بدھ، 27 نومبر، 2013

اسلام میں پسماندہ اور محروم طبقات کے حقوق


اسلام میں پسماندہ اور محروم طبقات کے حقوق

                اس سے قبل کہ پسماندہ اور محروموں کے حقوق کی بات کی جائے یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام میں پسماندگی اور محرومی کا تصور کیا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں نوع کے اعتبارسے تمام انسان یکساں ہیں۔ نسل یا ذات پات کی بنیاد پر یہاں کسی امتیاز کی نہ صرف گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام اس قسم کے سارے امتیازات کا انکار کرتا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم  ﷺ نے اپنی زندگی کے سب بڑے اجتماع یعنی حجۃ الوداع کے موقع پر یہ اعلان کیا کہ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقوی (نہ کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر فوقیت اور برتری ہے سوائے تقوی کے) اس وقت امتیاز کے یہی پیمانے تھے۔ عرب اپنے مقابلے میں عجم کو ہیچ اور ناقص سمجھتے تھے آزاد شخص غلاموں کو کمتر اور گھٹیا سمجھتا تھا، گورے اپنی خوبصورتی پر ناز کرتے اور کالوں کو جیسے دوسرے درجے کاانسان سمجھتے تھے۔ لیکن جب اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا نبی  ﷺ نے بڑے اجتماع کے اندر اس کا انکار کرتے ہوئے تمام انسانوں کو بلا امتیاز مساوی قرار دیاتب اس کی نظرمیں نہ کوئی اعلی رہا نہ ادنی خواہ وہ جس قبیلے اور جس نسل سے تعلق رکھے اور جو پیشہ اختیار کرے نوعی اعتبار سے یکساں عزت وتوقیر کا حامل ہے اور ہر حال میں اس کا احترام آدمیت بہرطور برقرارہے ۔قرآن نے برتری وکم تری کی اس تفریق وامتیازکو سختی سے روکتے ہوئے یہ حکم دیا :یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَ لَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ  بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورہ حجرات ۸) (مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں )تمام منافع جو انسان کی زیست کی بقا اور فطری ارتقا کے لیے لازمی ہیں اسلام کی رو سے وہ ہر انسان کے لیے عام ہیں۔منافع خواہ قدرتی ہوں یا اکتسابی ان کے حصول کے لیے اسلام ہر شخص کو یکساں شروط وتحدیدات کے ساتھ اور اپنی اپنی ذاتی صلاحیت اور محنت کے مطابق مواقع فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے :  لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (سورہ نجم۳۹) یعنی بلاامتیاز ہر انسان کو وہی حاصل ہوگا جس کے حصول کی اس نے کوشش کی۔ مزید اس نے صنفی امتیاز کوبھی مٹاتے ہوئے کہا:لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَ سْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہ۔ (سورہ نساء ۳۲) (مردوں کو ان کے کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کے کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور خدا سے اس کا فضل (وکرم) مانگتے رہو۔ )
                تاہم اسلام معاشرتی زندگی میں انسانوں کی معاشی شکست وریخت اور اقتصادی مد وجزر کے فطری عمل سے انکار نہیں کرتا ہے۔چنانچہ ایسے مواقع یاحالات کو وہ تسلیم کرتا ہے جن میں بعض انسان یا انسانوں کی کوئی جماعت‘گروہ اورقبیلہ منافع کے حصول سے محروم رہ جائے اور اس باعث وہ زندگی کی دوڑ میں دیگر یا عام جماعتوں‘گروہوںاورقبیلوں سے پیچھے رہ جائے اور سماج میں اس کا رتبہ‘حالت اور معاشی وسماجی صورت حال عام لوگوں کے برابر نہ رہ پائے ۔ چونکہ سماج میں عزت ووقار کا انحصار تاریخ کے ہر دور میں معاشی استحکام پر کسی قدر ضرور رہا ہے اس لیے وہ عزت ومرتبہ جو عام آدمیوں کو حاصل ہے ، پچھڑی ہوئی جماعت کو حاصل نہ ہوپائے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کی نظر میں پسماندہ ، کمزور اور مظلوم اشخاص کے حالات واضح ہیں۔چنانچہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ان کی محفوظ جگہوں کا اعلان وضاحت کے ساتھ کیا گیاہے اور ان کا معلوم حق متعین کیا ہے۔  وَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ (سورہ ذاریات ۱۹) (اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا )اسی طرح ایک جگہ فرمایا گیا ہے : وَ الَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ(سورہ معارج ۲۴، ۲۵) ( اور ان کے مال میں حصہ مقرر ہے مانگنے والے کا اور نہ مانگنے والے کا۔ یہ معلوم حق کس سے لیا جائے اور کس کو دیا جائے گا اس کی وضاحت خود نبی کریم ﷺ نے کی۔ جب آپ اپنے ایک عامل کو زکوۃ کی وصولی کے لیے بھیج رہے تھے تو آپ ؐنے فرمایا :  تؤخذ من أغنیاء ھم وترد علی فقراء ھم  (اس شہر کے امیروں سے لئے جائیں اور اس شہر کے غریبوں میں تقسیم کئے جائیں۔)
                علماء ومفسرین قرآن نے سائل اور محروم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سائل عربی زبان میں مانگنے والے کو کہتے ہیں۔ لیکن اس میں وہ تمام اشخاص شامل ہیں جو تنگدست ، مفلوک الحال اور دوسرے کی امداد کے محتاج ہیںاور محروم سے ایسے لوگ مراد ہیں جو ضروریات زندگی کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اور جن کی بنیادی ضرورتیں ان کی محنت اور کمائی سے پوری نہیں ہوپاتی ہیں۔ اس کے باوجود ایسے لوگ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ قرآن نے بھی اس کی تشریح اس طرح کی ہے۔ لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ  یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ  تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمٰھُمْ  لَا یَسْـَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (سورہ  بقرہ ۲۷۲) (تو ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے (اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں) یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو (کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب) لوگوں سے (منہ پھوڑ کر اور) لپٹ کر نہیں مانگ سکتے)
                 اس حق معلوم کا بھی ایک پورا نظام موجود ہے جسے زکوۃ وصدقات کا نظام کہا جاتا ہے۔ پھر اس نظام کی پوری تفصیل اور اس کے مصارف کو بھی واضح کردیا گیاہے۔  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُھُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ  فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰہِ  وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (سورہ توبہ ۵۹) (صدقات (یعنی زکوۃ وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکُنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے )
                اس آیت کریم میں کل آٹھ مصارف گنائے گئے ہیں۔ یہ بنیادی مصارف ہیں ۔ان حالات کے علاوہ بھی کئی اسباب ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے انسان عام لوگوں کی طرح زندگی گزار نہ سکے۔ ایسی صورت میں اسلا م انہیں ایسے مواقع فراہم کرتا ہے جن میں ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ خوش حال اور صحت مند زندگی گزارسکیں۔ قرآن واحادیث میں ایسے کئی زمرے بتائے گئے ہیں جو انسانی ہمدردی اور امداد کے محتاج ہیں۔ اس طرح کی پسماندگی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔
                 اسلام ذات پات کے نظام کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور نہ ذات پات کی بنیاد پر کسی محفوظ جگہ کا تعین کرتا ہے اور نہ اس کی بنیاد پر کسی برتری وکم تری کی تمیز کی اجازت دیتا ہے۔ یہ خالص ہندوانہ نظام ہے جو ذات کی بنیاد پر پیشوں کا پیدائشی اختیار لازم کرکے بندوں کو بندوں کا غلام بناکر معاشی استحصال اور سماجی برتری وکم تری کی گنجائش نکالتا ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ قران مجید میں مختلف مقامات پر اس کا انکار موجود ہے۔ مثلا اللہ تعالی نے فرمایا: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ  اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے )اور نہ ہی اسلام میں پیشہ کی بنیاد پر کسی کو حقیر سمجھا گیاہے۔ بلکہ اس نے ’’انسان کی قدردانی ، اکرام وتوقیر نیکی اور تقوی کی بنیاد پر قائم کی ‘‘ اور ’’انسانوں کو دوسرے نظاموں اور نظریہ کی طرح چھوٹے بڑے، ادنی اعلی، ذات، وطنی ، غیر وطنی، لسانی غیر لسانی، امیر وغریب، عورت ومرد، رنگ ونسل اور خاندانی طبقوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ انسانوں کی تقسیم ایمان اور کفر ، حق وباطل، خیر وشر کی بنیاد پر کی۔ ‘‘(اسلام میں غربت اور اس کا علاج ص۳۹)
                عہد اسلام سے قبل غریبی کی انتہائی خراب شکل غلامی تھی۔ اسلام نے غلاموں کوبھی عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کی آزادی کے راستے ہموار کئے۔زکوۃ کے آٹھ مصارف میں ایک مد غلاموں کی آزادی کو بھی رکھا، ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا کہ اگر کوئی غلام مکاتبت کے ذریعہ غلامی سے رہائی چاہے تو اس سے انکار نہ کیا جائے۔ انہیں اپنے آقا کا عبد کہنے کے بجائے مولی کہنے کا حکم دیا۔ ان کو عام رعایا کی حیثیت دی گئی ۔ ان میں بعض کو سید تک کا خطاب عطا کیا گیا۔ بعض اسلامی جنگوں میں سپہ سالار بنائے جبکہ اسی جنگ میں دوسرے آزاد لوگوں کی حیثیت عام فوجی کی تھی باجودیکہ بعض لوگ اسلام اورتقوی وپرہیزگاری کے اعتبار سے بھی جلیل القدر تھے۔ عہد عمر ؓ میں’’ ایک عام اصول بنادیا گیا کہ عرب غلام نہیں بنائے جاسکتے جو پہلے سے غلام چلے آتے تھے ان سب کی رہائی کا حکم دے دیا۔ جہاں حالات کی مجبوری سے غلامی کا رواج باقی رہا وہاں بھی غلاموں کے حقوق کی نگہداشت اور حسن سلوک کا ایسا انتظام کیا کہ غلام اور آزاد میں برائے نام فرق رہ گیا۔ ‘‘ (عشرہ مبشرہ: حضرت عمر فاروقؓ؍ بشیر ساجد)             
                حضرت عمر فاروق ؓ اپنے عہد خلافت میں جب کسی مرفہ الحال شخص کو دیکھتے تو دریافت کرتے کیا یہ شخص کسی پیشہ وابستہ ہے۔ اگر جواب نفی میں ملتا تو فرماتے کہ یہ شخص میری نظروں سے گرگیا اور پھر فرماتے کہ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بہتر ہے کہ ذلیل پیشہ ہی اختیار کیاجائے۔ (عشرہ مبشرہ : حضرت عمر فاروقؓ؍ بشیر ساجد)
                اس معروضہ کے بعد کسی حد تک اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے اسلام میں طبقہ کا تصور صورت حال کی نوعیت پر ہے۔ ایک نوع کے تمام افراد کو ایک طبقہ کہا جاسکتا ہے ۔اب خواہ اس نوعیت کے افراد ملک کے جس خطہ سے تعلق رکھتے ہوں ، جس شعبہ اور قبیلہ سے ان کا تعلق ہو اور جو پیشہ اختیار کئے ہوئے ہوں، تمام اسی طبقہ کے شمار کئے جائیں گے۔ مثلا معذوروں کا طبقہ ، غلاموں کا طبقہ ، غریبوں کا طبقہ، تعلیمی پسماندگا ن کا طبقہ وغیرہ۔
                اسلام نے ان طبقات کی بہتری کے لیے قرآن واحادیث میں واضح تعلیمات دی ہیں۔اس کام کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ ہر شخص کو جو معاشی طور پر مستحکم ہو مکلف کیا ہے کہ وہ اپنی دولت سے ایک معلوم حصہ جو نصاب کے مطابق ہو نکال کر ان طبقات کی مدد کرے۔ ’’اسلام نے غریبوں ، مسکینوں ، محتاجوں اور فقراء کی معاشی مشکلات اور تنگدستی ، ان کی گرتی ہوئی معیار زندگی پر خصوصی توجہ دی ہے ۔ انہیں ہر حال میں معاشی طور پر اوسط زندگی گزارنے اور معاشی پریشانیوں کو دور کرتے رہنے کی عظیم ذمہ داری تمام مسلمانان عالم پر عائد کی ہے۔ ‘‘
                ساتھ ہی بعض جرائم کی سزا وکفارہ پسماندہ طبقات کی امداد اور تعاون کو متعین کیا ہے۔ مثلا قسم توڑنے کا کفارہ یہ لازم کیاہے کہ قسم توڑنے والا دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کپڑے پہنائے یا غلام آزا د کرے۔  لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم اور تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام
                اسی طرح اگر کوئی رمضان میں جان بوجھ کر روزہ توڑدے تو اس کے کفارہ کے طور پر ایک چیز ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا نا رکھا گیا۔ یا ایسا شخص جو کسی بیماری یا درازی عمر وغیرہ کی وجہ سے رمضان کا روزہ رکھنے سے عاجز ہے تو ایسی صورت میں ہر روزہ کے بدلہ کسی مسکین کو کھانا کھلانا کفارہ رکھا گیا۔ اگر حج کے درمیان کسی چھوٹے جانور کو مارد یا ہے تو اس کی سزا یہ متعین کی گئی کہ اس جانور کی قیمت کے برابر غلہ خرید کر مسکینوں میں تقسیم کیا جائے۔
                                اسلام نے زکوۃ کا جو نظام پیش کیا ہے اور اس کے جو آٹھ مصارف گنائے ہیں آپ غور کریں تو ان میں والمولفۃ قلوبھم کے علاوہ جتنے مصارف ہیں وہ سارے غربت سے متعلق ہیں۔ ان مصارف کے علاوہ جو غربت کے جو اسباب ہوسکتے ہیںوہ بھی کسی نہ کسی طور پر معاشی پسماندگی کے سبب ہی پیدا ہوتے ہیں۔
                                چونکہ اسلام کی نظر میں پسماندگی کا تصور ذات پات کی بنیاد پر نہیں بلکہ افراد کے حالات پر ہے۔ اس لیے اس نے اس کے انسداد کے لیے زکوۃ کو اسلام کی دوسری بنیادشمار کرتے ہوئے غربت اور پسماندگی کے سارے راستوں کو بند کیا۔ چنانچہ عبادت کی وہ شکل بھی جسے رہبانیت کہاجاتا ہے جس میں انسان دنیاوی علائق سے بے نیاز ہوکر عبادت میں مصروف ہوتا ہے اسلام میں ممنوع ہے۔کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے وارثین میں سے کسی کو اپنی وراثت سے عاق کردے حتی کہ اپنے وارثین کے حق میں وصیت کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ اپنی دولت یا جائیداد کے ایک تہائی سے زیادہ حصہ کو وقف یا وصیت کرنے کو بھی ممنوع قراردیا ہے۔ ان کی وجہ یہی ہے کہ کوئی شخص اپنے وارث کو مفلس، تنگدست اور محروم نہ چھوڑے۔نیز دست سوال دراز کرنے کی عادت کو بھی ناپسند کیا گیا اور اس پر وعید سنائی گئی ہے۔
                 اسلام نے انسانوں کو یہ تعلیم دی کہ زمین وآسمان اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ انسان کے منافع کے حصول کے لیے رکھے گئے ہیں۔ وسخر لکم مافی السموات ومافی الارض جمیعا منہ چنانچہ اس نے اسباب غربت کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے انسداد کا راستہ واضح طورپر بتادیا ہے اور ہر شخص کو ان وسائل کے اختیار کی تعلیم دی ہے جن کے ذریعہ معاشی استحکام حاصل ہو۔ ہر شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دولت اور جائیداد جمع کرے۔ تجارت اور ملازمت کے لیے اس کے سامنے سارے جائز اور حلال راستے کھلے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اپنی پسند اور صلاحیت کے مطابق پیشہ اختیا رکرسکتا ہے۔ پھر دولت کی ایک مقدار متعین کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس مقدار کو پہنچ جائے تو ایک ضابطہ کے مطابق پسماندہ اور محروم طبقات کے لیے اپنی دولت سے کم از کم معلوم حصہ نکال دے۔ اس کے علاوہ صدقات کی ترغیب اور اہمیت پر بارہا روشنی ڈالی گئی ہے اور زکوۃ وصدقات کا حصول مالداروں کے لیے ناجائز قرار دیا ہے تاکہ محروم اور پسماندہ طبقات کے حقوق میں دراندازی نہ ہوسکے۔
                اب اگر کوئی شخص غریب ہے ۔ اس کے لیے معاش کے مواقع کی کمی ہے اور اس کی بنیادی ضرورتیں اپنے ہاتھوں کی کمائی سے پوری نہیں ہورہی ہیں تو اس مخصوص حصہ سے اس کی ادائیگی کی جائے گی۔ یہ اس کا حق ہوگا ۔ اس کے لینے پر دینے والے کو کسی قسم کی برتری یا اظہار احسان کا حق بھی اسلام نے نہیں دیا ہے۔
                جب اسلام آیا تو اس نے ابتدا ہی سے ایمان کے ساتھ تعلیم اور معاشی اعتدال کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ اس کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم دینے کو جنگی قیدیوں کا معاوضہ قرار دیا گیا اور ابتدائے اسلام سے ہی غریب پروری کی تعلیم دی گئی۔ پھر اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آگیا اور حکومت کے خزانے میں دولت آنے لگی تو اسلام کے بتائے ہوئے طریقے پر تمام پسماندہ طبقات کی بلا امتیاز مدد کی گئی۔ پسماندہ اور محروم اشخاص میں کوئی ایسا نہیں رہا جو محض غربت کی وجہ زندگی سے محروم ہوجائے۔
                ‘‘چنانچہ آپ ﷺ نے ہزاروں ایکڑ افتادہ زمینوں کی آبادی پر خاص توجہ دی اور ان قبائل کو جو بالکل ہی خانہ بدوش تھے، یہ افتادہ زمینیں جاگیر کے طور پر عطا کرکے ان میں انہیں آباد کیا۔ اس طرح مدینہ کے اطراف میں بھی بہت سے قبائل جو مارے مارے پھرتے تھے ، اپنی اپنی جگہ آباد ہوکر کھیتی باڑی اور باغبانی میں لگ گئے۔ آپ نے افتادہ زمینوں کے متعلق قانون نافذ فرمایا کہ جو شخص کسی افتادہ زمین کو آباد کرے گا وہ اس کی ملک ہوگی‘‘ (عہد رسالت وخلافت راشدہ ص۲۰۹)
                اسلامی حکومت کے ابتدا ئی دوادوار میں خارجی حملوں اور پڑوسی ممالک کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پریشان رہی ۔ مگر جب تیسرا دورآیا یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا ۔ پڑوسی ممالک کی ریشہ دوانیاں کم ہوئیں۔ بہت سے ممالک بھی فتح ہوگئے اور صوبوں کا قیام عمل میںآیا تو معاشی اعتدال کے ضمن بڑا ہی انقلابی قدم اٹھایا گیا۔ ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔مردم شماری کے بعد تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز وظیفے مقرر کئے گئے حتی کہ نومولود بچوں کے لیے بھی وظیفہ مقرر تھا۔ مراتب کا تعین دین ، دینی سرگرمیوں اور ضروریات کی بنیاد پر کیا گیا۔ اس زمانے میں وظیفہ کی مقدار زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار درھم اور کم سے کم سو درہم تک تھی۔ جن لوگوں کا جو وظیفہ تھا وہی ان کے غلاموں کا وظیفہ بھی مقرر کیا گیا۔ لاوارث اور نومولود بچوں کا وظیفہ سو درھم تھاجو بلوغت کے بعد مراتب کے اعتبار سے بڑھ جاتا تھا۔ آپ کا خیال تھا کہ اگر مال کی کثرت ہوئی تو ہر شخص کو چار ہزار درہم وظیفہ دیا جائے گا۔ ایک موقع پر فرمایا ’’خدا کی قسم ! اگر اس کے بعد بھی کچھ بچا تو جبل صنعا (یمن) کا چرواہا اپنے گھر بیٹھے اس مال میں سے اپنا حصہ پائے گا۔ ‘‘ ایک اور موقع پر فرمایا: ’’خدا کی قسم ! اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو عراق کی بیواؤں کو اس حالت میں چھوڑ جاؤں گا کہ میرے بعد ہر گز کسی کی دست نگر نہ ہوں‘‘  (عشرہ مبشرہ : حضرت عمر فاروق )
                عہد عمر ؓ میں پسماندطبقوں کی معاشی برتری کے لئے جو اقدام کئے گئے اس کا ایک واقعہ بڑا ہی اہم ہے۔ آپ کی خلافت کے پانچویں برس یعنی ۱۸ھ؁ میں زبردست قحط پڑا۔ عرب بدوی قبائل نے فاقہ کشی سے مجبور ہوکر مدینہ کا رخ کیا۔ ایسے وقت میں خلیفہ وقت حضرت عمر ؓنے خلق خدا کو قحط سے بچانے کے لئے دن رات ایک کردیئے۔ قحط کے دوران زکوۃ کی وصولی موقوف کردی اور چوری کا ارتکاب کرنے والوں کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دینا بھی روک دی تھی ۔ آپ کا استدلال یہ تھا زمانہ قحط میں جو چوری کرے گا وہ بھوکوں مرنے سے بچنے کے لیے کرے گا اور جان بچانے کے لیے تو مردار کھانے کی بھی اجازت ہے۔
                آپ ؓ کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے اور وہاں کی آبادیوں نے اپنے مذہب پر رہ کر اطاعت قبول کرلی تو آپ نے ان کے بنیادی حقوق ، جان ومال ااور عزت آبرو کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی انہیں بھی مملکت اسلامیہ کا باعزت شہری بنادیا۔ آپ نے غیر مسلم رعایا کے بوڑھوں ، کمزوروں ، اپاہجوں اور ناداروں کی بیت المال سے مدد کی۔
                معاشی توازن کے سلسلہ میں آپ کا خیال تھا کہ تمام لوگ یکساں زندگی گزاریں۔ آپ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو آخری آدمی کو پہلے آدمی سے اور سب سے پست آدمی کو سب سے بلند آدمی سے ملا دوں گا۔ ‘‘ لیکن افسوس کہ آپ کی عمر نے وفا نہ کی ۔
                اب اگر آپ آج کی صورت حال پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ غربت کی بنیادی وجہ معاش کے مواقع کی کمی ہے۔ بیشتر لوگ بے روزگاری کے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ اسلام نے بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے محنت اور تجارت کی راہ دکھائی ہے۔ اور یہی وہ تجارت ہے جس کا راستہ دیکھنے کے بعد عرب جیسی قوم نے ترقی کی راہیں طے کیں۔ ہجرت کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین کی انصار سے مواخاۃ کرائی تو مہاجرین نے اپنی دولت کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ اپنے مہاجر بھائی کودینا چاہا ۔ اس وقت بہت سے مہاجر صحابہ کرام نے اپنے اس بھائی کا شکریہ ادا کیا اور ان سے بازار کا راستہ پوچھا اور تجارت کے لیے نکل پڑے۔ پھر انہوں وہ ترقی کی کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کے وارثین نے کلہاڑیوں سے کاٹ کر سونے تقسیم کئے۔ حالاں کہ ان کے وارثین کی تعداد بھی کوئی کم نہ تھی۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک شخص آیا اور دست سوال دراز کیا۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس نے کہا ایک چادر اور ایک پیالہ ۔ آپ نے اس کو منگوایا اور اسے بیچ کر ایک کلہاڑی خریدی اور کہا کہ جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور فروخت کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا کچھ دنوں بعد وہ شخص پھر آیا اب اس کی صورت حال بدلی ہوئی تھی۔
                حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو محنت اور وقت کی قدر وقیمت کی تعلیم دی ہے۔ اس کے باوجود آپ کی قوم بے روزگاری اور غربت کے مسائل سے دوچار ہے تو اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی آرام پسندی اور کاہلی ہے۔ ’’دنیا میں آج جتنے معاشی طور پر ترقی یافتہ اور امریکی ، یوروپی ممالک ہیں وہ چند صدیوں قبل غریب اور غیر ترقی یافتہ تھے ۔ جس قوم نے جب بھی تعلیم کے ساتھ غربت کے خلاف محنت کی وہ معاشی طورپر Economic Power بن کر دنیا پر چھائے رہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس قوم نے بھی جہاں غفلت کی اور سستی کاہلی عیش وآرام میں مبتلا ہوگئی اسی وقت سے ان کی معاشی انحطاط ، سیاسی زوال، عسکری وفوجی قوت کی پسپائی شروع ہوگئی۔ معاشی قوت کی تشکیل اسکا قیام اور اسکی توسیع وحفاظت کیلئے ہمیشہ سیاست دانوں، ماہرین معاشیات کے ساتھ پوری قوم کو بنیاد سے لیکر اعلیٰ سطحوں تک سخت محنت جدوجہد کرتے رہنا پڑتا ہے۔ جس دن اور لمحہ سے جس کسی قوم نے اس کا م کو ثانوی حیثیت دی اسی دن سے اس قوم کا معاشی زوال شروع ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (اسلام میں غربت اور اس کا علاج)
                آج مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ ان کے نوجوان سرکار ی ملازمتوں کے لیے اپنی عمر عزیز کے اکثر اوقات ضائع کردیتے ہیں۔ پھر سرکاری ملازمت کے لیے جس جانفشانی کی ضرورت ہے اس سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ اس طرح جب نامرادیاں ہاتھ آتی ہیں تو قسمت اور حکومت کو کوستے ہیں۔ حالاں کہ اگر وہ اپنی توانائی کو کام میں لا کر اپنی طبیعت کی مناسبت سے کوئی تجارت کرلیتے تو انہیں معاشی استحکام بھی حاصل ہوتا اور بے روزگاری کی لعنت سے بھی بچ جاتے ۔ سرکاری ملازمتیں کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ لیکن آج جب ان کے لیے مسابقتیں بہت بڑھ گئیں ہیں ، ہر شخص اس کا اہل نہیں ہوسکتا ، اس کے لیے معاشی حالت کا بھی اہم رول ہوتا ہے ۔ اس لیے ایسے شخص کو جو سرکاری ملازمتوں کا حصول چاہتا ہے اپنی علمی لیاقت اور گھر کی معاشی صورت کا اندازہ کرکے اس میں قدم رکھنا چاہیے اور پھر اس کے لئے انتھک کوششیں کرنی چاہئیں۔ وگرنہ اپنی عمر عزیز ضائع کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ خود اللہ رب العزت قیامت کے دن پوچھے گا کہ تم نے اپنی عمر عزیز کہاں کھپائی۔
                اس سلسلہ میں باتیں بہت طویل ہوجائیں گی۔ مختصر یہ کہ غربت کے خاتمہ کے لیے آج زکوۃ کے اجتماعی نظام کی اشد ضرورت ہے۔ اور اسلامی عبادات کا نظام اجتماعیت کے بغیر نامکمل ہے۔ اجتماعی نظام کے بعد بے روزگاروں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ انجمن باہمی کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے اور رفتہ رفتہ بے روزگاروں کا انتخاب کرکے انہیں روزگار سے وابستہ کرنے کی صورت پر غور کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان اگر صرف زکوۃ کا اجتماعی نظم قائم کرلیں توپھر کسی سچر کمیٹی کی ذلت آمیز رپورٹ کی اشاعت کی نوبت نہیں آئے گی۔
                مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ پسماند گی کا جو تصور آج پایا جاتا ہے ہے اور اس کے لئے جو معیار متعین کیا گیا ہے اسلام اسے قبول نہیں کرتا ۔ آج ہمارے ملک میں پسماندگی کے تعین کے لئے جو پیمانہ طے کیا گیا ہے اس میں ذات پات کے نظام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسی بنیاد پر مراعات بھی دی جاتی ہیں تاہم معاشی وتعلیمی طورپر ترقی پانے کے باجود مراعات یافتہ طبقات سماجی طور پر عزت وشرف کا وہ مقام حاصل نہیں کرپاتے جو نام نہاد اعلی ذاتوں کی جاگیر سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی نظام میں حالات کے نتیجہ میں اگر کوئی فرد یا طبقہ معاشی یا تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کا شکارہوجائے تو اسلام اسے ترقی کے تمام وسائل مہیا کرتا ہے تاکہ پسماندگی کا عیب اس سے ختم ہوجائے۔ آزادی کے ساتھ ترقی کرنے اور آگے بڑھتے رہنے کے سارے مواقع اسے حاصل ہوجائیں۔ اسے ہر طرح سے اپنی زندگی محفوظ محسوس ہو ۔ وہ بھی عام لوگوں کی طرح خود داری کی زندگی جئے اور حکومت یا دوسری کی ہمدردی کا محتاج اور دست نگر نہ رہے۔اسلام میں پسماندگی ومحرومی اور مفلسی کا زندگی گزارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور اس نے پسماندہ طبقات کو جو حقوق دیئے ہیں گرچہ ان کا حاصل کرنے والا ذلیل نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کے حصول پر انحصار کرنا بھی کوئی محمود عمل نہیں ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ ہر شخص دوسروں کی امداد سے بے نیاز رہے اور مفلسی کا جڑ سے خاتمہ ہوجائے۔ رسول اکرم ﷺ نے المؤمن القوی خیر من المؤمن الضعیف (قوی ’’یعنی دوسروں سے بے نیاز‘‘کمزور مومن سے بہتر ہے) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے : الید العلیٰی خیر من ید السفلٰی یعنی دینے ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں