جمعرات، 12 دسمبر، 2013

عاپ کی کامیابی کانگریس اور بی جے پی سے بیزاری کا اعلان

عاپ کی کامیابی کانگریس اور بی جے پی سے بیزاری کا اعلان

دلی میں عاپ کی کامیابی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لوگ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی سے بیزار ہوچکے ہیں اور انہیں ایک نئے متبادل کی تلاش ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک نو زائیدہ پارٹی نے جہاں ایک طرف کانگریس کو تیسرے مقام پر پھینک دیا وہیں بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتادی۔

            مجھے نہیں پتہ کہ پانچ ریاستوں میں اختتام پذیر ہونے والے اسمبلی انتخاب آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کا سیمی فائنل تھے یا نہیں ۔ اگر سیمی فائنل تھے تو فائنل میں بھی وہی ٹیم جیتے گی جس نے سیمی فائنل میں کامیابی کا جھنڈا لہرا یا ہے یہ کوئی ضروری ہے ۔ سیمی فائنل کی اصطلاح میڈیا کے ذہن کی پیداوار ہے جسے یہ اندازہ تھا کہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو کانگریس پر فوقیت حاصل رہے گی اور اس کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب کے بعد مرکز میں بی جے پی کی ہی اقتدار حاصل ہوگا۔ انتخابات میں جیت اور ہار ہوتی رہتی ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس پارٹی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے اس کے لیے جیت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے ہیں ۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شکست خوردہ پارٹی اپنی شکست سے سبق لیتی ہے یا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انتخابات میں ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس کو زبردست ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ظاہرہے کہ اس کے کچھ اسباب ہیں اور ان اسباب پر غور کرنے کی ذمہ داری بھی کانگریس کی ہے۔ ہمارے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ انتخاب کے نتائج سے ہمیں کیا حاصل ہوا۔
            یہ صحیح ہے کہ ریاستی انتخاب میں مقامی مسائل زیادہ حاوی نہیں ہوتے ہیں اور زیادہ تر انہیں کی بنیاد پر ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکزی حکومت کی کار کردگی بھی ان انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے۔ موجودہ انتخابات پر بھی مرکزی حکومت کی کار کردگی کا نمایاں اثر دیکھنے کو ملا۔ راجستھان میں اشوک گہلوت کے خلاف عوام میں اس قدر سخت ناراضگی تھی بہت سے لوگوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بی جے پی کوووٹ کیا۔ مدھیہ پردیش میں شیو راج سنگھ چوہان نے بھی اپنی مقبولیت کے علاوہ کانگریس کے خلاف پائے جانے والے غصہ کا فائدہ اٹھایا جبکہ چھتیس گڑھ میں اگرچہ رمن سنگھ جیت گئے لیکن یہ جیت انہیں آسانی سے حاصل نہیں ہوئی۔ اس طرح ان ریاستوں کے نتائج کو چونکانے والا نہیں کہا جاسکتا ہے۔ البتہ دلی کا نتیجہ ضرور چونکانے والا تھا۔ شیلا دکشت کے ناقدین بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے دلی کے لیے کام نہیں کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے دلی کی تصویر بد لی ۔ اس کے باوجود دلی میں کانگریس کو شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا تو اس سے ہی پتہ چلتا ہے کہ شیلا کو منموہن سنگھ کے گناہوں کی سزا بھی جھیلنی پڑی۔ انتخابی نتائج کے بعد کانگریس صدر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی دونوں نے ان نتائج سے سبق لیتے ہوئے بڑی تبدیلیون کا اعلان کیا ہے۔ بے شک وہ ایسا کریں گے کیونکہ پارٹی کی ساکھ داؤ  پر لگی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ شایدانہیں اب بھی یہ پتہ نہیں ہے کہ کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ گذشتہ انتخابات میں عوام نے کانگریس کو فرقہ پرستی کے خلاف ووٹ دیا تھا‘ لیکن اس نے فرقہ پرستی کی روک تھام کے لیے عملا کوئی اقدام نہیں کیا جبکہ دوسری جانب مہنگائی اور کرپشن کو بھی پھلنے پھولنے کا بھر پور موقع ملا۔ اس لئے جو نتائج آئے ہیں اس سے بہتر نتیجہ کی امید بھی نہیں تھی۔
            بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے یہ انتخابی نتائج اس لحاظ سے حوصلہ افزا ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی حکومتیں برقرار رکھنے میں کامیاب رہی بلکہ اس نے راجستھان میں کانگریس سے حکومت چھین بھی لی۔  بی جے پی اسے مودی لہر سے تعبیر کر رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لہر مودی کے حق میں نہیں تھی بلکہ کانگریس کے خلاف تھی۔ اگر مودی کی لہر ہوتی تو دلی میں بی جے پی کو حکومت بنانے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ مودی نے دلی میں انتخابی تشہیر کے آخری دنوں میں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔ دلی کے جن چھ حلقوں میں مودی نے ریلیاں کیں ان میں سے چار میں بی جے پی کوشکست ہوئی ۔ اسی طرح چھتیس گڑھ کے جن بارہ حلقوں میں مودی کی ریلیاں ہوئیں ان میں سے پانچ میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ بی جے پی خود کو کانگریس کے متبادل کے طور پیش کر تی ہے لیکن ان نتائج نے ثابت کردیا کہ یہ فطری متبادل نہیں ہے بلکہ مجبوری کی متبادل ہے۔ اگر یہ فطری متبادل ہوتی تو دلی میں اس کے لیے دو تہائی کی اکثریت حاصل کرنا ناممکن نہ ہوتا جبکہ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس مخالف لہر نے اس کے لیے فضاہموار کرد ی تھی۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسے عام اکثریت کے بھی لالے پڑگئے اور یہ طے شدہ امر ہے کہ کہ جہاں کوئی دوسرا متبادل ہوگا وہاں بی جے پی کا یہی حشر ہوگا۔
            اب تک لوگ کانگریس اور بی جے پی کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر آزماتے رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے علاوہ چارہ بھی نہیں تھا۔ لیکن دلی میں عام آدمی پارٹی کی صورت میں سامنے آنے والے ایک نئے متبادل نے ووٹروں کی راہ آسان کردی۔ انتخابی سیاست میں اس پارٹی کی آمد نے سیاست کا رخ ہی بدل دیا۔ کل تک جسے کوئی بھی بہت سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں تھا آج وہ ایک بڑی حقیقت بن کر سامنے آئی ہے۔ دلی میں عاپ کی کامیابی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لوگ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی سے بیزار ہوچکے ہیں اور انہیں ایک نئے متبادل کی تلاش ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک نو زائیدہ پارٹی نے جہاں ایک طرف کانگریس کو تیسرے مقام پر پھینک دیا وہیں بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتادی۔ اس کی جیت نے یہ بھی ثابت کردیا کہ محض دولت اور طاقت کی بنیاد پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا ہے۔ ایک ایسی پارٹی جس کے پاس مضبوط امیدوار نہیں تھے اور ان امیدواروں کے پاس نہ الیکشن جیتنے کے لیے پیسے تھے اور نہ ہی اس کا کوئی تجربہ تھا، پھر یہ کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی طرح اس کے پاس تنظیمی صلاحیت اور پیشہ ور کارکنوں کی فوج بھی نہ تھی۔ ان سب موانع کے باوجود مختصر وقت میں اس نے کامیابی کا جو سفر طے کیا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عوام کانگریس کی دھوکہ باز اور بد عنوانی کی سیاست اور بی جے پی کی نفرت کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں اور جہاں بھی کوئی متبادل نظر آئے گا اس کا انتخاب کریں گے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر ہندوستان کی سیاست میں ایماندار افراد آگے آئیں اور اصول کی لڑائی لڑیں تو عام لوگ ان کے ساتھ ہوں گے۔ اروند کیجریوال اور ان کی ٹیم نے لوگوں میں یہ اعتمادد پیدا کیا کہ وہ ان کی آرزؤں اور تمناؤں کی تکمیل کرلیں گے اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان کا ساتھ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی نئی پارٹی عوامی تمناؤں کی تکمیل کے معیار پر کھڑی اترنے کی کوشش کرتی ہے لوگ اسے منتخب کر لیتے ہیں۔ماضی میں بھی آسام گن پریشد اور تیلگو دیشم پارٹیاں قیام کے فورا بعد ہی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ البتہ عوام کے آرزؤں کی تکمیل ایک سخت چیلنج ہوتا ہے جس کا سامنا ابھی عام آدمی پارٹی کو نہیں کرنا پڑا ہے۔ یقین مانئے کہ اگر دیگر ریاستوں میں بھی عاپ جیسی کوئی پارٹی ہوتی تو وہاں بھی بی جے پی کے حصہ میں محرومی ہی آتی۔ لوگ ہر جگہ تبدیلی چاہتے ہیں، بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں، چین اور سکون سے جینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا جو پارٹی ان باتوں کو یقینی بنائے گی اسے عوام کا اعتماد حاصل ہوگا۔ کرپشن ، بد عنوانی ، مہنگائی اور نفرت سے تنگ آچکے لوگوں کو عاپ کے اندر ایمانداری کی کرن آئی ہے ۔ اگر چہ اس کے پاس کوئی واضح ایجنڈا نہیں ہے اور سیاسی تجربہ کا بھی فقدان ہے لیکن یہی کیا کم ہے کہ وہ بد عنوانی کے معاملہ میں بے حد سخت ہے اور ایماندارانہ سیاست کی راہ پر ملک کو لے جانا چاہتی ہے۔ یہ عاپ ہی کا کرشمہ ہے کہ اس نے راتوں رات سب کو ایماندار بنادیا اور دلی میں کوئی بھی حکومت بنانے کے لیے پہل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جو لوگ حصول اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے تھے اور جن کے بڑے بڑے رہنماؤں پر بد عنوانی کے داغ لگے ہیں وہ بھی ممبران کی خرید وفروخت کو اب اپنے لیے حرام قرار دینے لگے ہیں۔ گو یا عاپ نے نہ صرف ’’آپ‘‘ کا املا بدل دیا ہے بلکہ سیاست کے معنی بھی بدل دیئے ہیں اور یہ تبدیلی کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔حالانکہ اس تبدیلی میں ٹھہراؤ کی مدت کیا ہوگی اس کے بارے میں کہنا قبل از وقت ہوگا۔
            عاپ سے صرف کانگریس کو خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کے لیے خطرہ ہے اور آنے والے دنوںمیں دونوں پارٹیوں کے لیے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانا ناگزیر ہوجائے گا۔ دلی میں ۲۸؍ سیٹوں پر کامیابی نے نہ صرف ’’عاپ‘‘ کے حوصلے بلند کئے ہیں بلکہ ’’آپ‘‘ کو بھی بھی یہ موقع فراہم کیا ہے کہ نئے متبادل کی تلاش کریں ۔ باور کیا جارہا ہے کہ دلی کی کامیابی کے بعد عاپ دیگر بڑے شہروں کا بھی رخ کرے گی اور یقینا اسے کرنا بھی چاہیے۔ عام انتخابات بے حد قریب میں اور عاپ نے دلی میںجو تجربہ کیا ہے اسے کل ہند پیمانے پر بھی آزما سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اسے بہت زیادہ نشستیں نہیں ملیں گی اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے اس لئے کانگریس کو مودی سے زیادہ عاپ سے خطرہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر ملک کو کوئی ایماندار متبادل ملتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے اور اس طرح عاپ کی کامیابی آپ کی کامیابی بھی ہوسکتی ہے۔
            ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل عام ہندوستانیوں سے بایں معنی ہیں کہ ان کی ترجیحات میں دیگر امور کے علاوہ اپنا تحفظ سر فہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بی جے پی کے مقابلہ میں کانگریس کو اپنا ووٹ دیتے آئے ہیں۔ لیکن اس بار مسلمانوں نے بھی کانگریس کو ٹھکرایا اور بی جے پی کو ووٹ دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ راجستھان میں کانگریس کے۱۷؍ مسلم امیدوار انتخابی میدان میں تھے اور سبھوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا جبکہ بی جے پی نے چار امیدوار کھڑے کئے اور دو کامیاب ہوئے۔ دلی میں بھی مسلمانوں نے ان حلقوں میں عاپ کو ہی ووٹ دیا جہاں انہیں یقین تھا کہ اس کا امیدوار بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے۔ اگر مسلمانوں نے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو ووٹ دیا تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ کانگریس نہ صرف مسلمانوں کو تحفظ دینے کے اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکی بلکہ دہشت گردی کے نام پر اندھا دھند مسلمانوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔گویا مسلمانوں نے یہ سوچا کہ اگر سر پھوڑنا ہی ٹھہرا تو تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟ کانگریس اس دھوکہ میں رہی کہ مسلمانوں کے پاس اسے ووٹ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کانگریس کے ایک جنرل سکریٹری نے، جو اس کے ترجمان بھی ہیں اور جن کے حلقہ انتخاب میں راقم کی بستی واقع ہے بھرے مجمع میںکہا تھا کہ یہ آپ ہمیں اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ آپ کی مجبوری ہے۔ اب بھی کانگریس کوئی سبق لینے کے لیے تیار ہے یا نہیں یہ کہنا دشوار ہے ۔ بہر حال ان انتخابی نتائج نے یہ تو ثابت کرہی دیا ہے کہ ملک ایک نئے متبادل کی تلاش میں ہے اور یہ مل بھی سکتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں