بدھ، 27 نومبر، 2013

Dahshat Gardi aur Musalman

دہشت گردی اور مسلمان
                ملک کی آزادی کی خاطر مسلمانوں نے جو قربانیاں پیش کی ہیں تاریخ انہیں بھلانہیں سکتی ۔ لیکن حصول آزادی کے ساتھ ہی ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا اس انہیں نے آزادی کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کے آزادی حاصل کی تھی لیکن وہ نہ صرف اس کی نعمتوں سے محروم رہے بلکہ ان کے سامنے اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا۔ انہیں اس طرح مسائل میں الجھا یا گیا کہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہی نہیں ہوسکے او رآزادی کے ۶۵ سال بعد بھی نہ صرف یہ کہ ان کے مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔ آغاز سے ہی انہیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں سر فہرست ان کے وجود وبقا اور تشخص کا مسئلہ تھا۔ آزادی کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یکطرفہ طور پر اس کا سارا نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑا، وہی قتل ہوئے ، املاک بھی انہیں کی تباہ ہوئی اور جیل کی سلاخوں کے اندر بھی انہیں ہی ڈالاگیا۔ فرقہ پرست طاقتوں نے فسادات کے ذریعہ نہ صرف ان کی اقتصادی ومعاشی کمر توڑ دی اور انہیں سماجی، سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں آگے بڑھنے سے روکا بلکہ ملک کے تئیں ان کی وفاداری  کو بھی مشکوک قرارد دے دیا گیا اور اس طرح وہ اپنے ہی ملک میں بے دست وپا بنا دئے گئے۔ 
                ہندوستان کا آئین اپنے تمام شہریوں کو مساوات کا حق عطا کرتا ہے اور یکساں حقوق فراہم کرتا ہے۔ ۔ کسی کے ساتھ مذہب ، نسل، زبان اور ذات برادری کے کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق روا نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا رویہ اختیار کیا گیا اور ہر سطح پر اس بات کی منظم کوشش کی گئی کہ وہ خود اپنے ہی ملک میں دوسرے درجہ کے شہری بن کر جینے پر مجبور ہوجائیں ۔ جب جب مسلمانوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی انہیں اس طرح مسائل میں الجھایا گیا کہ ان کے قدم وہیں رک گئے اور آج صورت حال یہ ہے کہ خود حکومت کے قائم کردہ کمیشن کے مطابق ان کی مجموعی صورت حال دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ 
                جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا کہ فرقہ پرستوں نے ملک کے تئیں مسلمانوں کی وفاداری کو آغاز سے ہی مشکوک قراردینے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہر چند کہ مسلمان ہمیشہ ہی وفاداری کے اضافی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں اس کے باوجود اب بھی انہیں ملک مخالف ثابت کرنے کی کوششیں نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میںتیزی آگئی ہے۔ 
                اس وقت مسلمانوں کو دہشت گردی کے نام پر گھیرنے کی سازش زوروں پر ہے۔ جس طرح عالمی سطح پر امریکہ نے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اسلامی دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرکے مسلمانوں کا خون حلال کرلیا ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں بھی اس مقصد سے وہی کھیل شروع کردیا گیااور اس کی آڑ میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر نام نہاد امریکی دہشت گردی کے خاتمہ کی امریکی پالیسی کا مقصد در اصل دنیا بھر میں ہونے والی مسلم بیداری کو کچلنا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اشتراکی نظام کی ناکامی اور اس کے زوال کے بعد امریکہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ اسلام ہے ۔ دنیا پر استعماری نظام قائم کرنے کی راہ میں امریکہ کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ اسلام ہی ہے اس لئے اسے دبانے کی کوششوں کے سلسلہ کی کڑی کے طور پر اسلامی دہشت گردی کا مفروضہ تیار کیا گیا ہے۔ اسے ثابت کرنے کے لئے اسلام دشمن طاقتیں خود ہی دہشت گردانہ کا رروائیاں انجام دیتی ہیں او راس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیتی ہیں۔ 
                جہاں تک ہندستان کا سوال ہے یہاں کی معاشرت میں ایک طویل مدت سے برہمنوں کی بالادستی رہی ہے ۔ انہوں نے خود اپنے ہی ہم مذہبوں کو ہزارہا سال تک اپنا غلام بناکر رکھا ۔ لیکن جب ان کے ہم مذہبوں میں یہ احساس بیدار ہونے لگا کہ مٹھی بھر برہمنوں نے دھوکہ دے کر انہین اپنا غلام بنا رکھا ہے اور ان کے خلاف عام ہندوؤں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی تو انہیں اپنی اس حیثیت پر خطرات کے بادل منڈلائے محسوس ہوئے۔ چنانچہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کا رخ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے مسلمانوں کی طرف پھیردیا۔ اور عام ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایسی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ان کی توجہ برہمن مظالم سے ہٹ کر مسلمانوں پر مرکوز ہوگئی۔ چنانچہ جس مقصد کی خاطر امریکہ نے اسلامی دہشت گردی کا مفروضہ تیار کیا وہ یہاں کے برہمن وادی مظالم کی بقا کے لئے بھی مناسب تھا۔ اسی لئے عالمی پیمانہ پر امریکہ کے ذریعہ چھیڑی گئی دہشت گردی مخالف مہم مں ہمارا ملک بھی شامل ہوگیا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام اصلاحی تحریکات کے باوجود ملک کے سیاسی نظام میں برہمنوں کے عمل دخل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس لئے یہ بات طے ہے کہ ملک بھر میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے پس پردہ ایک منظم اور منصوبہ بند سازش کام کررہی ہے۔ 
                اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دہشت گردانہ واقعات کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ ایک بار پھر تیز ہوگیا ہے۔ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ چنئی ممبئی، دربھنگہ، حیدرآباد، بنگلور اور دہلی سے ہوتے ہوئے سعودی عرب تک جا پہنچا ہے۔ ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد بلا سوچے سمجھے اوربغیر کسی ثبوت کے کسی نام نہاد مسلم تنظیم کے سر اس کی ذمہ داری تھوپ دی جاتی ہے اور پھر مسلم نوجوانوں کی دھر پکڑ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اس کے لئے پہلے کسی خاص علاقہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ملک کی ساری خفیہ ایجنسیاں اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور جسے چاہتی ہیں اس نام پر پکڑ کر لے جاتی ہیں اور پولیس ریمانڈ میں اذیت رسانی کے ذریعہ اس سے اعتراف گناہ کراتی ہیں۔ اس کے باوجود اگر ناکامی ہاتھ آتی ہے تو ماخوذ نوجوان کو زیر حراست قتل کرکے ہمیشہ کے لئے اس باب کو بند کردیا جاتا ہے جیسا کہ حالیہ دنوں میں قتیل صدیقی اور اس سے قبل فیض عثمانی کے زیر حراست بہیمانہ قتل سے واضح ہے۔ 
                بہارکے درجن بھر سے زائد مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے اپنا رخ ایک بار پھر جنوبی ہند کی طرف کرلیا ہے۔ (حالانکہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اب اس علاقہ کو چھوڑ دیا گیا ہے) عموما اب تک ہونے والی گرفتاریاں کسی بم دھماکہ یا دہشت گردانہ واقعہ پیش آنے کے بعد انجام دی جاتی رہی ہیں لیکن گزشتہ دنوں کرناٹک ، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر سے جن نوجوانوں کو گرفتارکیا گیا ہے اور جن کی مجموعی تعداد ۱۸ ہے ان پر الزام ہے کہ وہ بڑے سیاست دانوں ، صحافیوں اور مذہبی تنظیموں کے سربراہوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنارہے تھے۔ گرفتاریوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ عموما اعلی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہی گرفتار کئے جاتے ہیں۔ حالیہ گرفتار شدگان میں صحافی، ڈاکٹر اور سائنس داں بھی شامل ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سازش کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ یہ ملک کے خلاف مسلم نوجوانوں کی سازش نہیں ہے بلکہ مسلم نوجوانوں کے خلاف ملک کی پولیس کی سازش ہے جو اب کھل کر سامنے آرہی ہے۔ 
                در اصل یہ سارا کھیل مسلمانوں کا کردار مشکوک کرنے ، اکثریتی طبقہ کو ان کے خلاف بھڑکانے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بن کر جینے پر مجبور کرنے کے لئے کھیلا جارہا ہے ۔ دہشت گردی کے نام پر جس طرح ایک جانب خوف کا ماحول قائم کرنے اور دوسری جانب ملک کے ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہ بے حد تشویش ناک ہے ۔ خفیہ ایجنسیاں میڈیا کے تعاون سے ملکی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہیں کہ ملک ہر وقت دہشت گردانہ حملوں کی زد میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر چھ ماہ میں کہیں ایک دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو سال بھر اس کے نام پر ایک خاص فرقہ کے نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت اور اس کے خفیہ محکموں کو واقعی دہشت گردانہ واقعات کے انسداد سے دلچسپی ہوتی تو ان کی تفتیش کا رخ کسی ایک فرقہ کی طرف نہ ہوتا۔ آنجہانی ہیمنت کرکرے نے جب حقیقی دہشت گردوں تک پہنچنے کی سمت میں اقدام کیا تو انہیں اپنی جان گنوانی پڑی اور پھر اس سلسلہ میں تفتیش کی رفتار نہ صرف دھیمی ہوگئی بلکہ پھر ساری توجہ نام نہاد مسلم دہشت گردی کے خاتمہ پر مرکوز ہوگئی۔ ملک میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات میں کون سی طاقتیں ملوث ہیں اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے باوجود انہیں ہی سب سے بڑ امحب وطن سمجھا جاتا ہے۔ مختلف بم دھماکوں میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ملوث ہونے کے پختہ ثبوت اور شواہد کے باوجود خفیہ ایجنسیوں کی تمام تر دلچسپی مسلم نوجوانوں کی دھر پکڑ اور انہیں قتل کرنے میں ہے۔ در اصل مذکورہ دہشت گردوں کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع شروع سے ہی دیا جاتا رہا ہے۔ ورنہ اگر آغاز میں ہی اس پر روک لگانے کی کوشش کی جاتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ 
                سوال یہ ہے کہ آخر پختہ ثبوت وشواہد کے باوجود حکومت حقیقی دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کیوں نہیں کرتی؟ جواب یہ ہے کہ جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا کہ یہ سارا کھیل مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری شہری بن کر جینے پر مجبور کرنے کے لئے کھیلا جارہا ہے ۔ یہ تماشا انہیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے اور آئینی حقوق کے حصول سے محروم کرنے اور سیاسی ، سماجی واقتصادی طور پر پسماندہ بناکر رکھنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ 
                لہٰذا اس سازش کو سمجھنا اور اس کے تدارک کی کوشش کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس سازش کو نہیں سمجھا اور اس کے تدارک کی کوشش نہیں کی تو مستقبل بہت بھیانک ہوگا۔ یہ لڑائی ہم سب کو مل کر لڑنی ہے اور ہر سطح پر لڑنی ہے۔ جو لوگ گرفتار کیے گئے ہیں وہ اس وقت تک مجرم نہیں ہیں جب تک ان کا جرم ثابت نہیں ہوجاتا اور وہ اس وقت تک ہماری ہمدردیوں اور تعاون کے مستحق ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ عدالتوں سے باعزت بری ہوں گے کیونکہ اب تک سیکڑوں نوجوان عدالتوں سے باعزت بری ہوچکے ہیں۔ اس شمارہ میں ہم بعض ان مقدمات کا ذکر کررہے ہیں جن میں پولیس نے بڑے دعوے کے ساتھ مسلم نوجوانوں پر ملک سے غداری کا الزام لگایا لیکن عدالت میں وہ اس الزام کو ثابت نہ کرسکی۔ آئندہ قسطوں میں دہشت گردی سے متعلق دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی۔ آئیے بعض ان واقعات پر نظر ڈالتے ہیں جن میں عدالت نے پولیس کے ذریعہ قائم مقدمات کو خارج کردیا۔ 
                دہشت گردی ایک ایسا ہتھیار ہے جسے حکومیتں اور خفیہ ایجنسیاں حسب ضرورت اپنے مفاد میں استعمال کرتی رہتی ہیں۔ کئی بار مرکز اور ریاستوں میں اہم مسائل سے عوام کا رخ پھیرنے کے لئے دہشت گردی کا کھیل کھیلا گیا۔ حکومتوں کو جب ھی اپنا وجود خطرہ میں نظر آیا اور اس پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے عین اسی زمانے میں یا تو کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوا یا اس نام پر انکاؤنٹر اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ یہ سلسلہ گجرات سے شروع ہوا تھا اور ابھی کرناٹک میں ہونے والی گرفتاریاں بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ ان پر اہم سیاسی شخصیات اور تنصیبات پر حملہ کی سازش کا الزام لگا یا گیا ہے ۔ کرناٹک پولیس کا یہ وہی طرز عمل ہے جو ماضی میں گجرات پولیس کا رہاہے ۔ 
                گجرات فسادات کے بعد مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور انہیں فسادیوں کے خلاف کھڑے ہونے سے روکنے کے لئے پولیس نے مسلم نوجوانوں پر بے بنیاد الزامات لگا کر بے تحاشہ گرفتاریاں کیں اور ان کے خلاف پوٹا سمیت تعزیرات ہند کی متعدد سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے۔ ان پر گجرات فساد میں مارے گئے مسلمانوں کا انتقام لینے کی خاطر مودی سمیت اہم رہنماؤں کے قتل کی سازش کا الزام لگایا گیا۔ ان پر پاکستان میں تربیت حاصل کرنے کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں کا ممبر بھی بتایا گیا۔ گجرات اے ٹی ایس نے اپنے دعوی کو مستحکم بنانے کے لئے انکاؤنٹروں کا سلسلہ بھی شروع کردیا تاکہ لوگوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ یہ واقعی دہشت گرد تھے۔ اب مذکورہ انکاؤنٹر وں کی حقیقت سامنے آچکی ہے اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے نتیجہ میں ۲۰۰۲ سے اب تک ہونے والے تمام انکاؤنٹروں کی تحقیق کی جارہی ہے۔ 
                ۳۰ ستمبر ۲۰۰۲ میں درج ایف آئی آر کے مطابق اس وقت کے پولیس سربراہ کے آر کوشک کو خفیہ اطلاع ملی کہ سمیر خان پٹھان جو مبینہ طور پر لشکر طیبہ کا دہشت گرد ہے اور ایک کانسٹبل کے قتل کے معاملہ کا ملزم ہے ممبئی سے گجرات آرہا ہے اور اس کا رادہ نریندر مودی اور دیگر بی بے پی لیڈران جیسے ایل کے اڈوانی اور پروین توگڑیا وغیرہ کو قتل کرنے کا ہے۔ کوشک نے یہ اطلاع جوائنٹ پولیس کمشنر پی پی پانڈے کو پہنچائی جنہوں نے ونجارا کو یہ جانچ کرنے کی ہدایت دی کہ سمیر خان کا تعلق اکھشر دھام پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ سے ہے یا نہیں؟ 
                خان کو ۲۷ ستمبر کو گرفتار کیا گیا جسے عدالت نے ۱۴ دن کے پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا۔ اس کے بعد اسے عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔ اسے پھر ٹرانسفر وارنٹ پر کا نسٹبل وشنو قتل معاملہ میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ۳۱ اکتوبر کو رات کے ایک بجے اسے اس مقام پر لے جایا گیا جہاں وشنو کا قتل ہوا تھا۔ پولس کے بیان لے مطابق سمیر نے پولیس سب انسپکٹر واگھیلا کا ریوالور چھین لیا اور فرار ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ 
                عدالت میں پولیس نے دیگر ۱۲ ملزموں کوپیش کیا جن پر سمیر کو نواب خان کے نام سے نقلی پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے میں مدد کرنے کا الزام تھا۔ پولیس کے مطابق سمیر ۱۳ جنوری ۱۹۹۸ کو پاکستان گیا تھا جبکہ پاسپورٹ افسر نے عدالت کو بتایا کہ نواب خان کے نام پاسپورٹ ۲۷ مارچ ۹۸ کو جاری ہوا۔ گویا سمیر کے پاکستان کے سفر کے تقریبا ڈھائی ماہ بعد ۔زیریں عدالت نے چارج فریم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مقدمہ خارج کردیا۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے گجرات ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ۔ ہائی کورٹ نے بھی کہا کہ پولیس کے ذریعہ بتائی گئی تاریخ پر سمیر کے پاکستان جانے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ سمیر کے پاس سے کسی قسم کا ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔ 
                بم نصب کرنے کی سازش: گودھرا سانحہ کے بعد پولیس نے چھ عمارتوں میں بم نصب کرنے کی سازش کرنے کے الزام میں چھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق گودھرا سانحہ کے بعد گجرات میں فساد پھوٹ پڑنے کے نتیجہ میں مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہوا۔ اس کا انتقام لینے کے لئے پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں لشکر طبیہ اور جیش محمد وغیرہ نے مسلم نوجوانوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں بی جے پی ، وی ایچ پی کے اعلی رہنماؤں کو نشنانہ بنانے اور ا ہم تجارتی تنصیبات سمیت عبادت گاہوں میں بم دھماکوں کے لئے تیار کیا۔ اس کے نتیجہ میں اکشر دھام پر حملہ اور سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈے کا قتل ہوا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ایک ملزم نے ۲۷ مئی ۰۵ کو اپنے یوم پیدائش پر مسجد میں داخل ہوکر فسادات میں مسلمانوں کو ہونے والے جانی ومالی نقصانات کو سوچ کر چلاناشروع کردیا۔ وہاں اس کی ملاقات زاہد عرف ابو طلحہ نامی شخص سے ہوئی جس کا تعلق ریاض سے ہے اور وہ جیش محمد اور آئی ایس آئی کا ممبر ہے۔ ریاض نے اسے انتقام لینے پر آمادہ کیا اور پیسہ اور ہتھیار فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ 
                اس مقدمہ میں جج نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آئی او نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ زاہد عرف ابو طلحہ کے بارے میں کوئی تفتیش نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔ جج نے مزید کہا کہ ملزمین کے قبضہ سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا اور سازش کی تھیوری محض بکواس ہے۔ عدالت نے تمام ملزمین کو بری کردیا۔ زاہد عرف ابوطلحہ کا نام بعض دیگر مقدمات میں بھی سامنے آیا ہے لیکن اس کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک فرضی کردار ہے جس کا نام محض مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ 
                ایک دیگر مقدمہ میں پولیس نے چار نوجوان کو سازش رچنے اور بم دھماکہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ یہ چار وں ملزمین وہی ہیں جو مذکورہ بالا مقدمہ کے ملزمین تھے۔ فرق یہ ہے کہ اس مقدمہ کے دو ملزمین کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ سابقہ مقدمہ کی طرح اس میں بھی اے ٹی ایس نے الزام لگایا کہ یہ لوگ گجرات فساد کا انتقام لینے کی غرض سے مختلف عمارات میں بم دھماکوں کی سازش کررہے تھے اور انہوں نے نہرو نگرکراس روڈ پر دھماکہ بھی کیا۔ مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 
                اس مقدمہ میں سیشن کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ملزمین کے قبضہ سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ مقدمہ کے اہم گواہ جو اس کے آئی او ہیں اور جنہوں نے اے ٹی ایس کے انسپکٹر اور ڈی ایس پی کی حیثیت میں خدمات انجام دی ہیں ، متضاد بیانات دئے ہیں۔ سیشن کورٹ نے تمام ملزمین کو بری کردیا۔ 
                مزید ایک مقدمہ میں چھ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس مقدمہ کے ایف آئی آر میں بھی گجرات فساد کے انتقام والی کہانی دہرائی گئی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزمین پاکستانی دہشت گرد حوجی اور لشکر طیبہ کے رابطہ میںرہے اور انہوں نے آئی ایس آئی کے لئے کام کیا ہے۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ایک پاکستانی اعظم چینا عرف بابا سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کی نیز اسلحوں کے علاوہ حوالہ کے ذریعہ ایک لاکھ روپے بھی حاصل کئے تاکہ کچھ اور نوجوانوں کو جہادی تربیت کے لئے پاکستان بھیجا جائے۔ لوگ تہران کے راستہ پاکستان گئے ۔ ان پر آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے دفاتر کو نشانہ بنانے نیز گجرات کنڈلہ پائپ لانے ، سومناتھ مندر اور سابر متی اکسپریس ریلوے اوور برج کو دھماکوں سے اڑانے کی سازش کا الزام لگایا گیا۔ 
                سیشن عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ مذکورہ مقامات پر دھماکہ کرنے کی سازش کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پایا گیا جبکہ بعض ملزمین پہلے ہی دلی میں گرفتار ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف نئی دہلی میں مقدمہ چل رہا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں انتقام کی تھیوری کو بالکل فرضی اور تصوراتی قراردیا ۔ تمام ملزمین رہا کردئے گئے۔ 
                                               

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں