ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

مودی کو بچائیے کہ یہ مرکر زیادہ خطرناک ہوگا

مودی کو بچائیے کہ یہ مرکر زیادہ خطرناک ہوگا

            اس وقت عالمی سطح پر ظلم و جبراور تشدد اپنے عروج پر ہے جس کے نتیجہ میں قتل وخون اور غارت گری کا رقص برہنہ جاری ہے۔ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے اور نہتے ، معصوم اور بے قصور افراد کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ خو دہمارے ملک عزیز ہندوستان میں فسادات اور دہشت گردی کے نام پر ایک خاص فرقہ کے لوگوں کی نسل کشی کی جاری ہے اور یہ کام حکومتوں کی سر پرستی میں انجام دیا جارہا ہے۔ یہ وہ بد نصیب فرقہ ہے جو اپنے تحفظ کے لئے حکومتوں سے فریاد کرتا رہتا ہے لیکن پھر بھی اسے تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ یہ سلسلہ آزادی کے بعد سے ہی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وہ خود اپنی حفاظت کرنا نہ سیکھ لے۔
            یہ تو رہی کمزوروں کی بات ۔ لیکن وہ شخص جو ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہو اور جس کے آگے پیچھے سیکوریٹی کے ماہرین کا دستہ ہر وقت موجود رہتا ہو اگر اسے اپنی جان کا اندیشہ ستانے لگے تو اسے کیا کہا جائے گا؟ بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدہ کے امیدوار نریندر مودی کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کا اظہار وہ اور ان کی پارٹی بہت دنوں سے کرتے آرہے ہیں۔ اس الزام میں کئی مسلمانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑ چکاہے۔ صادق جمال، عشرت جہاں اور دیگر کا انکاؤنٹر اسی بنیاد پر ہوا تھا کہ وہ مودی کے قتل کے ارادہ سے نکلے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہ داستان فرضی ثابت ہوئی۔ نریندر مودی نے پٹنہ ریلی میں کہا تھا کہ کچھ لوگوں نے ان کے نام کی سپاری لے رکھی ہے۔ بہرائچ کی ایک ریلی میں مودی نے کہا کہ آئندہ الیکشن کانگریس نہیں بلکہ انڈین مجاہدین اور سی بی آئی لڑیں گے۔ بی جے پی کا کہنا ہے پٹنہ ریلی میں بھی نریندر مودی ہی نشانہ پر تھے۔ یہ تو خیر مودی اور بی جے پی کا انکشاف ہے لیکن اس کی شہادت اب پولیس اور خفیہ ایجنسیاں بھی دینے لگی ہیں۔ چھتیس گڑھ پولیس نے ریاست کے مختلف مقامات سے سیمی سے تعلق رکھنے والے ۱۱ نوجوانوں کو گرفتارکیا ہے جن پر مہابودھی مندر اور پٹنہ دھماکہ کے علاوہ مودی کو نشانہ بنانے کا بھی الزام ہے۔ جبکہ خفیہ ایجنسی انٹلی جنس بیورو (آئی بی) نے پنجاب پولس کو الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق سکھ انتہا پسند تنظیمیں جن کا ٹھکانہ پاکستان میں ہے ، نریندر مودی کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ خفیہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی سرحد سے ایسے لوگوں کی در اندازی کی کوشش کی جارہی ہے جو پنجاب میں دہشت گردی میں شامل رہے ہیں۔ ان کا استعمال مودی کی انتخابی ریلیوں میں کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی مودی کو پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کے علاوہ انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم سے بھی خطرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب آئی بی نے یہ الرٹ جاری کیا ہے تو ہمارے پاس اس کی تصدیق کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔ ہم تو اس وقت بھی آئی بی کے اس الرٹ پر ایمان لے آئے تھے جس کے نتیجہ میں ہونے والا انکاؤنٹر فرضی ثابت ہوا تھا۔
            نام نہاد انڈین مجاہدین کی جانب سے مودی کی جان کو خطرہ ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اچانک سکھ بھی ان کے دشمن ہوگئے یہ بات اس لئے ناقابل فہم ہے کہ سکھوں کی سب سے بڑی جماعت شرومنی اکالی دل مودی کی ہم نوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی کی چیرہ دستی سے سکھ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ۵۶۹۱ءکی ہند پاک جنگ کے بعد پنجاب اور راجستھان سے ہجرت کرکے گجرات میں بس جانے والے سکھوں کو مودی نے علاقہ خالی کردینے کا حکم دے دیا جس کے خلاف یہ سکھ ہائی کورٹ گئے اور وہاں مقدمہ جیت لیا لیکن مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی جو ابھی وہاں زیر سماعت ہے ۔ اس کے علاوہ مودی سے سکھوں کی دشمنی کی اور کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ نریندر مودی کی جان کوکس سے خطرہ ہے ۔ البتہ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ نریندر مودی کا اپنا وجود ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ آر ایس ایس اس ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جس کے پروردہ نریندر مودی ہیں ۔ گجرات میں نریندر مودی نے مسلمانوں کا قتل عام کرکے آر ایس ایس کے خاکوںمیں ہی رنگ بھرا تھا۔ بی جے پی اسی آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے جس کی تشکیل سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرکے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ ان کے رہنماؤں کا قول وفعل اس کا واضح ثبوت ہیں۔ نریندر مودی میں آخر کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ بی جے پی نے انہیں وزارت عظمی کا امیدوار بنایا۔ وہ شخص جسے ملک تو کجا خود اپنی پارٹی کی تاریخ معلوم نہ ہو اسے اتنے اہم مرتبہ پر کیوں فائز کیا جارہا ہے؟ مودی کی سب سے بڑی خوبی اس کی دریدہ دہنی اور مسلم دشمنی ہے۔ یہ فرقہ پرست ذہنوں کی پسند ہے۔ اگر مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام نہ کیا ہوتا تو اس نام پر تو جہ بھی نہیں کی جاتی۔ فازشم کی علم بردار جماعت کے سب سے بڑے فاشسٹ کو امیدوار نہ بناتی تو کسے بناتی۔ اسے معلوم ہے کہ اس نام پر سیدھے سادے ہندو عوام کو پولرائز کر کے ان کا ووٹ بٹورا جاسکتا ہے۔

            بی جے پی حصول اقتدار کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے اور کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس سب سے آسان نسخہ فرقہ وارانہ منافرت ہے۔ وہ دہشت گردانہ واقعات انجام دے کر اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر خو دکو اکثریت کا مسیحا ثابت کرنا چاہتی ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ اقتدار کے حصول کی دھن میں ہے ۔ مظفر نگر فسادات میں اہم کردار ادا کرنے والے اور نفرت کی آگ پھیلانے والے سنگیت سوم اور سریش رانا کی عزت افزائی بی جے پی کی اسی ذہنیت کی عکاس ہے۔ آئندہ عام انتخاب اس کے لئے بے حد اہم ہیں کیونکہ اگر اس بار اسے اقتدار حاصل نہیں ہوا تو اس کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا۔ سیاسی اعتبار سے یہ اپنے بد ترین دور سے گذر رہی ہے۔ اس کے حلیفوں کی تعداد گھٹ کر دو پر آگئی ہے اور اس وقت وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
            بات خطرہ کی ہورہی تھی ۔ ہمیں لگتا ہے کہ مودی کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے لیکن یہ خطرہ کسی اور سے نہیں خود آر ایس ایس سے ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا اپنے مفاد کے حصول کے لئے یہ تنظیم کچھ بھی کرسکتی ہے۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ابھینو بھارت کے دہشت گردہی مودی کا کام تمام کردیں اور نتیجتاً پورے ملک میں مسلم کش فسادات شروع ہوجائیں اور بی جے پی کے لئے ہمدردی کی لہر پیدا ہوجائے اور اس کے لئے حصول اقتدار کی راہ آسان ہوجائے ۔اپنے مقصدکے حصول کے لیے یہ لوگ خود اپنے لوگوں کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔سنیل جوشی کا قتل اس کی مثال ہے ۔ویسے بھی جو لوگ گاندھی جی کو قتل کرسکتے ہیں ان کی نظر میں مودی کی کیا اوقات ہے ۔ خود مودی نے ہرین پانڈےا سمیت اپنے مخالفین کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ اس لئے ہماری مرکزی حکومت سے گذارش ہے کہ وہ بھلے ہی مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہ کرے لیکن بی جے پی کی جانب سے مودی کے لئے ملک کی سب سے اعلی سیکوریٹی ایس پی جی (جو موجودہ اور سابق وزرائے اعظم اور ان کے کنبہ کے لیے مخصوص ہے) کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو اسے ضرور فراہم کیا جائے ۔ کیونکہ زندہ مودی پھر بھی اتنا خطرناک نہیں ہوگا جتنا مردہ مودی۔مودی کے ذریعہ بی جے پی کو مسنداقتدار تک پہنچنا ہے اور بس۔چونکہ یہ برہمنی نظام کی حامی جماعت ہے اس لیے اگر یہ برسر اقتدار آبھی جاتی ہے تو وزیر اعظم کوئی برہمن ہی ہوگا ۔اس لئے ایسا لگتا ہے کہ مودی کی جان کو واقعی خطرہ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں