اس کے طریق کار سے واقف ہیں ان کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آئندہ ملک کی صورتحال کیا ہوگی۔ مرکز کے اقتدار پر قابض ہوتے ہی بی جے پی نے تمام جمہوری، انتظامی، آئینی اور پالیسی ساز اداروں پر مکمل کنٹرول کر کے تمام رکاوٹوں اور مزاحمتوں کا سد باب پہلے ہی کرلیا ہے اور حالات کو موافق بنانے کے لیے ہر حربہ آزما رہی ہے۔ اس نے دلتوں میں برپا ہونے والی تحریکوں کو بھی اپنی چالوں سے ناکام بنادیا ہے۔ یہ کوشش بھی کی گئی کہ پسماندہ طبقات سے وابستہ پارٹیاں یا تو این ڈی اے میں ضم ہوجائیں یا ان سے وابستہ ممبران بی جے پی میں داخل ہوجائیں جہاں ان کے عیش وآرام کے لیے تمام سہولتیں فراہم ہیں اور ان پارٹیوں میں صرف لیڈر رہ جائیں یا ان کی لیڈر شپ کو بھی خرید لیا جائے۔ بہر حال اس وقت ملک کی فضا بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے پوری طرح سازگار ہے اور اب اسے اپنے ایجنڈوں پر عمل کرنے میں کسی طرح کی دشواری نہیں ہے۔
                یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی حلف برداری کے بعد کہا ہے کہ وہ مودی کے’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ منصوبے کو آگے بڑھائیں گے۔ ان کے والد نے بھی انہیں مسلمانوں کے خلاف بھید بھاؤ بند کرنے کی تلقین کی ہے۔ کاش یہ تربیت انہوں نے بچپن میں ہی کردی ہوتی تو آج اس تلقین کی نوبت نہ آتی۔ بہر حال یوگی کیا کریں گے اس کا اندازہ بہت جلد ہوجائے گا۔ ویسے حلف برداری کے بعد ہی چند ذبیحہ خانوں کو بند کر کے انہوں نے واضح اشارہ کردیا ہے کہ ان کا طرز عمل کیا ہوگا۔ ان کے ماننے والوں نے بھی اسی نام پر غنڈہ گردی کا آغاز کردیا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ فرقہ وارانہ نوعیت کے جتنے حساس مسئلے ہیں وہ سب ایک بر پھر ابھر کر سامنے آئیں گے۔ کیونکہ انہی کی بنیاد پر ۲۰۱۹ کا انتخاب بھی لڑنا ہے۔ وندے ماترم اور سوریہ نمسکار جیسے مسائل زور وشور سے اٹھائے جائیں گے۔ تین طلاق کے معاملہ کو ہوا دی جائے گی۔ رام مندر کے قیام کی تگ ودو اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش تیز ہوگی۔ مسلمانوں کو خوف وہراس کی نفسیات میں مبتلا کر کے ان سے ان کا بچا کھچا اعتماد بھی چھیننے کی کوشش کی جائے گی۔ حکومت ایک طرف نئی نسل کو وکاس اور ترقی کے سحر میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرے گی تو دوسری طرف اسے فرقہ وارانہ بنیاد پرپولرائز بھی کرے گی اور یہ سلسلہ۲۰۱۹ تک بلا انقطاع جاری رہے گا۔
                اس صورتحال میں مسلمانوں کا کیا طریق کار ہونا چاہئے یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس وقت عام مسلمانوں میں مایوسی کی جو کیفیت پائی جارہی ہے وہ بے بنیاد نہیں ہے تاہم مایوسی کے حصار سے باہر نکلنا ہوگا اور صورتحال کا تجزیہ کر کے اس کی روشنی میں مشترکہ طور پر ایک جامع لائحہ عمل بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ بی جے پی کی فتح اور سیکولروں کی شکست کے اسباب پر بہت باتیں کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے عدم اتحاد اور ناقص حکمت عملی نے بھی اس میںاہم کردار ادا کیا ہے لیکن ساری ذمہ داری مسلمانوں کے سر ڈال دینا جیسا کہ بعض سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ نام نہاد سیکولروں کے ہاتھوں سے حکومت جانے کا غم مسلمانوں کو اس لیے بھی نہیں کرنا چاہئے کہ جانے والی حکومت بھی ان کی اپنی کب تھی۔ لہٰذا جن کی حکومت گئی ہے وہ اسے واپس لانے کی فکر کرلیں گے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کا سرے سے ہے ہی نہیں۔ انہیں اپنی خامیوں اور کمزروں کا پتہ لگانے دیجئے ہم محض اپنی کمزوریاں دیکھیں۔
                ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیسے اپنی دینی وملی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ ملک میں زندہ رہیں اور ہمارے غور وفکر کا محور یہی ہونا چاہئے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو خوف اور مایوسی کے حصار سے نکلنا ہوگا۔ مایوسی کفر ہے اور خوف مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔ ملت کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ حوادث سے بھری ہے لیکن نہ اسلام ختم ہوا ہے نہ ملت اسلامیہ ختم ہوئی۔ اگرہم اس حقیقت کو اپنے دل ودماغ میں جگہ نہیں دے سکے ہیں تو اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں سب سے اہم اور ضروری کام یہی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے۔ اتحاد فرض ہے اور اس سے سب واقف ہیں لیکن سب اپنی شرطوں پر اتحاد چاہتے ہیں۔ لاتعداد خداؤں کو پوجنے والے اور ذات پات پر مبنی ورن آ شرم کے باہم متصادم ومتحارب گروپ ایک ہوگئے لیکن ایک کلمہ، ایک نبی اور ایک قبیلہ کے ماننے والے ایک نہ ہوسکے تو اس میں کس کا قصور ہے۔ ہم اندیشوں اور خطرات کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن ان کے سد باب کے لیے زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتے۔ مرکز میں مودی حکومت کے قیام کے بعد پیش نظر خطرات کے تدارک کے لیے جس اجتماعی غور وفکر ، وسیع الجہات اور مبسوط لائحہ عمل کی ضرورت تھی ہماری طرف سے ان پر کوششیں نہ ہوسکیں بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے الیکشن کو ہی سیاست سمجھ رکھا ہے اور ہماری ساری سیاست اسی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ فی الحال مسلمان اس سیاست کو بھول جائیں تو بہتر ہوگا۔ اگر سیاست میں دلچسپی لینی ہے تو سیاسی سطح پر اپنا ایک مشترکہ اور متحدہ لائحہ عمل بنائیں اور صرف اپنے مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے قومی مسائل وموضوعات پر بھی توجہ دیں۔ احتجاج، نعرہ بازی اور مظاہروں سے احتراز کریں۔ مسلمانوں اور مظلوموں کے لیے آخری چارۂ کار ہمیشہ عدلیہ ہی رہی ہے گوکہ اس پر بھی جانبداری کے الزام لگتے رہے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر عدلیہ ہی امید کی کرن ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا مسائل کو سڑکوں پر لانے کی بجائے عدلیہ سے مناسب ڈھنگ اور تیاری کے ساتھ رجوع کرنا بہتر ہوگا۔ موجودہ صورتحال کے پیدا ہونے میں ملت کا مجموعی رویہ اسلام کے بنیادی تقاضوں سے عملاً اس کی بیزاری ، آپسی اختلافات اور سب کچھ چھوڑ کر سیکولر پارٹیوں پر بے جا انحصار نیز ملکی سیاست اور ایشوز سے اس کی لاتعلقی کو بڑا دخل ہے۔ لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ اور صورتحال کا بنیادی سبب ہے وہ ہے دینی شعور کا فقدان اور اپنے مقصد وجود سے دوری۔ پیش نظر خطرات ومسائل نے مسلمانوں کو اس لیے گھیرا ہے کہ وہ مسلمان ہیں لیکن وہ اپنے مسائل کا حل اسلام سے الگ ہوکر تلاش کر رہے ہیں۔ مادی تدابیر ضرور کی جائیں لیکن دائرہ کار دین سے بالکل باہر نکل کرنہیں۔
                لہٰذا ماتم وگریہ وزاری سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس وقت اپنے مقصد وجود کو زیادہ بہتر طور پر انجام دینا، تمام مسلمانوں میں دینی شعور اور دین کے تئیں بیداری پیدا کرنا، مسلکی، گروہی اور نظریاتی اختلافات کو ختم کرنا اور خطرات کے بھنور میں اپنے خالق کی طرف رجوع کرنا اور خود کو سب کے لیے مفید بنانا یہی ہمارے کرنے کے کام ہیں۔ مایوسی اور خوف ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ اگر ہم نے اپنے مقصد وجود کا ادراک کرلیا تو کل ہمارا ہے۔

***

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں