بدھ، 22 جنوری، 2014

اب انڈین مجاہدین کے نشانہ پر اروند کیجریوال

اب انڈین مجاہدین کے نشانہ پر اروند کیجریوال
قتل جہاں کے واسطے تازہ پھر اک بہانہ کر

                آزادی وطن کی خاطر مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کا صلہ انہیں اس صورت میں دیا گیا کہ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی خود ان کی قربانی جائز قرار دے دی گئی ۔ ملک میں رونما ہونے والے ہزاروں فسادات میں جس طرح ان کی نسل کشی کی گئی اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا گیا آزادی کے متوالوں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ملک کی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں ، بیورو کریسی ، ذرائع ابلاغ سب نے منظم طور پر اس پالیسی پر عمل کیا کہ مسلمان اس ملک میں سر اٹھاکر جینے کے لائق نہ بن پائیں اور ان کے خلاف نفرت کی ایسی فضا ہموار کی جائے کہ وہ اچھوت بن کر رہ جائیں۔ اس پالیسی پر عمل کرنے کے لئے ہر وہ حربہ اختیار کیا گیا جس سے ایک جانب مسلمان اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے تئیں اندیشوں میں مبتلا رہیں تو دوسری جانب انہیں ملک دشمن بلکہ انسانیت دشمن کے آئینہ میں دیکھا جانے لگے ۔ لہٰذا ابتدا سے ہی ہر قسم کی ملک مخالف سرگرمی کے لئے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا اور ان کی وفاداریاں پاکستان سے منسوب کی جانے لگیں ۔ حالانکہ اس الزام سے بچنے کے لئے وہ ملک کے تئیں اپنی وفاداری کے اضافی ثبوت بھی پیش کرتے رہے لیکن صورت حال میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان کی شبیہ بگاڑنے کی کوششیں تیز تر ہوگئیں ۔ ملک میں رونما ہونے والے ہر دہشت گردانہ واقعہ کے پیچھے مسلمان نظر آنے لگا اور اس کا تعلق پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑنے کا سلسلہ چل پڑا۔ ایک عرصہ تک دہشت گردانہ واقعات انجام دینے کے لئے” لشکر توئبہ“اور ہوجی جیسی تنظیموں کو ذمہ دار قرار دینے کے بعد اب ہماری حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے انڈین مجاہدین کے نام سے اس کا ہندوستانی ایڈیشن تیار کر لیا ہے ۔ چنانچہ اب ایسے تمام واقعات کی انجام دہی کے لئے اسی کومورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔اس فرضی تنظیم سے وابستگی کے نام پر اب نہ جانے کتنے بے قصور نوجوانوں کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑ چکا ہے اور ہزاروں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر انصاف پسند افراد اور تنظیموں کے مسلسل مطالبے کے باوجود حکومت اور اس کی ایجنسیاں اس نام نہاد تنظیم کی اصلیت ثابت نہ کر سکیں لیکن اس کے نام پر مسلمانوں پر عتاب کا سلسلہ پورے شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ بیشتر دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے نام نہاد قوم پرستوں کا ہاتھ ہونے کے پختہ ثبوت کے باوجود پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں نے انہیں مکمل چھوٹ دے رکھی ہے اور ان کی تمام تر توجہات کا مرکز مسلم نوجوان ہیں ۔ چونکہ حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کو مکمل آزادی دے رکھی ہے اس لے وہ بے خوف ہوکر مسلمانوں کو اپنی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ ایک جانب ملک کے وزیر داخلہ مسلمانوں کو گرفتار کرنے میں محتاط رویہ اپنانے کی نصیحت فرمارہے ہیں تو دوسری جانب خفیہ ایجنسیاں نئے نئے شگوفے چھوڑ کر مسلمانوں کی گرفتاریوں کی راہ آسان بنا رہی ہیں ۔
                آج کل خفیہ ایجنسی انٹلی جنس بیورو انڈین مجاہدین کے حوالے سے نئے نئے انکشاف کرنے کا ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔یہ وہی آئی بی ہے جس کی اطلاع کے نتیجہ میں گجرات ، بٹلہ ہاؤس اور ملک کے مختلف حصوں میں فرضی انکاؤنٹروں کی کارروائیاں عمل میں آچکی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ چار ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخاب سے قبل آئی بی کے ذریعہ مسلسل یہ الرٹ جاری کیا جاتا رہا کہ مودی کی جان کو انڈین مجاہدین سے خطرہ ہے ۔ آئی بی کا کمال یہ ہے کہ وہ معمولی دھماکوں کے ذریعہ اپنی بات کی تصدیق بھی کرالیتی ہے جس کا واضح ثبوت پٹنہ ریلی میں ہونے والا دھماکہ ہے جس سے مودی نے خطاب کیا تھا۔ اس دھماکہ کی بنیاد پر بہار سے لے کر جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ تک مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن لکھی سرائے سے گرفتار ہندؤں کو جن کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے پیسے پہنچانے کے پختہ ثبوت ملے ،دہشت گردی کا ملزم نہیں بنایا گیا ۔ راہل گاندھی نے اسی آئی بی کے حوالہ سے یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں مظفر نگر کے فساد زدہ نوجوانوں سے رابطہ میں ہیں اور ہریانہ سے دو ائمہ مساجد کو گرفتار کرکے اس کی توثیق بھی کر دی گئی ۔ اب آئی بی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے ۔ اس کے مطابق انڈین مجاہدین دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو اغوا کر سکتا ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم اپنے سرغنہ یٰسین بھٹکل کو چھڑانے کے لئے اغوا کی سازش کر رہا ہے ۔ گویا آئی بی نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ انڈین مجاہدین کے عفریت کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے۔ کیجریوال نے آئی بی کے اس الرٹ کے بعد سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس یا تو بےوقوف ہے یا پھر سیاست کر رہی ہے ۔انہوں نے ٹویٹ کیا کہ پولیس نے انہیں اس کی اطلاع دیتے ہوئے تاکید کی کہ وہ میڈیا کو اس کے بارے میں نہ بتائیں جب کہ خود ہی سب کچھ بتا دیا ۔ کوئی بھی حملہ کرے گا تو بھٹکل کا ہی نام آئے گا ۔ کیجریوال نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں کسی سے ڈر نہیں ہے ۔ کیجریوال کا رد عمل کچھ بھی ہو اور انہیں اپنی جان کا خوف ہو یا نہ ہو آئی بی اور پولیس کی سابقہ کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں ضرور یہ خوف ہے کہ اب کیجریوال پر حملہ یقینی ہے اور اس کی پاداش میں پھر نہ جانے کتنے مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔
                ایک طرف حکومت مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ بہت سے معاملات میں مسلم نوجوانوں کو غلط ڈھنگ سے پھنسایا گیا ہے تو دوسری طرف اس نے خفیہ اور تفتیشی ایجنسیوں کو شب خون مارنے کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے ۔ یہ ایجنسیاں ایسے ایسے مضحکہ خیز دعوے اور حرکتیں کرتی ہیں کہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا انسان بھی اسے باسانی سمجھ سکتا ہے لیکن اس سے نہ حکومت کی صحت پر اثر پڑتا ہے نہ ہی میڈیا کی جانب سے کوئی سوال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جب مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بات ہو تو یہی میڈیا ایسی ایسی گل افشانیاں کرتاہے کہ خدا کی پناہ اورمسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے ساتھ ہی اپنے ٹرائل کے ذریعہ فوراً ملزم کو مجرم ثابت کر دیتا ہے۔ چند ہفتہ قبل تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے یسین بھٹکل کے حوالہ سے یہ مضحکہ خیز انکشاف کیا کہ وہ گجرات کے سورت شہر پر نیوکلیر بموں سے حملہ کر نے والا تھا لیکن اس سے قبل ہی اس کی گرفتاری عمل میں آگئی ۔اس انکشاف کے بعد نہ حکومت نے اس کا کوئی نوٹس لیا اور نہ میڈیا نے ہی کوئی سوال پوچھا ۔ایسا لگا جیسے نیوکلیر بم کی بجائے غلیل کی بات کی گئی ہو ۔ اس انکشاف کا دوسرا مضحکہ خیز لیکن بے حد خطرناک پہلو یہ ہے کہ بھٹکل کے اس منصوبہ پر جب پاکستان میں موجود اس کے سرغنہ نے کہا کہ ایسے حملہ میں تو مسلمان بھی مارے جائیں گے تو ا س نے کہا کہ وہ مساجد میں اشتہار چسپاں کرکے ان سے کہے گا کہ وہ سب کے سب شہر چھوڑ کر چلے جائیں ۔ گویا بین السطور یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ تمام مسلمان بھٹکلی منصوبہ کی نہ صرف تائید کرنے والے ہیں بلکہ وہ اس کے معین و مددگار بھی ہیں اور مساجد و مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں ۔ اسی تناظرمیں کیجریوال کے اغوا یا ان پر حملہ کی بات کو بھی دیکھنا چاہئے حالانکہ کیجریوال کو واقعی خطرہ ہندو دہشت گردوں سے ہے جو ان کے کارکنان اور دفاتر پر مسلسل حملے کر رہے ہیں ۔
                مسلمان ایک عرصہ سے دہشت گردانہ حملوں کی مار جھیل رہے ہیں ۔ انہیں کی عبادت گاہوں پر حملہ ہوتا ہے ، وہی مارے جاتے ہیں اور انہیں ہی مورد الزام بھی ٹھہرایا جاتا ہے ۔ وہ انصاف کی دہائی دیتے ہیں لیکن انہیں جھوٹے دلاسوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ درحقیقت ہمارا پورا ملکی نظام فسطائیت کے نرغہ میں ہے ۔ فرقہ پرستی کے عفریت نے مقننہ سے لے کر انتظامیہ تک سب کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ایک شخص جو کل تک دھماکوں میں آر ایس ایس کارکنان کے ملوث پائے جانے کے پختہ ثبوت ہونے کا اعلان کرتا رہا آج خود آر ایس ایس کی گود میں جاکر بیٹھ گیا ہے اور اس کے پالیسی سازوں میں شامل ہوگیا ہے ۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز وہ لوگ جو سبک دوشی کے بعد فرقہ پرستوں کی پناہ گاہ میں داخل ہوجاتے ہیں برسر کار رہتے ہوئے انہوں نے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے ۔ یہ صورت حال نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کی سلامتی کے لئے بے حدتشویش ناک ہے اور اگر فسطائیت کے اس جن کو بوتل میں بند نہیں کیا گیا تو پورا ملک تباہ ہوجائے گا۔ کیا ملک کو فرقہ پرستی سے نجات دلانے کے جھوٹے دعوے داروں اور سیکولرزم کے نام نہاد علمبرداروں کے پاس اس کا کوئی علاج ہے ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں