ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

عید مبارک

عید مبارک
                                                                       
            عید کا دن مسلمانوں کے لئے بے پایاں مسرت وشادمانی کا دن ہے۔ مسلسل ایک ماہ تک رمضان المبارک کے فرض روزوں کی تکمیل کے بعد مسلمان بے حد خوش ہوتے ہیں۔ یہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے ماہ مبارک کے روزوں کی تکمیل کی توفیق بخشی اور یہ اس کے فضل سے ہی ممکن ہوا کیونکہ مسلسل ایک ماہ تک بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنا اور بعض مباح اور جائز چیزوں کو ترک کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی، لیکن اللہ کے حکم پر مسلمانوں نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف بھوک وپیاس کی شدت برداشت کی بلکہ دیگر عبادات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اللہ کی مقدس کتاب قرآن مجید سے اپنے رشتہ کو استوار کیا اور اس سے اپنے رشتے کی تجدید کی تو بیشک ایسے لوگوں کے لئے یہ دن انتہائی وخوشی ومسرت کا دن ہے اور ایسے لوگوں کے لئے اس دن خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔
            یہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ اللہ نے جو فریضہ مقرر کیا تھا اس کی ادائیگی کی کوشش کامیاب ہوئی۔ اللہ کو راضی کرنے کا موقع ہاتھ آیا ۔ رمضان المبارک میں ہی اللہ رب العزت نے قرآن مجید نازل فرمایا ، خوشی اس بات کی ہے کہ اس مبارک مہینہ میں اس کتاب مقدس سے اپنا تعلق تازہ اور قوی بنانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ تلاوت کا اہتمام کیا گیا، تراویح ادا کی گئی، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، نیکیاں سمیٹنے اور برائیوں سے حتی الامکان بچنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ کی اطاعت اور اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کا موقع نصیب ہوا۔ عید کے دن اسی توفیق ارزانی پر اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے اور جنہیں یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور یہ سعادتیں میسر ہوتی ہیں وہ اپنی خوشی ومسرت کے اظہار کے طور پر اللہ کے سامنے اپنی پیشانیاں جھکادیتے ہیں اور اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھاکہ اہل مدینہ دو تہوار نوروز اور مہرجان بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے تمہیں ان دو تہواروں سے بہتر دو تہوار مرحمت فرمائے ہیں ۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔
            عید الفطر مسلمانوں کے لئے انتہائی اہم دن ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے عیدین کی مشروعیت کی حکمت وفوائد کے سلسلہ میں فرمایا ہے کہ” ہر ملت کے لئے ایک ایسا مظاہرہ اور اجتماع ضروری ہوتا ہے جس میں اس کے سب ماننے والے جمع ہوں تاکہ ان کی شان وشوکت اور کثرت تعداد ظاہر ہو“ گویا اس کی مشروعیت میں ایک نکتہ یہ بھی پوشیدہ ہے کہ اس مسلمانوں کی شان وشوکت ظاہر ہوتی ہے۔ کیونکہ مسلمان اپنی آبادیوں سے باہر نکل کر بڑی تعدادمیں جمع ہوتے اور دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں جس سے ان کی کثرت تعدا داور شان وشوکت کا مظاہر ہ ہوتا ہے اور دوسری قوموں پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
            عید الفطر کے دن کے تعلق سے ایک بے حد اہم عبادت صدقۃ الفطر کی ادائیگی بھی ہے۔رمضان کے اختتام پر ہر چھوٹے بڑے ، مرد عورت، آزاد، غلام کی طرف سے صدقة الفطر ادا کرنا واجب ہے۔ حدیثوں میں اس کی صراحت آئی ہے۔ یہ صدقة الفطر ان ہی افراد کی طرف سے ادا کرنا ہے جو رمضان کے اختتام اور ہلال عید کے وقت موجود ہوں با حیات ہوں۔ صدقة الفطر کے بھی بہت سے فوائد بیان کئے گئے ہیں ۔ ایک فائدہ تو یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو نقص یا کمی رہ جاتی ہے اس کی تلافی ممکن ہوجاتی ہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کے وہ افراد جو اپنی کم مائیگی مفلوک الحالی اور معاشی اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے عام لوگوںکی طرح عید الفطر کے موقع پر مظاہر ہ نہیں کرسکتے ، صدقة الفطر سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہوجاتی ہے اور وہ بھی اس دن کو خوشی ومسرت کے ساتھ گزارسکتے ہیں ،جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دن صرف امیر اور خوش حال لوگوں کے لئے نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے خوشی و مسرت کے اظہار کا دن ہے اور اس طرح امیر وغریب اور اعلی وادنی کی خلیج ختم ہوجاتی ہے اور انما المؤمنون اخوہ کی عملی تصویر نظر آتی ہے۔
            اسلام کی تمام عبادت میں اجتماعیت پربے حد زور دیا گیا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے یہ سبق بھلادیا ہے اس پر توجہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ آج ملت اسلامیہ ایسے حالات میں عید منانے جارہی ہے کہ وہ پوری دنیا میں عدم استحکام کا شکار ہے۔ باہمی اختلاف وانتشار نے ملت کو اس قدر کمزور بنادیا ہے کہ دوسری قومیں جا بجا اس کے افراد کو نشانہ بنارہی ہیں بلکہ اس کی مملکتوں پر بھی غلبہ وتسلط قائم کر رہی ہیں۔ اسلام کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں اور اس کو مٹانے کے لئے اس کے اہم مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو ایٹم بم سے اڑانے کا ناپاک خفیہ منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ مصر کی وہ حکومت جو مسلسل جد وجہد کے بعد ایک انقلاب بن کر سامنے آئی تھی محض اسرائیل و امریکہ کے سامنے جبہ سائی نہ کرنے کی وجہ سے متزلزل ہوگئی۔ خود ہمارے ملک میں مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بن کر جینے کے لئے مجبور کرنے کے سو جتن کئے جارہے ہیں۔ فسادات کے ذریعہ ان کے جان ومال کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ نام نہاد دہشت گردی کے نام پر ان کے بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے، ان کا کیریر برباد کیا جارہا ہے، ان کا قتل ہورہا ہے اور پوری قوم کی شبیہ مسخ کرنے اور اسے ذلیل ورسوا کرنے کی سازشیں زور وشور سے جاری ہیں۔اس وقت جن لوگوں کو دہشت گردی کے نام پر نشانہ بناکر گرفتار کیا گیا ہے ذرا غور کیجئے کہ آج جب ہم اور ہمارے بچے عید کی خوشیوں سر شار ہورہے ہیں، ان کے والدین پر کیا بیت رہی ہوگی ۔ اپنے بیٹے کے غم بہنے والے آنسوؤں کو پوچھنے والاکون ہوگا ان کے بچے اپنے والد کی حسرت میں دروازوں کو بے یار ومدگار تک رہے ہوں گے۔ ان کی بیوی اپنے کھوئے ہوئے شوہر کی کے غم میں نڈھال عید کے ساری خوشیوں سے بے پروا ہوگی۔ لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان تمام خطرات کے باوجود پوری ملت جمود وتعطل کی شکار ہے۔ مسلم حکمرانوں اور سیاست دانوں کی بے حسی کے علاوہ مسلم عوام بھی بیداری کا ثبوت نہیں دے رہے ہیں۔ عام مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ باہم دست وگریباں ہیں، اپنے آپ میں مگن اور اپنا زیادہ وقت لا یعنی باتوںمیں گزارتے ہیں۔ عید کے موقع پر ہمارے اندر ملت کے تئیں فکر مندی کے آثار نظر نہیں آتے ۔ ہماری عید کی تیاریاں اسراف کی حدوں میں داخل ہوجاتی ہیں، مادی عیش وعشرت اور جسمانی لذت وخوشی کے حصول میں ہم روحانی لذتوں سے محروم ہورہے ہیں، ہم اپنی تقریبات اور دعوتوں میںجو فضول خرچیاں کرتے ہیں اگر انہیں کسی قدر سادگی سے انجام دیں اور ان بچے ہوئے پیسوں کو مسکینوں ،یتیموں، بیواؤں، فسادات میں لٹے پٹے لوگوں اور نام نہاد دہشت گردی کے نام پر گرفتار شدگان کی رہائی کے لیے خرچ کریں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے صرف کریں تو یقینا ہماری عید کی لذتیں دوبالا ہوجائیں گی اور ایسا خوشگوار سماجی انقلاب رونما ہوگا جس کے اثرات بے حد نتیجہ خیز ہوں گے اور ملی وحدت کا شاندار مظاہرہ بھی ہوگا۔
            کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔ کھلے عام ملت اسلامیہ کے افراد کی تذلیل وتوہین کی جارہی ہے، کلام الٰہی کی بے حرمتی کے واقعات پیش آرہے ہیں ، رسول اکرم ﷺ کی شان مین گستاخی کی جارہی ہے لیکن ہم اب بھی خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ صورت حال کسی ایک جگہ کے مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ مسلمان جہاں جہاں آباد ہیں کم وبیش ان کی حالت یہی ہے۔ لہٰذا حالات کا تقاضہ ہے کہ مسلمان جہاں کہیں آباد ہوں، اسلام پرعمل پیرا ہوں، اللہ کی کتاب سے اپنا تعلق مستحکم کریں، اسلام کے تقاضوں پر دھیان دیںاور یہ بات یاد رکھیں کہ اتحادبین المسلمین وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے اور ہمیں عیدین میں یہی پیغام ملتا ہے۔
            آئیے اس عید کے موقع پر ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے خود کو عید کی سچّی خوشی کا حقدار بنایا ہے یا نہیں ؟ دیکھیں کہ عید ہمارے لئے مادی خوشی کا ایک موقع ہے یا روحانی مسرت وشادمانی کا؟ عید کی خوشی کا تعلق، اللہ کی رضا کے حصول اس کی اطاعت وفرمابرداری اور اس کے بندوں کے ساتھ محبت، مواسات اور غم گساری سے ہے۔ اگر ہم نے اپنی خواہشات کو رب العالمین کے حکم کے تابع رکھنے کا جذبہ پیدا کرلیا ہو، اس کی کتاب سے اپنا رشتہ مستحکم کرلیا ہو، دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر اپنے کمزور اور مفلوک الحال بھائیوں کی فاقہ مستی کی کڑواہٹ کو محسوس کرنا سیکھ لیا ہو، ہمارے دلوں کو دیگر مسلمانوں کی مصیبتیں تڑپانے اور بے قرار رکھنے لگی ہوں اور ہم نے اجتماعیت اور اتحاد بین المسلمین کا سبق سیکھ لیا ہو تو بلا شبہ ہم عید کی سچی مسرتوں سے سرشار ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالی عید کے اس دن کو پوری ملت اسلامیہ کے لئے میمون ومبارک بنائے۔ آمین                                                                                
٭٭٭


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں