بدھ، 1 جنوری، 2014

ہر چہ در کان نمک رفت نمک شد

ہر چہ در کان نمک رفت نمک شد
افواہوں کے پھیلنے کی رفتار صحیح خبروں سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور ترسیل وابلاغ کے جدید ذرائع نے اسے اور آسان بنادیا ہے چنانچہ تجارت سے لے کر سیاست اور صحافت تک ہر میدان میں افواہ پھیلانے اور بد امنی پیدا کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جارہا ہے۔
 افواہ پھیلانے کا کام محض شر پسند عناصر ہی نہیں کرتے بلکہ اس سلسلہ میں ہمارا با وقار قومی میڈیا سب سے آگے ہے ۔ میڈیا میں فسادات سے لے کر دہشت گردانہ واقعات تک کی رپورٹنگ جس انداز میں کی جاتی ہے اور جس طرح حقائق کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔ ایک خاص فرقے کے خلاف اخبارات میں ایسے ایسے من گھڑت افسانے شائع کئے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ ۔ جہاں جمہوریت کے چوتھے ستون کا یہ عالم ہو وہاں بے ایمان تاجروں اور منافع خوروں کے ذریعہ قلت نمک کی افواہ نہ بعید از قیاس ہے نہ حیرت انگیز۔
                                                                                                                         
                چند دنوں قبل بہار میں بڑے ہی منظم انداز میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ریاست میں نمک کی قلت پیدا ہوگئی ہے ۔ اس لئے نمک مہنگا ہورہا ہے۔ دیکھتے ہیں دیکھتے دوکانوں پر بھیڑ لگنے لگی اور جسے جتنی مقدار میں نمک ملا خریدنے لگا اور پھر جلد ہی بازار سے نمک غائب بھی ہوگیا اور تاجروں نے نمک کی ذخیرہ اندوزی کرلی۔ نمک کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا اور ۸۰؍ سے ۱۰۰؍ روپے کیلو تک نمک کی فروخت ہوئی ۔ اس افواہ کا اثر شمالی مشرقی ریاستوں تک ہوا۔ شکر ہے کہ حکومت فوراً حرکت میں آگئی جس کی وجہ سے جلد ہی افراتفری کا ماحول ختم ہوگیا۔ اس سلسلہ میں ریاست بھرمیں۲۱؍ افراد گرفتار کئے گئے اور ۱۵ ؍مقدمات درج کئے گئے۔
                قلت نمک کی افواہ منافع خور تاجروں کی منظم سازش ہوسکتی ہے کیونکہ اتنے بڑے پیمانہ پر ایسی افواہ بغیر منصوبہ بندی کے نہیں پھیلائی جاسکتی ۔ ایسے ماحول میں جہاں زندگی کا مقصد محض دولت حاصل کرنا رہ گیا ہو، کچھ بھی ممکن ہے۔ یوں بھی ہمارے یہاں تجارت میں ایمانداری کے علاوہ سب کچھ جائز ہے۔ اس وقت مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کا سبب پیداوار میں کمی نہیں بلکہ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی یہی ذہنیت ہے۔ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کی وجہ سے ہی شاید لوگوں نے بآسانی اس افواہ پر یقین بھی کرلیا۔اس افواہ پر یقین کرنے میں پیاز کی مہنگائی بھی ایک اہم وجہ رہی۔ حالانکہ پیازبھی جس طرح سے ملک بھر میں مہنگی ہوئی اور اب بھی اس کی قیمت معمول پر نہیں آسکی ہے، اس میں بھی ذخیرہ اندوزی اور افواہ کے اثر سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کا جواز یہ بھی ہے کہ پچھلی مرتبہ اقتدار سے بی جے پی کی بے دخلی کا سبب پیاز کی قیمت میں اضافہ رہا تو عین ممکن ہے کہ منصوبہ بند طریقے سے پیاز کی ذخیرہ اندوزی کر کے یہ افواہ گشت کرائی گئی ہو اور پھر نمک پر بھی اس کا تجربہ کیا گیا ہو۔ بہر حال قلت نمک کی افواہ کا سبب کچھ بھی ہو ، اس پورے واقعہ سے ایک بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک میں افواہ پھیلا کر بد امنی اور انتشار پیدا کرنا کتنا آسان کام ہے۔ افواہوں کے پھیلنے کی رفتار صحیح خبروں سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور ترسیل وابلاغ کے جدید ذرائع نے اسے اور آسان بنادیا ہے چنانچہ تجارت سے لے کر سیاست اور صحافت تک ہر میدان میں افواہ پھیلانے اور بد امنی پیدا کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جارہا ہے۔ قارئین اچھی طرح واقف ہیں کہ مظفر نگر میں رونما ہونے والے فسادات بھی افواہ ہی کے نتیجہ میں پھیلے ۔ بی جے پی لیڈران کی اشتعال انگیز تقریروں کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعہ نقلی ویڈیو کی تشہیر نے جلتی پر گھی کا کام کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دو ماہ قبل ہونے والے فسادات کی چنگاری اب بھی سرد نہیں ہوئی ہے اور افواہ کی تھوڑی سی ہوا بھی اس چنگاری کو شعلہ میں بدل دیتی ہے۔ اس افواہ کے نتیجہ میں سیکڑوں جانیں گئیں ، لاکھوں بے گھر ہوگئے ، ان کے مکانات کو جلادیا گیا اور اراضی پر قبضہ کر لیا گیا ۔ اب بھی ہزاروں افراد پناہ گزیں کیمپوں میں کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہی اور خوف کے مارے اپنے گھروں کو واپس جانے کو تیار نہیں ہیں۔ افواہ پھیلانے کا کام محض شر پسند عناصر ہی نہیں کرتے بلکہ اس سلسلہ میں ہمارا با وقار قومی میڈیا سب سے آگے ہے ۔ میڈیا میں فسادات سے لے کر دہشت گردانہ واقعات تک کی رپورٹنگ جس انداز میں کی جاتی ہے اور جس طرح حقائق کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔ ایک خاص فرقے کے خلاف اخبارات میں ایسے ایسے من گھڑت افسانے شائع کئے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ ۔ جہاں جمہوریت کے چوتھے ستون کا یہ عالم ہو وہاں بے ایمان تاجروں اور منافع خوروں کے ذریعہ قلت نمک کی افواہ نہ بعید از قیاس ہے نہ حیرت انگیز۔
                ملک کے مسلمان سماجی ، معاشی اور سیاسی طور پر کتنے ہی پسماندہ کیوں نہ ہوں لیکن انہیں بزعم خود اپنے کردار کی بلندی کا دعوی ہے اس لئے کہ ان کی وابستگی ایسے مذہب سے ہے جس میں کردار کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن افواہ کے اس بہاؤ میں وہ بھی بہہ گئے۔ نہ صرف بہہ گئے بلکہ بہتی گنگا میں ہاتھ بھی دھویا۔ یعنی افواہوں پر یقین کرنے میں نہ مسلمان پیچھے رہے نہ غیر مسلم ۔ اسی طرح نمک کو مہنگے داموں میں فروخت کرنے میں بھی مکمل قومی یکجہتی کا ثبوت دیا گیا ۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اولا مسلمان اس افواہ پر یقین ہی نہیں کرتے کیونکہ ان کے مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ خبروں کو پھیلانے سے پہلے اس کی تصدیق کر لی جائے۔ اس کی تعلیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے بیان کردے ۔ جبکہ منافع خوری اور ذخیرہ اندازی اس مذہب میں حرام قرار دیئے گئے ہیں اور ایسا کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں ہیں۔ ان سب کے باوجود مسلماوں نے بھی وہی کیا جو سبھوں نے کیا۔ حتی کہ اس معاملہ میں عالم وجاہل کی تمیز بھی نہ رہی۔
                مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کوتسلیم کرنے والوں کے درمیان فرق صرف مراسم عبودیت میں رہ گیا ہے جبکہ اخلاق ومعاملات میں سب یکساں ہیں ۔ حالانکہ ہر معاملہ میں مسلمانوں کی امتیازی شان ہونی چاہیے۔ زیادہ عرصہ نہیں گذرا جب عام طور سے لوگ کہتے تھے کہ مسلمان جھوٹ نہیں بولتا لیکن اب مسلمانوں کی کسی بات پر یقین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پہلے غیر مسلم اپنی امانتیں مسلمانوں کے پاس رکھتے تھے لیکن اب یہ اعتماد بھی باقی نہ رہا۔ اخلاق و معاملات کی وہ کون سی خرابی ہے جو مسلمانوں میں موجود نہیں ہے۔ ہم مسلمانوں
کی پسماندگی کے اسباب کا تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں تو ہمیں بے شمار اسباب نظر آتے ہیں لیکن جس اہم سبب کی طرف ہماری نظر نہیں جاتی وہ در اصل یہی کردار کی خرابی ہے۔ کردار کی عظمت ہی انہیں دونوں جہاں میں سر خروئی سے سر فراز کرسکتی ہے۔ یہ سرا ہاتھوں سے نکل گیا تو ساری خرایباں آگئیں ا ور آج صورتحال یہ ہے کہ وہ ہر میدان میں پسماندگی کے شکار ہیں اور انہیں سچر کمیٹی کا آئینہ دکھایا جارہا ہے۔ اس وقت ملک میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ مہم جاری ہے اور انہیں غیر مہذب ، غیر روادار یہاں تک کہ دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کی جو آگ بھڑکائی جارہی ہے، مسلمان اپنے کردار کی بلندی سے ہی ان پر قابو پاسکتے ہیں۔ یہی وہ شاہ کلید ہے جس سے ان کی تعمیروترقی کے تمام بند دروازے وا ہوسکتے ہیں۔ اس سے صرف نظر کر کے جو کوشش ہوگی وہ بار آور نہیں ہوگی کیونکہ ع خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔
٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں