بدھ، 27 نومبر، 2013

کیا عدالت عظمی کا فیصلہ حکومت کے مردہ ضمیر کو بیدار کرپائے گا؟

کیا عدالت عظمی کا فیصلہ حکومت کے مردہ ضمیر کو بیدار کرپائے گا؟
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ آزادی کے بعد سے ہی جارہی ہے۔ کہنے کو تو یہاں آئین کی حکمرانی ہے جو بلا تفریق مذہب وملت تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے اور مذہب ، نسل، علاقہ، ذات یا زبان کی بنیا پر کسی بھی تفریق کی اجازت نہیں دیتا لیکن عملا مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ ہی امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور منظم انداز میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ وہ ملک میں دوسرے درجہ کے شہری بن کر جینے کو مجبور ہوجائیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے حکومت اور فرقہ پرست طاقتوں نے مختلف اوقات میں مختلف حربے استعمال کیے۔
                گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ مذکورہ بالا مقدمات کے حصول کے لئے دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوںکو بطور خاص ہونہار ، ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کسی ثبوت کے بغیر محض شبہہ کی بنیاد پر بلکہ بیشتر اس کے بغیر بھی ان پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا غلط الزام لگا کر داخل زنداں کردیا جاتا ہے اور جب وہ ایک عرصہ تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد عدالتوں سے با عزت بری کئے جاتے ہیں تو نہ صرف ان کی زندگی کا قیمتی عرصہ برباد ہوچکا ہوتا ہے بلکہ ان کا خاندان تباہ ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس مذموم سازش میں سب سے اہم رول گجرات حکومت کا رہا ہے۔ ۱۹۹۴ اور اس کے بعد کے برسوں میں گجرات سمیت اتر پردیش ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر اور دیگر کئی ریاستوں میں بدنام زمانہ ٹاڈا کے تحت ہزاروں نوجوانوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پھر ۲۰۰۲ میں گجرات میں ہونے والی مسلم کشی کے بعد اس سلسلہ میں مزید تیزی آگئی اور دہشت گردی کے نام پر گرفتاریوں کے علاوہ انکاؤنٹروں کا سلسلہ بھی چل پڑا۔ اب انکاؤنٹروں کی حقیقت سامنے آچکی ہے۔ ساتھ ہی بہت سے معاملات میں ماخوذ نوجوانوں کی باعزت رہائی بھی ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود گرفتاریوں کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آرہا ہے۔ بلکہ اس کا سلسلہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ گرفتار شدگان پر مختلف ریاستوں میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات انجام دینے کا الزام لگایا جاتا ہے تاکہ ایک جگہ سے رہائی مل بھی جائے تو پھر انہیں دوسری ریاستوں کے چکر کاٹنے پڑیں اور اس طرح مختلف عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے ان کی زندگی ہی تباہ ہوجائے ۔ ایک ایک شخص پر تیس ، چالیس اور پچاس مقدامت تک کئے جاتے ہیں ۔
                ابتداسے ہی مسلمانوں اور ملک کے حالات پر نظر رکھنے والے انصاف پسند غیر مسلموں کا اس بات پر اصراف رہا ہے کہ ٹاڈا اور پوٹا کا مسلمانوں کے خلاف غلط اور اندھا دھند استعمال کیا گیا۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ دہشت گردی کے نام پر ہونے والی گرفتاریاں اور انکاؤنٹر بھی فرضی ہیں اور ان کامقصد مسلمانوں کو بدنام اور برباد کرنا ہے۔ عدالتوں سے ماخوذ مسلم نوجوانوں کی باعزت رہائی ان کے اس خیال کو تقویت فراہم کرتی ہے۔ حال ہی میں عدالت عظمیٰ کے ذریعہ ۱۱ ؍ مسلم نوجوانوں کے بری کئے جانے اور گرفتاریوں کے تعلق سے فاضل ججوں کا تبصرہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ۱۹۹۴ میں ہندوؤں کی ایک مذہبی تقریب میں تشدد کے لیے منصوبہ بندی کے الزام میں ان نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور ان پر ٹاڈا کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ اس مبینہ منصوبہ بندی کے لیے احمد آباد کی ٹاڈا عدالت نے انہیں پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ لیکن گجرات حکومت کو اس سزا سے تشفی نہیں ہوئی اور اس نے انہیں مزید سزا دلانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی جبکہ بعض ملزمان نے بھی اس سزا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجس کے نتیجے سپریم کورٹ نے ان ملزمان پر ٹاڈا کے تحت مقدمہ کو غلط قرار دیا اور پولیس کے ذریعہ لگائے گئے الزامات سے انہیں بری کرتے ہوئے حکومت گجرات کی اپیل کو بھی خارج کردیا۔ ملزمان کو بری کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ کسی خاص مذہب یا برادری کے لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے قانون کا بے جا استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔ عدالت نے کہا کہ سینٹر پولیس افسران اور حکام جنہیں قانون نافذ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے وہ قانون کو خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس کا گلظ استعمال نہ ہونے دیں۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرور تہے کہ کوئی معصوم شخص خود کو اس لیے مصیبت میں مبتلا محسوس نہ کرے کہ ’’ مائی نیم از خان بٹ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ‘‘
                سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے جہاں ایک طرف مذکورہ مقدمہ کے ماخوذین کو راحت نصیب ہوتی ہے ہے وہیں ان لوگوں کی آس بھی بڑھی ہے جو عرصہ سے قید وبند کی مشقتیں برداشت کررہے ہیں۔ ۱۸ سال بعد بے قصوروں کی رہائی نے عدالت میں بھروسہ اور مستحکم کردیا ہے اور مذکورہ فیصلہ کی حیثیت دیگر ملزمان کے لیے امید کی کرن کی ہے اور ہمیں بھی یقین ہے کہ اگر ہمت اور حوصلہ کے ساتھ عدالتی لڑائی لڑی جائے تو تمام بے قصور رہا ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ فیصلہ کا ہر طرف سے استقبال کیا جارہا ہے اور اس کی ستائش ہورہی ہے۔ عدالت عظمی نے مسلمانوں اور دیگر انصاف پسند شہریوں کے اس خیال پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ مسلمانوں کو ایسا کرنے کے لیے ان پر غلط مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کسی عدالت نے بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہاکرتے ہوئے پولیس کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ اس سلسلہ میں نئی دہلی کی دوارکا عدلات کے ایڈیشنل سیشن جج کا ریمارکس بھی قابل ذکر ہے جو انہوں نے پانچ سال تک قید وبند میں مبتلا سات نوجوانوں کو بری کرتے ہوئے اپنے مقدمہ میں درج کیا۔ ان نوجوانوں پر پولیس کا الزام تھا کہ وہ دہشت گردانہ کارروائی انجام دینے کے لیے گاڑی میں اتشیں اسلحہ اور گولہ بارود لے کر جارہے تھے ، جب پولیس نے خفیہ اطلاع کی بنیاد پر انہین گرفتار کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے پولیس پر گولیاں چلائیں ۔ فاضل جج نے اس پوری کہانی کو فرضی قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھاکہ’’ انکاؤنٹر کی پوری کہانی بڑی ہوشیاری کے ساتھ اسپیشل اسٹاف دہلی پولیس کے دفتر میں اس کے خاص مصنف سب انسپکٹر روندر تیاگی اور اس کے دیگر معاونین کے ذریعہ لکھی گئی۔‘‘
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بے قصور نوجوانوں کی رہائی عدالتوں میں پولیس کے ذریعہ پختہ شواہد پیش نہیں کرپانے کی وجہ سے عمل میں آتی ہے۔ لیکن ان فیصلوں کی تفصیلات پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ معاملہ صرف ثبوت کی عدم فراہمی کا نہیں ہے بلکہ پولیس کے ذریعہ بے بنیاد اور فرضی ثبوت بھی پیش کئے جاتے ہٰں اور ان کے ذریعہ عدلات کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ۱۴ برسوں تک ناکردہ گناہ کی سزا جھیلنے والے دہلی کے عامر کے خلاف پولیس نے جو ثبوت فراہم کرنئے ان میں ڈاکٹر، ڈائریاں جن میں دھماکہ خیز اشیا کی تفصیلات درج تھیں، پیدائش سرٹیفیکیٹ ، اسکول کیرکٹر سرٹیفیکیٹ ، شناختی کارڈ ، مارکس شیٹ شامل تھیں۔ جج نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص جو دہشت گردانہ حملہ کرنے جارہا ہے وہ شناختی کارڈ ، مارکس شیٹ اور پیدائش سرٹیفیکیٹ لے کر چلے گا؟ یہ تو ایک مثال ہے ورنہ ایسے متعدد واقعات موجود ہیں۔
بہر حال یہ بات اب شبہ سے بالاتر ہے کہ دہشت گردانہ واقعات میں پکڑے گئے مسلم نوجوان بے قصور ہیں۔ سیکڑوں مسلم نوجوانوں کی رہائی اور عدالتوں کے تبصروں نے اسے مزید واضح کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں پر اس فیصلہ کا کوئی اثر پڑے گا؟ کیا اب بے قصوروں کی گرفتاری تھم جائے گیاور کیا پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اندر جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے گا؟ ہماری آرزو ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گوداموں میں اناج غریبوں میں تقسیم کرنے کے لیے کہا تھا اور جب مرکزی وزیر زراعت شرد پوار سے اس سلسلہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ عدالت کا حکم نہیں مشورہ ہے۔ پھر جب عدالت نے کہا کہ یہ مشورہ نہیں حکم ہے تو شرد پوار نے بڑی صفائی سے کہہ دیا کہ حکومت اس حکم کی تعمیل کی اہلیت نہیں رکھتی ۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ تبصرہ سے حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کا مجرم ضمیر بیدار ہوجائے گا بڑی بھول ہوگی۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو عامر کو مزید چھ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں گزارنے پڑتے کیونکہ اسے دہلی ہائی کورٹ نے ۲۰۰۶ میں ہی بری کردیا تھا لیکن پولیس نے اس کے خلاف مزید چھ مقدمات درج کردئے اور اس طرح اس کی رہائی ۲۰۱۴ میں عمل میں آئی۔ دوارکا عدالت نے بھی اپنے فیصلہ میں رویندر تیاگی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف وزارت داخلہ کو تادیبی کارروائی کا حکم دیا تھا لیکن ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہو۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پولیس کی طرح غلطی کا اعتراف تک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ان افسران کے خلاف جنہیں عدالتوں نے زیر حراست اموات تک کے لیے ذمہ دار ٹھہرا یا ہے کارروائی کرنے بھی انکار کرتی ہے۔ دہلی کے پولیس کمشنر نیرج کمار ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آخر لوگوں کو اسپیشل سیل کی کامیابیاں کیوں نہیں نظر آتی ہیں جن میں پارلیامنٹ پر حملہ ، لال قلعہ میں ہونے والی گولہ باری اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
                اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے مظلومین کے لئے امید کا چراغ روشن ہوا ہے لیکن اگر ہم غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ حکومت یا س کی خفیہ ایجنسیاں اس سے سبق لیں گی تو اسے ہماری سادہ لوحی ہی کہا جائے گا ۔ لہٰذا ہمیں اپنی لڑائی جاری رکھنی ہوگی۔ جو لوگ ٹاڈا پوٹا کے تحت اب بھی قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں یا جنہیں بعد میں دہشت گردی کے نام پر گرفتار کیا گیا ہے اور ہنوز کیا جارہا ہے ان کے مقدمات مضبوطی سے لڑنے ہوں گے۔ رہائی پانے والوں کو معاوضہ دلانے اور خاطی پولیس افسران کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے بھی عدالت میں اپنی فریاد پر زوز انداز میں رکھنی ہوگی۔ بلا شبہ بعض تنظیمیں بے قصوروں کو بچانے کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہی ہیں لیکن اس کے درائرہ کو وسیع کرنا ہوگا۔ یہ بہت اہم کام ہے لیکن عام احساس یہ ہے کہ ہم اس معاملہ میں بہت پیچھے ہیں ۔ شاید ہم اچھے وکلا کی خدمات بھی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو  پاتا تو شاید بابری مسجد کا وہ فیصلہ نہیں آتا جو آیا۔ اس لئے اس محاذ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی مسلم وزرا اور ممبران پارلیامنٹ کو جو حکومت میں مسلمانوں کے نمائندہ کہلاتے ہیں (گرچہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں حکومت کے نمائندہ ہیں ) اس بات پر مجبور کرنا چاہیے کہ وہ حکومت پر مسلم مخالف اقدامات روکنے کے لیے دباؤ بنائیں ۔ اگر وہ اس کے لئے راضی نہیں ہوتے تو ہمیں ان پر واضح کردینا چاہیے کہ آئندہ انتخاب میں وہ ہم سے کسی خیر کی توقع نہ رکھیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں