ہفتہ، 28 دسمبر، 2013

پٹنہ بم دھماکہ اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں

پٹنہ بم دھماکہ اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں
سوال صرف گرفتاریوں پر نہیں ‘دھماکوں پر بھی اٹھ رہے ہیں

                فسادات اور دہشت گردی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے مسلمانوں کی آزمائشوں کا سلسلہ ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ آزادی کے بعد سے ناروا سلوک کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف ہنوز جاری ہے بلکہ اس میںمزید شدت آگئی ہے۔ کہنے کو تو یہاں آئین کی حکمرانی ہے جو بلا تفریق مذہب وملت اور رنگ ونسل سب کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے اور کسی طرح کی تفریق کی اجازت نہیں دیتا لیکن عملاً مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور منظم انداز میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ اس ملک کے مسلمان کبھی سر اٹھا کر نہ جی سکیں اور دوسرے درجہ کے شہری بننے پر مجبور ہوجائیں۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے فرقہ پرست طاقتوں ِ ،خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کے مثلث نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔
                یہ بات واضح ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی شبیہ داغدار کرنے اور ان کے نوجوانوں کی گرفتاریوںکے لیے منظم منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور ان علاقوںکو بطور خاص نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں عام طور پر مسلمان خوش حالی کی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ گذشتہ دنوں پٹنہ کے گاندھی میدان میں بی جے پی کی ہنکار ریلی کے دوران ہونے والے بم دھماکوں نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کردی ہے اور جس انداز میں مقامی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے مسلم نوجوانوں کی دھر پکڑ شروع کردی ہے اس نے پھر مسلمانوں کی نیندیںحرام کردی ہیں۔ یہ دھماکہ اس لحاظ سے اپنی نوعیت کا پہلا دھماکہ ہے کہ اس میں واقعہ کے فورا بعد پولس نے سازش کے اہم ملزمین کو گرفتار کرلیاجنہوں نے اعتراف جرم بھی کرلیا اور انہیں یہ بتانے میں بھی دیر نہیں لگی کہ ان دھماکوں کے پیچھے انڈین مجاہدین کا ہاتھ ہے۔پولیس کے بیانات کے مطابق گرفتار شدگان کی اطلاع کی بنیاد پر دیگر کئی نوجوانوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے اور بقیہ ملزمین کی گرفتاری کے لیے چھاپہ ماری جاری ہے، اس کے ساتھ ہی مہا بودھی مندر بلاسٹ کا معاملہ بھی سلجھ گیا کہ اسی گروپ نے بودھ گیا بلاسٹ بھی کیا تھا، لاج میں چھاپہ ماری کے دوران بموں کے علاوہ کئی مذہبی مقامات کے نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد کئی مقامات پر حملے کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ واضح ہوکہ اس بار دھماکوں کی سازش کا مرکز دربھنگہ اور مدھوبنی کے بجائے رانچی قرار دیا گیا لیکن گرفتار شدگان میں دربھنگہ کے نوجوان بھی شامل ہیں۔
                ملک بھر میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد ہونے والی گرفتاریوں پر مسلمانوں اور انصاف پسند عوام کی جانب سے سوال اٹھائے گئے ہیں لیکن پٹنہ دھماکوں میں سوال صرف گرفتاریوں پر نہیں بلکہ دھماکوں پر بھی اٹھ رہے ہیں۔ پولیس اور میڈیا نے بھلے ہی حسب معمول اپنے طور پر عدالتی عمل شروع ہونے سے قبل ہی پکڑے گئے نوجوانوں کا جرم ثابت کردیا ہے لیکن اس بار ان کی تھیوری کی تصدیق بھولے بھالے لوگوں کے لیے بھی مشکل ہورہی ہے۔ کئی سوالات ایسے ہیں جن کا جواب پائے بغیر اسے نام نہاد انڈین مجاہدین (اگر اس کا واقعی وجود ہے) کی کارستانی قرار دینا آسان نہ ہوگا۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ سیکوریٹی کے اتنے سخت انتظام کے باوجود دہشت گردوں کو یہ موقع کیسے ملا کہ نہ صرف یہ کہ بم لے کر اندر داخل ہوئے بلکہ پے در پے چھ دھماکے کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ پھر یہ کہ مسلسل دھماکے ہوتے رہے نہ کسی قسم کی افرا تفری ہوئی اور نہ کوئی بھگڈر مچی اور نہ ہی ریلی میں کوئی رخنہ پڑا۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی نے ایک گھنٹہ تک دھواں دھار تقریر کی لیکن اس دوران ایک بار بھی ان دھماکوں کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی دھماکوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والوں کے لیے ہمدردی کے چند کلمات کہے جبکہ چار پانچ دنوں بعد ان کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے پھر بہار کا دورہ کیا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ یہ دھماکے خود فرقہ پرستوں نے کرائے ہیں تاکہ اس کی بنیاد پر فرقہ وارانہ خطوط پر سماج کو تقسیم کر کے اپنے لیے اقتدار کی راہ آسان بنائی جائے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ دھماکہ جو بھی کرنے اس کا الزام انڈین مجاہدین کے سر ہی جائے گا۔ اور شاید اسی لیے اس نام نہاد انڈین مجاہدین کا عفریت پیدا بھی کیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ریلی کے لیے حکومت کے حفاظتی انتظامات کے علاوہ خود بی جے پی نے بھی ایک پرائیویٹ سیکوریٹی ایجنسی کی خدمات حاصل کر رکھی تھی۔ اس معاملہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دوران تقریر نریندر مودی نے کہا کہ کچھ لوگوں نے ان کے نام کی سپاری لے رکھی ہے تو دوسری جانب بی جے پی نے ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے آئی بی کے الرٹ کے باوجود سیکوریٹی کے پختہ انتظامات نہیں کئے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آئی بی نے یہ الرٹ بھیجا تھا یا یہ بات اس لیے دہرائی جارہی ہے کہ تاکہ خفیہ ایجنسیاں انڈین مجاہدین والی اپنی لائن پر قائم رہیں اور ہندو دہشت گرد تنظیموں کی طرف ان کی توجہ نہ ہو۔ البتہ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ مئی میں گجرات آئی بی نے ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو بتایا تھا کہ ریلی میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے مودی کی ریلی میں کم طاقت کے دھماکے کرنے کا اندیشہ ہے۔ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ اس الرٹ کے باوجود ہماری خفیہ ایجنسیوں کی نگاہیں اس جانب کیوں نہیں اٹھ رہی ہیں اور دیگر سیاسی جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟
                اس بار دھماکوں کی سازش کا مرکز رانچی قرار دیا گیا ہے لیکن گرفتاریوں کا سلسلہ بہار کے دربھنگہ ، مظفر پور اور موتیہاری تک دراز ہے اور اس کا اثر بہار کی طرح پورے جھارکھنڈ کے مسلمانوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ دربھنگہ سے گرفتار مہر عالم کی صورتحال غیر یقینی ہے۔ اسے اس کے اہل خانہ کے ذریعہ گیا بلایا گیا لیکن پٹنہ میں اسے روک کر اس کے اہل خانہ کو واپس جانے کے لیے کہا گیا ۔ پھر خبر دی گئی کہ مہر عالم مظفر پور سے این آئی اے کو چکمہ دے کر فرار ہوگیا پھر آنا فانا چند گھنٹوں میں اسے کانپورمیں دھر دبوچا گیا۔ اس کے اہل خانہ کو ۳؍ نومبر کو اطلاع دی گئی کہ مہر عالم کو چھوڑ دیا گیا ہے لیکن یہ تحریر لکھے جانے تک وہ گھر نہیں پہنچا ہے۔ دریں اثنا جھارکھنڈ پولیس کے مطابق اس نے رانچی کے ایک لاج سے ۹؍ بم برآمد کئے ہیں اور یہ بم ویسے ہی ہیں جن کا استعمال پٹنہ میں کیا گیا۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے مطابق شمالی بہار کے سمستی پور ریل ڈویزن کے مختلف اسٹیشنوں پر بھی مبینہ خطروں کے پیش نظر سیکوریٹی سخت کردی گئی ہے۔ اس کی خبر میڈیا بطور خاص ہندی میڈیا میں جس طرح دی گئی ہے اس سے سنسی پھیل گئی ہے اور ہر داڑھی ٹوپی والا مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہے۔
                بہر حال اب نہ تو دہشت گردانہ کارروائی نئی بات ہے اور نہ اس کے ضمن میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں میں کچھ نیا ہے۔ نئی بات صرف یہ ہے کہ یہ بہار کی پر امن فضا کو بگاڑنے کی فرقہ پرستوں کی سازش ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے گا ۔ جس طرح ان دھماکوں کو مظفر نگر فساد کے رد عمل کے طور پر پیش کئے جانے کی کوشش ہورہی وہ فرقہ وارانہ یکجہتی کو ختم کرنے کی منظم سازش ہے۔ اس سے قبل مہابودھی مندر میں ہونے والے دھماکوں کے تار بھی میا نمار میں بودھوں کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل عام سے جوڑے گئے تھے۔ فرقہ پرست طاقتیں مذہبی منافرت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے پیش نظر بہار کی پر امن فضا میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ یہ سارا کھیل مرکز کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے کھیلا جارہا ہے۔ پٹنہ جیسے دھماکے کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں بطور خاص فرقہ پرستوں کے ذریعہ لاشوں کی سیاست کی روایت بہت قدیم ہے۔ جنتا دل متحدہ اور بی جے پی کی طلاق سے ریاست میں نئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور اس وقت فرقہ پرستوں کی ساری توجہ بہار پر ہے۔ لالو پرساد کے میدان سے غائب ہونے کے سبب ان کے حوصلے مزید بلند ہیں۔ نیش کمار نے ۱۷؍برسوں تک فرقہ پرستوں کے ساتھ وفاداری نبھائی تو یہ سوچا سمجھا فیصلہ تھا اور آج ترک تعلق بھی بغیر سوچے سمجھے نہیں کیا ہے۔ سیاست کے کھیل بڑے نرالے ہوتے ہیں۔ لیکن ریاست کے وزیر اعلی کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہار کے پر امن ماحول کو فرقہ پرستی کے عفریت سے بچائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بے قصوروں کی اندھا دھند گرفتاریوں پر لگام لگے۔

                موجودہ وقت مسلمانوں کے لیے بڑا ہی پر آشوب ہے۔ دہشت گردانہ واقعات ہوں یا فرقہ وارانہ فسادات ان کا فائدہ کوئی بھی اٹھاسکتا ہے لیکن ان کی مار مسلمانوں کو ہی جھیلنی پڑتی ہے۔ اس لیے انہیں نہ صرف ہوشیار رہنا ہوگا بلکہ آگے بڑھ کر ایسے اقدام کرنے ہوں گے جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول قائم ہو۔ ملک اور ریاست کی اکثریت سیکولر ہے۔ مسلم قائدین کو سیکولر افراد کے ساتھ مل کر فرقہ پرستی کے ناگ کو کچلنے کی سعی کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی سیاسی جماعتوں پر واضح کرنا ہوگا کہ کوئی بھی جماعت انہیں اپنی جاگیر نہ سمجھے۔ ہماری وفاداری اسی جماعت کے ساتھ ہوگی جو ہمیں تحفظ فراہم کرسکے اور ہمارے مفادات کی نگرانی کرسکے۔ غرض کہ موجودہ صورتحال سے نجات اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب مسلمان حالات کو سمجھیں ، فرقہ پرستوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور بصیرت اور حکمت عملی سے اپنے مسائل کے حل کے لیے کمر بستہ ہوجائیں ۔ یہ کوئی دوسرا نہیںکرے گا لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسا کریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ بربادی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں