ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

یوم اقلیت اگر یوم احتساب ہوجاتا

یوم اقلیت اگر یوم احتساب ہوجاتا
                اقوام متحدہ نے اگر ۸۱ دسمبر کو یوم اقلیت قرار دیا ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی آبادی ، مذہب اور زبان یا نسلی اعتبار سے اقلیتیں موجود ہیں ان کے حقوق کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ لیکن اگر نیت ہی درست نہ ہو تو دن کیا سال منالینے کے باوجود اقلیتوں کے حالات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ ورنہ اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے امریکہ میں وہاں کی اقلیت کے ساتھ جو ناروا سلوک جاری ہے اس کی کیا توجیہ کی جاسکتی ہے۔
                ۸۱ دسمبر کو عالمی سطح پر یوم اقلیت منا یا گیا۔ اس تاریخ کو اقوام متحدہ نے یوم اقلیت قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس حوالہ سے دنیا بھر کی طرح ہندوستان میں بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، سمینار ، مذاکرے اور سمپوزیم ہوتے ہیں اور اقلیتوں کی حالت زار پر آنسو بہائے جاتے ہیں ، ان کے حقوق کی بحالی کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، ان کے تحفظ کے سلسلہ میں عملی دشواریوں کے سد باب کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں اور جشن کے ماحول میں جذباتی تقریریں کی جاتی ہیں جن سے ایسا محسوس ہوتا ہے حکومت اور حکومتی اداروں کو واقعی اقلیتوں کی فکر ہے اور وہ ان کے تحفظ، ترقی اور خوش حالی کے خواہاں ہیں۔ لیکن اس دن کا سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی تمام فکر مندیاں بھی ڈوب جاتی ہیں اور اقلیتیں سابقہ حالت پر برقرار رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اگر ۸۱ دسمبر کو یوم اقلیت قرار دیا ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی آبادی ، مذہب اور زبان یا نسلی اعتبار سے اقلیتیں موجود ہیں ان کے حقوق کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ لیکن اگر نیت ہی درست نہ ہو تو دن کیا سال منالینے کے باوجود اقلیتوں کے حالات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ ورنہ اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے امریکہ میں وہاں کی اقلیت کے ساتھ جو ناروا سلوک جاری ہے اس کی کیا توجیہ کیا جاسکتی ہے۔
                سچی بات یہ ہے کہ دنیا میں اقلیتیں ہر جگہ ظلم ونا انصافی اور اکثریت کے استحصال کا شکار ہیں۔ اقلیت واکثریت کا پیمانہ تعداد ہے اور جمہوریت میں چونکہ بندوں کو تولنے کے بجائے گننے کا رواج ہے اس لیے جس طبقہ کی آبادی زیادہ ہوتی ہے وہ دیگر طبقات کی حق تلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔ ہمارے ملک عزیز ہندوستان کے آئین نے ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کیے ہیں ، اس کی رو سے رنگ ونسل یا زبان ومذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق روا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کے حقوق نہ صرف تسلیم کیے گئے ہیں بلکہ ان کے تحفظ کی ضمانت بھی دی گئی ہے ۔ ان حقائق کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ حکومتوں کی جانب سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ مسلمان، سکھ، عیسائی ، بودھ اور پارسی یہاں کی مذہبی اقلیتیں ہیں جن میں مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ یوں تو تمام اقلیتیں ظلم وناانصافی کا شکار ہیں لیکن مسلمانوں کو اس کی مار زیادہ ہی جھیلنی پڑتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سکھ اور عیسائیوں کو اکثریت کی چیرہ دستیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ۸۴۹۱ کے سکھ فسادات اور اڑیسہ میں عیسائیوں کے ساتھ جو کچھ ہواا س کی وجہ ان کا اقلیت میں ہونا ہی ہے۔ لیکن اقلیت ہونے کی سزا مسلمانوں نے جس قدر جھیلی ہے اس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے کیونکہ آزادی کے بعد سے ہی وہ مسلسل ظلم وجبر کی چکی میں پس رہے ہیں اور انہیں جبر کی اس وادی سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے۔ اس ملک میں ان کی حیثیت فٹ بال کی ہے جسے ہر طرف سے ٹھوکر ہی ملتی ہے۔
                اس حقیقت کے باوجود کے مسلمانوں نے ملک کی آزادی کی خاطر عظیم قربانیاں پیش کیں اور ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اپنا بھر پورکردار نبھانے کی کوشش کی ،وہ حکومت کی نا انصافی اور فرقہ پرستوں کی جارحیت کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان مسلسل پس رہے ہیں۔ یہ اس ملک کی بد نصیبی ہے کہ یہاں کی سب سے بڑی اقلیت جو ملک کی تعمیر وترقی میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرسکتی تھی اور ملک کو خوش حال بنانے میں اس کا نمایاں حصہ ہوسکتا تھا آج خود اسے اپنے جینے کے لالے پڑے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اگر وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اس کی ٹانگیں کھینچ دی جاتی ہیں۔ مسلسل فسادات نے اس کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔ اس پر مستزاد دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں اور انکاؤنٹر کے نام پر ان کے قتل نے ان کے عزم وحو صلہ کو پست کردیا ہے۔ جہاں کئی محروم طبقات نے بلندی کی بہت سی منزلیں طے کر لیں وہاں مسلمان آج بھی گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور ہیں اور انہیں اپنے جان ومال کے تحفظ کی فکر کھائے جارہی ہے اور ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ان کا استحصال کیا ہے۔ ان کے ووٹوں کی طاقت سے مسند اقتدار تک پہنچنے والی سیاسی جماعتوں نے انہیں کھوکھلے وعدوں کے سوا کچھ نہ دیا۔ ان کی ترقی کی باتیں تو خوب ہوئیں لیکن عملی سطح پر اس کے نفاذ کی نوبت نہیں آئی۔ اگر ملک کی حکومتیں ایماندار اور مخلص ہوتیں اور آئینی تقاضوں کو پورا کرتیں تو آزادی کے ۵۶ سال بعد مسلمانوں کے حصہ میں سچر کمیٹی کی رپورٹ نہیں آتی۔

                حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ترقی وخوش حالی کے تعلق پالیسیاں تو خو ب ضع کی جاتی ہیں اور بڑے بلند وبانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملا ان کا نفاذ نہیں ہوتا ہے۔ سچر کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ اس کی واضح مثال ہے۔ سچر کمیٹی نے واضح کردیا کہ کس طرح سے اس ملک میں مسلمانوں کو سماجی ، تعلیمی اور اقتصادی طور پر حاشیہ پر لا کھڑا کردیا گیا ۔ ان کے ساتھ کیسا ہمہ گیر امتیازی سلوک کیا گیا اور آئینی ضمانتوں کے باوجود کیسے انہیں حق وانصاف اور مساوات سے محروم کیا گیا جس کے سبب وہ زندگی کے ہر میدان میں پیچھے ہوتے چلے گئے ۔ یہاں تک کہ ان کی حیثیت دلتوں سے بھی بد تر ہوگئی اور غربت ، جہالت ، گندگی بیماری ، بے روزگاری ، احساس کمتری اور مایوسی ان کی پہچان بن گئی۔ جہاں تک سچر کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ کا معاملہ ہے اگر مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے دعوی پر یقین کیا جائے تو حکومت نے ۶۷ میں ۲۷ سفارشات منظور کر لی ہیں۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو اس کے مثبت اثرات نظر کیوں نہیں آرہے ہیں۔ حکومت لاکھ دعوے کرے لیکن صورتحال اس کے برعکس نظر آرہی ہے۔ سچر کمیٹی کے ممبر سکریٹری ڈاکٹر ابو صالح شریف کے مطابق سچر کمیٹی کے آنے کے بعد مسلمان اور زیادہ پسماندہ ہوئے ہیں ۔ اس کی سب سے واضح مثال وہ اعداد وشمار ہیں جو خود حکومت نے لوک سبھا میں ایک ممبر پارلیمان کے سوال کے جواب میں ملازمتوں کے سلسلہ میں پیش کئے۔ اس کے مطابق سرکاری شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ تو دور ان کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں وزیر اعظم کے پندرہ نکاتی پروگرام پر نظر ثانی کی گئی اور گیارہویں پنچ سالہ منصوبہ میں اقلیتوں کی فلاح کے لیے کئی نئی اسکیمیں شروع کی گئیں جن میں اسکالر شپ اور ملٹی سیکٹرل ڈیولپمنٹ پروگرام شامل ہیں۔ کسی حد تک اسکا لر شپ کا فائدہ تو مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے لیکن ایم ایس ڈی پی کا فائدہ نظر نہیں آرہا ہے۔ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن دونوں نے اعلی اختیارات والے عہدوں اور مناصب میں مسلم فرقہ کی متناسب نمائندگی کی سفارش کی تھی۔ اس وقت مرکزی سطح پر ۱۵ وزراتیں ۷۵ محکمے ، ۸۲ اعلی اختیارات والے ادارے ، ۲۹ کمیشن اور ۳۵۰۱ سے زائد خود مختار ادارے ہیں ۔ لیکن اقلیتی کمیشن اور دیگر چند کمیشنوں اور بورڈوں کے علاوہ مسلمان کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔ مرکزی حکومت ہی طرح صوبائی حکومتیں بھی مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کرتی آئیں ہیں ۔ تمام حکومتوں نے ان کی فلاح وبہبود کی بجائے ان کی پسماندگی میں اضافہ ہی کیا اور تعلیمی ، معاشی ، سماجی اور سیاسی طور پر ان کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
                اس صورتحال میں یوم اقلیت کے انعقاد کی حیثیت ایک تماشہ سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن ہمیںمعلوم ہے کہ یہ تماشہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ اس لیے کیوں نہ ہم اس دن کو یوم احتساب بنالیں۔ ملک کا موجودہ منظر نامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ مسلمان خوداپنا احتساب کریں اورحکومتوں کے سامنے کاسہ گدائی لے کر پھرنے کی بجائے اس بات پر غور کریں کہ وہ موجودہ صورتحال کو کیسے اپنے لئے موافق بناسکتے ہیں۔ ان کو اس صورتحال تک پہنچانے میں اگر حکومتوں اور فرقہ پرست طاقتوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے تو خود مسلمان بھی اس کے لیے کم ذمہ دار نہیں ہیں ۔ حکومتی رویہ کا رونا رونے کی بجائے مسلمان اپنی داخلی کمزوریوں کو دور کریں اور مختلف حوالہ سے ان کے درمیان اختلافات کی جو وسیع خلیج حائل ہے اس کو پاٹیں اور متحد ہوکر آبرو مندانہ زندگی جینے کی سعی کریں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر مسلمان اپنی صفوں کو درست کرلیں تو حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ فسادات ، دہشت گردی اور سیاسی تعصبات کے شکار مسلمانوں کے لیے ضرور ی ہوگیا ہے کہ حکومتوں کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنے حالات کی اصلاح کے لیے خود اٹھ کھڑے ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے جو یوم اقلیت سے واقف ہیں لیکن جو لوگ بھی واقف ہیں وہ اگر اسے اپنے لئے یوم احتساب بنالیں تو انقلاب آسکتا ہے جس کی شدید ضرورت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں