منگل، 14 جنوری، 2014

آتش بازی کا عالمی ریکارڈ

آتش بازی کا عالمی ریکارڈ
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے



۲۰۱۴ءکا سال مسلم ممالک کے لئے اس لحاظ سے بے حد ناسازگار رہا کہ اس میں ان ممالک بطور خاص مشرق وسطیٰ میں حالات بیحد ہنگامہ خیز رہے ۔ فلسطین ، مصر ، شام، پاکستان، بنگلہ دیش،میانمار ہر جگہ انہیں اپنی نادانیوں کی سزا اور غیروں کی سازشوں کی مار جھیلنی پڑی اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ ۴۱۰۲ءبھی ان کے لئے کسی خوش خبری کی نوید لے کر نہیں آیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بعض استثنا کے ساتھ ان ممالک کے سربراہوں کو شاید اس بات کا احساس نہیں ہے ، دولت کی ریل پیل نے انہیں اندھا کر دیا ہے اور وہ نوشتہدیوار پڑھنے سے قاصر ہیں۔ قارئین تک یہ اطلاع پہنچ چکی ہے کہ مسلم ملک دبئی نے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے اوریہ ریکارڈ ہے آتش بازی کا ۔ نئے سال کے آغاز کے لمحے کے ساتھ ہی دبئی نے ۵ لاکھ سے زائد پٹاخوں کی مدد سے زبردست اور حیران کن آتش بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈس میں یہ اعتراف کیا گیاہے کہ آتش بازی کی تاریخ میں ایسا مظاہرہ دنیا میں کہیں نہیں ہوا۔ اس کی منصوبہ بندی گذشتہ دس ماہ سے کی جارہی تھی ۔ آتش بازی کا سب سے زیادہ متاثر کن مظاہر ہ ساحل پر ایک مصنوعی طلوع آفتاب کا منظر پیدا کرتے ہوئے کیا گیا ۔ فضاں میں جاکر روشنی کے ساتھ پھٹ پڑنے والے پٹاخوں کی بلندی ایک کیلو میٹر سے زائد تھی ۔ اس سے قبل یہ عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا شرف بھی امریکہ یا یورپ کو حاصل نہیں ہوا بلکہ ایک اور مسلم ملک کویت نے ۲۱۰۲ءمیں اپنی سالگرہ تقریب میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ واضح رہے کہ اس کا ڈیزائن امریکی کمپنی فائر ورکس بائی گروسی نے تیار کیا تھا ع حیراں ہوں دل کو رو ں کہ پیٹوں جگر کو میں
                اس وقت عالم اسلام جس صورت حال سے دوچار ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کو جن شدائد و مصائب کا سامنا ہے ایسے میں کیا کسی مسلم ملک کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ دولت کو جھوٹی شان کا مظاہرہ کرنے میں لٹائے ۔ یہ ذہنی افلاس کی انتہا ہے کہ جب دنیا ستاروں پر کمندیں ڈال چکی ہے اور تسخیر کائنات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے مسلم ممالک آتش بازی کے ریکارڈ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور پھل جھڑیاں چھوڑ رہے ہیں۔ جن کے اسلاف نے دنیا کو تہذیب و تمدن سکھایا ، علوم و فنون سے مالا مال کیا ، جینے کا ہنر سکھایا ، جہاں بانی کاسلیقہ بتایا ، اپنے علمی تفوق سے دنیا پر اپنی عظمت کا سکہ بٹھایا ، آج ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ انہیں اپنے مقام و مرتبہ کا بھی احساس نہیں رہا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دولت کی ریل پیل اور وسائل کی کثرت کے باوجود عالمی منظر نامہ پر ان کے وجود کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے اور وہ بہت سی بنیادی ضروری اشیاءکے ساتھ ساتھ سامان عشرت تک کے لئے مغرب کے محتاج بن گئے ہیں۔ ان کا سرمایہ عیش و نشاط اور نمود و نمائش میں صرف ہورہا ہے ۔ جن کے آباءو اجداد نے ایجادات و اختراعات میں ریکارڈ قائم کیا وہ تفریح و عیش پرستی کا ریکارڈ قائم کر رہے ہیں جنہیں اقوام عالم کی امامت کرنی تھی وہ آخری صف کے مقتدی بنے بیٹھے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ان کے اندر سے احساس زیاں بھی مفقود ہوگیا ہے ۔ ان کے اندر یہ احساس بالکل باقی نہیں رہا کہ ان کی حیثیت کیا تھی اور وہ آج کس مقام پر پہنچ گئے ہیں ۔ انہیں اس بات کا شعور نہیں کہ عظمت رفتہ کیسے حاصل کی جائے اور اپنی دولت و صلاحیت سے کیسے دنیا کو فیض پہنچایا جائے ۔ عالم اسلام کے پاس مادی وسائل کی کمی نہیں ہے ، دنیا کا ایک چوتھائی بری حصہ اس کے قبضہ میں ہے ، زرعی اور معدنیاتی لحاظ سے بھی مالا مال ہے ۔ دولت ، صلاحیت ، اہلیت ، افرادی قوت سب کچھ موجود ہے لیکن مقام عبرت ہے کہ ان سب کے باوجود وہ دنیا میں سر اٹھاکر جینے کے لائق نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اللہ نے اسے جس دولت و حکومت سے نواز ا ہے اسے امانت سمجھتے ہوئے اس کا استعمال علوم و فنون کی ترقی کے ساتھ ساتھ مظلوموں کی حمایت ، انسانیت کی فلاح اور خدمت خلق کے میدانوں میں کیا جاتا جس سے نہ صرف اقوام عالم میں اس کی ساکھ بہتر ہوتی بلکہ یہ تبلیغ دین کا بھی بہترین وسیلہ ہوتا لیکن ہویہ رہا ہے کہ اس کا استعمال اپنے ہی بھائیوں کی گردنیں اڑانے یا جھوٹی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں نے اپنے شاندار ماضی سے کوئی سبق نہیں لیا ورنہ اس وقت اقوام عالم کی قیادت و سیادت ان کے ہاتھوں میں ہوتی ۔ علوم و فنون سے پہلو تہی کرکے دنیا میں کوئی قوم سر اٹھاکر نہیں جی سکتی ۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی سے منہ موڑ کر آبرومندانہ زندگی جینے کا تصور بھی ممکن نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو اس وقت تک عزت و وقار حاصل رہا جب تک انہوں نے علوم و فنون سے اپنا رشتہ استوار رکھا اور دنیا کو اپنی خدمات سے فیض پہنچاتے رہے لیکن جب اس سے آنکھیں چرالیں تو وسائل کی کثرت کے باوجود محکوم بن گئے اور جن قوموں نے اسے اپنایا انہیں خود بخود دنیا کی قیادت حاصل ہوگئی۔کچھ عرصہ قبل یورپ کے ایک معروف مورخ چارلس گیلسپی نے ان سائنسدانوں کی فہرست مرتب کی تھی جنہوں نے ساتویں صدی سے پندرہویں صدی تک سائنس کو فروغ دیا اور اس طرح موجودہ سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی ۔ اس فہرست میں ۲۳۱ سائنسدانوں کے نام شامل ہیں جن میں ۵۰۱ کا تعلق مسلم دنیا سے ہے۔ گویا عہد وسطی میں دنیا کے نوے فیصد سائنسداں عالم اسلام سے تعلق رکھتے تھے ۔ لیکن جب مسلمانوں نے اس سے بے اعتنائی برتی تو وہ کہاں پہنچ گئے اس کا اندازہ اس سروے سے بخوبی ہوجاتا ہے ۔ ۱۸۹۱ءکے ایک سروے کے مطابق چھوٹے سے ملک ناروے کے سائنسدانوں ، انجینئروں اور ڈاکٹروں کی کل تعداد پوری اسلامی دنیا کے سائنسدانوں ، انجینئروں اور ڈاکٹروں سے کچھ زیادہ ہی تھی ۔ یہ تعداد جاپان کے کل سائنسدانوں کے نصف سے بھی کم تھی ۔
                جو قوم عیش و عشرت اور جھوٹی شان و شوکت کے مظاہر ہ پر اربوں کھربوں خرچ کر ڈالے اسے زوال سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمان پوری دنیا میں سنگین مسائل سے دوچار ہیں ۔ اپنی شامت اعمال کے نتیجہ میں جہالت ، مفلسی ، پسماندگی ، انتشار اور محکومی ان کا مقدر بن گئی ہے ۔ نااتفاقی کا یہ عالم ہے کہ آپس میں خونریز جنگیں لڑی جاتی ہیں اور ان کے لئے بھی یورپ اور امریکہ سے ہتھیار خریدا جاتا ہے۔ جب ہم مسلمانوں کے زوال کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہماری سوچ اغیار کی سازش اور اسلام دشمنوں کی فتنہ پروری کے گرد ہی گھومتی ہے اور ہمیں اپنی کمیوں کا احساس و ادراک نہیں ہوتا ہے ۔ اس سے بڑا اور المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ جس قوم کو اللہ نے تمام قسم کے وسائل سے نواز ا ہو وہ اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بھی دوسروں کی دست نگر بنی رہے۔ کہنے کو تو چار درجن سے زائد چھوٹی بڑی مسلم حکومتیں ہیں لیکن وہ اپنے تحفظ کے لئے مکمل طور پر مغرب پر منحصر ہیں ۔ انہیں نہ اپنی کوتاہیوں کا احساس ہے اور نہ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا ادراک ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنی دولت کی قدر و قیمت کو سمجھتے جس سے نہ صرف ان کا اپنا وجود محفوظ رہتا بلکہ دوسرے بھی ان کے دامن عافیت میں پناہ لیتے ۔ آج مسلم ممالک کو ان کی غفلت اور کوتاہیوں نے اس مقام پر لاکھڑا کر دیا ہے جہاں سب کچھ ہونے کے باوجود وہ خود کفیل نہیں بن سکے اور ایک طرح سے امریکہ کے محتاج اور تابعدار بن کر رہنے پر مجبور ہیں اور وہ انہیں یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ انہیں اپنے تحفظ کے لئے اس کی ضرورت ہے ۔ امریکہ نے پوری طرح ان پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے اور وہ مطمئن ہیں کہ ان کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت دنیا کے سپر پاو ر نے لے رکھی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر امریکہ کو اپنے مفاد کی تکمیل میں رکاوٹ محسوس ہوئی تو اسی کے ذریعہ جمہوریت کے نام پر ان حکمرانوں کے تاج اچھالے جائیں گے جس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مسلم ممالک نوشتہدیوار پڑھ لیں اور اللہ نے انہیں جو دولت عطا کی ہے اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے خود کو اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو سر اٹھاکر جینے کا موقع فراہم کریں ۔ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ جس قدر ممکن ہو امریکہ اور یورپ پر انحصار ختم کرکے خود کفیل بننے کی کوشش کریں۔ اگر دوسری جنگ عظیم کے موقع پر پورے طور پر تباہ ہوچکے جاپان اور جرمنی ترقی کر سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں کر سکتے ۔ اپنی دولت کو اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے خرچ کریں ۔ مسلمان سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں مغربی اقوام سے نہ صرف بہت پیچھے ہیں بلکہ ان کی نقالی کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں ۔ کیا بہتر ہوتا کہ وہ دولت جو عشرت سامانیوں اور جھوٹی نمائشوں پر خرچ کی جارہی ہے ان کے ذریعہ سائنس اور ٹکنالوجی کے اعلیٰ ترین مراکز کا قیام عمل میں لایا جاتا ۔ اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت مسلمانوں کے ماتھے کا بد نما داغ ہے جب کہ آج کے دور میں اس کے بغیر ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا ۔ اگر دولت کا صحیح استعمال کیا جائے تو مسلمانوں کے ماتھے سے یہ داغ بآسانی دھل سکتا ہے ۔ یوں بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئے جارہے حملوں اور پروپیگنڈوں کا جواب دینے کے لئے یہ بیحد ضروری ہے ۔ مسلمانوں کے پاس مادی وسائل کے علاوہ سب سے مضبوط چیز ان کا نظریہ ہے ۔ اگر انہیں اس کی قدر و قیمت کا احساس ہوجائے اور وہ تقاضائے وقت کے مطابق سائنس او ر ٹکنالوجی کو تعمیر انسانیت کے لئے استعمال کریں تو مغربی طاقتوں کو اپنے آگے گھٹنوں کے بل جھکا سکتے ہیں ۔
                آج جب دنیا ہر روز ترقی کے نئے باب لکھ رہی ہے ، مسلمان اس سے بے پروا اپنی دولت اور اپنا سرمایہ فضولیات میں صرف کر رہے ہیں ۔ وہ یا تو آپسی جنگ و جدال میں مصروف ہیں یا عیش و نشاط میں مشغول ہیں اور یہ فرد سے لے کر جماعت اور حکومتوں تک کا یکساں رویہ ہے ۔ خود ہمارے ملک میں مسلمان جھوٹی شان و شوکت کے مظاہروں میں جتنی دولت خرچ کرتے ہیں شاید اس کا نصف بھی تعمیری کاموں میں صرف نہیں ہوتا ۔ ابھی چند ماہ قبل بہار کے ایک مسلم ممبر اسمبلی نے اپنی شادی میں چند کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا ۔ ہماری قوم کا مزاج یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے حیثیت کے باوجود خرچ کرنا گوار ا نہیں کرتے وہ ان کی شادیوں میں نمائش کے لئے سود لینے او رزمینیں بیچنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ باہمی اختلاف ہمارا طرئہ امتیا زہے اور بے عملی ہمارا جوہر ۔ ان حالات میں عزت و وقار کی زندگی کے خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔ مسلمانوں کے لئے عظمت رفتہ کی واپسی کی واحد صورت یہی ہے کہ وہ علوم و فنون سے اپنا رشتہ مضبوط کریں ، اپنے اندر اتحاد پیدا کریں ، اپنی دولت ، سرمایہ اور توانائیوں کو فضولیات میں خرچ کرنے کی بجائے تعمیری کاموں میں لگائیں او ر تمام اختلافات کو مٹاکر ایک امت کا تصور پیدا کریں ۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر اللہ کی دی ہوئی دولت کی ناقدری کی جاتی ہے تو وہ وبال جان بن جاتی ہے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں