بدھ، 4 دسمبر، 2013

مظفر نگر اورشا ملی - موت کا رقص بانداز دیگر جاری ہے

مظفر نگر اورشا ملی - موت کا رقص بانداز دیگر جاری ہے

            ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور ان فسادات میں یکطرفہ طور پر مسلمانوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کی پامالی ایک ایسی صداقت ہے جو کہیں بھی اور کبھی بھی ظاہر ہوسکتی ہے۔ آزادی کا سورج ہی فسادات کے مطلع سے طلوع ہوا اور اس کے بعد سے آج تک منظم انداز میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہورہے ہیں اور مسلمانوں کے سروں کی فصلیں کاٹی جارہی ہیں۔ ملک اور ریاست کی حکومتیں یا تو کھل کر فسادیوں کی سرپرستی کرتی ہیں یا مجرمانہ غفلت سے کام لیتے ہوئے پولس اور انتظامیہ میں موجود فرقہ پرست عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اگر فرقہ پرست مودی کی سرپرستی میں ہونے والے گجرات فساد کے زخم ابھی نہیں بھرے ہیں اور ان سے ٹیسیں اٹھ رہی ہیں تو سیکولر ملائم کے زیر سایہ مظفر نگر اور شاملی میں ہونے والے فسادات کے زخم بھی ہرے ہیں اور ناسور بنتے جارہے ہیں ۔
            یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ گذشتہ تمام فسادات کی طرح مظفر نگر اور شاملی کا فساد بھی منظم اور منصوبہ بند تھا۔ یوں بھی یہ سمجھ لینا کہ فسادات اچانک پھوٹ پڑتے ہیں اور ان میں محض جاہل ، اوباش ، اجڑ اور جرائم پیشہ افراد کا رول ہوتا ہے ، بڑی بھول ہوگی۔ آج تک جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ان کا تجزیہ بتاتا ہے کہ بہت پہلے سے ان کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور بڑے منظم انداز میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ مظفر نگر اور شاملی میں بھی یہی ہوا۔ فسادیوں نے پروگرام کے مطابق اپنا کام کرلیا ۔ مسلمان قتل ہوئے ، ان کی خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں ، ان کی املاک تباہ کی گئیں، ان کے گھر ڈھائے گئے اور وہ کسمپرسی کے عالم میں پناہ گزیں کیمپوں میں ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ان کیمپوںمیں بھی ان کی خواتین کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ بظاہر اب وہاں امن وامان ہے ، فساد کی آگ بجھ گئی ہے لیکن یہ پھر کسی وقت بھڑک سکتی ہے۔ فساد اس لیے رکا ہوا ہے کہ متاثرین اپنے گھروں میں نہیں ہیں۔ اگر وہ اپنے مکانوں اور جائداد کو دوبارہ حاصل کرنے جائیں تو فساد کے شعلے پھر بھڑک اٹھیں گے ۔ فساد متاثرین اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانا نہیں چاہتے ہیں اور شاید فسادیوں کی طرح حکومت کی بھی یہی منشا ہے کہ وہ وہاں واپس نہیں جائیں ۔ اس لیے انہیں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی ’سیکولر‘ حکومت اور اس کی انتظامیہ نے ان کے احسان کے بدلے ایک حلف نامہ پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کی رو سے کیمپوں میں رہنے والے خاندان پانچ پانچ لاکھ روپے لے کر اپنے گاؤوں اور گھروں کو لوٹنے کے حق سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہوجائیں گے۔ کسی سیکولر حکومت کے ذریعہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی اس سے گھناؤنی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
            لیکن ان مظلوموں کی داستان کرب وبلا یہیں ختم نہیں ہوتی ان پر ایک نئی افتاد آپڑی ہے۔ اگر وہ اپنے گاؤوں اور بستیوں میں فسادیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تو کیمپوں میں بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ان کیمپوں میں موت کا رقص برہنہ جاری ہے۔ جنہوں نے اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا اور اپنی خواتین کی عصمتیں تار تار ہوتے دیکھیں اب وہ اپنی آنکھوں سے اپنے ننھے منے معصوم بچوں کی موت دیکھ رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر پاروں کو دفن کر رہے ہیں۔ معاصر انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمس‘ (۳؍ دسمبر) کی رپورٹ کے مطابق شاملی سے ۱۸؍ کلو میٹر دور ملک پور کیمپ میں جہاں پناہ گزینوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ایک ماہ کے اندر ۲۸؍ اموات ہوچکی ہیں جن میں ۲۵؍ بچے شامل ہیں ، جن کی عمر ایک ماہ سے کم ہے۔ غلاظت اور کچڑوں کے درمیان پلاسٹک کے خیمے میں رہنے اور سرد رات میں بغیر کمبل کے پورے خاندان کے ساتھ سوکھی گھاس پر رات بسر کرنے والی مرشدہ خاتون کے ۲۰؍ دن کے بچے نے سردی کی تاب نہ لاکر اس کی بانہوں میں دم توڑ دیا۔ تب جاکر اسے ایک کمبل نصیب ہوا۔دیگر کیمپوں کی حالت بھی کم بد تر نہیں ہے۔ کھربن ، بدھیری خرد اور ہرنابی میں ۸؍ اموات ہوئیں جن میں ایک ماہ سے کم کے ۴؍ بچے شامل ہیں ۔ ایک مقامی سماجی کارکن کے مطابق ایک ماہ قبل ایک میڈیکل افسر نے اس کیمپ کا معائنہ کیا تھا ۔ اسی طرح مظفر نگر کے کیمپوںمیں بھی کم از کم ۱۶؍ اموات اطلاع ہے۔ افسوسناک بلکہ تشویشناک امر یہ ہے کہ حکام اس سے ناواقف ہیں۔ شاملی کے اے ڈی ایم پرتاپ سنگھ کو ان کیمپوں میں ہونے والی اموات کی اطلاع نہیں ہے۔ مظفر نگر کے اے ڈی ایم اندر منی ترپاٹھی ۱۱؍ اموات کی تصدیق کرتے ہیں جبکہ مظفر نگر کے چیف میڈیکل افسر ایس کے تیاگی کے مطابق ایک یا دو اموات ہوئی ہیں۔ اس پر مستزاد ان کا یہ دعوی کہ وہ کیمپوں میں طبی سہولیات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ صورت حال کا اس سے سنگین پہلو کیا ہوسکتا ہے کہ انتظامیہ اتنے بڑے معاملے سے بے خبر ہے یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر فسادیوں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی طریقہ کا اختیار کیا تو حکومت اور انتظامیہ خاموشی کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہے۔
            بات پھر وہیں پہنچتی ہے کہ یہ سب کچھ گجرات اور مدھیہ پردیش میں ہورہا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ فسطائی عناصر کو مسلمانوں سے ازلی دشمنی ہے۔ لیکن جب یہ سب خو د کو مسلمانوں کا مسیحا باور کرانے والے اور سیکولرزم کا علم بردار کہنے والے رہنما کی ریاست میں ہو تو اسے کیا کہا جائے۔اگر گجرات میں نامولود بچوں کو نیزوں پر اچھا لا گیا تو یوپی میں نومولود بچوں سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خود اتر پردیش حکومت نے ہی فساد کرایا ہے لیکن اگر یہ نہ بھی کہا جائے تو فساد شروع ہونے سے اب تک حکومت نے جس مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے، اس کی ذمہ داری سے وہ بچ نہیں سکتی۔ ملائم سنگھ نے سیاسی وانتظامی طور پر اپنے انتہائی نا تجربہ کار بیٹے کو اقتدار کی باگ ڈور تھما دی اور اس کی نا اہلی کی سزا مسلمان بھگت رہے ہیں۔ ملائم سنگھ فرقہ واریت کے ناگ کچلنے کے لاکھ دعوے کریں ، حقیقت یہ ہے کہ ان کی ریاست میں فرقہ واریت کو پنپنے کا بھر پور موقع مل رہا ہے جو خود ان کی سیاسی صحت کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ اگر وہ فرقہ پرستی کو نہ پنپنے دینے کے اپنے دعوے میں سچے ہوتے تو ان کی ریاست میں بر سر عام لاشوں کی سیاست کرنے والوں کی عزت افزائی نہیں ہوتی اور اگر ان کی انتظامیہ کی نیت صاف ہوتی تو فسادیوں پر سے این ایس اے نہیں ہٹایا جاتا اور وہ آہنی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے ملائم سنگھ پر اعتبار کر کے شدید دھوکہ کھایا ہے۔
            اس قت ہمارا ملک بے حد کٹھن دور سے گزر رہا ہے ۔ فرقہ پرستانہ رجحانات تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ وطن پرستی کے نام پر جارحانہ فرقہ پرستی اور اقلیت دشمنی کا بازار گرم ہے۔ جبکہ سیکولرزم کی قسمیں کھانے والی سیاسی جماعتوں کے اندر فرقہ پرست عناصر کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی جرأت وجسارت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ جماعتیں محض اپنے مفاد کے حصول کے لیے سیکولرزم کا راگ الاپتی ہیں اور مسلمانوں سے خوش نما وعدے کرتی ہیں۔کیا ملائم سنگھ کو پتہ نہیں ہے کہ شیخ الہند کے نام پر میڈیکل کالج کا نام رکھنا مسلمانوں کے لیے اہم نہیں ہے بلکہ ان کے لیے تحفظ ، تعلیم اور صحت کی اہمیت ہے۔ مسلمانوپہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں فسادات سے فائدہ کوئی بھی اٹھا سکتا ہے لیکن نقصان صرف مسلمانوں کا مقدر ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو ہی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ مسلمان اپنے آپسی اختلافات کو ختم کر کے اورملک کے سیکولر عناصر کو ساتھ لے کر ، جو بہر حال اقلیت میں نہیں ہیں فرقہ پرستی کے خطرہ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہی ایک تدبیر ہے جسے اختیار کرکے وہ خود بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور ملک کو بھی بچاسکتے ہیں۔ مسلم تنظیمیں اس پہلو پر جتنا جلد غو کریں اتنا بہتر ہوگا۔ ورنہ یوں ہی ان کے خون سے ہولی کھیلی جاتے رہے گی۔ کیونکہ ع
 بہت سے دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہوجائیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں