جمعہ، 17 جنوری، 2014

شنڈے کے مکتوب کی حیثیت آخری وصیت کے سوا کچھ بھی نہیں

شنڈے کے مکتوب کی حیثیت آخری وصیت کے سوا کچھ بھی نہیں
                                                                                                                                                                                               
                جب سے پارلیامانی انتخاب کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے مسلمانوں سے سیاسی پارٹیوں کی زبانی ہمدردیاں بڑھ گئی ہیں اور انہیں ان کی خوش حالی اور ترقی کی فکر ستانے لگی ہے۔ ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ اسے مسلمانوں کا ووٹ حاصل ہو، اس لیے سبھی پارٹیاں اپنے اپنے انداز میں انہیں لبھانے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہیں اور ہر پارٹی انہیں یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ صرف وہی ان کی حقیقی بہی خواہ ہے اور وہی ان کے تمام مسائل کو حل کرسکتی ہے ۔ ملک میں مسلمانوں کے بے شمار ہی مسائل میں سر فہرست ان کے تحفظ کا مسئلہ ہے، انہیں دن رات اسی کی فکر ستاتی رہتی ہے جس کی وجہ سے انہیں دیگر مسائل پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ملتی۔ اس لیے سیاسی پارٹیاں مختلف حربوں کا استعمال کرکے پہلے ان میں عدم تحفظ کے احساس بڑھاوادیتی ہیں اور پھر ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہر پارٹی دعوی کرتی ہے کہ وہی انہیں تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو جماعت انہیں سب سے زیادہ عدم تحفظ کا شکار بناتی ہے وہی سب سے زیادہ ان کے تحفظ کا دعوی بھی کرتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کانگریس پارٹی ہے جس نے فسادات کے ذریعہ ہمیشہ مسلمانوں کی کمر توڑ ی اور انہیں کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں بننے دیا پھر یہی طریقہ دوسری پارٹیوں نے بھی اپنایا۔ فسادات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے نام پر بھی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا رواج چل پڑا اور آج تو اسے سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ جہاں کہیں کو ئی بم دھماکہ ہوا بغیر کسی ثبوت کے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر اس کو سچ کرنے کے لیے ثبوت تراشے جاتے ہیں جن میں بیشتر عدلیہ میں جاکر فرضی ثابت ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے دن دہشت گردی کے نام پر گرفتار مسلم نوجوان اپنی عمر کا بیش قیمت حصہ ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ کر عدلیہ سے بے گناہ ثابت ہوکر رہا ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی ہزاروں بے قصور نوجوان دہشت گردی کے الزام میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حل نہیں ہے۔ ملی تنظیموں اور ملک کے دیگر سیکولر اور انصاف پسند طبقہ کی جانب سے نہ جانے کتنی بار حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر قد غن لگائی جائے اور اصل مجرموں تک پہنچا جائے لیکن انہیں جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہ ملا اور اب بھی بے قصوروں کی دھر پکڑ کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں مزید شدت آگئی ہے۔ یوپی اے کی دس سالہ حکومت میں جس طرح دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کی گئی ہیں اس سے مسلمان یو پی اے اور اس کی سربراہ کانگریس سے بیزار ہوگئے ہیں جس کی ایک جھلک حالیہ اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو ملی ہے۔ چنانچہ کانگریس کو ایک بار پھر مسلمانوں کی فکر ستانے لگی ہے اور اس نے ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا شروع کردیا ہے۔
                چنانچہ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلی کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اقلیتی فرقہ کے نوجوانوں کو گرفتار کرنے میں احتیاط سے کام لیں۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس طرح کے خوش کن اعلانات وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ سال مئی میں ملی تنظیموں اور سیکولر افراد کے دباؤ کے نتیجہ میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے لیے نیشنل سیکوریٹی ایکٹ کے تحت ۳۹؍ خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ اس کے بعد ستمبر میں وزیر داخلہ نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلی کو ایک مکتوب بھیجا جس میں کہا گیا کہ تمام ریاستیں ہائی کورٹ کے مشورے سے ایسے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دیں اور یہ یقینی بنائیں کہ کسی بے قصور شخص کو ہراساں نہ کیا جائے اور اگر کسی معاملہ میں اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاری غلط ثابت ہوتو قصور وار پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جائے، گرفتار کئے گئے بے گناہ لوگوں کو فورا رہا کیا جائے اور انہیں معقول معاوضہ دینے کے ساتھ ان کی باز آباد کاری بھی کی جائے۔ مذکورہ خط میں وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہا تھا کہ ایسے بہت سے معاملات سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس نے مسلم فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو غلط طریقہ سے گرفتار کیا ہے جس کی وجہ سے اقلیتی نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اب تک کتنی خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان سے بے قصور نوجوانوں کو کیا فائدہ حاصل ہوا اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ وزیر اعلی کے مکتوب سے ریاستی حکومتوں کی صحت پر کیا اثر پڑا۔ ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ حسب سابق گرفتاریوں کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں مزید تیزی آگئی ہے اور اصل مجرموں کو چھوڑنے اور بے قصوروں کی دھر پکڑ کے لیے پولس افسران کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی ہورہی ہے ۔ ایسے میں وزیر داخلہ کا حالیہ بیان فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
                حقیقت تو یہ ہے کہ اس سلسلہ میں مرکزی حکومت کی نیت ہی صاف نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ مسلمان اس ملک میں آبرو مندانہ زندگی جینے کا حوصلہ پیدا کریں ورنہ آج مسلمانوں کی حالت اسی کی تشکیل کردہ کمیٹی کی رپورٹ سے مطابق دلتوں سے بدتر نہ ہوتی۔ اب یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کون انجام دے رہا ہے اور یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ پولیس افسران نہ صرف بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں کو گرفتار کرتے ہیں بلکہ بہت سے معاملات میں فرضی واقعات میں ان کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ ایسے کئی معاملات سامنے آئے ہیں جن میں عدالتوں نے نہ صرف گرفتار شدگان کو رہا کیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ جس واقعہ کی بنیاد پر بے قصوروں کو گرفتار کیا گیا وہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں اور اس بنیاد پر پولس والوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا حکم بھی جاری کیا۔ دہلی کی ایک عدالت نے ایسے ہی ایک فرضی مقدمہ میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہا کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ ’’انکاؤنٹر کی کہانی بڑی چالاکی کے ساتھ دلی پولیس کے دلی اسپیشل اسٹاف کے دفتر میں اس کے خاص مصنف سب انسپکٹر رویندر تیاگی اور اس کے معاونین کے ذریعہ لکھی گئی ہے۔ ‘‘اسی طرح بھگوا دہشت گردی کے کھل کر سامنے آجانے کے باوجود اس کے خلاف کارروائی میں تیزی نہ لانا بھی مرکزی حکومت کی نیت کے فتور کا ثبوت ہے۔ وزیر داخلہ سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ریاستوں کو ان کے ذریعہ بھیجے گئے مکتوب کی قانونی حیثیت کیا ہے کیونکہ لا اینڈ آرڈ ر ریاستی معاملہ ہے اور مخصوص حالات کو چھوڑ کر مرکز اس میں مداخلت کا مجاز نہیں ہے۔ شاید اس کے ذریعہ وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت نے تو بے قصوروں کی گرفتاریوں پر روک لگانے کی کوشش کی لیکن ریاستی حکومتوں نے تعان نہیں کیا ۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے وہاں اس پر کس قدر عمل ہوا۔ مہاراشٹر اور دلی میں لگا تار کانگریس اقتدار میں رہی اور ان دو ریاستوں کی پولس نے جس طرح دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کی اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مہاراشٹر اے ٹی ایس اور دلی پولس اسپیشل سیل نے دیگر ریاستوں میں جاکر جو ہنگامہ خیزی کی ہے کیا اس کے لیے کانگریس ذمہ دار نہیں ہے ۔ کیا وزریر داخلہ کو اس بات کا جواب نہیں دینا چاہیے کہ مہاراشٹر میں مسلمان مجموعی آبادی کا ۱۵؍ فیصد ہیں تو جیلوں میں ۳۷؍ فیصد کیوں ہے۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران مہاراشٹر اور دلی میں کانگریس کی حکومت رہی ہے اور سب سے زیادہ گرفتاریاں بھی انہیں دونوں ریاستوں میں ہوئی ہیں تو اس کیا جواب ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس مدت میں خود مسٹر شنڈے بھی مہاراشٹر کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔ کیا وزیر داخلہ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ عشرت جہاں اور صادق جمال مہتر انکاؤنٹر میں سازش رچنے والے آئی بی افسران راجیندر کمار، سدھیر کمار، یش وردھن آزاد او رگرو راج وغیرہ کو کیوں بچایا گیا ۔ کیا ہمیں اس سوال کا جواب نہیں ملنا چاہیے کہ مالے گاں بم دھماکہ میں ہندو ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل ہونے کے باوجود اس الزام میں پہلے سے گرفتار بے قصور مسلم نوجوان ابھی تک عدالتوں کے چکر کیوں کاٹ رہے ہیں۔ کیا ہمین یہ جاننے کا حق نہیں ہے کہ پٹنہ دھماکہ کے بعد مسلم نوجوانوںکو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو کروڑوں روپے کے ٹرانزکشن کے سرغنہ گوپا کمار گویل اور اس کے ساتھی وکاس کمار ، پون کمار اور گنیش ساہو اور بنگلور سے گرفتار عائشہ اور زبیر کو جو اصل میں دنیش اور سنیتا ہیں ؛دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پیسہ پہنچانے کے پختہ ثبوت کے باوجود دہشت گردی کا ملزم کیوں نہیں بنایا گیا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پائے بغیر مسلمان کانگریس سے مطمئن نہیں ہوسکتے۔
                کانگریس کی بد نیتی کا بد ترین ثبوت راہل گاندھی کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا تھاکہ پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں فساد زدہ نوجوانوں کے رابطہ میں ہیں جس پر کافی واویلا مچا تھا اور خفیہ ایجنسیوں نے ہریانہ سے دو ائمہ کو گرفتار کر ک راہل کے اس بیان کی تصدیق کردی۔ اس کی بد نیتی کا ثبوت یہ بھی ہے کہ کانگریس کے جنرل سکریٹری شکیل احمد نے انڈین مجاہدین کو گجرات فساد کے رد عمل میں پیدا ہونے والی تنظیم قرار دے کر اس نام نہاد فرضی تنظیم کے اصلی ہونے کی تصدیق کردی۔ حالانکہ آج تک کوئی ایجنسی اس کی حقیقت ثابت نہ کرسکی۔ مرکزی وزیر داخلہ کے حالیہ مکتوب کا سب سے مضحکہ خیز بلکہ بد نیتی پر محمول وہ حصہ ہے جس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اقلیتوں سے ان کی مراد کسی خاص کمیونٹی سے نہیں ہے۔ یہ وضاحت ان کے فرقہ پرست عناصر سے خوفزدہ ہونے کی دلیل ہے کہ ان پر مسلم نوازی کا الزام نہ لگے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بے قصور گرفتار شدگان میں ۹۰؍ فیصد کا تعلق مسلمانوں سے ہے تو ان کا نام لینے میں شرم کیوں محسوس ہوئی۔ کیا وہ باغبان بھی خوش رہے ، راضی رہے صیاد بھی‘ کے نظریہ پر عمل پیرا نہیں ہیںَ یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جنہوں نے بھگوا دہشت گردی کے پختہ ثبوت ہونے کی بات کہنے کے بعد فرقہ پرست عناصر کے دباؤ میںآکر معافی مانگ لی تھی۔ کانگریس اگر مخلص ہوتی تو اپنے دس سالہ دور اقتدار میں اس صورتحال پر قابو پاسکتی تھی لیکن اس نے اس کی بجائے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف نت نئے سیاہ قوانین بناکر بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری کے لیے پولیس کو چھوٹ دی او اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت مسلمانوں کے لئے جن نیک خواہشات کا اظہار کر رہی ہے اور جو وعدے کر رہی ہے ان پر عمل در آمد کب ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان وعدوں کی تکمیل کے لیے اسے ایک بار پھر اقتدار سونپنا ہو گا ۔ لیکن پھر بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر اقتدار مل بھی جائے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ وعدوں کی تکمیل بھی ہوگی۔ لہٰذا وزیر داخلہ کے مذکورہ مکتوب کی حیثیت جانے والے کی آخری وصیت سے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اس لیے کانگریس مسلمانوں کو سبز باغ نہ دکھائے اور اگر واقعی وہ مخلص ہے تو الیکشن میں جانے سے قبل کم از کم انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل منظور کر کے اس کا ثبوت پیش کرے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں