جمعہ، 27 دسمبر، 2013

انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل

انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل
کانگریس نے مسلمانوں کو پھر فریب دیا
                مسلمانوں کے تئیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوچ اور اس کا رویہ جگ ظاہر ہے ۔ اس کا تو خمیر ہی مسلم دشمنی سے تیار ہوا ہے ۔ مسلمانوں کے قتل وخون سے اسے آکسیجن ملتا ہے اور نفرت کی سیاست کے ذریعہ یہ اپنے لئے حصول اقتدار کی راہیں ڈھونڈتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے خود بی جے پی بھی جھٹلانا نہیں چاہتی۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخاب میں مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار اسی لئے بنایا گیا کہ وہ تشدد پسند اور فرقہ پرست ذہنوں کی پسند ہیں ۔ اگر بی جے پی مذکورہ خصوصیات سے عاری ہوجائے تو اس کے لئے اپنے وجود و بقا کا سوال پیدا ہوجائے گا۔ جب کہ اس کے برعکس کانگریس خود کو سیکولرزم کا علمبردار گردانتی ہے اور نظریاتی طور پر اس کے سیلوکر ہونے سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے ایجنڈے کی بنیاد سیکولرزم پر ہے اور اسی حوالے سے اسے مسند اقتدار نصیب ہوتا ہے ۔ ملک کی ان دوبڑی سیاسی جماعتوں کے اسی نظریاتی فر ق کی وجہ سے ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہمیشہ غیر مشروط طور پر اپنے ووٹوں سے کانگریس کو اقتدار کے مرکز تک پہنچاتی رہی ہے ۔ لیکن اس کے عوض اس جماعت نے اس دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی داستان بے حد کرب انگیز ہے ۔ اپنے طویل دور اقتدار میں اس نے مسلمانوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے اور انہیں اس طرح بے دست و پا کردیا کہ آزادی کے ۶۶ سال بعد بھی انہیں ہمہ دم اپنے جان و مال کے تحفظ کی فکر ستاتی رہتی ہے  پھر بھی وہ اسی کی طرف ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اس صورت حال سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔
                مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا سب سے مؤثر اور آزمودہ ہتھیار فرقہ وارانہ فسادات ہیں ۔ ان کے ذریعہ جہاں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا ہے وہیں تمام سیاسی جماعتیں ان سے اپنے سیاسی فوائد حاصل کرتی ہیں۔ اگر فرقہ پرست طاقتیں ان کے ذریعہ ہندو وٹ متحد کرتی ہیں تو کانگریس سمیت خود کو سیکولر کہنے والی دیگر جماعتیں خود کو مسلمانوں کے مسیحا کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی فوائد کی خاطر فسادات کی منتظر رہتی ہیں۔ گویا فسادات کا نقصان تنہا مسلمانوں کو جھیلنا پڑتا ہے لیکن اس کا فائدہ سبھی اٹھاتے ہیں۔ اس لئے کوئی سیاسی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ فسادات کا سلسلہ ختم ہو ۔ مرکزی وزارت داخلہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے ۴۷۳۸ ؍واقعات پیش آئے جن میں ۵۰۲۲ ؍افراد ہلاک اور ۶۶۸۲۸؍افراد زخمی ہوئے ۔ سال رواں میں ملک بھر میں ۴۷۹؍ فسادات ہوئے جن میں ۱۰۷ ؍افراد ہلاک ہوئے ۔ اس سال یہ واقعات سب سے زیادہ اتر پردیش میں ہوئے ۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح فسادات اس ملک کا مقدر بن چکے ہیں لیکن ان کے سد باب کے لئے آج تک کوئی مثبت اقدام نہیں کیا گیا ۔ یہ بات بھی طے ہے کہ ان فسادات میں یکطرفہ طور پر مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہے، ان کی جانیں جاتی ہیں ، املاک تباہ ہوتی ہیں، ان کے گھر بار جلائے جاتے ہیں اور ان پر ہی فساد بھڑکانے کا الزام عائد کرکے انہیں ہی داخل زنداں بھی کیا جاتا ہے۔ فسادات کے داغ تمام سیاسی جماعتوں کے دامن پر لگے ہیں اگرچہ گجرات کا فساد بی جے پی کی حکومت میں ہوا لیکن اس کے علاوہ جتنے بھی فسادات ہوئے وہ سب کانگریس کی حکومت میں ہوئے جبکہ حالیہ مظفر نگر فسادات خود کو مسلمانوں کا مسیحا قرار دینے والے ملائم سنگھ کے انتہائی ناتجربہ کار لاڈلے کی ریاست میں ہوئے۔
                چونکہ تمام سیاسی جماعتیں فسادات کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور اسی لئے ان کے سدباب کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ مسلمان جب روتے ہیں ، گرگراتے ہیں ، امن و سلامتی اور تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں اور سیکولر جماعتوں سے دل برداشتگی کے اس مقام پر پہونچ جاتے ہیں جہاں ان جماعتوں کو ان کے ووٹوں سے محرومی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے تو یہ جماعتیں انہیں پھر فرقہ پرستوں کا خوف دلاکر یا ایسے خوشنما وعدوں کے ذریعہ زیر کرلیتی ہیں جو کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں سب سے دوغلا رویہ کانگریس کا رہا ہے ۔بھلے ہی وہ خود کو مسلمانوں کا ہمدرد بتاتی ہو لیکن اس نے ان کے ساتھ وہ سلوک کئے ہیں جو کوئی دشمن بھی کیا کرے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں کو اس مقام تک پہنچانے میں جہاں وہ سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور سیاسی طور پر دلتوں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں، تنہا کانگریس ذمہ دار ہے ۔ اسے صرف مسلمانوں کے ووٹوں سے مطلب ہے اور آج تک وہ محض جھوٹے وعدوں کے سہارے ان کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہے ۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کرسکتی لیکن شاید اس سے زیادہ اسے اس بات پر اعتماد ہے کہ مسلمان بھی اسے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ اس لئے وعدہ خلافیاں کرنے میں اسے کوئی تامل نہیں ہوتا ہے ۔ بابر ی مسجد سانحہ کے بعد جب مسلمانوں نے کانگریس سے نظریں پھیر لیں تو وہ حاشیہ پر چلی گئی لیکن پھر خوشنما وعدے کر کے اس نے اپنے روایتی ووٹ بینک یعنی مسلمانوں کو رام کر ہی لیا۔ جن وعدوں کے سہارے کانگریس دوبارہ برسر اقتدار آئی ان میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل بھی شامل تھا ۔ اس نے ۲۰۰۴ء کے پارلیامانی اتنخاب کے اپنے منشور میں اس بل کے لانے کا وعدہ کیا تھا اس کے ذریعہ ایک ایسے موثر فساد مخالف قانون لانے کی بات کہی گئی تھی جو نہ صرف فسادیوں کو کیفر کردار تک پہنچاتا بلکہ وہ سیاست داں اور بیورو کریٹس بھی اس کی زد سے نہیں بچ پاتے جن کے اشارے پر یا جن کے تعاون سے ایک خاص فرقہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر پارلیامنٹ کے ذریعہ اس بل کو منظور کرکے قانونی شکل دے دی جاتی تو یقینا یہ فسادات کی روک تھام کے لئے موثر ثابت ہوتا لیکن  ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔صورت حال یہ ہے کہ کانگریس کی سربراہی والی مرکزی حکومت اپنی دوسری معیاد ختم کرنے جارہی ہے لیکن اس بل کو پارلیامنٹ میں پیش کیا جانا نصیب نہ ہوا۔ مظفر نگر فسادات کے بعد ایک بار پھر یہ امید پیدا ہوئی کہ مجوزہ بل پارلیامنٹ کے آخری اجلاس میں پیش کردیا جائے گا ۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ اور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے خود مظفر نگر جاکر فساد زدگان سے جس طرح اظہار ہمدردی کیا اس سے بھی یہ توقع بڑھ گئی کہ شاید حکومت اب اسے پارلیامنٹ سے منظور کر اہی لے گی ۔ سماجی اور ملی تنظیموں نے بھی شدت کے ساتھ اسے منظور کرانے کا مطالبہ کیا ، کابینہ نے بھی اسے منظوری دے دی ، مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے ۔ رحمن خان تو مسلسل یقین دہانی کراتے رہے کہ سرمائی اجلاس میں یہ بل پیش کردیا جائے گا۔ ان سب کے باوجود کانگریس نے ایک بار پھر مسلمانوں کو فریب دیا اور اس طرح گویا انہیں پیغام بھی دے دیا کہ اگر انہیں یہ قانون چاہئے تو ایک بار پھر کانگریس کو مرکز میں اقتدار میں لانا ہوگا۔ اسی سرمائی اجلاس میں برسوں سے تعطل کا شکار لوک پال بل تو آناً فاناً منظور ہوگیا لیکن انسداد تشدد بل کو پیش کرنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور اجلاس وقت مقررہ سے دو دن قبل ہی ختم کردیا گیا اور اب م۔ افضل جو خیر سے مسلمان ہی ہیں اور کانگریس کے ترجمان ہیں اپنے مسلمان بھائیوں کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ حکومت اس بل کے تئیں اب بھی سنجیدہ ہے اور ضرورت پڑی تو اس کے لئے خصوصی اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔’’ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔ اگر حکومت اتنی ہی سنجیدہ تھی تو اس نے اجلاس کی مدت میں توسیع کے بجائے دو دن قبل ہی اسے کیوں ختم کردیا اور کم از کم اسے پیش کیوں نہیں کر دیا ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ بل پیش کردیا جاتا تو منظور بھی ہوجاتا ۔ اس پر اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے پہلے ہی اس میں ترمیم کرکے ہلکا کردیا گیا تھا ۔ اگر بی جے پی اور ایک دو جماعتیں اس کی مخالفت کرتیں تو بھی یہ بل پاس ہوسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس چاہتی ہی نہیں تھی کہ بل پاس ہو بلکہ اسے خطرہ تھا کہ بل پاس ہوجائے گا اس لئے اس نے اسے پیش ہی نہیں کیا۔ یوں بھی اگر اس بل کی مخالفت ہوتی تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہوتا۔ اس سے قبل بھی اپوزیشن حتی کہ اپنے اتحادیوں کی زبردست مخالفت کے باوجود اسی حکومت نے امریکہ سے جوہری معاہدہ اور ایف ڈی آئی سے متعلق قوانین منظور کرالئے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے بل پیش نہیں کیا جاسکا عذر لنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ کانگریس کی نیت ہی اس بل کو منظور کرانے کی نہیں تھی۔ اسے مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ سے زیادہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کی فکر ہے ۔ اسی لئے تو اس نے سپریم کوٹ کے حالیہ فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کردی ہے۔
                اس حقیقت کے باوجود کہ مسلمانوں کی حمایت کے بغیر کانگریس برسر اقتدار نہیں آسکتی آخر وہ ان کے ساتھ دھوکہ اور فریب کیوں کرتی ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ خود کو لوک پال بل منظور کرانے کے لئے مجبور پاتی ہے لیکن انسدا د فرقہ وارانہ تشددبل اسے اہم نہیں لگتا؟اس کی وجہ ظاہر ہے اور وہ یہ ہے مسلمانوں نے خود کو اس کے ہاتھوں گروی رکھ لیا ہے ۔ وہ یہ اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ مسلمان بھلے ہی اسکے خلاف اپنی زبانی ناراضگی ظاہر کرتے رہیں لیکن جب ووٹ دینے کا موقع آئے گا تو لامحالہ مودی کے مقابلے میں اسے ہی ترجیح دیں گے ۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ مسلم رہنمائوں کو خریدا بھی جاسکتا ہے، وہ مسلمانوں میں پائے جانے والے اختلافات سے بھی اچھی طرح واقف ہے ، اسے پتہ ہے کہ اگر ایک طبقہ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوا تو دوسرے طبقہ سے سودے بازی کی جاسکتی ہے ۔ وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہے ۔ اس نے چند چرب زبان مسلمانوں کو پارٹی میں ترجمان کا درجہ دے رکھا ہے  جو مسلم عوام میں جاکر اور انہیں فرقہ پرستوں کا خوف دلاکر یہ باور کرائیں گے کہ کانگریس ان کی مجبوری ہے ۔ کانگریس کے ایک اور مسلم ترجمان نے تو ایک مجلس میں ببانگ دہل کہا تھا کہ مسلمان کانگریس کو اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ یہ ان کی مجبوری ہے  اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مسلمان کانگریس سے نفرت کے باوجود عنان حکومت فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں نہیں سونپنا چاہتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کب تک برقرار رہے گی اور اس کا تدارک کیا ہے ؟آخر مسلمان کب تک خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑے رہیں گے ؟اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں ۔ انہیں متبادل تلاش کرنا ہوگا ، اگر دیگر کمزور طبقات اپنے اتحاد کے ذریعہ حکومتوں سے اپنے مطالبات تسلیم کرواسکتے ہیں تو مسلمان ایسا کیوں نہیں کر سکتے ۔ کانگریس کی غلامی سے نجات پانے کے لئے مسلمانوں کو کوئی نہ کوئی سبیل ڈھونڈنی ہی ہوگی اور اگر ملی قیادت انانیت کے خول سے باہر نکل کر اتفاق و اتحاد کا ثبوت دے اور ملت کے وسیع تر مفاد کو مقدم رکھے تو یہ ناممکن نہیں ہے۔ عام انتخاب کی آہٹ شروع ہوگئی ہے اس لئے جس قدر جلد ممکن ہو ملی قیادت پورے اخلاص کے ساتھ اپنے حقو ق کی لڑائی کے لئے تیار ہوجائے ۔ (مضمون نگار ’’الہدیٰ‘‘ دربھنگہ کے مدیر ہیں)   
٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں